مسئلہ کشمیر اور اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی
گزشتہ 70 برسوں سے ہماری یہ شہ رگ ہمارے دشمن کے قبضے میں چلی آرہی ہے
بانی پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تعبیر کیا تھا اورکس قدر افسوس اور صدمے کی بات ہے کہ گزشتہ 70 برسوں سے ہماری یہ شہ رگ ہمارے دشمن کے قبضے میں چلی آرہی ہے۔ کیا عالمی ادارے، اقوام عالم، اقوام متحدہ یا اس قماش کے تمام اداروں پر ''مسئلہ کشمیر'' ایک سوالیہ نشان کے ساتھ بین الاقوامی منظرنامے پر موجود ہے۔ اور اب کشمیر کی آزادی کے بڑے بڑے رہنما اسے انسانی حقوق کا قبرستان کہنے پر مجبور خود کو پاتے ہیں۔ کہاں جنت نظیر کشمیر کے لیے یہ لقب اور کہاں اس کشمیر کو انسانی حقوق کا قبرستان سمجھ لینا بے بس اور بے کسی کی انتہا نہیں تو اور پھر کیا ہے؟
27 اکتوبر 1947 کشمیر پر بھارتی فوج کشی کا دن کہا جاتا ہے اور ہر سال 5 فروری کوکشمیر ڈے منایا جاتا ہے۔ 70 برس ہوچلے بھارت اپنی فوج کے ذریعے کشمیر میں کشمیریوں یا وہاں رہنے والے شہریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اس حوالے سے بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے بدترین ریکارڈ میں مسلسل اضافہ کیے جا رہا ہے مگرکشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی تحریک آزادی کشمیر کے پروانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکی۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ اور اب پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان اس حوالے سے سرگرم عمل ہیں اور بھارتی غلامی اور جارحیت سے چھٹکارے کے لیے اپنا تازہ اور گرم خون پیش کر رہے ہیں۔
کشمیر پر غاصبانہ قبضہ بھارت کی ایک ایسی ننگی جارحیت ہے جس نے جہاں ایک طرف انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، وہیں دوسری طرف ایک قابض طاقتور کے طور پر چاروں جنیوا کنونشنز اور ان کے مشترکہ آرٹیکل نمبر 3 کی صریحاً خلاف ورزی بھی کی ہے۔
ستم بالائے ستم بھارت کا یہ واویلا پوری دنیا کی فہم سے باہر چلا آرہا ہے کہ آزادی کی تحریک کو وہ دہشت گردی کہہ رہا ہے۔ان گنت کشمیریوں کی شہادت، ہزاروں کی تعداد میں بصارت اور انسانی اعضا سے محروم بے گناہ لیکن بہادر کشمیریوں کو کون اور کیسے دہشت گرد کہا یا مانا جاسکتا ہے؟ کشمیریوں پر برسہا برس سے عرصہ حیات تنگ چلا آرہا ہے، ان کی املاک تباہ، عزت نفس مجروح، حرمتیں غیر محفوظ، ہزاروں لاپتہ اور گمنام اجتماعی قبروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان کشمیر اور کشمیریوں کا ابتدا ہی سے سب سے بڑا اور موثر وکیل رہا ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد لوگ کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ بے پناہ مسائل کے باوجود پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے بڑی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے کے بدلے بڑے معاشی فوائد کی پیش کشوں کو حقارت سے مسترد بھی کیا ہے لہٰذا کشمیر کے حوالے سے بھارت کی برہنہ ہیئت کو دیکھتے ہوئے اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو محض دو طرفہ تعلقات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارتی ظلم و تشدد اور اس کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں جتنی مزاحمت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اسی طرح کشمیری صفوں میں جتنا اتحاد آج موجود ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنسیں، بشیر احمد شاہ اور آسیہ اندرابی کی آزادی پسند جماعتیں اب ''متحدہ محاذ'' کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ یاسین ملک کی سربراہی میں قائم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ بھی حریت کانفرنس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و تشدد کے خلاف زبردست احتجاج کیا ہے اور حریت کانفرنس کے رہنماؤں کو آزادی کشمیر کی جدوجہد میں ہر ممکن تعاون پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھارت سے مفاہمت و مذاکرات کی پالیسی اختیار کی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے مفاہمت کا جواب مخاصمت سے دیا۔ گزشتہ چند ماہ کی انتہائی معاندانہ و مخاصمانہ پالیسی اور پاکستانی سرحدوں پر بلااشتعال گولہ باری کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے خطے کے وسیع تر مفاد اور امن و استحکام کے لیے تحمل کی پالیسی اپنائے رکھی۔
بھارت کو کشمیر میں جاری ظلم و ستم سے بلاتاخیر روکنا عالمی طاقتوں کی ناگزیر ذمے داری ہے یہی ملکی و غیر ملکی منظرنامے کی ضرورت اور سچائی ہے، ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن و استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کا انتظارکیے بغیر کشمیر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور ایک خصوصی نمائندے کا تعین کرے۔ اگر دوسرے خطوں کے لیے خصوصی نمائندے ہوسکتے ہیں تو کشمیر کے لیے کیوں نہیں؟
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک امید افزا امر ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنازعہ کشمیرکی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو حل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی دلچسپی وقت کی ضرورت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تقاضا بھی ہے جن کے تحت امریکا ساری عالمی برادری کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کی پابند ہے۔ سلامتی کونسل کی واضح قراردادوں کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینا برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
وقت کا مورخ گواہ ہے کہ جب کشمیری مجاہدین سری نگر پر قبضہ کرنے والے تھے اور ڈوگرہ مہاراجہ تخت چھوڑ کر فرار ہوچکا تھا تو بھارت نے خود اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی تھی اور سلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کرکے جنگ بندی کی قرارداد منظور کرائی تھی۔ مگر بعد میں نہ صرف اس وعدے سے مکر گیا بلکہ سات دہائیوں سے اہل کشمیر پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ امریکا اور دوسری عالمی طاقتیں یہ سب برسہا برس سے دیکھ رہی ہیں مگر مجرمانہ خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں مسئلہ کشمیر پر ڈیڈلاک امریکا جیسا طاقتور ملک ہی توڑسکتا ہے، کیونکہ اس نے بوسنیا، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں کبھی ایسا ہی کردار ادا کرکے ان مسائل کو حل کرایا تھا، جموں و کشمیر میں اس طرح کا کردار ویسے بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس کی ذمے داری میں شامل ہے۔ وہ اپنی ''عنایتوں'' کے طفیل بھارت پر دباؤ ڈال کر تنازعہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرسکتا ہے، اس سے بین الاقوامی طور پر امریکا کی گرتی ہوئی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ دنیا کی واحد سپرپاور کے طاقتورصدرکی حیثیت سے وہ اگر جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسائل وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرادیں تو وہ ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے عالم انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچا کر امن و استحکام کے راستے پر ڈال دیا۔
اہل کشمیر کے زبردست جذبہ مزاحمت کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ریاستی دہشت گردی سے کچلنا ناممکن ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ بلاتاخیر پاکستان کی حکومت اور کشمیری قیادت سے مذاکرات کرکے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے راستہ ہموار کرلے۔ خطے میں پاک بھارت کشیدگی ختم ہوگی تو اس علاقے میں امن و خوشحالی آئے گی اور برصغیر کے پونے دو ارب عوام جنگ کے خطرات اور غربت و افلاس سے نجات پائیں گے۔
27 اکتوبر 1947 کشمیر پر بھارتی فوج کشی کا دن کہا جاتا ہے اور ہر سال 5 فروری کوکشمیر ڈے منایا جاتا ہے۔ 70 برس ہوچلے بھارت اپنی فوج کے ذریعے کشمیر میں کشمیریوں یا وہاں رہنے والے شہریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اس حوالے سے بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے بدترین ریکارڈ میں مسلسل اضافہ کیے جا رہا ہے مگرکشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی تحریک آزادی کشمیر کے پروانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکی۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ اور اب پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان اس حوالے سے سرگرم عمل ہیں اور بھارتی غلامی اور جارحیت سے چھٹکارے کے لیے اپنا تازہ اور گرم خون پیش کر رہے ہیں۔
کشمیر پر غاصبانہ قبضہ بھارت کی ایک ایسی ننگی جارحیت ہے جس نے جہاں ایک طرف انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، وہیں دوسری طرف ایک قابض طاقتور کے طور پر چاروں جنیوا کنونشنز اور ان کے مشترکہ آرٹیکل نمبر 3 کی صریحاً خلاف ورزی بھی کی ہے۔
ستم بالائے ستم بھارت کا یہ واویلا پوری دنیا کی فہم سے باہر چلا آرہا ہے کہ آزادی کی تحریک کو وہ دہشت گردی کہہ رہا ہے۔ان گنت کشمیریوں کی شہادت، ہزاروں کی تعداد میں بصارت اور انسانی اعضا سے محروم بے گناہ لیکن بہادر کشمیریوں کو کون اور کیسے دہشت گرد کہا یا مانا جاسکتا ہے؟ کشمیریوں پر برسہا برس سے عرصہ حیات تنگ چلا آرہا ہے، ان کی املاک تباہ، عزت نفس مجروح، حرمتیں غیر محفوظ، ہزاروں لاپتہ اور گمنام اجتماعی قبروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
پاکستان کشمیر اور کشمیریوں کا ابتدا ہی سے سب سے بڑا اور موثر وکیل رہا ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد لوگ کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ بے پناہ مسائل کے باوجود پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے بڑی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے کے بدلے بڑے معاشی فوائد کی پیش کشوں کو حقارت سے مسترد بھی کیا ہے لہٰذا کشمیر کے حوالے سے بھارت کی برہنہ ہیئت کو دیکھتے ہوئے اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو محض دو طرفہ تعلقات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بھارتی ظلم و تشدد اور اس کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں جتنی مزاحمت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اسی طرح کشمیری صفوں میں جتنا اتحاد آج موجود ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنسیں، بشیر احمد شاہ اور آسیہ اندرابی کی آزادی پسند جماعتیں اب ''متحدہ محاذ'' کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ یاسین ملک کی سربراہی میں قائم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ بھی حریت کانفرنس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم و تشدد کے خلاف زبردست احتجاج کیا ہے اور حریت کانفرنس کے رہنماؤں کو آزادی کشمیر کی جدوجہد میں ہر ممکن تعاون پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے بھارت سے مفاہمت و مذاکرات کی پالیسی اختیار کی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے مفاہمت کا جواب مخاصمت سے دیا۔ گزشتہ چند ماہ کی انتہائی معاندانہ و مخاصمانہ پالیسی اور پاکستانی سرحدوں پر بلااشتعال گولہ باری کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے خطے کے وسیع تر مفاد اور امن و استحکام کے لیے تحمل کی پالیسی اپنائے رکھی۔
بھارت کو کشمیر میں جاری ظلم و ستم سے بلاتاخیر روکنا عالمی طاقتوں کی ناگزیر ذمے داری ہے یہی ملکی و غیر ملکی منظرنامے کی ضرورت اور سچائی ہے، ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن و استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کا انتظارکیے بغیر کشمیر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور ایک خصوصی نمائندے کا تعین کرے۔ اگر دوسرے خطوں کے لیے خصوصی نمائندے ہوسکتے ہیں تو کشمیر کے لیے کیوں نہیں؟
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک امید افزا امر ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنازعہ کشمیرکی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو حل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی دلچسپی وقت کی ضرورت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تقاضا بھی ہے جن کے تحت امریکا ساری عالمی برادری کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کی پابند ہے۔ سلامتی کونسل کی واضح قراردادوں کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینا برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
وقت کا مورخ گواہ ہے کہ جب کشمیری مجاہدین سری نگر پر قبضہ کرنے والے تھے اور ڈوگرہ مہاراجہ تخت چھوڑ کر فرار ہوچکا تھا تو بھارت نے خود اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی تھی اور سلامتی کونسل میں کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کرکے جنگ بندی کی قرارداد منظور کرائی تھی۔ مگر بعد میں نہ صرف اس وعدے سے مکر گیا بلکہ سات دہائیوں سے اہل کشمیر پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ امریکا اور دوسری عالمی طاقتیں یہ سب برسہا برس سے دیکھ رہی ہیں مگر مجرمانہ خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں مسئلہ کشمیر پر ڈیڈلاک امریکا جیسا طاقتور ملک ہی توڑسکتا ہے، کیونکہ اس نے بوسنیا، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں کبھی ایسا ہی کردار ادا کرکے ان مسائل کو حل کرایا تھا، جموں و کشمیر میں اس طرح کا کردار ویسے بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس کی ذمے داری میں شامل ہے۔ وہ اپنی ''عنایتوں'' کے طفیل بھارت پر دباؤ ڈال کر تنازعہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرسکتا ہے، اس سے بین الاقوامی طور پر امریکا کی گرتی ہوئی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا۔ دنیا کی واحد سپرپاور کے طاقتورصدرکی حیثیت سے وہ اگر جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسائل وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرادیں تو وہ ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے عالم انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچا کر امن و استحکام کے راستے پر ڈال دیا۔
اہل کشمیر کے زبردست جذبہ مزاحمت کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ریاستی دہشت گردی سے کچلنا ناممکن ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ بلاتاخیر پاکستان کی حکومت اور کشمیری قیادت سے مذاکرات کرکے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے راستہ ہموار کرلے۔ خطے میں پاک بھارت کشیدگی ختم ہوگی تو اس علاقے میں امن و خوشحالی آئے گی اور برصغیر کے پونے دو ارب عوام جنگ کے خطرات اور غربت و افلاس سے نجات پائیں گے۔