جیسی کرنی ویسی بھرنی

امریکا میں ٹرمپ اپنے وہی کارڈز استعمال کررہے ہیں جس کی بنیاد پر انھیں کامیابی نصیب ہوئی تھی

shehla_ajaz@yahoo.com

کچھ عجیب سا تو ہو ہی رہا ہے، ادھر امریکا میں ٹرمپ اپنے وہی کارڈز استعمال کررہے ہیں جس کی بنیاد پر انھیں کامیابی نصیب ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے امریکا میں ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جو دیوار ٹرمپ نے کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے اسے ان کے اپنے ملک کے باسی گرانے پر تل گئے ہیں اب ایئرپورٹ پر مسلمان نماز پڑھ رہے ہیں تو غیر مسلم ان کا پہرہ دے رہے ہیں۔

ٹرمپ کے تلخ احکامات کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں، ایئرپورٹس پر لوگ پھنسے ہیں، مہاجرین ترسی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن ٹرمپ کی کارروائیاں اپنی جگہ پر ہیں۔ یمن، سوڈان، ایران، شام اور عراق سے آنے والوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں اب کوئی مرتا ہے تو مرے کوئی برا مناتا ہے تو منائے لیکن ٹرمپ میاں تو اپنی ہی کریںگے۔ مسلمان ملکوں کے علاوہ بھی دوسرے ممالک ان کی اس قسم کی حرکات کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہے جس میں جرمنی اور کینیڈا کے وزیراعظم خاص کر شامل ہیں۔

کینیڈا کے نئے پرجوش حکمران نے مہاجرین کو کینیڈا میں آنے کی دعوت تو دے ڈالی لیکن اس کے نتیجے میں انھیں کینیڈا کی مسجد میں بم دھماکا اور کئی معصوم انسانوں کی جانوں کا تحفہ ملا، دھماکے کا الزام جس اٹھائیس سالہ طالب علم پر لگایا جارہاہے، وہ سیاسیات پڑھتا ہے۔ اب خدا جانے اس جوان نے ایسا کیا پڑھ لیا جو اپنے وزیراعظم سے براہ راست تو نہ کہہ سکا لیکن بالواسطہ بم کارروائی کے ذریعے بتادیا کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے۔

مہاجرین کے حق میں اور ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہ وہ پہلے امریکی سربراہ ہیں جو انتہائی ڈھٹائی سے کرسی صدارت پر براجمان ہوئے ہیں۔ پہلے ان کے رویے سے ظاہر ہورہا تھا کہ شاید الیکشن کی تیاریوں کے دوران انھوں نے جو کچھ بھی زہر افشانی کی اس میں کچھ ایسا دم نہیں تھا، وہ صرف دکھاوے کی پھلجڑیاں تھیں، لیکن اب اس کا اثر شروع ہورہا ہے۔ چین اور روس کی جانب بڑھتے ان کے قدم ایک اور نیا باب کھول رہے ہیں۔

محسوس یہ ہورہا ہے کہ وہ مسلم دنیا کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نجوم جانتے ہیں کہ دنیا میں چین اقتصادی طور پر جس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ مسلم ممالک سے اس کی دوستی خاصی مضبوط ہے۔ پاکستان جو عالمی اعتبار سے ایسی اہم پوزیشن پر ہے جہاں ''بڑی دو طاقتوں کی گزر گاہ بھی ہے'' کسی طرح اپنے پلیٹ فارم پر لے کر آئے اور دنیا میں ایک نئی خلیج کی بنیاد رکھیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پہلے طالبان اور اب داعش کے وجود میں آنے کے بعد بظاہر اسلام کے تشخص میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ان دونوں جماعتوں کے بدلے یا بگڑے ہوئے ورژن کو بخوبی پہچان لیا گیا ہے بہر حال بدنامی کا جو پرچار کیا جاتا رہا ہے اس کے نتائج اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دہشت گردی اور اس سے منسلک کارروائیوں کا تعلق ہر دوسرے مسلمانوں سے با آسانی جوڑا جاسکتا ہے اس کا احساس امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کو حالیہ الیکشن سے پہلے ہی تھا۔


پاکستان میں بھی بہت کچھ عجیب سا ہورہاہے ایک ایسا اسلامی ملک جس کا نام ہی پاک سے شروع ہوتا ہے جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی تھی، وہی چند پڑھے لکھے اور اپنے تئیں بولڈ اور خدا جانے کس قسم کی معلومات رکھنے والے اعلیٰ عہدوں اور معاشرے میں پہچانے جاتے ہیں لیکن ایسی لغو اور بے ہودہ باتیں نہ صرف کرجاتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی باتوں اور ان کے فضول خیالات سے دوسرے بھی مستفید ہوں۔ نیٹ کے تاروں کے ذریعے جھونک دیتے ہیں، انھیں صرف اپنے ذہنی معیار پر غرور ہے کہ شاید لغو باتیں کرجانے پر وہ الگ دکھائی دیں گے لیکن ان کے اس رویے نے انھیں لوگوں کی نظروں میں گرادیا، ان کے اردگرد پڑوسی، طالب علم جاننے والے جب ان کے اس الگ تھلگ سوچ اور خیالات کے بہاؤ کو پڑھیں گے اور ان کے علم میں آیا ہوگا کہ آخر ان کا ساتھ کیوں ایسا ہورہا ہے تو ان کا قد کس قدر زمین میں دھنس گیا ہوگا۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کی ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بتائے گئے اصول اور باتیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی دل سے مانتے ہیں ایک ایسی مکمل ہستی جس میں شک کی گنجائش ہی نہ ہو پھر بھی جدت پسندی کے شوقین اپنے آپ ہی دلدل میں اتر گئے، اب لوٹ کے بدھو گھر تو آئے ہی ہیں لیکن عدالت عالیہ ان کی منتظر ہے کہ جرم تو جرم ہی ہوتا ہے اور پھر ایسا بڑا جرم ... خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے۔

یہ فرقہ واریت ہے، نعرے بہت اونچے اونچے لیکن ان نعروں کے پیچھے کیا ہے، یہ سب بہت عجیب ہے۔ ہم ڈونلڈ ٹرمپ پر انگلیاں تو اٹھا رہے ہیں لیکن ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے، کیا یہ واقعی جدت پسندی ہے یا ''ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ'' یا بہت کچھ در اصل ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

مسلمان ممالک میں سعودی عرب کا نمایاں مقام ہے لیکن دلیری اور شجاعت میں مسلمان ممالک میں پاکستان ماشاء اﷲ سے خاصا نمایاں ہے اس کے فوجی جوان دنیا بھر میں اپنے کارناموں سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ خدا ہمارے ملک کو قائم و دائم رکھے۔ (آمین) لیکن اپنے ہی ملک کے خلاف عجیب سے خواہشات رکھنے والے دو ممتاز سیاسی رہنما ہی کیا کم ہے کہ ایک ٹوپی والی نوجوان خاتون بھی اس میدان میں اتر آئیں اور ان کی خواہش پر کیا کہیں کہ ہم ایک آزاد ملک میں بستے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں۔ اپنے رب کا کہ انھوں نے ہمیں ایک پیارے ملک میں پیدا کیا۔

شام، عراق، افغانستان، بھارت اور میانمار میں پیدا نہیں کیا اس فہرست میں گو ابھی بہت سے ممالک باقی ہیں پر سردست یہ ہی یاد رہ گئے کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر ان کا ذکر ہی زیادہ رہتا ہے اور ان نہایت ہی عقل مند پڑھی لکھی اور کچھ زیادہ ہی باشعور کینیڈل مافیا کی رکن اور ان کے بھائی بندوں کے لیے عرض ہے:

جیسی کرنی ویسی بھرنی، نہ مانے تو کرکے دیکھ
جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے، نہ مانے تو مر کے دیکھ

ایک ہی دائرے میں گھومنے والوں کے لیے پاکستان کا وجود بہت تھوڑا ہی سہی لیکن یہ تھوڑا سا وجود انشاء اﷲ وسیع ہونے کے لیے بنا ہے کہ رب العزت نے اس کا نام پاکستان ایسے ہی تو نہیں پسند فرمایا تھا۔
Load Next Story