ویرانی سی ویرانی ہے۔
اہدافی قتل کا سلسلہ جاری، شہر مقتل کا منظر پیش کرنے لگا، امن کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہو گا؟
KARACHI:
اپنے نصف کی تکمیل کے دوران سال 2012 نے کراچی میں درندگی کے مظاہرے دیکھے اور گلی کوچوں کو لہو رنگ پایا۔ دہشت گردی اور بدامنی کا خاتمہ کرنے کے بارے میں حکام کے بارہا دعوے اور قتل و غارت گری کی مذمت میں ہزارہا بیانات اس کی نظروں سے گزرے، لیکن اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا یہ سال اس بات پر تعجب کرتا ہے کہ فوری اور ٹھوس عملی اقدامات کرنے کے بجائے حکامِ بالا پُرجوش تقاریر اور دھواں دھار بیانات سے دہشت گردوں اور سفاک قاتلوں کا 'مقابلہ' کر رہے ہیں۔
رمضان کی بابرکت ساعتوں میں دہشت گردی کی تازہ لہر سے جہاں عام زندگی اور روزہ داروں کی عبادات متاثر ہوئی ہیں، وہاں عیدالفطر کی خوشیاں بھی پھیکی پڑتی نظر آرہی ہیں۔ ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سالِ رواں میں جنوری سے جون کے مہینے تک دہشت گردی کے مختلف واقعات میں کُل 888 افراد کی زندگی کے چراغ گل ہوئے اور اب اہدافی قتل کے ساتھ دستی بموں کے حملوں اور دھماکا خیز مواد پھٹنے سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔
کراچی کے موجودہ حالات کے اسباب اور تجاویز پر مبنی ایک اہم اور قابلِ غور رپورٹ پچھلے دنوں منظر عام پر آئی جس میں محکمۂ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو ریاستی عدم توجہی کا شکار بتایا گیا ہے۔ 'ایشیا سوسائٹی' نامی تنظیم کی 'سٹیبلائزنگ پاکستان تھرو پولیس ریفارمز' کے مطابق ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا سبب مختلف وجوہ کی بناء پر محکمۂ پولیس کی خراب کارکردگی ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین میں اعتزاز احسن، شعیب سڈل، بریگیڈیر شفقت اصغر اور ایف آئی کے سابق سربراہ طارق پرویز سمیت دیگر ماہرین شامل ہیں۔
موجودہ سیاسی اور سماجی حالات، مختلف اداروں کی کارکردگی اور مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے تجربات کی روشنی میں دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنے اور محکمۂ پولیس کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے اسے مستحکم کرنے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں جس پر سیاسی، مذہبی جماعتوں، مختلف تنظیموں سمیت سنجیدہ اور باشعور حلقوں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکامِ بالا، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے عام جرائم اور خصوصاً دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ان تجاویز کی روشنی میں فوری اور ٹھوس عملی اقدامات کریں تو کراچی میں امن و امان کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں سیاسی مداخلت اور بااثر افراد کا عام اور بعض سنگین نوعیت کے جرائم اور دہشت گردی میں ملوث ملزمان کی پشت پناہی کا ذکر ہے جس کی وجہ سے شہر کو چوری، ڈکیتی، غنڈہ گردی، بھتا خوری، اغواء برائے تاوان اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ محکمۂ پولیس کے مختلف کاموں اور متعلقہ شعبوں کے امور میں سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ اس اہم ادارے کو ذاتی مقاصد کی تکمیل میں استعمال کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ یہ روایت اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا، لیکن یہی نہیں بلکہ پولیس افسران اور اہل کاروں کی نااہلی، تساہل اور رشوت خوری بھی کئی مسائل کی وجہ ہے۔
پولیس کا مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں تساہل اور غیرذمے داری کا مظاہرہ عام ہے جب کہ معمولی جرائم اور بعض سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کو بھاری رشوت لے کر آزاد کر دینے سے مسائل بڑھے ہیں۔ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی بات ہو تو معلوم ہو گا کہ منظّم گروہوں کے نیٹ ورکس توڑنے میں ناکامی کی وجوہ میں محکمۂ پولیس کے افسروں اور اہل کاروں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی، جدید خطوط پر ان کی تربیت، تفتیش کے فرسودہ طریقۂ کار کے ساتھ اداروں کے مابین فوری اور مؤثر رابطوں کا فقدان جب کہ جدید ٹیکنالوجی اور دست یاب وسائل کا استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب ہماری پولیس عام جرائم کی روک تھام میں ناکام ہو رہی ہے تو دہشت گروں کے منظّم گروہوں سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی غیرتسلی بخش کارکردگی اور فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کا سبب اداروں کے مابین رقابت، استعداد بڑھانے پر توجہ نہ دینا اور فنڈز کا پولیس تک نہ پہنچنا ہے۔
اس رپورٹ میں دہشت گردی اور بدامنی کے خاتمے کے لیے تھانوں میں ماہر تفتیش کاروں کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ایک جامع پروگرام ترتیب دینے اور خفیہ اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے کے فروغ اور پولیس، انٹیلی جینس بیورو اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں پولیس افسران اور اہل کاروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو اس محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کے ضمن میں ایک مثبت کوشش قرار دیتے ہوئے ماہرین نے پولیس آرڈر 2002 کا ذکر ایک مثبت اور تعمیری قدم کے طور پر کیا۔ تاہم اس میں بھی سیاسی عمل دخل اور اثر ورسوخ کو اس آرڈرکی افادیت پر اثر انداز ہوتا بتایا ہے۔ رپورٹ میں سیاسی دباؤ کے خاتمے کے لیے تجاویز شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کا عمل ناگزیر ہے اور ایک ایسے آزاد اور قابل اعتماد ادارے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو پولیس میں بدعنوانی اور دیگر شکایات کے خاتمے کے لیے کام کرے۔
کراچی کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اہدافی قتل کے نتیجے میں رواں ماہ میں پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، سنی تحریک، اے این پی، جمیعت علمائے اسلام(ف)، اہلِ سنت والجماعت کے عہدے دار اور کارکنان، پولیس اور حساس ادارے کے افسر اور اہل کاروں سمیت عام شہری زندگی سے محروم ہوگئے۔
دہشت گردی کے واقعات میں اقوام متحدہ کی گاڑی پر فائرنگ سے غیرملکی ڈاکٹر زخمی جب کہ عالمی ادارۂ صحت سے عارضی طور پر وابستہ ایک مقامی شہری کی ہلاکت بھی ہوئی جس کے بعد ایک اور واقعہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ اس میں چینی قونصل خانے کے نزدیک موٹر سائیکل میں نصب بم پھٹنے سے رینجرز کا ایک اہل کار زخمی اور متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں جب کہ کلفٹن کے علاقے میں قائم اس قونصل خانے کے نزدیک کھڑی ایک اور موٹر سائیکل میں نصب دوسرا بم پھٹنے سے قبل ناکارہ بنا دیا گیا۔
کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات نے عوام کی زندگی اور ان کے معمولات پر انتہائی منفی اثر ڈالا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ عدم تحفظ کا شدید احساس لوگوں کی ذہنی اور جسمانی حالت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ان میں عدم برداشت، غصّہ چڑچڑا پن بڑھ رہا ہے جب کہ شدید ذہنی دباؤ میں رہنے کے باعث استعدادِ کار متاثر ہونے کے ساتھ ان میں حوصلے کی کمی اور معاشرے میں نفسانفسی کا عالم پیدا ہو رہا ہے جو اسے کھوکھلا کر دے گا۔
گزرے ہوئے سال کی طرف دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ شہر میں ایک ہزار 775 افراد دہشت گردی کے واقعات میں لقمۂ اجل بنے جب کہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ صرف ان دو مہینوں میں 639 لوگ مارے گئے تھے۔ اس وقت بھی حکام بالا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعوے، بیانات اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں، لیکن کراچی آج بھی سلگ رہا ہے۔
اب بھی حکام اور متعلقہ اداروں کی طرف سے زبانی جمع خرچ کر کے شہریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ کراچی کے باسی حکم رانوں، مقامی پولیس اور متعلقہ اداروں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی معجزہ ہی ان کا آج اور کل محفوظ بنا سکتا ہے۔
اپنے نصف کی تکمیل کے دوران سال 2012 نے کراچی میں درندگی کے مظاہرے دیکھے اور گلی کوچوں کو لہو رنگ پایا۔ دہشت گردی اور بدامنی کا خاتمہ کرنے کے بارے میں حکام کے بارہا دعوے اور قتل و غارت گری کی مذمت میں ہزارہا بیانات اس کی نظروں سے گزرے، لیکن اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا یہ سال اس بات پر تعجب کرتا ہے کہ فوری اور ٹھوس عملی اقدامات کرنے کے بجائے حکامِ بالا پُرجوش تقاریر اور دھواں دھار بیانات سے دہشت گردوں اور سفاک قاتلوں کا 'مقابلہ' کر رہے ہیں۔
رمضان کی بابرکت ساعتوں میں دہشت گردی کی تازہ لہر سے جہاں عام زندگی اور روزہ داروں کی عبادات متاثر ہوئی ہیں، وہاں عیدالفطر کی خوشیاں بھی پھیکی پڑتی نظر آرہی ہیں۔ ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سالِ رواں میں جنوری سے جون کے مہینے تک دہشت گردی کے مختلف واقعات میں کُل 888 افراد کی زندگی کے چراغ گل ہوئے اور اب اہدافی قتل کے ساتھ دستی بموں کے حملوں اور دھماکا خیز مواد پھٹنے سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔
کراچی کے موجودہ حالات کے اسباب اور تجاویز پر مبنی ایک اہم اور قابلِ غور رپورٹ پچھلے دنوں منظر عام پر آئی جس میں محکمۂ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو ریاستی عدم توجہی کا شکار بتایا گیا ہے۔ 'ایشیا سوسائٹی' نامی تنظیم کی 'سٹیبلائزنگ پاکستان تھرو پولیس ریفارمز' کے مطابق ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا سبب مختلف وجوہ کی بناء پر محکمۂ پولیس کی خراب کارکردگی ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین میں اعتزاز احسن، شعیب سڈل، بریگیڈیر شفقت اصغر اور ایف آئی کے سابق سربراہ طارق پرویز سمیت دیگر ماہرین شامل ہیں۔
موجودہ سیاسی اور سماجی حالات، مختلف اداروں کی کارکردگی اور مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے تجربات کی روشنی میں دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنے اور محکمۂ پولیس کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے اسے مستحکم کرنے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں جس پر سیاسی، مذہبی جماعتوں، مختلف تنظیموں سمیت سنجیدہ اور باشعور حلقوں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکامِ بالا، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے عام جرائم اور خصوصاً دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ان تجاویز کی روشنی میں فوری اور ٹھوس عملی اقدامات کریں تو کراچی میں امن و امان کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں سیاسی مداخلت اور بااثر افراد کا عام اور بعض سنگین نوعیت کے جرائم اور دہشت گردی میں ملوث ملزمان کی پشت پناہی کا ذکر ہے جس کی وجہ سے شہر کو چوری، ڈکیتی، غنڈہ گردی، بھتا خوری، اغواء برائے تاوان اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ محکمۂ پولیس کے مختلف کاموں اور متعلقہ شعبوں کے امور میں سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ اس اہم ادارے کو ذاتی مقاصد کی تکمیل میں استعمال کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ یہ روایت اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا، لیکن یہی نہیں بلکہ پولیس افسران اور اہل کاروں کی نااہلی، تساہل اور رشوت خوری بھی کئی مسائل کی وجہ ہے۔
پولیس کا مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں تساہل اور غیرذمے داری کا مظاہرہ عام ہے جب کہ معمولی جرائم اور بعض سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کو بھاری رشوت لے کر آزاد کر دینے سے مسائل بڑھے ہیں۔ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی بات ہو تو معلوم ہو گا کہ منظّم گروہوں کے نیٹ ورکس توڑنے میں ناکامی کی وجوہ میں محکمۂ پولیس کے افسروں اور اہل کاروں میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی، جدید خطوط پر ان کی تربیت، تفتیش کے فرسودہ طریقۂ کار کے ساتھ اداروں کے مابین فوری اور مؤثر رابطوں کا فقدان جب کہ جدید ٹیکنالوجی اور دست یاب وسائل کا استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب ہماری پولیس عام جرائم کی روک تھام میں ناکام ہو رہی ہے تو دہشت گروں کے منظّم گروہوں سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی غیرتسلی بخش کارکردگی اور فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کا سبب اداروں کے مابین رقابت، استعداد بڑھانے پر توجہ نہ دینا اور فنڈز کا پولیس تک نہ پہنچنا ہے۔
اس رپورٹ میں دہشت گردی اور بدامنی کے خاتمے کے لیے تھانوں میں ماہر تفتیش کاروں کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ایک جامع پروگرام ترتیب دینے اور خفیہ اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے کے فروغ اور پولیس، انٹیلی جینس بیورو اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں پولیس افسران اور اہل کاروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو اس محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کے ضمن میں ایک مثبت کوشش قرار دیتے ہوئے ماہرین نے پولیس آرڈر 2002 کا ذکر ایک مثبت اور تعمیری قدم کے طور پر کیا۔ تاہم اس میں بھی سیاسی عمل دخل اور اثر ورسوخ کو اس آرڈرکی افادیت پر اثر انداز ہوتا بتایا ہے۔ رپورٹ میں سیاسی دباؤ کے خاتمے کے لیے تجاویز شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اصلاحات کا عمل ناگزیر ہے اور ایک ایسے آزاد اور قابل اعتماد ادارے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو پولیس میں بدعنوانی اور دیگر شکایات کے خاتمے کے لیے کام کرے۔
کراچی کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اہدافی قتل کے نتیجے میں رواں ماہ میں پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، سنی تحریک، اے این پی، جمیعت علمائے اسلام(ف)، اہلِ سنت والجماعت کے عہدے دار اور کارکنان، پولیس اور حساس ادارے کے افسر اور اہل کاروں سمیت عام شہری زندگی سے محروم ہوگئے۔
دہشت گردی کے واقعات میں اقوام متحدہ کی گاڑی پر فائرنگ سے غیرملکی ڈاکٹر زخمی جب کہ عالمی ادارۂ صحت سے عارضی طور پر وابستہ ایک مقامی شہری کی ہلاکت بھی ہوئی جس کے بعد ایک اور واقعہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ اس میں چینی قونصل خانے کے نزدیک موٹر سائیکل میں نصب بم پھٹنے سے رینجرز کا ایک اہل کار زخمی اور متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں جب کہ کلفٹن کے علاقے میں قائم اس قونصل خانے کے نزدیک کھڑی ایک اور موٹر سائیکل میں نصب دوسرا بم پھٹنے سے قبل ناکارہ بنا دیا گیا۔
کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات نے عوام کی زندگی اور ان کے معمولات پر انتہائی منفی اثر ڈالا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ عدم تحفظ کا شدید احساس لوگوں کی ذہنی اور جسمانی حالت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ان میں عدم برداشت، غصّہ چڑچڑا پن بڑھ رہا ہے جب کہ شدید ذہنی دباؤ میں رہنے کے باعث استعدادِ کار متاثر ہونے کے ساتھ ان میں حوصلے کی کمی اور معاشرے میں نفسانفسی کا عالم پیدا ہو رہا ہے جو اسے کھوکھلا کر دے گا۔
گزرے ہوئے سال کی طرف دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ شہر میں ایک ہزار 775 افراد دہشت گردی کے واقعات میں لقمۂ اجل بنے جب کہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ صرف ان دو مہینوں میں 639 لوگ مارے گئے تھے۔ اس وقت بھی حکام بالا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعوے، بیانات اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں، لیکن کراچی آج بھی سلگ رہا ہے۔
اب بھی حکام اور متعلقہ اداروں کی طرف سے زبانی جمع خرچ کر کے شہریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ کراچی کے باسی حکم رانوں، مقامی پولیس اور متعلقہ اداروں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی معجزہ ہی ان کا آج اور کل محفوظ بنا سکتا ہے۔