رئیس الاحرار‘مولانا محمد علی جوہر
میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
مولانا محمد علی جوہر 1878ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں والد کا شفیق سایہ سر سے اٹھ گیا اور ان کی پرورش اور تربیت کا بوجھ ان کی والدہ بی امّاں کے سر پر آپڑا۔ ان کو گھر میں اردو، فارسی کی تعلیم دی بعدازاں بریلی کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل کرایا۔ گیارہ سال کی عمر میں وہ علی گڑھ آگئے جب بیس سال کے ہوئے تو الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے، پھر انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے لیے آکسفورڈ کا تعلیمی سفر کیا وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھیں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے سیکریٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انڈین سول سروس کے امتحان میں آپ کو ناکامی ہوئی تو ہندوستان واپس آکر رام پور میں افسر تعلیمات مقرر ہوگئے مگر جلد ہی اس ملازمت سے کنارہ کش ہوگئے اس کے بعد ریاست بڑورہ میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہوگئے مگر پھر اس ملازمت سے بھی الگ ہوگئے اور پھر یہیں سے ان کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔
1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔ آپ 1911 میں کلکتہ آئے اور یہاں سے ایک انگریزی ہفت روزہ اخبار ''کامریڈ'' جاری کیا جس نے اخباری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا، اس اخبار کی حق گوئی، بے باکی اور عوام دوستی بہت جلد اس کی عالمگیر شہرت کا سبب بن گئی۔ کامریڈ میں دنیائے اسلام کے واقعات پر بھی مضامین ہوتے تھے۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کی حمایت کا پورا پورا حق ادا کیا بلکہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی حمایت میں بھی بہت کچھ لکھا۔
جب 1914 میں لندن ٹائمز نے ایک اشتعال انگیز مقالہ شایع کیا جس میں ترکوں کو دھمکیاں دے کر کہا گیا تھاکہ وہ اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں ورنہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا تو اس کے جواب میں مولانا محمد علی جوہر نے اسی عنوان ''چوائس آف ترکس'' کے تحت ایک طویل مضمون چالیس گھنٹے لگاتار بغیر کچھ کھائے پیئے محنت شاقہ کے بعد سپرد قلم کیا جس میں برطانوی حکومت کی ترکوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ اس پر کامریڈ کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اخبار بند کرنا پڑا۔ 1914 میں پہلی عالمگیر جنگ چھڑی، ترکوں کی حمایت میں گورنمنٹ نے مولانا محمد علی جوہر کو گرفتار کرکے قید کردیا۔
1913میں دلّی سے اُردو کا اخبار ''ہمدرد'' جاری کیا۔ ''کامریڈ'' اور ''ہمدرد'' دونوں اخباروں نے مسلمانان پاک و ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد دی۔اس سے پہلے 1912 میں کامریڈ بھی دہلی لے آئے تھے۔ اب محمد علی جوہر صرف ایڈیٹر ہی نہ تھے بلکہ صحیح معنوں میں لیڈر تھے۔ اب قوم ان کی نہ تھی وہ قوم کے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کو اللہ تعالیٰ نے فکر و سیرت کے بے شمار محاسن سے نوازا تھا، ان کی زندگی سیرت اسلامی کا ایک حسین مرقع تھی ان کی گوناگوں خوبیوں نے انھیں اپنے معاصرین میں منفرد و ممتاز بنادیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ تمام صلاحیتیں اور وہ تمام کمالات بدرجہ اتم عطا فرمائے تھے جو ایک قومی درجے کے بلند پایہ رہنما کے لیے لازمی ہوتے ہیں، ان میں خلوص کا بحر بیکراں موجزن رہتا تھا، خطابت کی جادوگری ہو یا صحافت کی سحر آفرینی وہ ہر میدان کے مرد میدان تھے، ان کی شخصیت میں دلآویزی کے ساتھ ساتھ پارے کی سیمابی اور بجلی کی بے تابی بھی بخوبی تھی ان میں ایک منفرد قلندرانہ شان تھی کہ انھوں نے کبھی بات کہنے میں کسی کی پروا نہ کی۔ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اس لحاظ سے فقید المثال ہے کہ وہ اردو اور انگریزی کے بہترین انشاء پرداز اور صحافی تھے ، سچائی ان کا اصل جوہر تھا۔ مایہ ناز دانشور مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب ''ذاتی ڈائری'' میں مولانا محمد علی جوہر کا تعارف یوں تحریر کیا ہے۔
''ایک ایسا شخص جو ایک طرف وزیر ہند مسٹر مانٹیگر اور وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج کے سامنے لندن میں گھنٹوں مسئلہ خلافت پر آزادانہ تقریر کرسکتا ہو، جوعین ہیجان مخالفت میں لندن اور پیرس کی بڑی بڑی مجلسوں میں ترکوں کی حمایت میں مدلل اور شفتہ و برجستہ خطاب کرسکتا ہو، جو وائسرائے اور گورنروں کے سامنے قوانین کے سلسلے میں مخالفانہ بحثیں کرکے انھیں قائل کرسکتا ہو۔ اخبار کامریڈ میں سیاست حاضرہ اور مذہب پر دس دس اور بیس بیس کالم کے مضامین بہترین ادب و انشاء کے ساتھ سپرد قلم کرسکتا ہو، انگریزوں کی کلب لائف میں ایسا گھل مل جائے کہ انھی میں سے معلوم ہو اور دوسری طرف مسجد کے منبر پر وعظ کہنے کھڑا ہو تو روتے روتے اپنی داڑھی بھگولے اور سننے والوں کی ہچکیاں بندھ جائیں۔ محفل سماع میں بیٹھے تو اس کا وجد وحال دیکھ کر دوسروں کو وجد آجائے۔ مسئلہ قتل مرتد پر جب فقہی استدلال شروع کرے تو اچھے اچھے اہل علم اش اش کر اٹھیں۔ آزاد خیال اتنا کہ ہر کلمہ گو کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ لے، منقشف ایسا کہ ترکی کے آمر مصطفی کمال پاشااور افغانستان کے امیر امان اللہ خان کو آخر تک معاف نہ کرے، نماز کا پابند اتنا کہ برطانوی ایوان پارلیمنٹ کے برآمدے میں بھی مصلیٰ بچھاکر کھڑا ہوجائے۔
دلیر اتنا کہ سلطان ابن مسعود والی نجد و حجاز کے منہ پر بھرے مجمع میں سب کچھ کہہ سن کر رکھ دے، ادیبوں کی محفل میں ادیب، شاعروں کی مجلس میں غزل گو، اہل سیاست کی صف میں ممتاز، عوام و خواص دونوں کے اعتماد و عقیدت سے سرفراز''۔مولانا محمد علی جوہر نے اتحاد رابطہ بین المسلمین کے لیے خلافت تحریک چلائی جس کے محرکین میں ان کے علاوہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا ابوالکلام آزاد، نواب سلیم اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جب خلاف تحریک کے اثرات تیزی سے پھیلنے لگے تو انگریزی حکومت نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور مولانامحمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا نثار احمد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو پر مقدمہ چلایا گیا ۔22 دسمبر 1921 کو کراچی کے خالقدینا ہال میں مقدمے کی سماعت ہوئی اور وہ تقریباً دو سال کے لیے نظر بند کردیے گئے۔
خرابی صحت کے باوجود 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے لندن کا سفر اختیار کیا۔ گول میز کانفرنس سے انھوں نے انگریزوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو آخری لندن لاجواب تقریر کی وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔ انھوں نے حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بے باکی سے گرج کر کہا ''ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔
کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا''۔4 جنوری 1931 کو گول میز کانفرنس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی، مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی کی تحریک پر ان کی نعش فلسطین لے جائی گئی اور ان کے جسم خاکی کو سرزمین انبیاء بیت المقدس کے گوشے میں جگہ ملی۔ ؎
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
مولانا محمد علی جوہر 1878ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں والد کا شفیق سایہ سر سے اٹھ گیا اور ان کی پرورش اور تربیت کا بوجھ ان کی والدہ بی امّاں کے سر پر آپڑا۔ ان کو گھر میں اردو، فارسی کی تعلیم دی بعدازاں بریلی کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخل کرایا۔ گیارہ سال کی عمر میں وہ علی گڑھ آگئے جب بیس سال کے ہوئے تو الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے، پھر انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے لیے آکسفورڈ کا تعلیمی سفر کیا وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھیں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے سیکریٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انڈین سول سروس کے امتحان میں آپ کو ناکامی ہوئی تو ہندوستان واپس آکر رام پور میں افسر تعلیمات مقرر ہوگئے مگر جلد ہی اس ملازمت سے کنارہ کش ہوگئے اس کے بعد ریاست بڑورہ میں کمشنر کے عہدے پر فائز ہوگئے مگر پھر اس ملازمت سے بھی الگ ہوگئے اور پھر یہیں سے ان کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔
1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔ آپ 1911 میں کلکتہ آئے اور یہاں سے ایک انگریزی ہفت روزہ اخبار ''کامریڈ'' جاری کیا جس نے اخباری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا، اس اخبار کی حق گوئی، بے باکی اور عوام دوستی بہت جلد اس کی عالمگیر شہرت کا سبب بن گئی۔ کامریڈ میں دنیائے اسلام کے واقعات پر بھی مضامین ہوتے تھے۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کی حمایت کا پورا پورا حق ادا کیا بلکہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی حمایت میں بھی بہت کچھ لکھا۔
جب 1914 میں لندن ٹائمز نے ایک اشتعال انگیز مقالہ شایع کیا جس میں ترکوں کو دھمکیاں دے کر کہا گیا تھاکہ وہ اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں ورنہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا تو اس کے جواب میں مولانا محمد علی جوہر نے اسی عنوان ''چوائس آف ترکس'' کے تحت ایک طویل مضمون چالیس گھنٹے لگاتار بغیر کچھ کھائے پیئے محنت شاقہ کے بعد سپرد قلم کیا جس میں برطانوی حکومت کی ترکوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ اس پر کامریڈ کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اخبار بند کرنا پڑا۔ 1914 میں پہلی عالمگیر جنگ چھڑی، ترکوں کی حمایت میں گورنمنٹ نے مولانا محمد علی جوہر کو گرفتار کرکے قید کردیا۔
1913میں دلّی سے اُردو کا اخبار ''ہمدرد'' جاری کیا۔ ''کامریڈ'' اور ''ہمدرد'' دونوں اخباروں نے مسلمانان پاک و ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد دی۔اس سے پہلے 1912 میں کامریڈ بھی دہلی لے آئے تھے۔ اب محمد علی جوہر صرف ایڈیٹر ہی نہ تھے بلکہ صحیح معنوں میں لیڈر تھے۔ اب قوم ان کی نہ تھی وہ قوم کے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کو اللہ تعالیٰ نے فکر و سیرت کے بے شمار محاسن سے نوازا تھا، ان کی زندگی سیرت اسلامی کا ایک حسین مرقع تھی ان کی گوناگوں خوبیوں نے انھیں اپنے معاصرین میں منفرد و ممتاز بنادیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ تمام صلاحیتیں اور وہ تمام کمالات بدرجہ اتم عطا فرمائے تھے جو ایک قومی درجے کے بلند پایہ رہنما کے لیے لازمی ہوتے ہیں، ان میں خلوص کا بحر بیکراں موجزن رہتا تھا، خطابت کی جادوگری ہو یا صحافت کی سحر آفرینی وہ ہر میدان کے مرد میدان تھے، ان کی شخصیت میں دلآویزی کے ساتھ ساتھ پارے کی سیمابی اور بجلی کی بے تابی بھی بخوبی تھی ان میں ایک منفرد قلندرانہ شان تھی کہ انھوں نے کبھی بات کہنے میں کسی کی پروا نہ کی۔ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اس لحاظ سے فقید المثال ہے کہ وہ اردو اور انگریزی کے بہترین انشاء پرداز اور صحافی تھے ، سچائی ان کا اصل جوہر تھا۔ مایہ ناز دانشور مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب ''ذاتی ڈائری'' میں مولانا محمد علی جوہر کا تعارف یوں تحریر کیا ہے۔
''ایک ایسا شخص جو ایک طرف وزیر ہند مسٹر مانٹیگر اور وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج کے سامنے لندن میں گھنٹوں مسئلہ خلافت پر آزادانہ تقریر کرسکتا ہو، جوعین ہیجان مخالفت میں لندن اور پیرس کی بڑی بڑی مجلسوں میں ترکوں کی حمایت میں مدلل اور شفتہ و برجستہ خطاب کرسکتا ہو، جو وائسرائے اور گورنروں کے سامنے قوانین کے سلسلے میں مخالفانہ بحثیں کرکے انھیں قائل کرسکتا ہو۔ اخبار کامریڈ میں سیاست حاضرہ اور مذہب پر دس دس اور بیس بیس کالم کے مضامین بہترین ادب و انشاء کے ساتھ سپرد قلم کرسکتا ہو، انگریزوں کی کلب لائف میں ایسا گھل مل جائے کہ انھی میں سے معلوم ہو اور دوسری طرف مسجد کے منبر پر وعظ کہنے کھڑا ہو تو روتے روتے اپنی داڑھی بھگولے اور سننے والوں کی ہچکیاں بندھ جائیں۔ محفل سماع میں بیٹھے تو اس کا وجد وحال دیکھ کر دوسروں کو وجد آجائے۔ مسئلہ قتل مرتد پر جب فقہی استدلال شروع کرے تو اچھے اچھے اہل علم اش اش کر اٹھیں۔ آزاد خیال اتنا کہ ہر کلمہ گو کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ لے، منقشف ایسا کہ ترکی کے آمر مصطفی کمال پاشااور افغانستان کے امیر امان اللہ خان کو آخر تک معاف نہ کرے، نماز کا پابند اتنا کہ برطانوی ایوان پارلیمنٹ کے برآمدے میں بھی مصلیٰ بچھاکر کھڑا ہوجائے۔
دلیر اتنا کہ سلطان ابن مسعود والی نجد و حجاز کے منہ پر بھرے مجمع میں سب کچھ کہہ سن کر رکھ دے، ادیبوں کی محفل میں ادیب، شاعروں کی مجلس میں غزل گو، اہل سیاست کی صف میں ممتاز، عوام و خواص دونوں کے اعتماد و عقیدت سے سرفراز''۔مولانا محمد علی جوہر نے اتحاد رابطہ بین المسلمین کے لیے خلافت تحریک چلائی جس کے محرکین میں ان کے علاوہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا ابوالکلام آزاد، نواب سلیم اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جب خلاف تحریک کے اثرات تیزی سے پھیلنے لگے تو انگریزی حکومت نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور مولانامحمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا نثار احمد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو پر مقدمہ چلایا گیا ۔22 دسمبر 1921 کو کراچی کے خالقدینا ہال میں مقدمے کی سماعت ہوئی اور وہ تقریباً دو سال کے لیے نظر بند کردیے گئے۔
خرابی صحت کے باوجود 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے لندن کا سفر اختیار کیا۔ گول میز کانفرنس سے انھوں نے انگریزوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو آخری لندن لاجواب تقریر کی وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔ انھوں نے حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بے باکی سے گرج کر کہا ''ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔
کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا''۔4 جنوری 1931 کو گول میز کانفرنس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی، مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی کی تحریک پر ان کی نعش فلسطین لے جائی گئی اور ان کے جسم خاکی کو سرزمین انبیاء بیت المقدس کے گوشے میں جگہ ملی۔ ؎
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے