کشمیرکی تاریخ مسخ کرنے کی کوششیں

انتہاپسند ہندو سیاست دان اسی ڈوگرہ خاندان کو کشمیر کا والی وارث ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں

کشمیر تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس بدقسمت وادی میں ظلم و جبرکی سیکڑوں داستانیں منظرعام پر آنے کے لیے تفتیشی صحافیوں اور مصنفین کی منتظر ہیں۔ دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے اسے بالکل نظرانداز کر رکھا ہے جس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی حکومت ایک جانب اپنے فوجیوں کی مدد سے کشمیریوں کی نسل کُشی میں مصروف ہے تو دوسری طرف کشمیر کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں لیکن! بھارتی سرکارکا ڈوگرہ را جہ گلاب سنگھ کے جنم دن پر عام تعطیل منانا اس کا مجسمہ نصب کرنے کی تقریب میں کانگریسی ارکان کا شریک ہو کر یہ باورکرانا کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور اس کے جانشین تاریخ کے ہیرو ہیں کسی گھنانونی سازش سے کم نہیں۔

انتہاپسند ہندو سیاست دان اسی ڈوگرہ خاندان کو کشمیر کا والی وارث ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ایک نئے محاذ کا آغازکر دیا گیا ہے لیکن! تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ کب کسی کو خاطر میںلاتی ہے کیا؟ بھارتی حکومت تاریخ کے وہ پنے مٹا پائے گی جس میں لکھا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وفات کے بعد سکھ سلطنت کا خاتمہ ہوا، انگریزوں نے پنجاب پرچڑھائی کی تو غدار وطن ڈوگرہ فرنگیوں کے ساتھ مل گئے تھے۔ انگریزوں نے اس جنت ارضی کو اپنے خادم خاص ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں محض 75 لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض فروخت کیا۔ اس وقت کے حسا ب سے یہاںکے باشندوں کی قیمت سات روپے فی کس پڑی تھی۔

برصغیرکی آزادی کی جدوجہد کے اس عرصے میں کشمیری عوام پر جو ظلم و ستم، استحصال روا رکھا گیا۔ اس سے سب ہی وا قف ہیں۔ ڈوگرہ راج میں مسلمانوں کی زندگی ایک جانورکا درجہ بھی نہ پا سکی تھی۔ گلاب سنگھ کا جانشیں رنبیر سنگھ بھی باپ کی طرح ان پڑھ جاہل، سخت نکما اور نااہل تھا تقسیم کے بعد اس نے ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا ۔جموں کشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا جسے بٹوراے کے بعد پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر بدقسمتی سے اس وقت کے وائسرائے اور ہندو لیڈروںکی شاطرانہ منصوبہ بندی نے کشمیری عوام کو غلامی کا طوق پہنا دیا۔ مہاراجہ ریاست چھوڑ کر بھا گ گیا ۔ بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں ۔ شروع میں مجاہدین نے کامیابیاں بھی حاصل کیں بھجر، میر پور،کو ٹل، راجوری، مینڈورا اور نوشہرہ کو آزادی دلا ئی، پونچھ کا طویل محاصرہ بھی کیے رکھا لیکن ائیر پورٹ پرقبضہ نہ ہونے کے سبب بھارتی افواج کو وہاں سے اتر کر حملہ کرنے کا مو قع مل گیا۔ جس کے بعد بھارتی مسلح افواج نے کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کیے رکھی۔

بھارت نے کشمیر پرقبضہ جمانے کے لیے جس مکاری اور سازشی جارحیت سے کام لیا، اس کی حقیقت ساری دنیا پرعیاں ہو گئی تھی۔ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو بین الاقوامی سطح پر یہ جھوٹے دعوے کر نے لگے کہ بھارت جموں کشمیرکی آ زادی کا فیصلہ غیرجانبداری سے وہاں کے باشندوں کی مرضی سے کرائے گا، لیکن ایسا کبھی نہ ہو سکا۔


کشمیر میں سات سو نو قبرستان ان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحر کا انتظارکر رہے ہیں ۔کشمیریوں کو اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے وہ پرعزم ہیں کہ ان کے لیڈر سیدعلی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک جیسے کئی دوسرے محب وطن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیرکو آزاد نہ کرا لیں، جوں جوں ان کی تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے، اسی قدر بھارتی تشدد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان 62 سالوں میں مقبوضہ کشمیر میںبھارتی تحویل میں لے کر تشدد سے شہید افرادکی تعداد ہزاروں میںہے۔ سیکڑوںخواتین کی بے حرمتی کی گئی۔

بھارتی افواج اور پولیس کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ و ہ جس طرح چاہیں نمٹیں، اگر جان سے ما رنے کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں۔ بھارتی افواج میں مزید اضافہ کر دیا گیا مسلسل کرفیو سے غذاؤں اور ادویات کی قلت ہے، ذرایع نقل و حمل، موبائل فون، انٹرنیٹ بند ہیں کشمیر میں میڈیا کے داخلے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے بھارتی مظالم منظر عام پر نہیں آ سکے ہیں پرامن مظاہرین پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی فورسزعقوبت خا نوں میں کشمیری مجاہدین پر طر ح طرح کی اذیت دے کر شہید کر رہی ہے۔ پاکستان اس بارے میں پو ری دنیا کو آگاہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

ہم ہر سال 5 فروری کو سرکاری روایت کے مطابق منانے کا مقصد ہے کہ عالمی طاقتیں تحریک آزادی کشمیرکی طرف متوجہ ہوں، اس کی بھرپور حمایت کریں تا کہ جنوبی ایشیاء میں امن کی ضما نت فراہم ہو سکے۔

کشمیر جو پندرھوی صدی سے اٹھارویں صدی تک مسلمانوںکا تھا، بھارت اقتدارکی ہوس میں تاریخ کومسخ کرنے، کشمیریوں کے آباؤاجداد کے تشخص اور شناخت کو بھی داؤ پر لگا چکی ہے بھارتی جارحیت کو خود ان کے اپنے ملک میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ کشمیرکا دورہ کرنے والے بھارتی صحافیوں کے وفد میں شامل پارلیمان کے سابق رکن سنتوش بھارتیہ نے مودی کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ کشمیر کے لوگ سونا نہیں مانگتے، چاندی نہیں مانگتے، بس ان وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں جو ہم نے ان سے کیے گئے ہیں۔ وہاں کے بڑوں سے لے کر بچوں میں بھارت کے خلاف غصہ ہے وہ ہاتھوں میں پتھر لے کر اتنے بڑے عفریت سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ خطے میں صدی کے سب سے بڑے قتل عام کو آپ ہی روک سکتے ہیں کشمیرکے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو کشمیرکی سر زمین لے کرہم کیا کریں گے ۔''

یہ بات میری بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آخراتنی چھوٹی سی بات بھا رتی سرکار کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔
Load Next Story