جنگل باتیں کرتا ہے
تھانہ احمد نگر سے آگے اب کیرتھر نیشنل پارک کا علاقہ شروع ہوچکا تھا
شام کے سائے رات میں تبدیل ہوتے جارہے تھے۔ راستے کے پتھر بھی آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو رہے تھے اور زمین پر بنے راستوں میں سے کس راستے پر جانا ہے یہ فیصلہ اس شخص کے ہاتھ میں تھا جو اسٹیئرنگ وہیل کے پیچھے بیٹھا گاڑی کو بہت اعتماد کے ساتھ موڑ رہا تھا۔ ہم سب اندھیرے کا حصہ ہے۔ ہماری آوازیں ہمارے ہونے کا ثبوت تھیں۔
تھانہ احمد نگر سے آگے اب کیرتھر نیشنل پارک کا علاقہ شروع ہوچکا تھا، ہم ایک ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف غلام سرورجمالی کے ہمراہ تھے جو اس وقت ڈرائیونگ پر تھے اور سارے سفرکے دوران چاہے وہ گاڑی میں تھا یا پیدل اس سیٹ کے حقدار وہی تھے کیونکہ وہ جنگل سے باتیں کرتے تھے اور جنگل ان سے بولتا تھا۔ جنگلی حیات کے بارے میں یہ ڈاکیومنٹری اور اس کا مقصد لوگوں تک یہ آگاہی پہنچانی تھی کہ ہمارا ملک کتنا خوبصورت ہے اور اپنے ملک کو دیکھنا چاہیے۔
اس نیشنل پارک میں پہاڑی بکرے جنھیں آئی بیکس کہا جاتا ہے، اڑیال (ہرنوں کی ایک نایاب نسل ہم اسے کہہ سکتے ہیں) بھیڑیا، چرخ (کبھی چیتے بھی ہوتے تھے)،گیدڑ، لومڑی، مگرمچھ، طویل القامت زمینی چھپکلیاںLizards، عقاب گدھ، بلبل، مینا اوردوسرے ڈھائی سو قسم کے خوبصورت پرندے اور بھی بہت کچھ موجود ہے جسے دیکھ کر انسانی عقل قدرت کی صناعی پر دنگ رہ جاتی ہے۔
کرچات اِن کا جنگل کا دفتر ہے جو نوری آباد سے دائیں ہاتھ پر تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر اس خوبصورت مقام پر واقع ہے جو تصویروں کی زبان میں ایک حسین ''لینڈ اسکیپ'' ہے۔ اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ''پیرغیبی'' یا غیبی پیرکے مزار پر حاضری کا موقعہ ملا جو اس جنگل میں ایک حیران کن جگہ ہے جس کا بے حد اچھا انتظام ہے۔ مسافر خانہ ہے اس جنگل میں اور زائرین دور دراز سے آتے ہیں۔
اس پورے علاقے کا کمال یہ ہے کہ یہاں کی بستیوں میں اندھیرا نہیں تھا، مایوسی نہیں تھی، روشنی تھی اور یہ تمام Solar انرجی کا کمال تھا جسے مکمل طور پر یہاں کے لوگوں نے اختیار کرلیا ہے کیونکہ محکموں اور سیاست دونوں کے یہ ڈسے ہوئے تھے۔ یہاں کے لوگوں کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو بجلی دی جائے گی، سرکاری طور پر جو فائدے درمیان کے لوگ اٹھاتے ہیں وہ انھوں نے اٹھائے، پھر اچانک بجلی بند کردی گئی، آج تک بند ہے۔
ان لوگوں کو اب اس کی ضرورت نہیں ہے وہ فریج اور دوسرا سامان خرید چکے تھے، انھیں دھوکا دے کر لاکھوں کا نقصان کروایا گیا۔انھوں نے ایک بہتر فیصلہ کیا۔ مزید رقم خرچ کرکے Solar انرجی پرآگئے دن بھر سورج سے توانائی جمع کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں۔ ان کے ٹیوب ویل بھی اس سے چلتے ہیں۔ یہاں بارانی علاقہ ہے اور یہ زمین سے پانی نکال کر اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پیاز یہاں کی خاص فصل ہے جو بیرون ملک تک جاتی ہے اور سات آٹھ ماہ تک خراب نہیں ہوتی۔
رات ہم نے کرچات کے ریسٹ ہاؤس میں گزاری جو اس مقام پر رہائش کے لحاظ سے ایک عظیم نعمت ہے۔ ناشتے کے بعد ہم کیرتھر نیشنل پارک میں اڑیال،آئی بیکس کا مشاہدہ کرنے روانہ ہوئے۔ یہ ڈاکیومنٹری محمد عارف آرائیں تیارکر رہے تھے۔ بشیر بھی ساتھ تھے میں Narra Tor کے علاوہ ایک بے چین سیاح کی صورت ساتھ تھا۔ پہاڑی ندی کو ہم نے چار پانچ بارکراس کیا جو پتھروں سے بھری پڑی تھی اور جس کے کنارے بھی پتھریلے تھے اورکناروں کی اونچائی چھ فٹ کے قریب ہوگی۔ ندی خشک تھی۔ کس طرح اس میں گاڑی اترتی اور چاروں پہیوں سے کنارے چڑھتی یہ ایک کمال ہے۔ ایک چلتی پھرتی فلم کا سا منظر ہے۔ پہاڑوں کے اوپر ایک مقام کے بعد گاڑی نہیں جاسکتی تھی لہٰذا پیدل چڑھنا پڑا جو عام حالات میں حوصلہ شکن ہوتا مگر اس وقت چھ حواس کام کر رہے تھے۔
مختلف مقامات پر بہت خاموشی سے کہ جنگل کی خاموشی پراسرار ہوتی ہے ہم نے خاص مچانوں پر پہنچ کر اڑیال اور آئی بیکس کو دیکھا۔اس میں 2500 فٹ سب سے اونچے مقام پر ایک جگہ سیدھے ہاتھ پر کچھ لوگ بیٹھے تھے ۔
یہاں وائلڈ لائف کا اسٹاف تھا جو یہاں غیر قانونی شکارکو روکنے اور اس جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے تعینات ہے۔ یہ لوگ یہاں کے ہی رہنے والے ہیں۔کیرتھر نیشنل پارک میں پچاس گاؤں آباد ہیں یہ یہاں کے قدیمی لوگ ہیں۔اس علاقے کو پارک تو بعد میں اعلان کیا گیا یہ تو صدیوں سے یہاں رہتے ہیں۔ مسئلے کو یوں حل کیا گیا کہ ہر گھر سے ایک شخص کوگارڈ کی ملازمت دی گئی ، ابتدائی تنخواہ پندرہ ہزار اور پھر سینیارٹی کے لحاظ سے جو بھی سرکاری مروجہ طریقہ ہے۔ یہ لوگ اس پارک کی جنگلی حیات کے نگران، چوکیدار ہیں۔
یہ ایک اچھا اقدام تھا اور جاری رہنا چاہیے۔ یہ لوگ یہاں رہتے ہیں، جانوروں، پرندوں، گوشت خور جانوروں کے ٹھکانے جانتے ہیں یہی سب لوگوں کو پہچانتے ہیں تو ان سے اچھے چوکیدار اورکون ہوسکتے ہیں۔ ہم ٹونگ پہنچے مگر راستے میں انھوں نے ہمیں کہا آپ کوکیرتھر کی جنت دکھاتے ہیں۔ اور وہ پہاڑوں کے درمیان شاید 2000 فٹ کی اونچائی پر''تکھو''کے مقام پر وہاں کی خوبصورت ندی یا دریا جو آپ چاہے کہہ لیں تھی۔
دور تک پھیلا ہوا پانی جو سال بھر ہی پایا جاتا ہے، آتا رہتا ہے بہتا رہتا ہے۔ سندھی میں ''تکھو'' کا مطلب ہے ''تیز'' اس وجہ سے یہ مقام اور پانی تکھو مشہور ہے نظروں میں رہ گیا وہ منظر شاید پھر دیکھ سکیں کبھی۔گزشتہ رات کرچات میں ''مچ کچہری'' بھی ہوتی تھی ہر پہاڑی مقام پر آگ جلا کر بیٹھے ہیں ارد گرد اسے ''مچ'' کہتے ہیں سندھ اور پنجاب میں، یہاں ''مچ کچہری'' میں یہاں کے لوگوں نے اور مقامی فنکاروں نے شرکت کی تھی اور رات کے سناٹے میں ان کی آوازیں بہت خوبصورت تھیں سازوں کی بھی، گھڑے کی بھی اور انسان کی بھی۔تکھو سے ہم ایک علاقے ٹونگ Tongپہنچے جہاں ایک شخصیت جام لوہارکا مزار اور بہت قدیمی قبرستان ہے جو چوکھنڈی طرزکی قبروں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک اسد سکندر کے آباؤ اجداد میں سے ایک بزرگ ہیں اور یہ ان کا خاندانی قبرستان ہے یہاں تین اور قبرستان بھی ہیں۔
اگر عام حالات میں اس دشوار گزار علاقے میں سفرکیا جائے تو بہت مشکل ہے۔ مگر شوق نے مہمیز کیا تو کچھ مشکل نہ رہا۔ یہ ایک حسین علاقہ ہے۔ رنی کوٹ کا مشہور قلعہ بھی ایک بہت خوبصورت مقام ہے جو اس پارک کا ہی حصہ ہے مگر عدم سہولیات نے ان علاقوں کے حسن کو دھندلا دیا ہے۔
ضرورت یہ ہے کہ کیرتھر نیشنل پارک میں بشمول رنی کوٹ آنے والوں کے ٹھہرنے کا بہترین بندوبست کیا جائے قیام گاہیں تعمیر کی جائیں، اچھے اسٹینڈرڈ کی بھی اور عام لوگوں کے لیے بھی۔ کرچات اور رنی کوٹ اس کے لیے بہترین مقامات ہیں، راستے اچھے بنائے جائیں پانی کا بندوبست کیا جائے کہ سب سے ضروری چیز ہے اس سفر میں۔یہ سارا علاقہ آرکیالوجی کے لیے بہترین ''تحقیق گاہ'' ہے اور یہاں کوشش کی جائے تو تاریخ کا بہت سا چھپا ہوا خزانہ مل سکتا ہے۔ یہاں گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ تحقیق کی ضرورت ہے اور آگاہی کی تاکہ لوگ اپنی اس قیمتی جگہ کو وزٹ کریں اور یہاں سے بہت خوبصورت یادیں اپنے ساتھ لے جائیں جیسے کہ ہم لائے ہیں اور کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہاں کا ہر پتھر، ہر بوٹا، چرند پرند باتیں کرتے ہیں۔ جنگل بولتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ سننے والے کان اور گفتگو کرنے والی زبان چاہیے۔ یعنی جنگل کو سلیمان چاہیے۔
تھانہ احمد نگر سے آگے اب کیرتھر نیشنل پارک کا علاقہ شروع ہوچکا تھا، ہم ایک ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈ لائف غلام سرورجمالی کے ہمراہ تھے جو اس وقت ڈرائیونگ پر تھے اور سارے سفرکے دوران چاہے وہ گاڑی میں تھا یا پیدل اس سیٹ کے حقدار وہی تھے کیونکہ وہ جنگل سے باتیں کرتے تھے اور جنگل ان سے بولتا تھا۔ جنگلی حیات کے بارے میں یہ ڈاکیومنٹری اور اس کا مقصد لوگوں تک یہ آگاہی پہنچانی تھی کہ ہمارا ملک کتنا خوبصورت ہے اور اپنے ملک کو دیکھنا چاہیے۔
اس نیشنل پارک میں پہاڑی بکرے جنھیں آئی بیکس کہا جاتا ہے، اڑیال (ہرنوں کی ایک نایاب نسل ہم اسے کہہ سکتے ہیں) بھیڑیا، چرخ (کبھی چیتے بھی ہوتے تھے)،گیدڑ، لومڑی، مگرمچھ، طویل القامت زمینی چھپکلیاںLizards، عقاب گدھ، بلبل، مینا اوردوسرے ڈھائی سو قسم کے خوبصورت پرندے اور بھی بہت کچھ موجود ہے جسے دیکھ کر انسانی عقل قدرت کی صناعی پر دنگ رہ جاتی ہے۔
کرچات اِن کا جنگل کا دفتر ہے جو نوری آباد سے دائیں ہاتھ پر تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر اس خوبصورت مقام پر واقع ہے جو تصویروں کی زبان میں ایک حسین ''لینڈ اسکیپ'' ہے۔ اس علاقے کی ایک معروف شخصیت ''پیرغیبی'' یا غیبی پیرکے مزار پر حاضری کا موقعہ ملا جو اس جنگل میں ایک حیران کن جگہ ہے جس کا بے حد اچھا انتظام ہے۔ مسافر خانہ ہے اس جنگل میں اور زائرین دور دراز سے آتے ہیں۔
اس پورے علاقے کا کمال یہ ہے کہ یہاں کی بستیوں میں اندھیرا نہیں تھا، مایوسی نہیں تھی، روشنی تھی اور یہ تمام Solar انرجی کا کمال تھا جسے مکمل طور پر یہاں کے لوگوں نے اختیار کرلیا ہے کیونکہ محکموں اور سیاست دونوں کے یہ ڈسے ہوئے تھے۔ یہاں کے لوگوں کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو بجلی دی جائے گی، سرکاری طور پر جو فائدے درمیان کے لوگ اٹھاتے ہیں وہ انھوں نے اٹھائے، پھر اچانک بجلی بند کردی گئی، آج تک بند ہے۔
ان لوگوں کو اب اس کی ضرورت نہیں ہے وہ فریج اور دوسرا سامان خرید چکے تھے، انھیں دھوکا دے کر لاکھوں کا نقصان کروایا گیا۔انھوں نے ایک بہتر فیصلہ کیا۔ مزید رقم خرچ کرکے Solar انرجی پرآگئے دن بھر سورج سے توانائی جمع کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں۔ ان کے ٹیوب ویل بھی اس سے چلتے ہیں۔ یہاں بارانی علاقہ ہے اور یہ زمین سے پانی نکال کر اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پیاز یہاں کی خاص فصل ہے جو بیرون ملک تک جاتی ہے اور سات آٹھ ماہ تک خراب نہیں ہوتی۔
رات ہم نے کرچات کے ریسٹ ہاؤس میں گزاری جو اس مقام پر رہائش کے لحاظ سے ایک عظیم نعمت ہے۔ ناشتے کے بعد ہم کیرتھر نیشنل پارک میں اڑیال،آئی بیکس کا مشاہدہ کرنے روانہ ہوئے۔ یہ ڈاکیومنٹری محمد عارف آرائیں تیارکر رہے تھے۔ بشیر بھی ساتھ تھے میں Narra Tor کے علاوہ ایک بے چین سیاح کی صورت ساتھ تھا۔ پہاڑی ندی کو ہم نے چار پانچ بارکراس کیا جو پتھروں سے بھری پڑی تھی اور جس کے کنارے بھی پتھریلے تھے اورکناروں کی اونچائی چھ فٹ کے قریب ہوگی۔ ندی خشک تھی۔ کس طرح اس میں گاڑی اترتی اور چاروں پہیوں سے کنارے چڑھتی یہ ایک کمال ہے۔ ایک چلتی پھرتی فلم کا سا منظر ہے۔ پہاڑوں کے اوپر ایک مقام کے بعد گاڑی نہیں جاسکتی تھی لہٰذا پیدل چڑھنا پڑا جو عام حالات میں حوصلہ شکن ہوتا مگر اس وقت چھ حواس کام کر رہے تھے۔
مختلف مقامات پر بہت خاموشی سے کہ جنگل کی خاموشی پراسرار ہوتی ہے ہم نے خاص مچانوں پر پہنچ کر اڑیال اور آئی بیکس کو دیکھا۔اس میں 2500 فٹ سب سے اونچے مقام پر ایک جگہ سیدھے ہاتھ پر کچھ لوگ بیٹھے تھے ۔
یہاں وائلڈ لائف کا اسٹاف تھا جو یہاں غیر قانونی شکارکو روکنے اور اس جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے تعینات ہے۔ یہ لوگ یہاں کے ہی رہنے والے ہیں۔کیرتھر نیشنل پارک میں پچاس گاؤں آباد ہیں یہ یہاں کے قدیمی لوگ ہیں۔اس علاقے کو پارک تو بعد میں اعلان کیا گیا یہ تو صدیوں سے یہاں رہتے ہیں۔ مسئلے کو یوں حل کیا گیا کہ ہر گھر سے ایک شخص کوگارڈ کی ملازمت دی گئی ، ابتدائی تنخواہ پندرہ ہزار اور پھر سینیارٹی کے لحاظ سے جو بھی سرکاری مروجہ طریقہ ہے۔ یہ لوگ اس پارک کی جنگلی حیات کے نگران، چوکیدار ہیں۔
یہ ایک اچھا اقدام تھا اور جاری رہنا چاہیے۔ یہ لوگ یہاں رہتے ہیں، جانوروں، پرندوں، گوشت خور جانوروں کے ٹھکانے جانتے ہیں یہی سب لوگوں کو پہچانتے ہیں تو ان سے اچھے چوکیدار اورکون ہوسکتے ہیں۔ ہم ٹونگ پہنچے مگر راستے میں انھوں نے ہمیں کہا آپ کوکیرتھر کی جنت دکھاتے ہیں۔ اور وہ پہاڑوں کے درمیان شاید 2000 فٹ کی اونچائی پر''تکھو''کے مقام پر وہاں کی خوبصورت ندی یا دریا جو آپ چاہے کہہ لیں تھی۔
دور تک پھیلا ہوا پانی جو سال بھر ہی پایا جاتا ہے، آتا رہتا ہے بہتا رہتا ہے۔ سندھی میں ''تکھو'' کا مطلب ہے ''تیز'' اس وجہ سے یہ مقام اور پانی تکھو مشہور ہے نظروں میں رہ گیا وہ منظر شاید پھر دیکھ سکیں کبھی۔گزشتہ رات کرچات میں ''مچ کچہری'' بھی ہوتی تھی ہر پہاڑی مقام پر آگ جلا کر بیٹھے ہیں ارد گرد اسے ''مچ'' کہتے ہیں سندھ اور پنجاب میں، یہاں ''مچ کچہری'' میں یہاں کے لوگوں نے اور مقامی فنکاروں نے شرکت کی تھی اور رات کے سناٹے میں ان کی آوازیں بہت خوبصورت تھیں سازوں کی بھی، گھڑے کی بھی اور انسان کی بھی۔تکھو سے ہم ایک علاقے ٹونگ Tongپہنچے جہاں ایک شخصیت جام لوہارکا مزار اور بہت قدیمی قبرستان ہے جو چوکھنڈی طرزکی قبروں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک اسد سکندر کے آباؤ اجداد میں سے ایک بزرگ ہیں اور یہ ان کا خاندانی قبرستان ہے یہاں تین اور قبرستان بھی ہیں۔
اگر عام حالات میں اس دشوار گزار علاقے میں سفرکیا جائے تو بہت مشکل ہے۔ مگر شوق نے مہمیز کیا تو کچھ مشکل نہ رہا۔ یہ ایک حسین علاقہ ہے۔ رنی کوٹ کا مشہور قلعہ بھی ایک بہت خوبصورت مقام ہے جو اس پارک کا ہی حصہ ہے مگر عدم سہولیات نے ان علاقوں کے حسن کو دھندلا دیا ہے۔
ضرورت یہ ہے کہ کیرتھر نیشنل پارک میں بشمول رنی کوٹ آنے والوں کے ٹھہرنے کا بہترین بندوبست کیا جائے قیام گاہیں تعمیر کی جائیں، اچھے اسٹینڈرڈ کی بھی اور عام لوگوں کے لیے بھی۔ کرچات اور رنی کوٹ اس کے لیے بہترین مقامات ہیں، راستے اچھے بنائے جائیں پانی کا بندوبست کیا جائے کہ سب سے ضروری چیز ہے اس سفر میں۔یہ سارا علاقہ آرکیالوجی کے لیے بہترین ''تحقیق گاہ'' ہے اور یہاں کوشش کی جائے تو تاریخ کا بہت سا چھپا ہوا خزانہ مل سکتا ہے۔ یہاں گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ تحقیق کی ضرورت ہے اور آگاہی کی تاکہ لوگ اپنی اس قیمتی جگہ کو وزٹ کریں اور یہاں سے بہت خوبصورت یادیں اپنے ساتھ لے جائیں جیسے کہ ہم لائے ہیں اور کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہاں کا ہر پتھر، ہر بوٹا، چرند پرند باتیں کرتے ہیں۔ جنگل بولتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ سننے والے کان اور گفتگو کرنے والی زبان چاہیے۔ یعنی جنگل کو سلیمان چاہیے۔