لندن اولمپکس کا شاندار آغاز
ایسے ایونٹ عالمی برادری کو ایک بنانے اور اقوام عالمی کی اجتماعی ترقی کی سوچ کو ابھارنے میں بڑے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں
KARACHI:
گزشتہ روز ایک رنگارنگ اور شاندار تقریب میں لندن اولمپکس کا افتتاح کر دیا گیا۔ یورپ کی سب سے بڑی گھنٹی بجا کر اور دنیا بھر میں 8 ہزار میل کی مسافت طے کر کے آنے والی روایتی مشعل روشن کر کے میگا ایونٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا گیا۔
کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے ملکہ برطانیہ اور کئی ملکوں کی اہم شخصیات سمیت 80 ہزار افراد اسٹیڈیم جب کہ ایک ارب لوگ اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے موجود تھے۔ اولمپکس اسٹیڈیم میں برطانیہ کے دیہی علاقے کی منظر کشی سمیت مختلف پروگراموں کو منفرد انداز میں پیش کرنے کے لیے7 سال تیاری کی گئی تھی۔ لندن اولمپکس کے دوران 204 ملکوں کے 10 ہزار سے زائد کھلاڑی دنیا بھر کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔
یہ بلاشبہ ایک بڑا ایونٹ ہے جس کی تیاریاں اور منصوبہ بندی تو حیرت انگیز ہے ہی' اس کے پس منظر میں کارفرما جذبے اور عزائم اس سے بھی زیادہ خوبصورت اور قابل پذیرائی ہیں۔ ایسے ایونٹ عالمی برادری کو ایک بنانے' مل کر آگے بڑھنے اور اقوام عالمی کی اجتماعی ترقی کی سوچ کو ابھارنے میں بڑے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ اہمیت و افادیت کی حامل ہے کہ جب پوری دنیا سے آئے ہوئے کھلاڑی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے سب سے نمایاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران کسی قسم کی مخاصمت کا اظہار نہیں کیا جاتا تو کیوں عالمی سطح پر ایک پُرامن معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ لندن اولمپکس سے پھوٹنے والی روشنی باقی دنیا تک بھی پہنچنا چاہیے
کیونکہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ کھیلوں کے اس میگا ایونٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت کو بھی ملک میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے اور سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر برطانیہ میں اولمپکس گیمز منعقد ہو سکتی ہیں تو ہم چھوٹے چھوٹے ایونٹس کے انعقاد کے بھی کیوں قابل نہیں رہے؟
گزشتہ روز ایک رنگارنگ اور شاندار تقریب میں لندن اولمپکس کا افتتاح کر دیا گیا۔ یورپ کی سب سے بڑی گھنٹی بجا کر اور دنیا بھر میں 8 ہزار میل کی مسافت طے کر کے آنے والی روایتی مشعل روشن کر کے میگا ایونٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا گیا۔
کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے ملکہ برطانیہ اور کئی ملکوں کی اہم شخصیات سمیت 80 ہزار افراد اسٹیڈیم جب کہ ایک ارب لوگ اپنے ٹی وی سیٹس کے سامنے موجود تھے۔ اولمپکس اسٹیڈیم میں برطانیہ کے دیہی علاقے کی منظر کشی سمیت مختلف پروگراموں کو منفرد انداز میں پیش کرنے کے لیے7 سال تیاری کی گئی تھی۔ لندن اولمپکس کے دوران 204 ملکوں کے 10 ہزار سے زائد کھلاڑی دنیا بھر کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔
یہ بلاشبہ ایک بڑا ایونٹ ہے جس کی تیاریاں اور منصوبہ بندی تو حیرت انگیز ہے ہی' اس کے پس منظر میں کارفرما جذبے اور عزائم اس سے بھی زیادہ خوبصورت اور قابل پذیرائی ہیں۔ ایسے ایونٹ عالمی برادری کو ایک بنانے' مل کر آگے بڑھنے اور اقوام عالمی کی اجتماعی ترقی کی سوچ کو ابھارنے میں بڑے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ اہمیت و افادیت کی حامل ہے کہ جب پوری دنیا سے آئے ہوئے کھلاڑی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے سب سے نمایاں رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران کسی قسم کی مخاصمت کا اظہار نہیں کیا جاتا تو کیوں عالمی سطح پر ایک پُرامن معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ لندن اولمپکس سے پھوٹنے والی روشنی باقی دنیا تک بھی پہنچنا چاہیے
کیونکہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ کھیلوں کے اس میگا ایونٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت کو بھی ملک میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے اور سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر برطانیہ میں اولمپکس گیمز منعقد ہو سکتی ہیں تو ہم چھوٹے چھوٹے ایونٹس کے انعقاد کے بھی کیوں قابل نہیں رہے؟