دہشت گردی کی عفریت پر تازہ کتاب

پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں اپنی غلط منصوبہ بندی،غیر ضروری ایڈونچرازم کی خواہش اور اغیار کے بہکاوے کے نتیجے میں آیا

muqtidakhan@hotmail.com

ISLAMABAD:
دہشت گردی کیا ہے؟ اس کی بنیاد کب پڑی؟ کس عمل کو دہشت گردی کہا جائے اور کون سا عمل دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ یہ وہ ان گنت سوالات ہیں، جن پر اہل قلم کئی صدیوں سے سینہ قرطاس کو سیاہ کرتے چلے آرہے ہیں، مگر اس کے باوجود آج تک دہشت گردی کی کوئی واضح اور باضابطہ تعریف سامنے نہیں آسکی ہے۔ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں ابہام کا شکار رہی ہے۔ البتہ اس نکتے پر اتفاق ہوا ہے کہ وہ عمل جس کے نتیجے میں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنیں اور املاک تباہ ہو، دہشت گردی ہے۔

پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں اپنی غلط منصوبہ بندی ، غیر ضروری ایڈونچر ازم کی خواہش اور اغیار کے بہکاوے کے نتیجے میں آیا۔ وطن عزیز میں مذہبیت (Religiosity)کے سائے اس وقت سے گہرے ہونا شروع ہوئے ، جب فروری1949میں دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی۔ مگر انھیں مہمیز بھٹو مرحوم کے بعض اقدامات نے لگائی۔ ایک طرف آئین میں دوسری ترمیم کے نتیجے میں متشدد فرقہ واریت کو فروغ ملا۔ دوسری طرف 1976میں افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹا جانے کے بعد افغان بنیاد پرست رہنماؤں کو اسلام آباد مدعو کرکے انھیں افغان حکومت کے خلاف منظم جدوجہد پر اکسائے جانے کے عمل نے خطے میں مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا۔

دسمبر1979میں روسی فوجوں کے افغانستان میں داخل ہونے کے ردعمل میں متذکرہ بالا گروہوں کو امریکا نے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔ جنرل ضیا نے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو قومی بیانیہ بنا دیا۔ جنیوا معاہدے کے بعد جب امریکا اس خطے سے بے نیاز ہوا توان جتھوں کے روزگار کا مسئلہ نزاعی شکل اختیارکر گیا۔ 9/11کے بعد جب پاکستان افغانستان میں برسرپیکار جنگجو جتھوں کی حمایت سے دست کش ہونے پر مجبور ہوا تو یہ جتھے خود پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئے۔ پاکستان کا ریاستی بیانیہ(Narrative)کنفیوزڈ ہونے کی وجہ سے رائے عامہ منقسم ہے۔ یوں پاکستان اپنے ہی پروردہ عناصر کے انتقام کا نشانہ بن گیا۔

دہشت گردی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آج بھی لکھا جارہا ہے۔ حال ہی میں ہمارے دوست سلمان عابد کی کتاب ''دہشت گردی: ایک فکری مطالعہ'' منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب میں 31موضوعات ہیں جن میں دہشت گردی کے مظہر پر کھل کر گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلمان چونکہ حقیقت پسندانہ سوچ کے حامل دانشور ہیں، اس لیے انھوں نے اس موضوع کا واقعتاً فکری جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

کتاب میں شامل ہر مضمون اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، اگر دیگر مضامین سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک باب پر گفتگوکریں جس میں اس سوال کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے کہ یہ جنگ کس کی ہے؟ تو بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس مضمون میں فاضل مصنف نے مختلف کالم نگاروں کے کالموں سے اقتباسات شامل کرکے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں اگر احمد رشید، ڈاکٹر اقبال احمد مرحوم اور دیگر مصنفین کی کتابوں سے استفادہ کیا جاتا، تو موضوع خاصا وقیع ہوجاتا۔ لیکن اس کے باوجود اس باب کے مندرجات اس سوال کے حوالے سے مصنف کے ذہن کیClarityکو ظاہر کرتے ہیں۔


ہمارے یہاں بیشتر دانشور اور تجزیہ نگار دانستہ طور پر 1980کے عشرے میں شروع ہونے والی افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے دہشت گردی کے مظہر کو9/11کے بعد کی پاکستانی حکومت کی حکمت عملیوں سے مشروط کرتے ہیں، جوکہ فکری بددیانتی پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1980کے عشرے میں امریکا اور چندخلیجی دوست ممالک کی امداد، تعاون اور آشیر باد سے افغانستان میں شروع ہونے والی گوریلا جنگ میں پاکستان کی بیشتر مذہبی جماعتیں شریک تھیں۔ جس کا انھیں ہر لحاظ سے فائدہ پہنچ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب محمد خان جونیجو کی حکومت نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے،تو بیشتر مذہبی جماعتیں ان کے اس اقدام کی مخالف ہوگئیں اور جنرل ضیا الحق نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

وفاقی وزارت تعلیم کے سروے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت پورے پاکستان میں دینی مدارس کی مجموعی تعداد 3سو سے کچھ زیادہ تھی۔ جو 1980 کے آنے تک 2ہزار8سو سے تجاوز کرگئی۔لیکن 1980کے عشرے سے 2010کے درمیان مدارس کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔اس وقت دینی مدارس کی تعداد 30ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جن میں 35لاکھ کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔اگر اس تیزی کے ساتھ عصری علوم کے تعلیمی اداروں میں اضافہ ہوتا، تو ملک ترقی یافتہ دنیا کے پہلو بہ پہلو پہنچ چکا ہوتا۔ معروف ماہر عمرانیات ڈاکٹر طارق رحمان کے مطابق اول تو ان مدارس کا نصاب ساڑھے تین سو برس پرانا ہے جو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ دوئم، ان مدارس میں اسلام کی بنیادی اصول و ضوابط سے زیادہ فقہی اور مسلکی معاملات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے طلبہ حقیقی دینی اسکالر بننے کے بجائے فرقہ وارانہ تنگ نظری کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں جو مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہے۔

سلمان عابد نے مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کے بڑھتے رجحان کا اپنے مضمون ''دہشت گردی اور دینی مدارس'' میں ہر پہلو سے احاطہ کرنے پر توجہ دی ہے۔ انھوں نے اس مسئلے پر غیر جانبداری کے ساتھ محتاط انداز میں قلم اٹھایا ہے اور مختلف اہل قلم کی تحاریر کے اقتباسات کی روشنی میں اپنی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مصنف محض تنقید برائے تنقید نہیں کررہا بلکہ اپنی بات کے حق میں ٹھوس حوالہ جات بھی پیش کر رہا ہے جو بحث کو علم کے دائرے کے اندر رکھنے کی خواہش کا اظہار ہے۔اس باب میں مدارس کے نصاب پر مختلف زعما کی صحت مند تنقید سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور طریقہ تدریس میں تبدیلی کے لیے مشورے بھی دیے گئے ہیں۔

دہشت گردی کے بارے میں منتخب پارلیمان، اسٹبلشمنٹ، عصری تعلیمی اداروں، فوجی عدالتوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ کے کردار کے علاوہ کئی اہم موضوعات پر کھل کر بات کی گئی ہے۔اس کے علاوہ گوکہ جابجا بین الاقوامی مفادات اورغیر ملکی اثرو نفوذکا تذکرہ موجود ہے، مگر اس موضوع پر ایک مکمل باب کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ کیونکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں اندرون ملک عوامل سے بڑھ کر بیرونی عوامل کا کلیدی کردار ہے، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ کتاب کا دیباچہ سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے لکھا ہے، جب کہ مقدمہ معروف دانشور فرخ سہیل گویندی کا تحریرکردہ ہے۔ اس کے علاوہ سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے تعارفی کلمات بھی شامل ہیں۔

بہر حال زیر بحث کتاب سلمان عابد کی جرأت مندانہ کوشش ہے، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں جسے تین دہائیوں سے عدم برداشت کی طرف دھکیل دیا گیا ہو اوردلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت پروان چڑھنے سے روک دیا گیا ہو، وہاں ایسے مضوعات پر قلم اٹھانا بہت بڑے حوصلے کی بات ہے۔ ایک عمدہ کتاب ، جو طلبا وطالبات کے علاوہ ہر اس شہری کے علم میں اضافے کا سبب بنے گی، جو دہشت گردی کی عفریت سے چھٹکارا پا کر ملک میں امن وآشتی کے ماحول کا خواہاں ہے۔ کتاب جمہوری پبلیکشنز نے شایع کی ہے جس کی قیمت 780روپے ہے، جو ہمارے خیال میں بہت زیادہ ہے۔ اس پر مصنف اور پبلشرکو غورکرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ کتاب کو ہر خاص وعام بالخصوص طلبا وطالبات تک اس کی رسائی کے لیے قیمت کا کم ہونا ضروری ہے۔
Load Next Story