تم سلامت رہو

یہ عجیب بات ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو سلامت رہنے کی دعا بھی دیتے ہیں اور موت کی حقیقت کو بھی مانتے ہیں

03332257239@hotmail.com

یہ عجیب بات ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو سلامت رہنے کی دعا بھی دیتے ہیں اور موت کی حقیقت کو بھی مانتے ہیں۔ یہ خیال پچھلے دنوں ٹی وی پر پاکستانی فلم ''تم سلامت رہو'' دیکھ کر پیدا ہوا۔ محمد علی، وحید مراد، رحمان، آسیہ، لہری، ننھا، ساقی، تمنا، نرالا اور نیئر سلطانہ کی شاہکار فلم دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ 70 اور 80 کے عشرے کی فلمیں دیکھ کر جوانی یاد آجاتی ہے۔

ٹی وی پر کوئی اچھی پاکستانی فلم آرہی ہو تو جان بوجھ کر کامن روم میں مسکراتے ہوئے ریموٹ پر قبضہ کرکے دیکھنے کا مزہ آتا ہے کہ بچے بھی کسی بہانے یہ فلم دیکھیں۔ ان سے بحث ہوتی ہے کہ اس دور کی پاکستانی فلمیں بھارت کے مقابلے کی بنتی تھیں۔ نئی نسل مشکل سے مانتی ہے۔ وحید مراد جیسا ہیرو اب شاید ہی پیدا ہوسکے۔ جنریشن گیپ والی بات اپنی جگہ لیکن دوستانہ گفتگو ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ہم بظاہر فلم کی کہانی کی بات کریں گے لیکن مقصد یہ ہوگا کہ ہلکے پھلکے انداز میں رشتوں کے اتار چڑھاؤ اور زندگی کی حقیقتوں پر نظر ڈالیں۔

وحید مراد اور آسیہ کے رومانس سے شروع ہونے والی فلم میں اگر لہری کا مزاح ہو تو چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں۔ کالج میں گدھے پر آنے کا خیال شاید بھٹو دور میں سندھ اسمبلی کے ایک ممبر کی اس سواری میں آمد سے لیا گیا ہو۔ ننھا اور تمنا نے ہیرو اور ہیروئن کو بطور مہمان اپنے گھر میں ٹھہرایا ہوتا ہے۔ ساقی کا کردار آسیہ کے والد اور ننھا کے دوست کا ہوتا ہے۔ وہ وحید مراد اور آسیہ کی بے تکلفی سے کچھ بھانپ لیتے ہیں اور فوراً اپنی بیٹی کو لے کر چل پڑتے ہیں۔

کہانی شہر سے دیہات کی طرف مڑتی ہے کہ وحید اپنے گھر جاتے ہیں۔ محمد علی ان کے بھائی اور نیئر سلطانہ ان کی والدہ کے طور پر اپنے پیارے کا استقبال کرتے ہیں۔ وحید کو پتا چلتا ہے کہ بڑے بھائی کی منگنی ہوچکی ہے۔ وہ بھابھی سے اس کے کمرے میں ملنے جاتے ہیں تو وہ آسیہ ہوتی ہیں۔ یہاں سے Triangle Love شروع ہوجاتا ہے۔

برصغیر پاک وہند کی ہر دوسری فلم میں پیار کی کہانی تین لوگوں کے گرد گھومتی تھی۔ دو ہیرو اور ایک ہیروئن یا ایک ہیرو اور دو ہیروئنیں۔ کشمکش، مکالمے اور کہانی کا اتار چڑھاؤ فلم دیکھنے والوں کو انوکھا مزہ دے جاتا۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کون سا جوڑا شادی کے بندھن میں بندھے گا۔ اب دو بھائیوں کے بیچ میں ایک ہیروئن ہو تو کیا کہنے۔ آسیہ ایک طرف وحید سے محبت کا ماضی رکھتی تھیں تو دوسری طرف ان کے مرحوم والد نے ان کی منگنی محمد علی سے طے کردی ہوتی ہے۔

ہیرو ہیروئن کی فلمی محبت میں کہیں خاندان سے بغاوت کا درس دیا جاتا تو کہیں والدین کی محبت کو اہمیت دے کر محبوب کو ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ یہ 50 سے 70 تک کے عشروں کی اکثر فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔ آسیہ بھی اپنے والد کی طے کی گئی منگنی کو اپنی محبت پر ترجیح دیتی ہیں۔ یہیں سے ان کے مکالمے فلم کے ہیرو وحید مراد سے ہوتے ہیں۔ دو بھائیوں اور ان کے درمیان ایک عورت کی محبت گھر کی چار دیواری میں اپنے اندر کشمکش لیے ہوئے تھی۔ وحید بھی اس ماحول سے نکل کر شہر جانا چاہتے ہیں لیکن نیئر سلطانہ روک دیتی ہیں۔ اداس وحید مراد کے بے خبر بھائی محمد علی اور مجبور آسیہ سے مکالمے انسانی رشتوں کی کشمکش کو بیان کر رہے تھے۔

نیئر سلطانہ ایک روز وحید اور آسیہ کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ ان کے بڑے بیٹے کی منگیتر چھوٹے بیٹے کی محبوبہ ہے۔ دماغ میں زلزلہ برپا ہوجاتا ہے۔ وہ شہر جانے کی ضد کرنے والے وحید کو اب روکنے کے بجائے شہر جانے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ایسے میں محمد علی کو علم ہوجاتا ہے کہ چھوٹے بھائی کی اداسی کا سبب کیا ہے۔ وہ شہر جانے والے وحید کو واپس گاؤں لے آتے ہیں۔ بڑے ڈرامائی انداز اور خوبصورت مکالموں کے بعد ہیرو اور ہیروئن کو بڑا بھائی قربانی دے کر ایک کردیتا ہے۔ فلم کا اختتام محمد علی کے ایک ڈائیلاگ سے ہوتا ہے۔ وہ چھوٹے بھائی اور اس کی ہونے والی بیوی کو کہتے ہیں 'تم سلامت رہو'۔


فلم کی کہانی تو ایک بہانہ تھی۔ اس حوالے سے پانچ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ رشتوں کا لحاظ اور والدین کے فیصلوں کا احترام زیادہ فلموں میں دکھائی دیتا تھا۔ فلمی دنیا کے ماڈرن ذہن بھی اکثر خاندان کو مستحکم کرنے والی کہانیوں پر مبنی فلمیں بناتے۔ دوسری بات یہ کہ ہماری فلمیں بھی پی ٹی وی، ریلوے، ہاکی، کرکٹ اور ریڈیو کی طرح پاکستان کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

کراچی کے وحید مراد تو حیدرآباد کے محمد علی تو سندھ کے ساقی کے علاوہ پنجاب کی آسیہ اور بنگال کے رحمان کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بدر منیر تو بلوچستان کے انور اقبال ایک گلدستے کی مانند تھے۔ لاہور میں بننے والی اردو فلموں کی پورے پاکستان میں نمائش ہوتی تھی۔ اب حادثاتی ریلوے، زوال پذیر ہاکی، گمشدہ ڈرامے، کمزور کرکٹ، ڈوبتی فلم انڈسٹری اور فراموش شدہ ریڈیو کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

چار عشروں قبل بننے والی فلم ''تم سلامت رہو'' نے جنوری 2017 میں تیسرا پیغام کیا دیا؟ اداکار محمد علی ہم سے رخصت ہوچکے ہیں جب کہ وحید تو جوانی میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ آسیہ بھی بیرون ملک فوت ہوچکی ہیں۔ فلم کی مزاحیہ مثلث لہری، نرالا اور ننھا بھی انتقال کرچکے ہیں۔ نیئر سلطانہ، ساقی اور تمنا بھی اب ہمارے درمیان نہیں اور رحمان بھی بنگلہ دیش میں فوت ہوچکے ہیں۔ یہ اس فلم کا تیسرا لیکن بڑا اہم سبق تھا۔ یہ سبق کہ موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس سے قبل بھی ایسی فلمیں دیکھتے تھے تو چند ہی فوت شدہ اداکار دکھائی دیتے تھے لیکن وقت گزرنے پر اب ان کی تعداد درجن بھر تک پہنچ گئی ہے۔

ان مرحومین کو دیکھ کر موت کو یاد رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ۔ سنتوش، درپن اور سدھیر جیسے ہیروز اور احمد رشدی، مہدی حسن اور مسعود رانا جیسے گلوکار ہم سے رخصت ہوچکے ہیں۔ رانی، شمیم آرا اور نورجہاں اب ہمارے درمیان نہیں ہیں کہ موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دہریے بھی خدا، رسول، جنت، دوزخ اور قیامت کو نہیں مانتے لیکن موت پر ان کا بھی یقین ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک زمانے کی فلموں کے مرحوم فنکاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اب کوئی آب حیات تو پی کر آیا نہیں کہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ کیا بہتر حالات بڑھاپے اور موت کو وقتی طور پر ٹال سکتے ہیں؟

کامیاب اور بڑے فنکار خوشحال ہوتے ہیں اور انھیں ہر جگہ سراہا جاتا ہے۔ وہ اداکار جن کے پاس عزت، دولت و شہرت ہوتی ہے۔ اسکرین پر دکھائی دینے والے لوگ جنھیں ہر مہینے اور ہر سال اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ لوگ جنھیں نہ روپے پیسے کی تنگی ہوتی ہے اور نہ غربت کے سبب ذہنی پریشانی۔ پھر بھی نہ کوئی بڑھاپے و کمزوری کو روک سکتا ہے اور نہ ہی کوئی موت سے فرار اختیار کرسکتا ہے۔ تیسری حقیقت کے بعد دو سوال اور پیدا ہوتے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ہر ہفتے جنازے دیکھنے کے باوجود ہماری دنیا میں بہتری کیوں پیدا نہیں ہو رہی؟ بہتری یعنی انسان کو انسان کا دکھ سمجھنے کا شعور۔ ہر پانچ دس کلومیٹر پر قبرستان دیکھنے کے باوجود ہم دنیا کو کیوں کر عارضی قیام گاہ نہیں سمجھتے۔ گھر اور بنگلوں کے بعد محلات ہر شہر اور ہر ملک میں قائم کرنے کی ہوس کیوں ایک مقام پر آکر ٹھہر نہیں جاتی۔ قناعت کا جذبہ کیوں ملک کے ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں میں پیدا نہیں ہوتا؟ چالیس سال پہلے کی فلم میں کام کرنے والے اداکاروں کی اوسط عمر چالیس برس ہوگی۔

انسان ساٹھ ستر سال کی عمر میں چل چلاؤ کی سی کیفیت میں آجاتا ہے۔ پانچویں اور آخری بات یہ کہ ہم انسان کی قدر اس کی زندگی میں کیوں نہیں کرتے؟ مرنے کے بعد تعریف یا انتقال کے بعد ایوارڈز یا بعدازمرگ کسی سڑک و شاہراہ کا نام مرحوم کے نام کرنے کا ہی خیال کیوں پیدا ہوتا ہے؟ کیوں شکایت کی جاتی ہے کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں۔ عمر بھر لوگوں پر سنگ زنی کرتے ہیں لیکن دفناتے اعزاز کے ساتھ ہیں۔ اعزاز کی بات اچھی ہے لیکن سنگ زنی کیوں؟ کیا یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم جیتے جی کسی اجنبی اور غیر کو بمشکل کہتے ہیں کہ ''تم سلامت رہو''؟
Load Next Story