مصائب کا شکارجنوبی سوڈان
آج اگر شام کے تنازعے کو دنیا کی بدترین خانہ جنگی گردانا جاتا ہے تواس جیسا دوسرا تنازعہ جنوبی سوڈان کا ہے۔
آج اگر شام کے تنازعے کو دنیا کی بدترین خانہ جنگی گردانا جاتا ہے تواس جیسا دوسرا تنازعہ جنوبی سوڈان کا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں، جنوبی سوڈان کے 30 لاکھ سے زیادہ شہری لڑائی جھگڑوں اور زیادتیوں کے باعث اندرون ملک بے گھر ہوئے یا بیرون ملک ہجرت کر گئے۔ان میں 3 لاکھ 40 ہزار سے زائد وہ لوگ بھی شامل ہیں جوگزشتہ چھ مہینوں کے دوران یوگنڈا نقل مکانی کر گئے۔افریقی یونین کے ایک خصوصی کمیشن نے اکتوبر 2015ء میں یہ نتیجہ اخذکیا تھا کہ جنوبی سوڈان کی حکومت ''ریاستی پالیسی'' کے تحت اور مخالف قوتیں بھی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہیں، قحط سالی بڑھ رہی ہے۔ ریاست پوری طرح دیوالیہ ہوچکی ہے اور معیشت تباہ ہورہی ہے۔افراط زرکی شرح تین ہندسوں تک پہنچ چکی ہے۔
جنوبی سوڈان نے دوعشروں سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد، جس میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جولائی 2011ء میں سوڈان سے باقاعدہ علیحدگی اختیارکر لی۔اس کے لیے ریفرنڈم کرایا گیا اور امن معاہدہ بھی عمل میں آیا، لیکن دسمبر 2013ء میں جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جبہ میں، صدرسلواکیر اور حال ہی میں برطرف کیے جانے والے نائب صدر، ریئک ماچرکے حامیوں میں دوبارہ جنگ چھڑگئی۔ (مسٹرکیر نے الزام لگایا کہ ماچر ان کا تختہ الٹنے کی سازش کررہے تھے، مگر اب تک اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔) مسٹرکیر، جو نسلی لحاظ سے ڈنکا ہیں اور نیوئر نسل سے تعلق رکھنے والے مسٹرماچر کے مابین جاری سیاسی کشمکش نے جلد ہی قبائلی جنگ کی شکل اختیارکرلی، جس میں کئی لاکھ افراد جان سے گئے۔
2015ء کے موسم گرما میں آئی جی اے ڈی نامی مشرقی افریقی تنظیم سے وابستہ ثالثوں نے اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی حمایت سے ایک امن سمجھوتہ مسلط کیا۔ مسلط اس معنیٰ میں کہ مسٹرکیر کا دھڑا اس پر دستخط کرنے کے لیے اس وقت تیار ہوا جب اس کے خلاف مالی پابندیاں عائد کرنے اور اسلحے کی فراہمی بندکرنے کی دھمکی دی گئی۔ اس معاہدے نے جنوبی سوڈان کی حکومت میں شامل پارٹیوں اورگروپوں کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا،کیونکہ وہ ان سے مل کر نئے اتحاد بنارہے تھے جن سے ابھی تک برسر پیکاررہے تھے ، جب کہ کئی چھوٹے گروپ اپنا وجود کھو بیٹھے۔ مگر یہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ نفرت اور بد اعتمادی کی جڑیں گہری ہوچکی تھیں۔ کوئی بھی ادارہ اتنا با اختیار نہیں تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے گروپوں سے اس پر عملدرآمد کرواسکے یا ان کے مابین پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کر سکے۔ متحارب گروپوں نے بارہا اس جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کی جس کی پابندی کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔
جولائی 2016ء میں مسٹر کیر اور مسٹرماچر کے دھڑوں میں ایک بار پھر جبہ میں جنگ چھڑگئی اور مسٹر ماچر اس وقت بیرون ملک فرارہوگئے جب سوڈان پیپلزلبریشن آرمی (ایس پی ایل اے) نے جان سے مارنے کے ارادے سے ان کا تعاقب شروع کیا۔ تب سے یہ تنازعہ سنگین صورت اختیارکرچکا ہے اور لسانی خواہ قبائلی اعتبار سے اس کے اثرات بڑے پیمانے پرظاہر بھی ہو رہے ہیں۔ اس بار جنگ کا میدان جنوبی صوبے کا شہر ایکوٹوریا بنا ہے۔ تنازعے کا تصفیہ فوجی طریقے سے ممکن نہیں، نہ ہی حکومت یا کوئی دوسرا گروپ فریقین پرکوئی حل مسلط کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ فوج طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کررہی ہے جواب ناکام ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ اس طرح فوج خود کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے۔ کثیرالقبائل اتحاد، جس نے سوڈان کے خلاف خانہ جنگی میں فتح پائی تھی،اپنا وجود کھوچکا ہے۔
شمال اور جنوب کی اس جنگ کے دوران 1990ء کی دہائی کے آخر میں، اور 2011ء میں جنوبی سوڈان کے اعلان آزادی کے وقت ایس پی ایل اے جنوبی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں بہت مقبول تھی جو اب مسٹر کیر اور ایس پی ایل اے کے چیف آف اسٹاف کے آبائی جنوب مغربی صوبے بحر الغزل کے ڈنکا فوجیوں کی ملیشیا بن چکی ہے ۔ دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے فوجی اپنی الگ الگ ملیشیائیں بنانے کے لیے ازسرنو منظم ہورہے ہیں۔ فوج ڈگمگا رہی ہے۔ اب بھی اس کے پاس جو موثر ہتھیار ہیں وہ گن شپ ہیلی کاپٹر اور بمبار طیارے ہیں، جو بڑے پیمانے پر تباہی تو پھیلا سکتے ہیں مگر جنگ نہیں جیت سکتے۔
موجودہ بحران کا صرف سیاسی حل ممکن ہے لیکن دسمبر 2013ء سے اب تک اتنا خون بہایا جاچکا ہے، وحشت اوربربریت کی اتنی بھیانک مثالیں قائم کی جاچکی ہیں اور ہر طرف کے رہنما اپنی ساکھ اس قدرکھوچکے ہیں کہ وہ نئی حکومت تو تشکیل نہیں دے سکتے،کسی سیاسی تصفیے کے لیے مفید بات چیت میں بھی شریک نہیں ہوسکتے۔ وہ ایسی لکڑیاں جلا رہے ہیں جو دوسرے قبائل اورگروپوں کو شکایت کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ 2015ء کے معاہدے کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ مقامی حمایت کے بغیر بیرونی طاقتوں کے مسلط کردہ سمجھوتے بالآخر ناکام ہوجاتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں اب واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ نئے مقامی اداکار نیا سیاسی سمجھوتہ کریں جس کے لیے بات چیت میں بیرونی عناصرکو صرف اس عمل میں مدد دینے اور سمجھوتے پر دستخط ہو جانے کے بعد اس کے نفاذ کی ضمانت دینے کے لیے شریک کیا جائے۔ شمال اور جنوب کے درمیان 2002ء کے مذاکرات میں یہی طریقہ کامیابی سے اختیار کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ 2005ء کے جامع امن معاہدے کی صورت میں برآمد ہوا اور جنگ ختم ہو گئی۔
جنوبی سوڈان کو بچانے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہر طرف کے رہنماؤں کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ دیا جائے اور انھیں ضمانت دی جائے کہ ان پر فوجداری مقدمات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں ماحول کو سازگار بنانے کے لیے ان رہنماؤں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے جو موجودہ بحران میں ملوث نہ ہوں۔
ایسی عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے کلیسا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں کے علاوہ قبائلی سرداروں اور تمام قبائل میں سے نوجوان سیاسی لیڈروں کو بات چیت میں شریک کیا جائے۔ جنوبی سوڈان میں اب کلیسا ہی وہ واحد ادارہ رہ گیا ہے جس کی عوام میں ساکھ قائم ہے اور جس کے ہاتھ ان کے خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں۔
افریقی یونین کا وہ نعرہ کہ افریقی مسائل کا حل بھی افریقی ہونا چاہیے، موجودہ بحران کیا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کرسکا۔ 2015ء کے معاہدے کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، آئی جی اے ڈی کے ثالثوں نے ڈوبتے ہوئے جہاز کی الٹی کرسیوں پر بیٹھ کر مذاکرات کیے تھے جبھی تو انھوں نے تمام کلیدی عہدے ان لوگوں کو سونپ دئے جو خود ساری خرابی کے ذمے دار تھے اور جو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی نہیں دے سکے تھے۔افریقی یونین اوراقوام متحدہ دونوں ہی نکمے اوربیکار نکلے۔
اقوام متحدہ کی افادیت سب پرعیاں ہے۔ اس کی سلامتی کونسل نے 2004ء کے بعد سے دارفر کے مسئلے پر کم ازکم 27 قراردادیں پاس کیں، ایک کے بعد دوسری جائزہ کمیٹی مقررکی اور خرطوم کی سوڈانی حکومت کو انتباہ پر انتباہ جاری کیے کہ وہ زیادتیاں کرنا بند کرے، مگر صدرعمرالبشیر کسی کو خاطر میں نہیں لائے اورسوڈان میں لڑائی بند نہیں کرائی جاسکی،اگر یہی حال رہا تو دنیا کا یہ نوزائیدہ ملک جو چند برس قبل آزاد ہوتے ہی پہلے جنگ اور پھر قحط سالی کا شکار ہوگیا تھا کل دنیا کے نقشے ہی سے غائب ہوجائے گا۔
جنوبی سوڈان نے دوعشروں سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد، جس میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جولائی 2011ء میں سوڈان سے باقاعدہ علیحدگی اختیارکر لی۔اس کے لیے ریفرنڈم کرایا گیا اور امن معاہدہ بھی عمل میں آیا، لیکن دسمبر 2013ء میں جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جبہ میں، صدرسلواکیر اور حال ہی میں برطرف کیے جانے والے نائب صدر، ریئک ماچرکے حامیوں میں دوبارہ جنگ چھڑگئی۔ (مسٹرکیر نے الزام لگایا کہ ماچر ان کا تختہ الٹنے کی سازش کررہے تھے، مگر اب تک اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔) مسٹرکیر، جو نسلی لحاظ سے ڈنکا ہیں اور نیوئر نسل سے تعلق رکھنے والے مسٹرماچر کے مابین جاری سیاسی کشمکش نے جلد ہی قبائلی جنگ کی شکل اختیارکرلی، جس میں کئی لاکھ افراد جان سے گئے۔
2015ء کے موسم گرما میں آئی جی اے ڈی نامی مشرقی افریقی تنظیم سے وابستہ ثالثوں نے اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی حمایت سے ایک امن سمجھوتہ مسلط کیا۔ مسلط اس معنیٰ میں کہ مسٹرکیر کا دھڑا اس پر دستخط کرنے کے لیے اس وقت تیار ہوا جب اس کے خلاف مالی پابندیاں عائد کرنے اور اسلحے کی فراہمی بندکرنے کی دھمکی دی گئی۔ اس معاہدے نے جنوبی سوڈان کی حکومت میں شامل پارٹیوں اورگروپوں کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا،کیونکہ وہ ان سے مل کر نئے اتحاد بنارہے تھے جن سے ابھی تک برسر پیکاررہے تھے ، جب کہ کئی چھوٹے گروپ اپنا وجود کھو بیٹھے۔ مگر یہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ نفرت اور بد اعتمادی کی جڑیں گہری ہوچکی تھیں۔ کوئی بھی ادارہ اتنا با اختیار نہیں تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے گروپوں سے اس پر عملدرآمد کرواسکے یا ان کے مابین پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کر سکے۔ متحارب گروپوں نے بارہا اس جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کی جس کی پابندی کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔
جولائی 2016ء میں مسٹر کیر اور مسٹرماچر کے دھڑوں میں ایک بار پھر جبہ میں جنگ چھڑگئی اور مسٹر ماچر اس وقت بیرون ملک فرارہوگئے جب سوڈان پیپلزلبریشن آرمی (ایس پی ایل اے) نے جان سے مارنے کے ارادے سے ان کا تعاقب شروع کیا۔ تب سے یہ تنازعہ سنگین صورت اختیارکرچکا ہے اور لسانی خواہ قبائلی اعتبار سے اس کے اثرات بڑے پیمانے پرظاہر بھی ہو رہے ہیں۔ اس بار جنگ کا میدان جنوبی صوبے کا شہر ایکوٹوریا بنا ہے۔ تنازعے کا تصفیہ فوجی طریقے سے ممکن نہیں، نہ ہی حکومت یا کوئی دوسرا گروپ فریقین پرکوئی حل مسلط کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ فوج طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کررہی ہے جواب ناکام ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ اس طرح فوج خود کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے۔ کثیرالقبائل اتحاد، جس نے سوڈان کے خلاف خانہ جنگی میں فتح پائی تھی،اپنا وجود کھوچکا ہے۔
شمال اور جنوب کی اس جنگ کے دوران 1990ء کی دہائی کے آخر میں، اور 2011ء میں جنوبی سوڈان کے اعلان آزادی کے وقت ایس پی ایل اے جنوبی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں بہت مقبول تھی جو اب مسٹر کیر اور ایس پی ایل اے کے چیف آف اسٹاف کے آبائی جنوب مغربی صوبے بحر الغزل کے ڈنکا فوجیوں کی ملیشیا بن چکی ہے ۔ دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے فوجی اپنی الگ الگ ملیشیائیں بنانے کے لیے ازسرنو منظم ہورہے ہیں۔ فوج ڈگمگا رہی ہے۔ اب بھی اس کے پاس جو موثر ہتھیار ہیں وہ گن شپ ہیلی کاپٹر اور بمبار طیارے ہیں، جو بڑے پیمانے پر تباہی تو پھیلا سکتے ہیں مگر جنگ نہیں جیت سکتے۔
موجودہ بحران کا صرف سیاسی حل ممکن ہے لیکن دسمبر 2013ء سے اب تک اتنا خون بہایا جاچکا ہے، وحشت اوربربریت کی اتنی بھیانک مثالیں قائم کی جاچکی ہیں اور ہر طرف کے رہنما اپنی ساکھ اس قدرکھوچکے ہیں کہ وہ نئی حکومت تو تشکیل نہیں دے سکتے،کسی سیاسی تصفیے کے لیے مفید بات چیت میں بھی شریک نہیں ہوسکتے۔ وہ ایسی لکڑیاں جلا رہے ہیں جو دوسرے قبائل اورگروپوں کو شکایت کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ 2015ء کے معاہدے کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ مقامی حمایت کے بغیر بیرونی طاقتوں کے مسلط کردہ سمجھوتے بالآخر ناکام ہوجاتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں اب واحد راستہ یہ رہ گیا ہے کہ نئے مقامی اداکار نیا سیاسی سمجھوتہ کریں جس کے لیے بات چیت میں بیرونی عناصرکو صرف اس عمل میں مدد دینے اور سمجھوتے پر دستخط ہو جانے کے بعد اس کے نفاذ کی ضمانت دینے کے لیے شریک کیا جائے۔ شمال اور جنوب کے درمیان 2002ء کے مذاکرات میں یہی طریقہ کامیابی سے اختیار کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ 2005ء کے جامع امن معاہدے کی صورت میں برآمد ہوا اور جنگ ختم ہو گئی۔
جنوبی سوڈان کو بچانے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہر طرف کے رہنماؤں کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ دیا جائے اور انھیں ضمانت دی جائے کہ ان پر فوجداری مقدمات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں ماحول کو سازگار بنانے کے لیے ان رہنماؤں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے جو موجودہ بحران میں ملوث نہ ہوں۔
ایسی عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے کلیسا اور سول سوسائٹی کے لیڈروں کے علاوہ قبائلی سرداروں اور تمام قبائل میں سے نوجوان سیاسی لیڈروں کو بات چیت میں شریک کیا جائے۔ جنوبی سوڈان میں اب کلیسا ہی وہ واحد ادارہ رہ گیا ہے جس کی عوام میں ساکھ قائم ہے اور جس کے ہاتھ ان کے خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں۔
افریقی یونین کا وہ نعرہ کہ افریقی مسائل کا حل بھی افریقی ہونا چاہیے، موجودہ بحران کیا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کرسکا۔ 2015ء کے معاہدے کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، آئی جی اے ڈی کے ثالثوں نے ڈوبتے ہوئے جہاز کی الٹی کرسیوں پر بیٹھ کر مذاکرات کیے تھے جبھی تو انھوں نے تمام کلیدی عہدے ان لوگوں کو سونپ دئے جو خود ساری خرابی کے ذمے دار تھے اور جو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی نہیں دے سکے تھے۔افریقی یونین اوراقوام متحدہ دونوں ہی نکمے اوربیکار نکلے۔
اقوام متحدہ کی افادیت سب پرعیاں ہے۔ اس کی سلامتی کونسل نے 2004ء کے بعد سے دارفر کے مسئلے پر کم ازکم 27 قراردادیں پاس کیں، ایک کے بعد دوسری جائزہ کمیٹی مقررکی اور خرطوم کی سوڈانی حکومت کو انتباہ پر انتباہ جاری کیے کہ وہ زیادتیاں کرنا بند کرے، مگر صدرعمرالبشیر کسی کو خاطر میں نہیں لائے اورسوڈان میں لڑائی بند نہیں کرائی جاسکی،اگر یہی حال رہا تو دنیا کا یہ نوزائیدہ ملک جو چند برس قبل آزاد ہوتے ہی پہلے جنگ اور پھر قحط سالی کا شکار ہوگیا تھا کل دنیا کے نقشے ہی سے غائب ہوجائے گا۔