غلط فہمی پنپنے نہ پائے
ٹھیک وقت پر پیے ہوئے کچھ کڑوے گھونٹ ہماری زندگی کو میٹھا بنا دیتے ہیں
یوں تو غلط فہمی کسی بھی دو فرد کے درمیان پیدا ہو سکتی ہے، لیکن جب خواتین کی بات ہو تو اس کی کچھ کثرت دکھائی دیتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بہت تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔
اگر آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اور لوگوں کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کا بغور مشاہدہ کریں، تو محسوس ہوگا کہ تمام باتوں کی وجہ فقط ایک غلط فہمی ہے۔ غلط فہمی ہی دراصل دوریوں اور تعلقات کے خاتمے کا سبب بنتی ہے، خود آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہوگا کہ آپ نے کچھ کہا تھا، مگر دوسرے فرد نے کچھ اور سنا یا آپ کی بات کا کچھ اور مطلب نکال لیا، بس پھر دل خراب ہوگیا اور جھگڑے کا آغاز ہو گیا۔ کدورت ہو یا غلط فہمی دو لوگوں کے بیچ بد ترین صورت حال پیدا کر دیتی ہے۔ یہی دلوں میں فرق پیدا کرتی ہے، اور پھر جن غلطیوں کو ہم نے سہہ لیا ہوتا ہے یا نظر انداز کر دیا ہوتا ہے، وہی سوچ سوچ کر ہم بیچ وتاب کھانے لگتے ہیں۔
اچھے بھلے لفظوں کے کچھ سے کچھ مطلب نکالے جانے لگتے ہیں، ہنس کر کہہ کر ختم ہونے والی باتوں کی از سرنو تشریح کی جاتی ہے اور پھر شکوے شکایات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے۔ اگر ایک فریق گڑے مردے اکھاڑتا ہے، تو پھر ردعمل میں دوسرا بھی گزر جانے والی پرانی پرانی باتوں کے طعنے دینے لگتا ہے۔
ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں باہمی احسانات ایک، ایک کر کے جتائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹے تحائف تک کے تذکرے ہوتے ہیں، نوبت یہاں تک آتی ہے کہ تحائف واپس کر دینے جیسے ناپسندیدہ اور کریہہ عمل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یعنی غلط فہمی کا شکار ہونے والوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ تلخ نوائی کے اکھاڑے میں ایک دوسرے کو زیر کرتے ہوئے کس قدر آگے پہنچ چکے ہیں۔
غلط فہمی کا سلسلہ زیادہ تر گفتگو سے جنم لیتا ہے۔ یوں بھی الفاظ در حقیقت ہماری کام یابی اور ناکامی کا بہت بڑا سبب ہیں۔ الفاط اپنی جگہ کچھ بھی نہیں ہوتے یہ تو علامت ہوتے ہیں ان جذبات احساسات اور تاثرات کے، جو ہم کسی کے لیے اپنے لاشعور میں رکھتے ہیں آپ کے الفاظ آپ کی سوچ کی ہم واریت کی علامت ہوتے ہیں۔
کبھی نہ کبھی نادا نستہ طور پرآپ کے منہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات یا لفظ نکل جاتے ہوں گے، جو آپ کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اظہار نہیںکرنا چاہتے، لیکن پھر بھی نادانستگی میں کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور دے جاتے ہیں۔ ہمارے الفاظ اور لا شعور کا ایک گہرا تعلق ہے، مگر یہ تعلق اس وقت مزید موثر اورمضبوط ہو جاتا ہے، جب آپ تبدیلی کے خواہاں ہوں۔
ہم کبھی کبھی پوری بات اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ محبت اور دوستی یہ دو چیزیں ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہیں، مگر غلط فہمی ان دونوں کو ختم کر کے رکھ سکتی ہے۔ الفاظ کے ذریعے آپ دوست بھی بنا سکتے ہیں اور دشمن بھی۔ آپ کسی کو اپنی باتوں سے زندگی بھر کا دکھ بھی دے سکتے ہیں اور کسی کے عمر بھر کے درد کی دوا بھی بن سکتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ ٹھیک وقت پر پیے ہوئے کچھ کڑوے گھونٹ ہماری زندگی کو میٹھا بنا دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے لوگوں کو دیکھیں، تو محسوس ہوگا کہ ان کا الفاظ سے بڑا گہرا رابطہ ہے اور وہ ان کے استعمال کے فن سے بہ خوبی واقف تھے۔ کسی کو حاصل کرنا ہو تو ہماری تمام خوبیاں بھی کام نہیں آتیں اور کسی کو کھونا ہو تو بس ایک غلط فہمی کو راہ چاہیے۔
اس لیے کوشش کیجیے اگر کبھی کوئی مخاطب بدلے ہوئے رویے کا مظاہرہ کرے، خفا ہو یا اس کے لہجے میں درشتی ہو تو، بہ جائے جوابی وار کرنے کے یہ پوچھیے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ متعلقہ فرد فوری یا بہت آسانی سے اس بات کا جواب نہ دے۔ ایسی صورت میں تحمل سے کام لیں اور جواباً کسی تلخی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ آیندہ ملاقات میں کچھ صورت حال واضح ہو ، وہ خود کچھ بتادے یا کسی اورذریعے سے خبر ہو جائے کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی۔ یوں آپ ایک اچھے تعلق سے محروم ہونے سے بچ سکتی ہیں۔
رشتوں میں ایسی پراسرار تبدیلیاں زیادہ تر کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں، جسے اسی طرح سے دور کیا جانا چاہیے، اکثر ہم جواباً درشتی اختیار کر لیتے ہیں، جس کے بعد اگر نزاع کی وجہ پتا بھی چل جائے، تب بھی فاصلے اس قدر بڑھ چکے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی معذرت کرنے یا تعلق پہلے جیسے کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ غلط فہمی پنیپنے نہ پائے۔
اگر آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اور لوگوں کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کا بغور مشاہدہ کریں، تو محسوس ہوگا کہ تمام باتوں کی وجہ فقط ایک غلط فہمی ہے۔ غلط فہمی ہی دراصل دوریوں اور تعلقات کے خاتمے کا سبب بنتی ہے، خود آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہوگا کہ آپ نے کچھ کہا تھا، مگر دوسرے فرد نے کچھ اور سنا یا آپ کی بات کا کچھ اور مطلب نکال لیا، بس پھر دل خراب ہوگیا اور جھگڑے کا آغاز ہو گیا۔ کدورت ہو یا غلط فہمی دو لوگوں کے بیچ بد ترین صورت حال پیدا کر دیتی ہے۔ یہی دلوں میں فرق پیدا کرتی ہے، اور پھر جن غلطیوں کو ہم نے سہہ لیا ہوتا ہے یا نظر انداز کر دیا ہوتا ہے، وہی سوچ سوچ کر ہم بیچ وتاب کھانے لگتے ہیں۔
اچھے بھلے لفظوں کے کچھ سے کچھ مطلب نکالے جانے لگتے ہیں، ہنس کر کہہ کر ختم ہونے والی باتوں کی از سرنو تشریح کی جاتی ہے اور پھر شکوے شکایات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے۔ اگر ایک فریق گڑے مردے اکھاڑتا ہے، تو پھر ردعمل میں دوسرا بھی گزر جانے والی پرانی پرانی باتوں کے طعنے دینے لگتا ہے۔
ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں باہمی احسانات ایک، ایک کر کے جتائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹے تحائف تک کے تذکرے ہوتے ہیں، نوبت یہاں تک آتی ہے کہ تحائف واپس کر دینے جیسے ناپسندیدہ اور کریہہ عمل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یعنی غلط فہمی کا شکار ہونے والوں کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ تلخ نوائی کے اکھاڑے میں ایک دوسرے کو زیر کرتے ہوئے کس قدر آگے پہنچ چکے ہیں۔
غلط فہمی کا سلسلہ زیادہ تر گفتگو سے جنم لیتا ہے۔ یوں بھی الفاظ در حقیقت ہماری کام یابی اور ناکامی کا بہت بڑا سبب ہیں۔ الفاط اپنی جگہ کچھ بھی نہیں ہوتے یہ تو علامت ہوتے ہیں ان جذبات احساسات اور تاثرات کے، جو ہم کسی کے لیے اپنے لاشعور میں رکھتے ہیں آپ کے الفاظ آپ کی سوچ کی ہم واریت کی علامت ہوتے ہیں۔
کبھی نہ کبھی نادا نستہ طور پرآپ کے منہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات یا لفظ نکل جاتے ہوں گے، جو آپ کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں اور اظہار نہیںکرنا چاہتے، لیکن پھر بھی نادانستگی میں کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور دے جاتے ہیں۔ ہمارے الفاظ اور لا شعور کا ایک گہرا تعلق ہے، مگر یہ تعلق اس وقت مزید موثر اورمضبوط ہو جاتا ہے، جب آپ تبدیلی کے خواہاں ہوں۔
ہم کبھی کبھی پوری بات اور معاملات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ محبت اور دوستی یہ دو چیزیں ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہیں، مگر غلط فہمی ان دونوں کو ختم کر کے رکھ سکتی ہے۔ الفاظ کے ذریعے آپ دوست بھی بنا سکتے ہیں اور دشمن بھی۔ آپ کسی کو اپنی باتوں سے زندگی بھر کا دکھ بھی دے سکتے ہیں اور کسی کے عمر بھر کے درد کی دوا بھی بن سکتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ ٹھیک وقت پر پیے ہوئے کچھ کڑوے گھونٹ ہماری زندگی کو میٹھا بنا دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے لوگوں کو دیکھیں، تو محسوس ہوگا کہ ان کا الفاظ سے بڑا گہرا رابطہ ہے اور وہ ان کے استعمال کے فن سے بہ خوبی واقف تھے۔ کسی کو حاصل کرنا ہو تو ہماری تمام خوبیاں بھی کام نہیں آتیں اور کسی کو کھونا ہو تو بس ایک غلط فہمی کو راہ چاہیے۔
اس لیے کوشش کیجیے اگر کبھی کوئی مخاطب بدلے ہوئے رویے کا مظاہرہ کرے، خفا ہو یا اس کے لہجے میں درشتی ہو تو، بہ جائے جوابی وار کرنے کے یہ پوچھیے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ متعلقہ فرد فوری یا بہت آسانی سے اس بات کا جواب نہ دے۔ ایسی صورت میں تحمل سے کام لیں اور جواباً کسی تلخی کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ آیندہ ملاقات میں کچھ صورت حال واضح ہو ، وہ خود کچھ بتادے یا کسی اورذریعے سے خبر ہو جائے کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی۔ یوں آپ ایک اچھے تعلق سے محروم ہونے سے بچ سکتی ہیں۔
رشتوں میں ایسی پراسرار تبدیلیاں زیادہ تر کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں، جسے اسی طرح سے دور کیا جانا چاہیے، اکثر ہم جواباً درشتی اختیار کر لیتے ہیں، جس کے بعد اگر نزاع کی وجہ پتا بھی چل جائے، تب بھی فاصلے اس قدر بڑھ چکے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی معذرت کرنے یا تعلق پہلے جیسے کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ غلط فہمی پنیپنے نہ پائے۔