ہوش مندی کی ضرورت

کہا جا رہا ہے کہ مسائل کا حل یہ ہے کہ ملک میں دو یا اس سے زائد برسوں کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے۔

جمعرات کو ہونے والے ڈرون حملوں میں حکیم اللہ محسود گروپ کے مخالف طالبان کمانڈر ملا نذیر بھی ہلاک ہوئے،فوٹو : فائل

LONDON:
جمعرات کو پاکستان کی دو سب سے بڑی قبائلی ایجنسیوں میں ڈرون حملے ہوئے ۔ ان میں 14 افراد مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں حکیم اللہ محسود گروپ کے مخالف طالبان کمانڈر ملا نذیر بھی شامل ہیں۔ ان پر کچھ عرصے پہلے جنوبی وزیر ستان کے مرکزی شہر وانا میں خود کش حملہ ہوا تھا' جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔ ماضی میں ان پر دو مرتبہ ڈرون حملے بھی ہو ئے تھے۔ ایک حملے میں ان کا بھائی مارا گیا تھا۔ تاہم بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہونے والے ایک ڈرون حملے میں وہ مارے گئے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ ڈرون حملہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں ہوا۔ واقعات کے مطابق ملا نذیر ایک گاڑی میں برمل سے وانا جا رہے تھے' سراکنڈہ کے مقام پر ان کی گاڑی میزائل کا نشانہ بنی۔ ان سطور کے لکھے جانے تک طالبان یا حکومت نے ملا نذیر کی ہلاکت کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ ملا نذیر کا تعلق جنوبی وزیرستان کے احمد زئی وزیر قبیلے سے تھا' ان کا شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر گروپ اور شوریٰ المجاہدین سے قریبی تعلق بیان کیا جاتا ہے ۔دوسرا ڈرون حملہ شمالی وزیرستان میں میر علی کے مقام پر ہوا ہے۔

اس حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود گروپ کے کمانڈر فیصل خان اور دو ازبک باشندوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کا منظر نامہ ہے، یہاں امریکا کے ڈرون طیارے طالبان اور القاعدہ کے لوگوں پر میزائل برساتے رہتے ہیں۔یوں دیکھا جائے تو قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ انتہائی کمزور ہے۔ دوسرا منظر نامہ پاکستان کے سیاستدانوں کے بیانات اور جلسوں سے تشکیل پاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت متفقہ طور پر یہ طے نہیں کر سکی کہ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ کیا ہے ؟اور اس کا سدباب کس طرح کیا جانا چاہیے؟ موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرنے والا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہو چکا ہے اور اب اگلہ مرحلہ نگران حکومت کے قیام کا ہے' اس بارے میں آئین واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے' یوں صورتحال میں بظاہر کوئی خرابی یا مشکل نظر نہیں آتی تاہم بہت سے معاملات ایسے ہیں جو ملک میں ابہام اور کنفیوژن کا باعث رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ ان کی کمٹمنٹ دہشت گردی اور اس سے وابستہ خطرات کے بارے میں کمزور نظر آتی ہے۔ ڈرون حملوں کا معاملہ ہو یا ملک میں دہشت گردوں کے حملے ہوں یا قبائلی علاقوں کے آئینی اسٹیٹس کا معاملہ اس بارے میں کوئی واضح اور ابہام سے پاک موقف نظر نہیں آتا۔ جمہوری حکومت اور دیگر سیاسی قیادت روایتی بیان بازی میں مصروف ہے' ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ دہشت گردی کے حوالے سے امڈتے ہوئے خطرے کو اتنی سنگینی سے محسوس نہیں کر رہی جتنا سنگین یہ ہے۔


ملک کے نامور افراد مارے جارہے ہیں' دفاعی مقامات پر خود کش حملے ہو رہے ہیں' سیکیورٹی اداروں کے افسران اور جوان شہید ہو رہے ہیں' عام بے گناہ شہری دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن قاتلوں اور دہشت گردوں سے لڑنے کا عزم انتہائی کمزور نظر آ رہا ہے' سیاسی قیادت پورے پانچ برس بیان بازی اور سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہی ہے' اب طاہر القادری نئے مطالبات لے کر میدان سیاست میں کود پڑے ہیں' حکومت کی اتحادی دو جماعتیں بھی ان کی حمایت کررہی ہیں۔ تحریک انصاف بھی کہتی ہے کہ انھیں طاہر القادری کے مطالبات سے خاصی حد تک اتفاق ہے۔ اسی دوران بعض حلقے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کے قیام کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ملک میں دو یا اس سے زائد برسوں کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے جو ملک میں کرپٹ افراد کا احتساب کرے اور اس کے بعد عام انتخابات کرا دیے جائیں۔ یہ مطالبات یا خیالات بظاہر بڑے اچھے نظر آتے ہیں اور عام آدمی انھیں درست بھی قرار دے سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال ملک میں انتشار اور خلفشار کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی ہے۔ ادھر سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتیں اور شخصیات ملک و قوم کو درپیش خطرات سے بے نیاز جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست میں مصروف ہیں۔ یہ صورتحال کسی اور کے لیے خوشگوار ہو یا نہ ہو لیکن دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کے لیے ضرور اطمینان کا باعث ہے۔ ان کے لیے ایسی صورتحال میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنا خاصا آسان نظر آتا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا تو اس وقت ان کی ہٹ لسٹ پر ہے' وہاں آئے روز قتل و غارت کے واقعات ہو رہے ہیں' حد یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو ایک خود کش حملے میں شہید کردیا گیا، ان کے بعد22 لیویز اہلکاروں دہشت گردوں نے شہید کیا۔کراچی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ بلوچستان میں قتل وغارت جاری ہے۔ان نازک حالات میں پاکستان کی سیاسی قیادت ، خواہ وہ دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی، وہ لبرل ہو یا مذہبی ہونے کی دعویدار، انھیں ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہوسکتے، امریکا بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ افغانستان کی حکومت ہو یا وہاں کے نسلی اور لسانی گروپ سب کے اپنے مفادات ہیں۔ایسی صورت میں پاکستان کی سیاسی قیادت ، اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کو اپنے اجتماعی اور عوامی مفادات کا تعین کرنا چاہیے۔اگر وہ روایتی سوچ کے اسیر رہے تو ملک میں انتشار اور ابہام بڑھے گا جس کا فائدہ ملک دشمن قوتوں کو ہوگا۔
Load Next Story