جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

جہاں بانی پاکستان کا گھر محفوظ نہ ہو، وہاں ہم کس کھیت کی مولی ہیں

ہفتہ کی رات کراچی کے اکثر علاقوں میں بارش ہوئی اور محکمہ موسمیات کے مطابق ابھی مزید بارشوں کی پیشگوئی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے جو ڈھائی دن وقفے وقفے سے بارش ہوئی تھی، اس کا انجام یہ ہوا کہ عام گھروں کا کیا ذکر، بارش کا پانی گلیوں کے گند سمیت قائداعظم کی جائے پیدائش وزیر مینشن میں گھس گیا۔

بتائیں جہاں بانی پاکستان کا گھر محفوظ نہ ہو، وہاں ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ کبھی عروس البلاد کہلانے والا شہر آج غلاظت، گندگی اور تعفن والا ''عروس البلا'' بن چکا ہے۔ ''اس شہر خرابی میں'' جس سڑک سے، جس رستے سے، جس گلی سے نکل جائیں، ایک ہی منظر ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، کوڑے کے ڈھیر اور بدبو کے بھبھکے۔ رات میں خوشنما روشنیوں والے نیون سائن جلتے ہیں، شادی ہال، شادی لانز سنہری روشنیوں میں نہائے، سامنے لگے درختوں کے تنے اور ان کی بڑی بڑی شاخیں بھی سنہری لباس میں ملبوس۔ شہر کے ''کھابے خانے'' بھی جگ مگ جگ مگ کرتے، جس ریسٹورنٹ میں چلے جاؤ آپ کو جگہ نہیں ملے گی، انتظار لازمی ہے۔

کلفٹن کا بوٹ بیسن ہو، حسن اسکوائر کی سجیاں ہوں، مچھلی ہو، جوبلی کے پائے ہوں، حیدری نارتھ ناظم آباد کے تکے کباب بوٹی، جمشید روڈ کی نکڑ پر سینٹرل جیل کے سامنے حیدرآباد دکن کالونی کا ہریسہ، ڈبل کا میٹھا، بگھارے بیگن، اچار، چٹنی، بہادرآباد کے رول کباب، پنواڑی کے پان، 50 روپے سے آگے تک، طارق روڈ کے سلور اسپون، برگر شاپس، سندھی مسلم سوسائٹی کے جدید ہوٹل، برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ میں حلیم، بریانی، دھاگے والے کباب، نہاری، ربڑی، گرم گرم جلیبی، گلاب جامن، نرسری کی فروٹ چاٹ، ٹاور کے ہوٹل کی چانپیں، ڈیفنس کے چائے خانے۔ یہ تمام اپنی رنگینیوں اور لذتوں سمیت موجود ہیں اور خوب پھل پھول رہے ہیں۔ ہر جگہ ''ہاؤس فل'' ہے۔ مگر یہ بھی ساتھ ساتھ ہے۔ بقول مصطفیٰ زیدی:

انھی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

لوگ ہیں کہ انھی ٹوٹی سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے پھرتے ہیں۔ مجھے ماضی کا ایک مشہور فلمی گانا یاد آگیا ہے۔ غالباً اسے گلوکارہ زبیدہ خانم نے گایا تھا ''گاڑی کو چلانا بابو/ ذرا ہلکے ہلکے ہلکے/کہیں دل کا جام نہ چھلکے/ظالم ہیں یہ ہچکولے/ مرے دل کی دنیا ڈولے''۔

مگر آج کے ڈرائیور کو یہ ہدایت نامہ جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو سڑکوں کے کھڈے اور کھلے گٹروں کے مین ہول، گاڑی تیز چلانے ہی نہیں دیتے۔ اب تو آپ کا دل کا جام ہی نہیں، پورا معدہ چھلکتا ہے، دماغ ہلتا ہے، کمر کو آزمایا جاتا ہے کہ کتنی مضبوط ہے۔

صفورا گوٹھ اب پورے پاکستان میں پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں چند ماہ پہلے آغا خانیوں کی بس روک کر دہشت گردوں نے فائرنگ کی تھی ، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ اسی صفورا گوٹھ سے کراچی یونیورسٹی کی طرف چلیں، یہ طویل سڑک یونیورسٹی روڈ کہلاتی ہے، جو حسن اسکوائر تک جاتی ہے۔ اسی سڑک پر شہر کی دو گنجان آبادیاں آباد ہیں، گلستان جوہر اور گلشن اقبال۔ یوں یہ سڑک بہت مصروف رہتی ہے۔ دن رات ٹریفک کا اژدہام رہتا ہے۔ یوں سمجھ لیں ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کا 20 فیصد ٹریفک اسی یونیورسٹی روڈ سے گزرتا ہے۔

اس سڑک کا حال یہ ہے کہ آئے دن یہاں سے گزرنے والی پانی کی بڑی سپلائی لائن ٹوٹ جاتی ہے اور یونیورسٹی روڈ ندی بن جاتی ہے۔ ''انھی پانیوں میں چل کر اگر آسکو تو آؤ۔'' اور لوگ اسی ندی سے گزر کر اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ آج کل یہ طویل اور اہم شاہراہ کھدائی کا شکار ہے۔ کام کی رفتار سست ہے اور اس شہر کے رہنے والے حکومتی سست روی کا شکار ہیں۔ شکار تو اور بھی بہت سی حرکتوں کے ہیں ''اپنوں'' کی کس کس ''حرکت'' کا ذکر کیا جائے۔ یہ ہمارے ووٹوں سے بلکہ ''نوٹوں'' سے بھی منتخب ہوکر آنے والوں کا ہی سب کیا دھرا ہے۔ ان ''اپنوں'' نے ہر وہ کام کیا جو انھیں نہیں کرنا چاہیے تھا اور وہ ''کام'' نہیں کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔


یہ سارے ''رنج'' جو اس شہر میں پھیلے ہوئے ہیں یہ سب ''اپنوں'' ہی کی عنایات ہیں۔ حبیب جالب کا شعر سنیے:

اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں، بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

لالوکھیت سے لے کر نیوکراچی تک، ادھر لانڈھی، ملیر، کورنگی، شاہ فیصل کالونی سے بھٹائی کالونی، محمودآباد، کالا پل، سارے کا سارا ''سوا ستیاناس'' ہوچکا ہے۔ اسی محمود آباد سے جڑی ہوئی ایک بستی ہے جس کا مشہور نام بلوچ کالونی ہے اور نیا نام ''کراچی ایڈمنسٹریشن سوسائٹی'' ہے۔ اس سوسائٹی کا بھی ویسا ہی برا حال ہے جیسا پورے شہر کراچی کا ہے۔ یہاں کراچی کے اعلیٰ کاروباری لوگوں کے گھر ہیں جو ابلتے گٹروں کے گندے پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ گھروں کے اندر گلیوں میں بہتے گٹروں کے پانی کی بدبو پھیلی رہتی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ان بگڑے حالات کو کون ٹھیک کرے گا؟ مقامی حکومت جس کے سربراہ وسیم اختر ہیں جو زندوں کو چھوڑ کر مردوں کے حالات سنوار رہے ہیں۔ زندوں کے اختیارات ان کے پاس نہیں اور ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، پانی یہ سب سندھ حکومت کے پاس، جو کچھ نہیں کر رہی، اور نتیجتاً سزا کراچی والے بھگت رہے ہیں۔ لیڈروں نے اپنے خزانے بھر لیے اور ووٹر برباد ہوگئے۔ بہت پہلے سیف الدین سیف نے لکھا تھا، وہی دہرا رہا ہوں، گفتگو ہے اپنے قائداعظم سے۔ یہ گانا فلم وعدہ میں سنتوش کمار پر فلمایا گیا، گلوکار شرافت علی اور موسیقار رشید عطرے، جب کہ فلم ساز و ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد تھے۔

کوئی پرسان حال ہو تو کہوں
کیسی آندھی چلی ہے تیرے بعد

دن گزارا ہے کس طرح میں نے
رات کیسے کٹی ہے تیرے بعد

روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں
Load Next Story