مسائل ہمیں جدوجہد کرنے پر اُکساتے ہیں
یہ تو رنگ ہیں زندگی کے۔
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اگر ہماری ساری خواہشیں اور ضرورتیں پوری ہو جائیں، تو زندگی کس قدر خوش گوار ہو جائے۔
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا سکون تب ہی مل سکتا ہے، جب ہماری ساری خواہشیں پوری ہوں۔ ہم ساری زندگی ان خواہشوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، اپنے دن رات ان خواہشوں کی تکمیل میں لگا دیتے ہیں اور جب یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے، تو ہم نئی خواہشیں کرنے لگتے ہیں۔
انسان کی فطرت مختلف خواہشات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پوری ہوتے ہی دوسری کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ پانا چاہتے ہیں، مگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ساری خواہشیں پوری ہونے کے بعد انسان کی اپنی ذات میں ایک خالی پن سا آنے لگتا ہے۔ وہ بے سکونی محسوس کرنے لگتا ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اسے لگتا ہے کہ میری زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔ جب ہم پر ایسی کیفیت ہو تو بغیر کسی وجہ سے رونے کا دل چاہتا ہے۔ اُسے لگتا ہے سب کچھ پا کر بھی وہ خالی ہاتھ ہے۔ اسے اپنے بھی پرائے لگنے لگتے ہیں۔
جب اس کا خالی پن حد سے بڑھ جاتا ہے، تو کچھ لوگوں کا عشق حقیقی کا سفر وہاں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں پر اُن کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں یا بالکل بھی پوری نہیں ہوتیں ان دونوں صورتوں میں انسان کی فطرت بھی بہت عجیب ہے، جو لا تعداد خواہشوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہماری زندگی ختم ہو جاتی ہے، مگر خواہشات ختم نہیں ہوتیں۔
یہ تو حال ہے ان لوگوں کا جو ساری زندگی اپنی خواہشیں پوری کرنے کی کوشش میں گزارتے ہیں اور دوسری قسم کے وہ رئیس لوگ ہیں، جن کے منہ سے بات نکلتے ہی پوری ہو جاتی ہے۔ جب انسان کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں، اس کے بعد اس کی ذات میں ایک خلا سا آنے لگتا ہے اسے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی بے رنگ لگنے لگتی ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ ہیں، جن کی خواہشیں کسی وجہ سے پوری نہیں ہو پاتیں۔ وہ لوگ اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں، مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ اپنا مقصد، خواہشیں یا ضرورت پوری کرنے کے لیے صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں، تب جا کر انہیں وہ چیز ملتی ہے۔
درحقیقت زندگی کے رنگ ہی مصائب برداشت کرنے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد کچھ حاصل کرنے میں پنہاں ہیں۔ ہم پر جب کوئی مصیبت آتی ہے، تو پہلی بات ہمارے منہ سے یہ نکلتی ہے کہ یہ مصیبت ہم پر ہی کیوں آئی؟ کسی اور پر کیوں نہیں آئی؟ حالاں کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد جو چیز حاصل کی جائے، قدر ہمیشہ اُسی کی ہوتی ہے۔ جو چیز آسانی سے مل جائے، وہ کچھ اپنی قدر کھو سی دیتی ہے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے، لیکن جس طرح زندگی نشیب وفراز کا نام ہے، اس کا حُسن بھی دھوپ چھاؤں اور تلخی و شیریں میں ہے۔ اسی طرح زندگی کی خوب صورتی بھی مسائل سے ہے۔ ذرا سوچیے، تو اگر ہمارے زندگی میں مسائل نہ ہوتے، تو ہم میں سوچنے کی صلاحیت کتنی سی ہوتی؟ سب کچھ ہمیں بنا محنت کے ملتا، تو ہم کتنے کاہل اور آرام پسند ہوتے؟ ہمارے مسائل، مشکلات اور تکلیفیں بھی ہمارے لیے ضروری ہیں کیوںکہ اگر یہ نہ ہوں تو انسان میں سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جائے اور ہم اپنے رب سے بھی دور ہو جائیں۔ ہماری مشکلات ہی ہیں، جو ہماری زندگی میں حرکت پیدا کرتی ہیں اور ہمیں رب سے قریب کرتی ہیں۔
اگر یہ مسائل نہ ہوں تو غوروفکر کا کام بھی سمٹ جائے، اور آخر میں انسان کی کوئی سوچ بھی باقی نہ رہے۔ اگر مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی وجسمانی مشقت اور جدوجہد نہ کرنا پڑے تو اشرف المخلوقات کا مقصد ہی کیا ہوا۔ لہٰذا زندگی میں مشکلات آنے پر اتنا سوچ لینا چاہیے کہ اﷲ ایک دروازہ بند کرتا ہے، تو سو دروازے کھولتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اُسے جتنی بار بھی پکارا جائے، وہ پہلی بار کی طرح سنتا ہے۔ یہ مسائل اور کٹھنائیاں ہماری زندگی کے رنگوں کی طرح ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ رب اور بندے کی قربت کا باعث بھی ہے۔
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا سکون تب ہی مل سکتا ہے، جب ہماری ساری خواہشیں پوری ہوں۔ ہم ساری زندگی ان خواہشوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، اپنے دن رات ان خواہشوں کی تکمیل میں لگا دیتے ہیں اور جب یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے، تو ہم نئی خواہشیں کرنے لگتے ہیں۔
انسان کی فطرت مختلف خواہشات سے بھری ہوئی ہے۔ ایک پوری ہوتے ہی دوسری کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ پانا چاہتے ہیں، مگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ساری خواہشیں پوری ہونے کے بعد انسان کی اپنی ذات میں ایک خالی پن سا آنے لگتا ہے۔ وہ بے سکونی محسوس کرنے لگتا ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اسے لگتا ہے کہ میری زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔ جب ہم پر ایسی کیفیت ہو تو بغیر کسی وجہ سے رونے کا دل چاہتا ہے۔ اُسے لگتا ہے سب کچھ پا کر بھی وہ خالی ہاتھ ہے۔ اسے اپنے بھی پرائے لگنے لگتے ہیں۔
جب اس کا خالی پن حد سے بڑھ جاتا ہے، تو کچھ لوگوں کا عشق حقیقی کا سفر وہاں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں پر اُن کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں یا بالکل بھی پوری نہیں ہوتیں ان دونوں صورتوں میں انسان کی فطرت بھی بہت عجیب ہے، جو لا تعداد خواہشوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہماری زندگی ختم ہو جاتی ہے، مگر خواہشات ختم نہیں ہوتیں۔
یہ تو حال ہے ان لوگوں کا جو ساری زندگی اپنی خواہشیں پوری کرنے کی کوشش میں گزارتے ہیں اور دوسری قسم کے وہ رئیس لوگ ہیں، جن کے منہ سے بات نکلتے ہی پوری ہو جاتی ہے۔ جب انسان کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں، اس کے بعد اس کی ذات میں ایک خلا سا آنے لگتا ہے اسے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی بے رنگ لگنے لگتی ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ ہیں، جن کی خواہشیں کسی وجہ سے پوری نہیں ہو پاتیں۔ وہ لوگ اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں، مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ اپنا مقصد، خواہشیں یا ضرورت پوری کرنے کے لیے صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں، تب جا کر انہیں وہ چیز ملتی ہے۔
درحقیقت زندگی کے رنگ ہی مصائب برداشت کرنے اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد کچھ حاصل کرنے میں پنہاں ہیں۔ ہم پر جب کوئی مصیبت آتی ہے، تو پہلی بات ہمارے منہ سے یہ نکلتی ہے کہ یہ مصیبت ہم پر ہی کیوں آئی؟ کسی اور پر کیوں نہیں آئی؟ حالاں کہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد جو چیز حاصل کی جائے، قدر ہمیشہ اُسی کی ہوتی ہے۔ جو چیز آسانی سے مل جائے، وہ کچھ اپنی قدر کھو سی دیتی ہے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے، لیکن جس طرح زندگی نشیب وفراز کا نام ہے، اس کا حُسن بھی دھوپ چھاؤں اور تلخی و شیریں میں ہے۔ اسی طرح زندگی کی خوب صورتی بھی مسائل سے ہے۔ ذرا سوچیے، تو اگر ہمارے زندگی میں مسائل نہ ہوتے، تو ہم میں سوچنے کی صلاحیت کتنی سی ہوتی؟ سب کچھ ہمیں بنا محنت کے ملتا، تو ہم کتنے کاہل اور آرام پسند ہوتے؟ ہمارے مسائل، مشکلات اور تکلیفیں بھی ہمارے لیے ضروری ہیں کیوںکہ اگر یہ نہ ہوں تو انسان میں سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جائے اور ہم اپنے رب سے بھی دور ہو جائیں۔ ہماری مشکلات ہی ہیں، جو ہماری زندگی میں حرکت پیدا کرتی ہیں اور ہمیں رب سے قریب کرتی ہیں۔
اگر یہ مسائل نہ ہوں تو غوروفکر کا کام بھی سمٹ جائے، اور آخر میں انسان کی کوئی سوچ بھی باقی نہ رہے۔ اگر مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی وجسمانی مشقت اور جدوجہد نہ کرنا پڑے تو اشرف المخلوقات کا مقصد ہی کیا ہوا۔ لہٰذا زندگی میں مشکلات آنے پر اتنا سوچ لینا چاہیے کہ اﷲ ایک دروازہ بند کرتا ہے، تو سو دروازے کھولتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اُسے جتنی بار بھی پکارا جائے، وہ پہلی بار کی طرح سنتا ہے۔ یہ مسائل اور کٹھنائیاں ہماری زندگی کے رنگوں کی طرح ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ رب اور بندے کی قربت کا باعث بھی ہے۔