ہم ایک نظریہ کا نام ہیں
کون نہیں جانتا کہ بھارت کے عوام کی ایک بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کی محتاج ہے۔
ISLAMABAD:
دلی سے خبر آئی ہے کہ بھارت نے اپنے فوجی بجٹ میں دس فی صد اضافہ کر دیا ہے چنانچہ بھارت نے اپنے بجٹ میں 214 کھرب ستر ارب حجم کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ فوجی اخراجات کے لیے27 کھرب 40 ارب روپے مختص کر دیے ہیں۔ اس میں پنشن کی86 کروڑ کی رقم شامل نہیں ہے۔
بھارت کے پالیسی ساز اگر کچھ اور سوچتے ہیں تو یہ الگ بات ہے ورنہ اصل میں تو بھارت اپنا دفاعی اور جنگی بجٹ پاکستان کو سامنے رکھ کر بناتا ہے اور اس طرح اپنے بجٹ میں جتنا اضافہ کر لیتا ہے پاکستان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کچھ پہلے کی بات ہے کہ بھارت نے جب اپنا بھاری بھر کم دفاعی بجٹ پیش کیا تو اسے دیکھ کر کسی بہی خواہ نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بھوکوں مرتی آبادی کو دیکھے اور اس کی کم از کم ضروریات کو سامنے رکھ کر اپنا بجٹ بنائے ورنہ اتنا بھاری بھر کم بجٹ بھارت کے عوام برداشت نہیں کر سکیں گے۔
کون نہیں جانتا کہ بھارت کے عوام کی ایک بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کی محتاج ہے اور بڑی ہی مشکل سے وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اگر بھارت اپنی آبادی کی حالت زار کو سامنے رکھے تو وہ شاید اس سے آدھا بجٹ بھی تیار نہ کر سکتے۔ بھارت کا یہ بجٹ دیکھ کر دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ یہ غریب ملک جس کی آبادی اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل سکتی اتنا بڑا دفاعی بجٹ کس طرح بنا سکتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اگر کوئی ملک ہے تو وہ پاکستان ہے جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ بھارتی بجٹ کی اس بھاری بھر کم رقم کا تصور بھی کر سکے۔
پاکستان تو بمشکل اپنی جان بچا کر رکھے ہوئے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن وہ کمزور پڑا اسی دن بھارت اس پر حملہ کر دے گا کیونکہ بھارت پاکستان کو اپنی سرزمین پر ایک گُھس بیٹھیا سمجھتا ہے اور سرزمین ہند کو ہندو قوم کی ملکیت سمجھتا ہے جس میں کسی دوسری قوم کو گھر بنانا تو بڑی بات ہے قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ بھارت کی زمین پر مسلمانوں کے قدم نہ صرف پڑتے رہے بلکہ اس پر حکمرانی بھی کرتے رہے۔
یہ حکمرانی بھارتی قوم یعنی ہندوؤں کو کسی حال میں بھی قبول نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ابھی اس جدید زمانے کی کل کی بات ہے کہ بھارت کی روشن خیال حکمران اندرا جی نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو مداخلت کار کہا ہے اور سرزمین ہند پر ان کو قدم رکھنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے بھارت میں آباد ہندو اس سرزمین کو اپنی وراثت اور ملکیت سمجھتا ہے اور اس پر کسی غیر ہندو کو برداشت نہیں کر سکتا۔
اندرا گاندھی نے مسلمانوں کی ایک ہزار برس تک ہندوستان پر حکومت کو ایک غیر ملکی حکومت قرار دیا ہے اور اس کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جب پاکستان کے ایک حصے کو اس سے الگ ایک ملک کی صورت میں اندرا گاندھی نے دیکھا تو وہ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو گئیں اور ایک تقریر میں انھوں نے اس خوشی کا ذکر بھی کیا ہے جو بنگلہ دیش کی صورت میں ان کے سامنے تھی۔
یہ صورت حال ہم پاکستانیوں کو اکثر پیش آتی رہے گی اور بھارت پسندوں کو جب بھی موقع ملے گا وہ پاکستان سے بھارتی سرزمین پر قبضہ ختم کرانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور یہ کوشش جاری ہے اور جب میں معلوم کرتا ہوں کہ پاکستان سے کسی نے بھارت پسندی کا اظہار کیا ہے تو ایک پاکستان کا وجود آگ پر دہکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہم مسلمانوں نے ہندوستان کسی خیرات میں نہیں لیا تھا جنگیں لڑ کر اور زندگیاں قربان کر کے لیا تھا کیونکہ ہم مسلمانوں نے بھارت میں آباد ہندوؤں کو جنگوں میں شکست دے کر ان سے یہ ملک لیا تھا اور اس ملک کو ہندو تنگ نظری کی نہیں مسلمانوں کی شاہ دلی کی حکومت دی تھی اور یہاں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا تھا۔ ہندوؤں نے صدیوں تک اس فراخ دل حکومت میں آسودہ زندگی بسر کی۔ ہزار برس وہ خود تسلیم کرتے ہیں۔
ہمارے قائداعظم کے بقول جس دن ہندوستان کی سرزمین پر کسی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا یہاں اسی دن پاکستان قائم ہو گیا تھا کیونکہ پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے کسی سرزمین کا نام نہیں ہے جس زمین پر بھی اس نظریہ کا نعرہ بلند ہو گا وہ زمین اس کی ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کسی زمین کا نام ہی نہیں یہ ایک نظریہ کا نام ہے جو کسی بھی زمین کو روشن کر سکتا ہے اور اس روشنی کا نام ہی پاکستان ہے۔ سرزمین ہند جو کسی حکمران کے لیے خالی پڑی تھی اور انصاف و عدل والی حکومت اور حکمران کے انتظار میں تھی جب اس کو اس کی پسند کا حکمران مل گیا تو وہ اس عادل حکمران کی تحویل میں آ گئی اور سرزمین کفر میں ایک نئی دنیا آباد کر لی۔
پاکستان کا ہر شہری تسلیم کرتا ہے اور اسی یقین کے ساتھ زندہ ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی جگہ اپنی پسند کا نظام نافذ کر سکے۔ اسی ہندوستان کی مثال لیجیے جو بھارت تھا اور جہاں اسلام کا نام و نشان نہ تھا لیکن مسلمانوں نے یہاں اپنے نظریے کے مطابق قدم رکھا اور یہ زمین اس کی ملکیت میں آ گئی۔
آج دنیا کے اس خطے میں ہر سمت پاکستان آباد ہے یا پاکستانی نظریے کا عروج ہے جو جہاں بھی جاتا ہے وہ زمین اس کی ہو جاتی ہے۔ آج بھی ہم مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں اگر اسلام کا نام بلند کریں تو ہندو تو کیا دنیا کی کوئی قوم بھی ہمیں محکوم نہیں بنا سکتی۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کو ''ہندو'' بنا کر دیکھ لیا۔ اب اس ملک سے وہی آواز بلند ہو رہی ہے جس کی گونج میں پاکستان بنا تھا۔ بنگلہ دیش کی قربانیاں جاری ہیں یہاں اونچے لوگوں کی زندگیاں پھانسی چڑھ رہی ہیں لیکن نظریہ کی طاقت کا کوئی مقابل نہیں بنا۔ اس پر زندگی قربان۔
دلی سے خبر آئی ہے کہ بھارت نے اپنے فوجی بجٹ میں دس فی صد اضافہ کر دیا ہے چنانچہ بھارت نے اپنے بجٹ میں 214 کھرب ستر ارب حجم کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ فوجی اخراجات کے لیے27 کھرب 40 ارب روپے مختص کر دیے ہیں۔ اس میں پنشن کی86 کروڑ کی رقم شامل نہیں ہے۔
بھارت کے پالیسی ساز اگر کچھ اور سوچتے ہیں تو یہ الگ بات ہے ورنہ اصل میں تو بھارت اپنا دفاعی اور جنگی بجٹ پاکستان کو سامنے رکھ کر بناتا ہے اور اس طرح اپنے بجٹ میں جتنا اضافہ کر لیتا ہے پاکستان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کچھ پہلے کی بات ہے کہ بھارت نے جب اپنا بھاری بھر کم دفاعی بجٹ پیش کیا تو اسے دیکھ کر کسی بہی خواہ نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بھوکوں مرتی آبادی کو دیکھے اور اس کی کم از کم ضروریات کو سامنے رکھ کر اپنا بجٹ بنائے ورنہ اتنا بھاری بھر کم بجٹ بھارت کے عوام برداشت نہیں کر سکیں گے۔
کون نہیں جانتا کہ بھارت کے عوام کی ایک بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کی محتاج ہے اور بڑی ہی مشکل سے وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اگر بھارت اپنی آبادی کی حالت زار کو سامنے رکھے تو وہ شاید اس سے آدھا بجٹ بھی تیار نہ کر سکتے۔ بھارت کا یہ بجٹ دیکھ کر دنیا حیران رہ جاتی ہے کہ یہ غریب ملک جس کی آبادی اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل سکتی اتنا بڑا دفاعی بجٹ کس طرح بنا سکتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اگر کوئی ملک ہے تو وہ پاکستان ہے جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ بھارتی بجٹ کی اس بھاری بھر کم رقم کا تصور بھی کر سکے۔
پاکستان تو بمشکل اپنی جان بچا کر رکھے ہوئے ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن وہ کمزور پڑا اسی دن بھارت اس پر حملہ کر دے گا کیونکہ بھارت پاکستان کو اپنی سرزمین پر ایک گُھس بیٹھیا سمجھتا ہے اور سرزمین ہند کو ہندو قوم کی ملکیت سمجھتا ہے جس میں کسی دوسری قوم کو گھر بنانا تو بڑی بات ہے قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ بھارت کی زمین پر مسلمانوں کے قدم نہ صرف پڑتے رہے بلکہ اس پر حکمرانی بھی کرتے رہے۔
یہ حکمرانی بھارتی قوم یعنی ہندوؤں کو کسی حال میں بھی قبول نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ابھی اس جدید زمانے کی کل کی بات ہے کہ بھارت کی روشن خیال حکمران اندرا جی نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو مداخلت کار کہا ہے اور سرزمین ہند پر ان کو قدم رکھنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے بھارت میں آباد ہندو اس سرزمین کو اپنی وراثت اور ملکیت سمجھتا ہے اور اس پر کسی غیر ہندو کو برداشت نہیں کر سکتا۔
اندرا گاندھی نے مسلمانوں کی ایک ہزار برس تک ہندوستان پر حکومت کو ایک غیر ملکی حکومت قرار دیا ہے اور اس کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جب پاکستان کے ایک حصے کو اس سے الگ ایک ملک کی صورت میں اندرا گاندھی نے دیکھا تو وہ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو گئیں اور ایک تقریر میں انھوں نے اس خوشی کا ذکر بھی کیا ہے جو بنگلہ دیش کی صورت میں ان کے سامنے تھی۔
یہ صورت حال ہم پاکستانیوں کو اکثر پیش آتی رہے گی اور بھارت پسندوں کو جب بھی موقع ملے گا وہ پاکستان سے بھارتی سرزمین پر قبضہ ختم کرانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور یہ کوشش جاری ہے اور جب میں معلوم کرتا ہوں کہ پاکستان سے کسی نے بھارت پسندی کا اظہار کیا ہے تو ایک پاکستان کا وجود آگ پر دہکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہم مسلمانوں نے ہندوستان کسی خیرات میں نہیں لیا تھا جنگیں لڑ کر اور زندگیاں قربان کر کے لیا تھا کیونکہ ہم مسلمانوں نے بھارت میں آباد ہندوؤں کو جنگوں میں شکست دے کر ان سے یہ ملک لیا تھا اور اس ملک کو ہندو تنگ نظری کی نہیں مسلمانوں کی شاہ دلی کی حکومت دی تھی اور یہاں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا تھا۔ ہندوؤں نے صدیوں تک اس فراخ دل حکومت میں آسودہ زندگی بسر کی۔ ہزار برس وہ خود تسلیم کرتے ہیں۔
ہمارے قائداعظم کے بقول جس دن ہندوستان کی سرزمین پر کسی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا یہاں اسی دن پاکستان قائم ہو گیا تھا کیونکہ پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے کسی سرزمین کا نام نہیں ہے جس زمین پر بھی اس نظریہ کا نعرہ بلند ہو گا وہ زمین اس کی ہو جائے گی کیونکہ پاکستان کسی زمین کا نام ہی نہیں یہ ایک نظریہ کا نام ہے جو کسی بھی زمین کو روشن کر سکتا ہے اور اس روشنی کا نام ہی پاکستان ہے۔ سرزمین ہند جو کسی حکمران کے لیے خالی پڑی تھی اور انصاف و عدل والی حکومت اور حکمران کے انتظار میں تھی جب اس کو اس کی پسند کا حکمران مل گیا تو وہ اس عادل حکمران کی تحویل میں آ گئی اور سرزمین کفر میں ایک نئی دنیا آباد کر لی۔
پاکستان کا ہر شہری تسلیم کرتا ہے اور اسی یقین کے ساتھ زندہ ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی جگہ اپنی پسند کا نظام نافذ کر سکے۔ اسی ہندوستان کی مثال لیجیے جو بھارت تھا اور جہاں اسلام کا نام و نشان نہ تھا لیکن مسلمانوں نے یہاں اپنے نظریے کے مطابق قدم رکھا اور یہ زمین اس کی ملکیت میں آ گئی۔
آج دنیا کے اس خطے میں ہر سمت پاکستان آباد ہے یا پاکستانی نظریے کا عروج ہے جو جہاں بھی جاتا ہے وہ زمین اس کی ہو جاتی ہے۔ آج بھی ہم مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں اگر اسلام کا نام بلند کریں تو ہندو تو کیا دنیا کی کوئی قوم بھی ہمیں محکوم نہیں بنا سکتی۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کو ''ہندو'' بنا کر دیکھ لیا۔ اب اس ملک سے وہی آواز بلند ہو رہی ہے جس کی گونج میں پاکستان بنا تھا۔ بنگلہ دیش کی قربانیاں جاری ہیں یہاں اونچے لوگوں کی زندگیاں پھانسی چڑھ رہی ہیں لیکن نظریہ کی طاقت کا کوئی مقابل نہیں بنا۔ اس پر زندگی قربان۔