کیا موقع ضائع ہو گیا

پاکستانی عوام کو جمہوریت کم ہی نصیب ہوئی اور جو ہوئی وہ بھی اتنی...

شاہ زیب خانزادہ

لاہور:
ضایع ہو گیا' کیا جمہوریت کو مضبوط کرنے کا انتہائی شاندار موقع ضایع ہو گیا۔ ایسا موقع جس میں حکومت' اپوزیشن' عدلیہ اور میڈیا سب کی بقاء جمہوریت سے وابستہ ہو گئی تھی۔ ایسا موقع کہ جس میں اسٹیبلشمٹ پہلی دفعہ دیوار سے لگی نظر آئی اور اسے اس کام تک مختصر کیا جا سکتا تھا جو اسے کرنا چاہیے۔ کیا واقعی یہ شاندار موقع ضایع ہو گیا۔

پاکستانی عوام کو جمہوریت کم ہی نصیب ہوئی اور جو ہوئی وہ بھی اتنی کہ جتنی اسٹیبلشمنٹ نے مناسب سمجھا۔ خارجہ پالیسی اور نیشنل سکیورٹی پالیسی تو اپنے پاس رکھی ہی مگر کچھ وزیر بھی اپنی مرضی کے لگوائے۔ اس کے باوجود کبھی 2 سال اور کبھی تین سال میں جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا۔ اپوزیشن جماعت بھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر اس پتلی تماشے کا حصہ بنتی رہی اور عوام پر کم، اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ بھروسہ کیا۔

ایجنسیوں کی مدد سے سیاسی اتحاد بھی بنائے گئے اور جب فوجی ڈکٹیٹر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ مگر 2008ء کے انتخابات سے پہلے جلا وطنی نے سیاسی قیادت کو اتنا سبق ضرور دیدیا کہ ان کا حکومت میں تو کیا ملک میں رہنا بھی صرف اور صرف جمہوریت میں ہی ممکن ہے۔ اپوزیشن کو فرینڈلی ہونے کے طعنے سننے پڑے مگر پھر بھی ایسی کوئی کوشش نظر نہ آئی جس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن حکومت کے خلاف محاذ بناتے نظر آئے ہوں۔

ادھرپیپلزپارٹی اور اتحادیوں کی حکومت بری حکمرانی کے باعث عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ جمہوریت ہی ان کے لیے بہترین نظام ہے۔ معیشت پر توجہ دی نہ گڈگورننس پر' ملکی بہتری کے لیے کوئی ویژن دیا نہ اچھی حکومتی ٹیم تشکیل دی۔ قومی اداروں میں خساروں کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ تھوڑے ہی عرصے میں حکومت مقبولیت کھو بیٹھی۔ اپوزیشن نے اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف نہیں دیکھا لیکن اپنا ایک نیا قبلہ بنا لیا اور تھا عدلیہ۔ اس نے پارلیمینٹ میں دبائو ڈالنے کے بجائے عدلیہ کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈالنے کو ترجیح دی گئی۔

میمو کیس میں تو پٹیشن کرتے ہوئے خود ہی فرما دیا کہ پارلیمنٹ میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں جلسے جلوس اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ وہ پارلیمنٹ جو اٹھارویں ترمیم کے بعد بڑی طاقتور اور بااختیار نظر آ رہی تھی کمزور ہوگئی۔ ادھر اب ساڑھے چار سال بعد جب الیکشن سر پر ہیں تو نیب کے ذریعے شریف برادران کے کیسز کھول کر سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ درجہ حرارت کس حد تک بڑھ سکتا ہے اس کا اندازہ حمزہ شہباز کے حالیہ بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے صاف صاف صدر آصف زرداری پر حملے کیے۔

دوسری طرف جمہوریت کے لیے انتہائی خوش آیندہ بات یہ تھی کہ موجودہ عدلیہ نے خود پر آیندہ پی سی او حرام کر کے اپنا مستقبل بھی جمہوریت سے منسلک کر دیا۔ عدلیہ اور حکومت میں تصادم کی نہیں بلکہ تعاون کی فضاء نظر آنی چاہیے تھی مگر تصادم کا ماحول پیدا کر دیا گیا اور تصادم اتنا بڑھا کہ ایک وزیراعظم کو فارغ ہونا پڑا۔ کبھی NRO کا عدالت میں دفاع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کبھی اپیل میں جانے کا۔ وزیراعظم کی سزا کو تسلیم بھی نہیں کیا مگر اپیل بھی نہیں کی۔

ایک خط کی بنا پر تصادم کی نئی نئی راہیں کھلتی گئیں۔ عدالت نے بھی یہ نہ سوچا کہ عدالتی معاملات اگر آئین اور قانون کے تحت رہیں گے تو ہی عدلیہ کی پوزیشن مستحکم رہے گی۔ آج اگر پیپلزپارٹی کی حکومت پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے تو خود عدالت بھی تنقید سے محفوظ نہیں۔ بہت سے نقادوں نے اپنی توپوں کا رخ عدلیہ کی طرف بھی کیا ہوا ہے۔


تیسرا کردار میڈیا کا ہے۔ آزاد الیکٹرانک میڈیا پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں ہی وجود میں آیا مگر پھر اسی دور میں اس پر پابندیاں لگ گئیں۔ جنرل مشرف کے جس اقدام پر تنقید ہوتی تو یا تو وہ اینکرز کو آف ایئر کرا دیتے یا پھر چینلز ہی کو بلیک آؤٹ کر دیتے۔ سیاسی جماعتیں ایسے وقت میں میڈیا کی آزادی کی علمبردار بن گئیں اور میڈیا ملک میں مکمل جمہوریت کا۔ مگر 2008ء کے انتخابات کے بعد وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کے تعلقات میڈیا سے بھی خراب ہو گئے۔

جو میڈیا اینکرز جمہوریت کے لیے سیاستدانوں کی امید تھے انھیں سیاسی اداکار ہونے کے طعنے دیے گئے۔ میڈیا کے ایک حصے نے بھی غیر جانبداری کی حدود پار کرتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ حکومت کی کارکردگی جو بری تو تھی ہی اس کی شکل کو مزید برا بنا کر پیش کیا گیا۔ افواہوں کے بازار گرم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حکومت میڈیا کو بھی اپنی ایک اپوزیشن جماعت ہی سمجھتی ہے۔

ساڑھے چارسالوں میں اتنا کچھ ہونے کے بعد کیا موقع ضایع ہو گیا۔ کیا جمہوریت کو مضبوط کرنے کا شاندار موقع ضایع ہو گیا۔ اب بھی وقت باقی ہے۔ حکومت کے پاس ملک اور عوام کے حالات کی بہتری کے لیے وقت نہیں رہ گیا۔ ویژن اور ٹیم پہلے ہی نہ تھی اور اگر اب ہو بھی تو فرق نہیں پڑتا۔ جو چند ماہ باقی رہ گئے ہیں ان میں حالات میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔ ہاں حکومت چاہے تو مزید بگاڑ کو ضرور روک سکتی ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی یہ ذمے داری محسوس کرے کہ انھیں عوام نے مینڈیٹ صرف پانچ سال حکمرانی کا نہیں بلکہ آیندہ انتخابات کرا کر اگلی حکومت کو پرامن اور شفاف طریقے سے اقتدار منتقل کرنے کا بھی دیا ہے۔

اس کے لیے انتہائی اہم ہے کہ پیپلزپارٹی سیاسی درجۂ حرارت کو کنٹرول میں رکھے۔ اگر شریف برادران کے کیسز کھولنے اور احتساب کا اچانک شوق پیدا ہی ہو گیا ہے تو پوری کوشش کر کے نیا احتساب قانون جو سالوں سے پارلیمنٹ کے سرد خانے میں پڑا ہے اسے نکال کر ایک آزاد اور غیر جانبدار احتساب کا ادارہ بنا دیا جائے۔ اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ جو فرینڈلی اپوزیشن کا خطاب ساڑھے چار سال کی اپوزیشن کے بعد ملا ہے اس سے چھ ماہ میں جان چھڑانے کی کوشش نہ کرے۔

اسمبلی میں بھی بھرپور احتجاج ہو اور سڑکوں پر بھی مگر پرامن طریقے سے۔ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم جیسی شخصیت کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی ایک انتہائی احسن قدم ہے اور بہتر ہو گا حکومت اور اپوزیشن ملکر پرامن اور شفاف الیکشن کرانے کے لیے اس ایک قدم کو مزید احسن اقدامات میں بدلیں۔ سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے اگر عدلیہ ایک قدم پیچھے ہٹی ہے تو حکومت کو بھی درمیان کا راستہ نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب عدالت یہ جملہ شاید برداشت نہیں کرے گی کہ خط تو کسی بھی صورت نہیں لکھا جائے گا اور ایسی صورت میں ایک اور وزیراعظم کو نااہل کیا جانا مزید تصادم کو جنم دے گا اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالے گا۔

اس وقت ذمے داری حکومت کی ہے کہ آٹھ اگست تک کوئی درمیانی راستہ نکالے جس سے پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن پر بھی الیکشن میں بہت برا اثر نہ پڑے اور تصادم بھی نہ ہو۔ اب جب کہ الیکشن آ رہے ہیں تو میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی نظر میں اگلے الیکشن ٹی وی پر لڑے جائیں گے اور میڈیا بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ تو میڈیا پر بھی بڑی بھاری ذمے داری ہے کہ نیوٹرل رہتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت کو شکایت کا موقع نہ دے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

بہتر ہو گا کہ کسی بھی نگران سیٹ اپ میں پارلیمنٹ سے باہر موجود جماعتوں کو بھرپور اعتماد میں لیا جائے۔موقع ضایع نہیں ہوا۔ ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ لانے اور الیکشن نہ ہونے دینے جیسی افواہوں کا بازار ضرور گرم ہے مگر عملی طور پر یہ سب ممکن نظر نہیں آتا۔ 2008ء جیسی صورتحال نہ سہی مگر آج بھی اگر ان افواہوں میں دم نظر نہیں آتا تو اس کی وجہ یہی سیاسی جماعتیں' یہی عدلیہ اور یہی میڈیا ہے جو ہر طرح جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہیں اور کسی بھی طرح الیکشن کا راستہ روکنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں گی۔ دیر ہو گئی ہے مگر امید ہے کہ دیر آئے درست آئے جیسی کہاوت یہاں سچ ثابت ہو جائے۔
Load Next Story