جواد احمد کا نیک عزم
حکمران بھول چکے ہیں کہ اگر مزدور اکٹھے ہوگئے تو انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔
سال نو کی آمد پر ساری قوم شاداں و رقصاں تھی اس موقع پر ہندوستان میں طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے کے باعث تمام تقریبات منسوخ اور ہلہ گلہ ترک کرکے ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ کراچی میں ایک طرف تو شاہ زیب کے لواحقین اور سول سوسائٹی قاتلوں کی گرفتاری کے لیے بھرپور احتجاج کر رہی تھی تو دوسری جانب نامور گلوکار جواد احمد پائیلر Pakistani Institute of Labour Education of Research کے اشتراک سے لیبر اسکوائر سائٹ ایریا میں منعقدہ ایک تقریب میں سانحہ بلدیہ فیکٹری میں خاکستر ہوجانے والے سیکڑوں شہدا کی یاد میں ان کے خاندانوں سے یکجہتی کے لیے تیار کردہ خصوصی گیت پیش کر رہے تھے۔
لواحقین کے چہرے مغموم اور آنکھیں نم ناک تھیں۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم بڑے بڑے سانحات سے ہمکنار ہونے، انھیں بھلا دینے کے عادی اور ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔ ہمارے سامنے تو اقبالؔ کا یہ شعر بھی معنویت کھوتے دکھائی دے رہا ہے کہ:
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
دنیا کے دیگر ممالک میں اس قسم کے سانحات پر پوری قوم ایک ہوجاتی ہے۔ فنکار، گلوکار، اداکار، شاعر، ادیب، سرمایہ دار اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان کے تدارک اور ان سے نبرد آزما ہونے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا جیسے عمومی نوعیت کے حادثات کی برسی مناتے ہیں، اس مقام پر گلدستوں، پھولوں اور کارڈوں کے ڈھیر لگادیتے ہیں، موم بتیاں روشن کرتے ہیں اور خاموشی اختیار کرتے ہیں، لیکن ہم بڑے سے بڑے سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی قسم کے واقعات و سانحات کو پولیس، کمیشن یا حکومت کی تحویل میں دے کر بھلا بیٹھتے ہیں، پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے، نہ ہمیں یاد رہتا ہے کہ ان کا نتیجہ کیا نکلا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ خاندان آج بھی بے سرو سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، کشمیر کے زلزلے کے متاثرین کی بحالی کا کام ابھی تک نامکمل ہے، ان کا ذکر ٹاک شوز اور سیاسی ملاکھڑوں میں اس وقت سننے میں آتا ہے جب سیاسی حریف ایک دوسرے کا کچا چٹھہ کھولتے ہیں۔
الیون نائن بھی ہماری صنعتی تاریخ کا المناک باب ہے، جس دن کراچی اور لاہور میں بیک وقت دو فیکٹریوں میں آتشزدگی کے نتیجے میں سیکڑوں انسان راکھ کا ڈھیر بن گئے، صرف کراچی کی فیکٹری میں 300 ہلاکتیں ہوئیں، جس نے وقتی طور پر ساری قوم کو افسردہ اور ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جائے حادثہ پر پورے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں اور این جی اوز کے تانتے بندھ گئے تھے، فلمیں بنیں، ٹاک شوز ہوئے، دھواں دھار تقریریں اور دعوے سامنے آتے رہے۔ ایم ڈی سائٹ نے سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی اور لاپرواہی کے جرم پر فیکٹری کا الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو وزارت صنعت و تجارت نے ان کا NOC منسوخ کرکے مالک کو حکم دیا کہ مرنے والوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کرے ورنہ فیکٹری نیلام کرکے معاوضوں کی ادائیگی کردی جائے گی۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ نے بھی اپنی نااہلی اور کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ عذر پیش کردیا کہ مالکان ہمیں فیکٹریوں میں داخلہ اور انسپکشن کی اجازت نہیں دیتے، فیکٹریوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ سرکاری اہلکاروں کا داخلہ منع ہے۔آج چار ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود لواحقین جن کے گھرانوں کے کئی کئی افراد اس سانحے کی نذر ہوئے، معاوضہ و انصاف تو دور کی بات ہے، ان کی باقیات حاصل کرنے کے لیے کئی کئی بار DNA کرانے کے باوجود سرکاری محکموں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچ چکے ہیں۔
آتشزدگی جنریٹر کی آگ سے لگی ہو یا تخریبی کارروائی ہو، فیکٹری بھتہ گیروں نے جلائی ہو یا خود مالکان نے، انشورنس کے لیے جلائی ہو، حفاظتی اقدامات کی عدم فراہمی یا بہ دیگر متعلقہ اداروں کی غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ ہو، اس کی تمام تر ذمے داری صرف اور صرف حکومت کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
آتشزدگی کے اس واقعے نے عوام کی نفسیات پر خوف کی جو کیفیت طاری کی ہے اس کا ایک مظاہرہ کراچی میں ایک بلڈنگ سے گر کر جاں بحق ہونیوالے نوجوان کے واقعے کی صورت میں سامنے آیا ہے جس نے خارجی راستے استعمال کرنے کی بجائے ساتویں منزل کی کھڑکی سے باہر نکل کر جان بچانے کی کوشش کی، یقیناً اس نوجوان کے ذہن میں بلدیہ فیکٹری کے آتشزدگی کے ہولناک مناظر بھی ہوں گے اور حکومت کی بے حسی اور امدادی و حفاظتی اداروں ریسکیو کی نااہلی و عدم فعالیت بھی ہوگی۔
گلوکار جواد احمد نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے ساتھ ناقابل برداشت زیادتیاں ہورہی ہیں، حکمران بھول چکے ہیں کہ اگر مزدور اکٹھے ہوگئے تو انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ پاکستان میں مزدوروں کو انسان نہیں مشینی پرزہ سمجھا جاتا ہے، آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی جنگ ان کے شانہ بشانہ لڑوں گا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ پیش آنیوالے سانحے کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا، میں نے ان مزدوروں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کے لیے گیت تیار کیا ہے، جو حادثے کا شکار ہونے والے ہر فرد کی آواز ہوگا، جو ان کے ساتھ عقیدت و محبت اور اس تمنا اور دعا کے ساتھ ہے کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ سائٹ میں منعقدہ اس تقریب میں حادثے کے شکار افراد کے لواحقین کے علاوہ مزدور نمایندے اور پائیلر کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ اس قسم کے کنسرٹ دیگر صنعتی شہروں میں بھی کیے جائیں گے، دوسرا پروگرام جنوری میں فیصل آباد میں کیا جائے گا۔ جواد نے کہا کہ چندہ یا امداد جمع کرنے کے لیے کنسرٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن میں اس کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں مزدور جدوجہد کا راستہ اختیار کریں اور امداد خیرات و چندہ کے منتظر نہ رہیں۔
کم تنخواہوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے لوگ امداد و خیرات لینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ جواد احمد نے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ قابل صد ستائش ہے۔ ہمارے بہت سے خیراتی و رفاہی ادارے قوم کو چوراہوں پر بٹھا کر صرف کھانا کھلانے جیسے نمائشی اقدام کرکے نیک نامی اور چندہ و امداد حاصل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں جہاں پر لوگوں کو راغب کرنے کے لیے واضح طور پر تحریر ہوتا ہے کہ ''یہ مفت کھانا کم آمدنی والے اور غریب افراد کے لیے ہے تاکہ وہ یہ پیسہ بچا کر اپنے خاندان والوں کی ضروریات کے لیے استعمال کرسکیں''۔
اس قسم کے رفاہی کام سے بھکاریوں کی تعداد میں تو اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی اصلاح حال نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو معاشی جدوجہد میں شرکت اور انتھک محنت کی ترغیب دی جائے اور جو غریب افراد ہیں انھیں چھوٹے موٹے معاشی اسباب وسائل فراہم کرکے رزق حلال حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔
ہمارے فنکار کرکٹ، کھیلوں ، بسنت اور دیگر ہلے گلے کے مواقع پر تو خوب فعال نظر آتے ہیں اور ان کے لیے نغمے بھی تخلیق کرتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جواد احمد نے مزدوروں کے حالات کار، ان کو درپیش مشکلات اور ان کے احساسات و جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے یہ گیت خود تخلیق کرکے عملی جدوجہد کا آغاز اور اس کو پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں دوسرے فنکاروں، تنظیموں، مزدور نمایندوں، مخیر حضرات اور سول سوسائٹی کو بھی ساتھ دینا چاہیے تاکہ مزدوروں کی حالت زار میں کچھ بہتری آسکے، دنیا اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
لواحقین کے چہرے مغموم اور آنکھیں نم ناک تھیں۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم بڑے بڑے سانحات سے ہمکنار ہونے، انھیں بھلا دینے کے عادی اور ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔ ہمارے سامنے تو اقبالؔ کا یہ شعر بھی معنویت کھوتے دکھائی دے رہا ہے کہ:
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
دنیا کے دیگر ممالک میں اس قسم کے سانحات پر پوری قوم ایک ہوجاتی ہے۔ فنکار، گلوکار، اداکار، شاعر، ادیب، سرمایہ دار اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان کے تدارک اور ان سے نبرد آزما ہونے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا جیسے عمومی نوعیت کے حادثات کی برسی مناتے ہیں، اس مقام پر گلدستوں، پھولوں اور کارڈوں کے ڈھیر لگادیتے ہیں، موم بتیاں روشن کرتے ہیں اور خاموشی اختیار کرتے ہیں، لیکن ہم بڑے سے بڑے سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی قسم کے واقعات و سانحات کو پولیس، کمیشن یا حکومت کی تحویل میں دے کر بھلا بیٹھتے ہیں، پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے، نہ ہمیں یاد رہتا ہے کہ ان کا نتیجہ کیا نکلا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ خاندان آج بھی بے سرو سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، کشمیر کے زلزلے کے متاثرین کی بحالی کا کام ابھی تک نامکمل ہے، ان کا ذکر ٹاک شوز اور سیاسی ملاکھڑوں میں اس وقت سننے میں آتا ہے جب سیاسی حریف ایک دوسرے کا کچا چٹھہ کھولتے ہیں۔
الیون نائن بھی ہماری صنعتی تاریخ کا المناک باب ہے، جس دن کراچی اور لاہور میں بیک وقت دو فیکٹریوں میں آتشزدگی کے نتیجے میں سیکڑوں انسان راکھ کا ڈھیر بن گئے، صرف کراچی کی فیکٹری میں 300 ہلاکتیں ہوئیں، جس نے وقتی طور پر ساری قوم کو افسردہ اور ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جائے حادثہ پر پورے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں اور این جی اوز کے تانتے بندھ گئے تھے، فلمیں بنیں، ٹاک شوز ہوئے، دھواں دھار تقریریں اور دعوے سامنے آتے رہے۔ ایم ڈی سائٹ نے سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی اور لاپرواہی کے جرم پر فیکٹری کا الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو وزارت صنعت و تجارت نے ان کا NOC منسوخ کرکے مالک کو حکم دیا کہ مرنے والوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کرے ورنہ فیکٹری نیلام کرکے معاوضوں کی ادائیگی کردی جائے گی۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ نے بھی اپنی نااہلی اور کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ عذر پیش کردیا کہ مالکان ہمیں فیکٹریوں میں داخلہ اور انسپکشن کی اجازت نہیں دیتے، فیکٹریوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ سرکاری اہلکاروں کا داخلہ منع ہے۔آج چار ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود لواحقین جن کے گھرانوں کے کئی کئی افراد اس سانحے کی نذر ہوئے، معاوضہ و انصاف تو دور کی بات ہے، ان کی باقیات حاصل کرنے کے لیے کئی کئی بار DNA کرانے کے باوجود سرکاری محکموں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور فاقہ کشی کی نوبت کو پہنچ چکے ہیں۔
آتشزدگی جنریٹر کی آگ سے لگی ہو یا تخریبی کارروائی ہو، فیکٹری بھتہ گیروں نے جلائی ہو یا خود مالکان نے، انشورنس کے لیے جلائی ہو، حفاظتی اقدامات کی عدم فراہمی یا بہ دیگر متعلقہ اداروں کی غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ ہو، اس کی تمام تر ذمے داری صرف اور صرف حکومت کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
آتشزدگی کے اس واقعے نے عوام کی نفسیات پر خوف کی جو کیفیت طاری کی ہے اس کا ایک مظاہرہ کراچی میں ایک بلڈنگ سے گر کر جاں بحق ہونیوالے نوجوان کے واقعے کی صورت میں سامنے آیا ہے جس نے خارجی راستے استعمال کرنے کی بجائے ساتویں منزل کی کھڑکی سے باہر نکل کر جان بچانے کی کوشش کی، یقیناً اس نوجوان کے ذہن میں بلدیہ فیکٹری کے آتشزدگی کے ہولناک مناظر بھی ہوں گے اور حکومت کی بے حسی اور امدادی و حفاظتی اداروں ریسکیو کی نااہلی و عدم فعالیت بھی ہوگی۔
گلوکار جواد احمد نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے ساتھ ناقابل برداشت زیادتیاں ہورہی ہیں، حکمران بھول چکے ہیں کہ اگر مزدور اکٹھے ہوگئے تو انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ پاکستان میں مزدوروں کو انسان نہیں مشینی پرزہ سمجھا جاتا ہے، آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی جنگ ان کے شانہ بشانہ لڑوں گا۔
انھوں نے کہا کہ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ پیش آنیوالے سانحے کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا، میں نے ان مزدوروں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے کے لیے گیت تیار کیا ہے، جو حادثے کا شکار ہونے والے ہر فرد کی آواز ہوگا، جو ان کے ساتھ عقیدت و محبت اور اس تمنا اور دعا کے ساتھ ہے کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ سائٹ میں منعقدہ اس تقریب میں حادثے کے شکار افراد کے لواحقین کے علاوہ مزدور نمایندے اور پائیلر کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ اس قسم کے کنسرٹ دیگر صنعتی شہروں میں بھی کیے جائیں گے، دوسرا پروگرام جنوری میں فیصل آباد میں کیا جائے گا۔ جواد نے کہا کہ چندہ یا امداد جمع کرنے کے لیے کنسرٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن میں اس کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں مزدور جدوجہد کا راستہ اختیار کریں اور امداد خیرات و چندہ کے منتظر نہ رہیں۔
کم تنخواہوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے لوگ امداد و خیرات لینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ جواد احمد نے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ قابل صد ستائش ہے۔ ہمارے بہت سے خیراتی و رفاہی ادارے قوم کو چوراہوں پر بٹھا کر صرف کھانا کھلانے جیسے نمائشی اقدام کرکے نیک نامی اور چندہ و امداد حاصل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں جہاں پر لوگوں کو راغب کرنے کے لیے واضح طور پر تحریر ہوتا ہے کہ ''یہ مفت کھانا کم آمدنی والے اور غریب افراد کے لیے ہے تاکہ وہ یہ پیسہ بچا کر اپنے خاندان والوں کی ضروریات کے لیے استعمال کرسکیں''۔
اس قسم کے رفاہی کام سے بھکاریوں کی تعداد میں تو اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی اصلاح حال نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو معاشی جدوجہد میں شرکت اور انتھک محنت کی ترغیب دی جائے اور جو غریب افراد ہیں انھیں چھوٹے موٹے معاشی اسباب وسائل فراہم کرکے رزق حلال حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔
ہمارے فنکار کرکٹ، کھیلوں ، بسنت اور دیگر ہلے گلے کے مواقع پر تو خوب فعال نظر آتے ہیں اور ان کے لیے نغمے بھی تخلیق کرتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جواد احمد نے مزدوروں کے حالات کار، ان کو درپیش مشکلات اور ان کے احساسات و جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے یہ گیت خود تخلیق کرکے عملی جدوجہد کا آغاز اور اس کو پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں دوسرے فنکاروں، تنظیموں، مزدور نمایندوں، مخیر حضرات اور سول سوسائٹی کو بھی ساتھ دینا چاہیے تاکہ مزدوروں کی حالت زار میں کچھ بہتری آسکے، دنیا اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔