سوموٹو ایکشن عوامی داد رسی کا ذریعہ
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی میں ان کے سوموٹو ایکشن بھی حکومتی ناراضگی کا سبب بنے تھے
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکے چارج سنبھالنے کے بعد غالباً کافی سالوں بعد سوموٹو ایکشن لیے جانے پرعوام میں یہ اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیا ہے۔ انھیں اعلیٰ سطح پر داد رسی کی امید پیدا ہوگئی ہے کہ حکومتی محکموں کی نا اہلی اور غیرذمے داری دیکھنے والی حکومتیں خاموش تماشائی بن جائیں تو ملک کی سب سے بڑی عدالت عوام کو درپیش سنگین مسائل کو نظر انداز نہیں کرتی۔ اپنے سوموٹو ایکشن سے سوئے ہوئے ذمے داروں کو ان کی غفلت پرجگادیتی ہے جس سے لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اوپر ان کی داد رسی کرنے والا اور اپنے احکام پر عمل کی طاقت رکھنے والا سب سے اہم عدالتی ادارہ موجود ہے۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے جنرل پرویزکے فوجی دور میں چارج سنبھال کر عوامی مسائل حکومتی اداروں کی غفلت، حکومت وقت کی من مانیاں، اعلیٰ افسران کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں دیکھ کر سوموٹو ایکشن لینے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس سے حکمران پریشان اور عوام خوش تھے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے بڑی امیدیں لگا بیٹھے تھے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت میں بھی سپریم کورٹ رکاوٹ بنی تو جنرل پرویز نے اعلیٰ عدلیہ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور اپنے حامی من پسند ججوں کو برقرار رکھ کر متعدد اصول پرست ججوں سے جان چھڑالی تھی مگر عدلیہ بحالی تحریک شروع ہوگئی جسے ملک بھر کے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوئی اور لوگ پہلی بار عدلیہ کے لیے سڑکوں پر نکلی تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی میں ان کے سوموٹو ایکشن بھی حکومتی ناراضگی کا سبب بنے تھے اور پیپلزپارٹی بھی اقتدار میں آکر ججوں کی بحالی نہیں چاہتی تھی اور عوام کے سڑکوں پر آنے اور دباؤ پر وزیراعظم گیلانی کو ججوں کو مجبوری میں بحال کرنا پڑا تھا۔کیونکہ صدر پرویز کے بعد صدر آصف زرداری رکاوٹ بن گئے تھے۔ پی پی پی دور کے پانچ سالوں میں حکومتی من مانیوں، کرپشن، اقربا پروری اورغیر قانونی اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے متعدد بارسوموٹو ایکشن لیے اورحکومت کے خلاف متعدد فیصلے ہوئے اور مشہور سوئٹزر لینڈ کرپشن میں حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر خط نہ لکھنے کی توہین عدالت پر وزیراعظم گیلانی نا اہل قرار پائے جنھوں نے اپنے صدر زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اتنی بڑی رقم ملک واپس نہ آسکی۔
2008 میں جنرل پرویز کے صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد ملک بھر میں جمہوریت کی بحالی کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جس میں آصف علی زرداری صدر اور ان کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تھے۔ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے اپنے وزیراعلیٰ تھے اور کے پی کے میں پی پی پی کا گورنر اور مخلوط حکومت تھی جہاں بھی حکومتوں نے غلط کام کیے وہاں سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن ہوئے اور عوام کے بنیادی مسائل اشیائے خوردنی پر سوموٹو ایکشن سے عوام کو ریلیف ملا اور بے شمار عوامی مسائل حل ہوئے۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کی خبروں پر سوموٹو ایکشن لیے گئے جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ تھے جس سے عوام میں افتخار محمد چوہدری کی بھی مقبولیت بڑھی اور عوامی وسیاسی حلقوں کی طرف سے میڈیا کے ذریعے دیگر حکومتی معاملات کے خلاف بھی سوموٹو ایکشن کے مطالبے ہوئے کیونکہ حکومتوں میں کہیں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی تھی اس لیے سوموٹو عوام کا سہارا بن گئے۔
سوموٹو ایکشن کے ذریعے بعض اہم اور تاریخی فیصلے بھی ہوئے مگر افتخار محمد چوہدری کے بعد کوئی خاص سوموٹو ایکشن نہیں لیے گئے، جس سے موجودہ حکومت کو بھی حوصلہ ملا اور اس نے بھی من مانیاں کیں مگر حکومت کی کوئی خاص گرفت نہیں ہوئی، کراچی بد امنی کیس بھی سپریم کورٹ کی عوامی دلچسپی کا ثبوت تھا جو کام حکومتوں نے کرنا تھا سپریم کورٹ نے کیا۔
سپریم کورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ جوکام حکومتوں کے کرنے کے ہیں وہ بھی ہمیں کرنا پڑ رہے ہیں۔ میاں ثاقب نثار چیف جسٹس بنے جنھوں نے جنوری کے پہلے دو ہفتوں میں تین سوموٹو ایکشن لیے جن میں دو بچیوں پر تشدد اور تیسرا نہایت اہم مسئلے لاہور میں دل کے جعلی اسٹنٹس کا لیا گیا جس پر اگلے روز وزیراعظم بھی حرکت میں آئے اور انھوں نے بھی بیرون ملک ہوتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے اور اگر فاضل چیف جسٹس سوموٹو ایکشن نہ لیتے تو یہ اہم مسئلہ حکومت کی لاپرواہی کی نذر ہوجاتا، کیونکہ حکومت کو ایسے اہم معاملات پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے ۔ ایسے اہم مسئلے پر فوری توجہ وہ حکومتیں دیتی ہیں جنھیں اپنے عوام کے مسائل اور مشکلات کا احساس ہو۔ پاکستان میں بد قسمتی سے آج تک عوام کو ایسی حکومت نہیں ملی جو عوام کی عملی طورپر ہمدرد ہو ویسے زبانی طور پر ہر حکومت ہی عوام سے ہمدردی اور ان کے اہم مسائل حل کرنے کے دعوے کرتی آئی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا۔
ہر سیاسی پارٹی اقتدار میں آنے سے پہلے جو بڑے بڑے عوام کی بھلائی کے دعوے کرتی ہیں، انھیں اقتدار میں آکر صرف اپنے عزیز و اقارب، دوست اور پارٹی رہنما ہی عوام نظر آتے ہیں اور انھیں ہی نوازا جاتا ہے۔ مہنگائی ملک بھرکے عوام کا سب سے اہم مسئلہ ہے جب کہ تعلیم و صحت کا فقدان سرکاری اداروں میں ہونے والی زیادتیاں حکمرانوں کی من مانیاں اقربا پروری اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے دوکروڑ عوام کے ساتھ کے الیکٹرک کے اضافی بل، دھمکیاں دے کر جبری بل وصولی اور وفاقی محتسب کے احکامات کی خلاف ورزی وفاقی اور سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جس کے خلاف پی پی پی اور متحدہ سمیت تمام جماعتیں مطالبات اور احتجاج کرچکی ہیں اور سپریم کورٹ کورٹ سے بھی اپیلیں ہوتی رہی ہیں کہ وہ ہی کے الیکٹرک کے خلاف عوام کی سنے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی اور کے الیکٹرک سوموٹو ایکشن سے محفوظ چلی آرہی ہے۔
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے سوموٹو ایکشن لینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے ملک بھر کے عوام کو حوصلہ ملا ہے ۔ جو گزشتہ عرصے میں سوموٹو ایکشن نہ لیے جانے پر مایوس تھے اور اب انھیں امید نظر آئی ہے کہ فاضل چیف جسٹس کراچی میں رینجرز کو اختیارات نہ دینے کے سندھ حکومت کے تاخیری منصوبوں پر جواب طلب کریںگے اور کراچی کے صارفین بجلی کو کے الیکٹرک سے نجات دلائیںگے جو صارفین کو لوٹ کر شیئر شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنا چاہتی ہے جس کے خلاف سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی درخواست زیر التوا ہے اور نیپرا سے جواب طلب کریںگے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی واپڈا کے لیے ہوتی ہے تو کے الیکٹرک کے لیے کیوں نہیں ہوتی۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے جنرل پرویزکے فوجی دور میں چارج سنبھال کر عوامی مسائل حکومتی اداروں کی غفلت، حکومت وقت کی من مانیاں، اعلیٰ افسران کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں دیکھ کر سوموٹو ایکشن لینے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس سے حکمران پریشان اور عوام خوش تھے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے بڑی امیدیں لگا بیٹھے تھے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت میں بھی سپریم کورٹ رکاوٹ بنی تو جنرل پرویز نے اعلیٰ عدلیہ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں اور اپنے حامی من پسند ججوں کو برقرار رکھ کر متعدد اصول پرست ججوں سے جان چھڑالی تھی مگر عدلیہ بحالی تحریک شروع ہوگئی جسے ملک بھر کے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوئی اور لوگ پہلی بار عدلیہ کے لیے سڑکوں پر نکلی تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی میں ان کے سوموٹو ایکشن بھی حکومتی ناراضگی کا سبب بنے تھے اور پیپلزپارٹی بھی اقتدار میں آکر ججوں کی بحالی نہیں چاہتی تھی اور عوام کے سڑکوں پر آنے اور دباؤ پر وزیراعظم گیلانی کو ججوں کو مجبوری میں بحال کرنا پڑا تھا۔کیونکہ صدر پرویز کے بعد صدر آصف زرداری رکاوٹ بن گئے تھے۔ پی پی پی دور کے پانچ سالوں میں حکومتی من مانیوں، کرپشن، اقربا پروری اورغیر قانونی اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے متعدد بارسوموٹو ایکشن لیے اورحکومت کے خلاف متعدد فیصلے ہوئے اور مشہور سوئٹزر لینڈ کرپشن میں حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر خط نہ لکھنے کی توہین عدالت پر وزیراعظم گیلانی نا اہل قرار پائے جنھوں نے اپنے صدر زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اتنی بڑی رقم ملک واپس نہ آسکی۔
2008 میں جنرل پرویز کے صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد ملک بھر میں جمہوریت کی بحالی کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جس میں آصف علی زرداری صدر اور ان کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تھے۔ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے اپنے وزیراعلیٰ تھے اور کے پی کے میں پی پی پی کا گورنر اور مخلوط حکومت تھی جہاں بھی حکومتوں نے غلط کام کیے وہاں سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن ہوئے اور عوام کے بنیادی مسائل اشیائے خوردنی پر سوموٹو ایکشن سے عوام کو ریلیف ملا اور بے شمار عوامی مسائل حل ہوئے۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کی خبروں پر سوموٹو ایکشن لیے گئے جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ تھے جس سے عوام میں افتخار محمد چوہدری کی بھی مقبولیت بڑھی اور عوامی وسیاسی حلقوں کی طرف سے میڈیا کے ذریعے دیگر حکومتی معاملات کے خلاف بھی سوموٹو ایکشن کے مطالبے ہوئے کیونکہ حکومتوں میں کہیں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی تھی اس لیے سوموٹو عوام کا سہارا بن گئے۔
سوموٹو ایکشن کے ذریعے بعض اہم اور تاریخی فیصلے بھی ہوئے مگر افتخار محمد چوہدری کے بعد کوئی خاص سوموٹو ایکشن نہیں لیے گئے، جس سے موجودہ حکومت کو بھی حوصلہ ملا اور اس نے بھی من مانیاں کیں مگر حکومت کی کوئی خاص گرفت نہیں ہوئی، کراچی بد امنی کیس بھی سپریم کورٹ کی عوامی دلچسپی کا ثبوت تھا جو کام حکومتوں نے کرنا تھا سپریم کورٹ نے کیا۔
سپریم کورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ جوکام حکومتوں کے کرنے کے ہیں وہ بھی ہمیں کرنا پڑ رہے ہیں۔ میاں ثاقب نثار چیف جسٹس بنے جنھوں نے جنوری کے پہلے دو ہفتوں میں تین سوموٹو ایکشن لیے جن میں دو بچیوں پر تشدد اور تیسرا نہایت اہم مسئلے لاہور میں دل کے جعلی اسٹنٹس کا لیا گیا جس پر اگلے روز وزیراعظم بھی حرکت میں آئے اور انھوں نے بھی بیرون ملک ہوتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے اور اگر فاضل چیف جسٹس سوموٹو ایکشن نہ لیتے تو یہ اہم مسئلہ حکومت کی لاپرواہی کی نذر ہوجاتا، کیونکہ حکومت کو ایسے اہم معاملات پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے ۔ ایسے اہم مسئلے پر فوری توجہ وہ حکومتیں دیتی ہیں جنھیں اپنے عوام کے مسائل اور مشکلات کا احساس ہو۔ پاکستان میں بد قسمتی سے آج تک عوام کو ایسی حکومت نہیں ملی جو عوام کی عملی طورپر ہمدرد ہو ویسے زبانی طور پر ہر حکومت ہی عوام سے ہمدردی اور ان کے اہم مسائل حل کرنے کے دعوے کرتی آئی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا۔
ہر سیاسی پارٹی اقتدار میں آنے سے پہلے جو بڑے بڑے عوام کی بھلائی کے دعوے کرتی ہیں، انھیں اقتدار میں آکر صرف اپنے عزیز و اقارب، دوست اور پارٹی رہنما ہی عوام نظر آتے ہیں اور انھیں ہی نوازا جاتا ہے۔ مہنگائی ملک بھرکے عوام کا سب سے اہم مسئلہ ہے جب کہ تعلیم و صحت کا فقدان سرکاری اداروں میں ہونے والی زیادتیاں حکمرانوں کی من مانیاں اقربا پروری اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے دوکروڑ عوام کے ساتھ کے الیکٹرک کے اضافی بل، دھمکیاں دے کر جبری بل وصولی اور وفاقی محتسب کے احکامات کی خلاف ورزی وفاقی اور سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جس کے خلاف پی پی پی اور متحدہ سمیت تمام جماعتیں مطالبات اور احتجاج کرچکی ہیں اور سپریم کورٹ کورٹ سے بھی اپیلیں ہوتی رہی ہیں کہ وہ ہی کے الیکٹرک کے خلاف عوام کی سنے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی اور کے الیکٹرک سوموٹو ایکشن سے محفوظ چلی آرہی ہے۔
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے سوموٹو ایکشن لینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے ملک بھر کے عوام کو حوصلہ ملا ہے ۔ جو گزشتہ عرصے میں سوموٹو ایکشن نہ لیے جانے پر مایوس تھے اور اب انھیں امید نظر آئی ہے کہ فاضل چیف جسٹس کراچی میں رینجرز کو اختیارات نہ دینے کے سندھ حکومت کے تاخیری منصوبوں پر جواب طلب کریںگے اور کراچی کے صارفین بجلی کو کے الیکٹرک سے نجات دلائیںگے جو صارفین کو لوٹ کر شیئر شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنا چاہتی ہے جس کے خلاف سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی درخواست زیر التوا ہے اور نیپرا سے جواب طلب کریںگے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی واپڈا کے لیے ہوتی ہے تو کے الیکٹرک کے لیے کیوں نہیں ہوتی۔