چین کی ترقی اور ٹیکنیکل ٹریننگ

ہم چینی دوستوں کی مدد سے پاکستان میں عالمی معیار کے ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بنانا چاہتے ہیں۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

LOS ANGELES:
حضور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے کہ''علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے'' علم کی اہمیت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ حصولِ علم کے لیے چاہے کتنی ہی دوری اور مسافت طے کرنا پڑے کر گزرو اور دوسرا اسمیں ملکِ چین سے اپنائیت کااظہار بھی ہے۔ راقم ویٹو پاور رکھنے والے تمام بڑے ممالک دیکھ چکا تھا سوائے چین کے۔ مگر اسمیں پینٹاگون کا کوئی عمل دخل نہ تھا، اسمیں کچھ ملکی و بین الاقوامی واقعات اور زیادہ اپنے مالی حالات آڑے آتے رہے۔

پچھلے کچھ عرصے میں کئی بار چین سے دعوت نامے آئے مگر ساتھ ہی یہ کہا جاتا رہا کہ اپنے پلے سے آجاؤ قیام و طعام کا بندوبست ہم کریں گے۔ مگر ہم نے بھی چچا خدا بخش کا اصول پلے باندھ رکھا ہے کہ ''گَنڈ کلو تے نال کرایہ وی کلو''(دعوت نامہ بھیجیں تو اس کے ساتھ کرایہ بھی بھیجیں) کرایہ نہ بھیجنے پر ہمیں کئی ملکوں کے دعوت نامے رد کرنے پڑے کیونکہ ہم نے بھی تہیہ کررکھا ہے کہ اپنی غریب قوم کے پیسے سے بیرونِ ملک نہیں جانا چاہے وہ چین، ترکی یا سعودی عرب ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر اس بار تو انکار ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ دعوت زائے کی طرف سے تھی اور وہ بھی بمعہ ٹکٹ تھی۔ زائے تیان جن یونیورسٹی آف ٹیکنیکل ایجوکیشن میں انٹرنیشنل کمیونیکیشن کی ڈین ہیں وہ جون2016میں یونیورسٹی کے وفد کے ساتھ پاکستان آئی تھیں انتہائی زندہ دل اورخوش باش ،بات بات پر قہقہے لگاتی ہوئی۔ تین روز اسلام آباد رہنے کے بعد وفد واپس لوٹا تو زائے پاکستان کی محبّت ساتھ لیتی گئی اور اپنا نقش ہمارے دلوں پر ثبت کرگئی۔

ہم چینی دوستوں کی مدد سے پاکستان میں عالمی معیار کے ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بنانا چاہتے ہیں، یہ دورہ اسی سلسلے میں تھا۔ میرے ہمسفر نیشنل ووکیشنل اینڈٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کے ڈائریکٹر جنرل نعیم صدیقی نے جانے سے دو روز قبل بتایا کہ بیجنگ کے درجۂ حرارت میں حرارت دم توڑ چکی ہے اور وہ منفی دو تین تک گر چکا ہے اس لیے سردی سے نپٹنے کا بندوبست کرکے جانا ہوگا۔

شدیدسردی کے توڑ کا خیال آیا تو قدم باجی کے گھر ایف ٹین کی جانب اٹھ گئے۔ سردیوں میںوالدہ صاحبہ ہمارے لیے دالیں اور نشاستے بنایاکرتی تھیں اب اُن مرغن چیزوں کا موڈ بنے تو باجی سے فرمائش کی جاتی ہے پھر وہ ایسی ایسی ذائقے دارچیزیں بناکر بھیجتی ہیں کہ بدپرہیزی لازم ہوجاتی ہے ۔ چین کی سردی کا ذکر کیاتو انھوں نے اس کے توڑ کے لیے خشک میووں سے بھرپور دال کا ڈبہ تیار کرکے بھجوادیا۔

جب سے ہماری چین آمدرفت شروع ہوئی ہے جہاز مسافروں سے بھرے ہوتے ہیں، پروازوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ پی آئی اے کی بیجنگ تک براہِ راست پرواز بھی چلتی ہے۔ لاؤنج میں اس بار پھر ڈاکٹر ثانیہ نشترؔ سے ملاقات ہوگئی جو وزیرِ صحت سائرہ تارڑ کے ساتھ کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے چین جارہی تھیں، ڈاکٹر ثانیہ WHOکی سربراہی کے لیے اپنی الیکشن مہم پر نکلی ہوئی ہیں اور ملکوں ملکوں پھر رہی ہیں ہماری دُعا ہے کہ وہ الیکشن جیت جائیںاور یہ اعزاز پاکستان کے حصے میں آئے۔ پچھلے کالم میں ان کے الیکشن کا ذکر ہوا تو چند سیاستدانوں کے فون آئے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ یقیناً قابل ہونگی مگر انھیں بتائیں کہ الیکشن جیتنے کے لیے صرف قابلیّت کافی نہیں ہے، انھیں کہیں وہ ہم سے رابطہ کریں ہم انھیں الیکشن جیتنے کے کچھ گُر بتائیں گے اور ان کی مدد بھی کریں گے میں نے پوچھا عالمی سطح کے الیکشن میں آپ ان کی کیا مدد کریں گے۔

کہنے لگے ہم کسی ووٹر کی پھوپھی کو پکڑیں گے کسی کی ساس کو لے جائیں گے کسی کا تایا کسی کا سُسراور کسی کا داماد اس کے پاس لے جائیں گے مگر یہ سب کچھ ایک شرط پر ہوگا ۔ میں نے پوچھا وہ شرط کیاہے ؟ کہنے لگے وہ الیکشن جیت کر WHOمیں ہمارے بندے ضرور رکھیّںگی ۔ میں نے کہا یہ بندے رکھنے والی شرط تو ڈاکٹر ثانیہ جیسی بااصول خاتون پوری نہیں کرپائیں گی۔ اس پر وہ کہنے لگے ''تو پھر ڈاکٹر صاحبہ سے کہیں کہ خود ہی لڑلیں الیکشن''۔ بیجنگ ایئرپورٹ پر اترے تو صبح ہوچکی تھی شیشے کی دیوروں سے باہر برف پڑتی ہوئی نظر آنے لگی۔ ایئرپورٹ سے ڈاکٹرزانگ لی کی معیّت میں باہر نکلے تو برفانی ہوا شمشیر کی تیزی کے ساتھ ہڈیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگی، ہم نے اپنی جیکٹ، کوٹ اورمفّلر سے جسم کو ڈھانپا جس سے کچھ فرق تو پڑا مگر سکون اسی وقت نصیب ہوا جب ہم آرام دہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔گاڑی بیجنگ کی سڑکوں پر دوڑنے لگی تو ہر جانب ترقّی اور خوشحالی کے مظاہر نظر آنے لگے۔


تیان جن چین کا چوتھا بڑا شہر ہے جسکی آباد ی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔ بیجنگ سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر ہے مگر برف باری کی وجہ سے موٹروے بند تھی اس لیے ایک دوسری سڑک کے ذریعے جانا پڑا جس سے ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ ہوٹل پہنچ کر سامان رکھااور یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوگئے۔ تیان جن یونیورسٹی پہنچے تو زائے نے اتنی گرمجوشی سے استقبال کیا کہ ساری تھکاوٹ اتر گئی مگر استقبال کرنے والوں میں صرف زائے نہیں تھی یونیورسٹی کے وائس پریزیڈنٹ پروفیسر ژان بنگ اور کچھ سینئر پروفیسر بھی تھے۔ زائے نے سب سےMy big brother (میرے بڑے بھائی) کہہ کر سب سے میر تعارف کرایا۔ زائے کے آفس میں گئے تو دیکھا اس نے دفتر میں پاکستان کے دورے کے دوران ہمارے ساتھ کھینچے گئے فوٹو لگارکھے تھے۔

اسی روز پروفیسرزانگ نے ٹیکنیکل ٹریننگ سے متعلّقہ کئی ورکشاپس دکھائیںاور بتاتے رہے کہ چین کی ترقی میں ٹیکنیکل ٹریننگ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہاں نوجوانوں سے بھی بات چیت ہوتی رہی، جب ہمارے میزبان طلباء و طالبات کو بتاتے کہ ہمارے مہمان پاکستان سے آئے ہیں تو ان کی آنکھیں خوشی و مسرّت سے چمک اٹھتیں۔ یونیورسٹی کے مختلف حصے دیکھنے کے بعد کانفرنس روم میں پہنچے تو یونیورسٹی کی پریزیڈنٹ ڈاکٹر لیوژن نے استقبال کیا اور یونیورسٹی کے وفد کے لیے ہماری میزبانی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ چین میں آکر پہلے روز ہی احساس ہوگیا اب پاکستان اور چین کے تعلقات حکومتوں تک محدود نہیں ہیں اس کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں اور اب یہ تعلّق اور رشتہ عوام کے دلوں تک پہنچ چکا ہے۔ عام چینی بھی پاکستان کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور پاکستانیوں سے محبّت کرتا ہے۔

دوسرے روز سب سے پہلے ایک ایسی عظیم الشّان عمارت دکھائی گئی جو باہر سے بہت بڑا اسٹیڈیم دکھائی دیتا ہے۔ یہ پبلک سینٹر فارووکیشنل ٹریننگ تھا اس کی پانچ منزلیں ہیں اور ہر منزل خود ایک مکمّل ٹیکنیکل اور ووکیشنل ادارے کی حیثیّت رکھتی ہے۔ ہر منزل پر بے شمار ورکشاپس ہیں جہاں جدید ترین مشینیں نصب کی گئی ہیں، ہر ورکشاپ میں مختلف ٹریڈز کی تربیّت دی جاتی ہے، مقامی شہر کے علاوہ ملک بھر سے طلباء و طالبات یہاں ٹریننگ کے لیے آتے ہیں جہاں انھیں مختصر اور طویل دورانیے کے تربیّتی کورسز کروائے جاتے ہیں۔کئی ورکشاپس میں زیرِ تربیّت نوجوانوں اور انسٹرکٹرز سے ملاقات ہوئی۔ ہر ایک میں اپنے فرض سے لگن نظر آئی۔ ہر ایک اپنے کام میں مگن نظر آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں انسٹرکٹرز کو بھی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ دو گھنٹے کے د ورے کے بعد باہر نکلے تو راقم نے بڑی حسرت سے اس عظیم الشان عمارت کیطرف دیکھ کر کہا کاش ہمارے ملک میں بھی ایسے سینٹرز قائم ہوں۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) منصوبے کے ذریعے ہمیں چین کی مدد سے اپنے ملک میں ایسے سینٹر ضرور تعمیر کروانے چاہئیں۔ سی پیک منصوبوں میں عملدرآمد کے لیے تیان جن صوبے کو کلیدی کردار سونپا گیا ہے۔

اسی روز سہ پہر کو تیان جن میں بین الاقوامی امور کے انچارجینگ گوبیاؤسے ملنے کے بعد لوکل گورنمنٹ کے ریفارمز اینڈ ڈویلپمنٹ کے محکمے کے اعلیٰ حکّام سے ملاقات کی اس موقع پر تیان جن یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر لیو بھی موجود تھیں۔ شام کو تیان جن یونیورسٹی کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت ہمارے ملک سے ٹیچر اور انسٹرکٹرچین جاکر جدید ترین مشینری کے بارے میں ٹریننگ لیں گے دوسرے روز ہم پروفیسرزونگ اور زائے کی معیّت میں ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے جہاں سے ہمیں ایک صنعتی شہر تالیان جانا تھا، ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم تالیان پہنچ گئے۔ صبح ہوٹل میں ناشتے کے فوراً بعد ہم فیکٹری دیکھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ منیجر نے استقبال کیا ۔

فیکٹری کے اندر گئے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ ایک کے بعد دوسرے ہال میں لے جاتے رہے جہاں جدید ترین مشینیں اور روبوٹ نصب تھے اور تربیّت یافتہ ٹیکنیشن اور انجینئران کی نگرانی کررہے تھے۔اس عظیم الشان صنعتی یونٹ (جوایک میل تک پھیلی ہواتھا) کے پریزیڈنٹ سے ملاقات بھی بڑی خوشگوار اور معلومات افزاء رہی ان سے ہم نے اپنے انسٹرکٹرز کو عملی تربیّت کی بات کی تو انھوں نے فوراً حامی بھری۔ تالیان سے شام کو بیجنگ پہنچ گئے جہاں ایئرپورٹ سے ہوٹل تک پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے لگ گئے تو احساس ہوا یہ ڈھائی کروڑ نفوس کا شہر ہے۔

ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے رات کو ہی تیان من اسکوائر اور پیپلز گریٹ ہال دیکھاجسکی بالکونی پر کھڑے ہوکر چیئرمین ماؤنے چینی انقلاب کی کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ لگتا ہے اب چیئرمین ماؤ اس اسکوائر تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اس جگہ کے علاوہ ان کا مجسمہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔ ددوسرے روز روانگی سے پہلے پاکستانی سفارتخانے میں سی پیک کے لیے Special Envoyڈاکٹر ظفر الدین محمود صاحب سے ملنا تھا جب انھیں بتایا گیا کہ آج دوپہر کو واپسی ہے مگر اس سے پہلے دیوارِ چین دیکھنے بھی جانا ہے تو انھوں نے فوراً کہہ دیا '' یہ ناممکن ہے '' دیوارِ چین بلاشبہ ایک حیرت انگیز معجزہ ہے مگر ہمارا دیوارِ چین دیکھ کر بروقت ایئرپورٹ پہنچ جانا بھی معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس کا احوال اگلی نشست میں ہوگا۔
Load Next Story