ادب کے زنانہ و مردانہ ڈبّے
عقل سے پیدل لوگ یہ نہیں جانتے کہ ’’تخلیق کار‘‘ صرف اور صرف تخلیق کار ہوتا ہے، عورت یا مرد نہیں
LONDON:
ہمارے ہاں عام طور سے خواتین کے ساتھ ایک مخصوص معاندانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں ان کے لیے ایک الگ ایسا زنانہ ڈبّہ لگا ہوا ہے، جس کے اندر سے انھیں تو باہر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ مردانہ ڈبّے والے جب اور جہاں سے چاہیں اندر بیٹھی خواتین کو ہر طرح سے موضوع گفتگو بنا سکتے ہیں،
کیونکہ وہ مرد ہیں اور انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے جب کہ خواتین اگر اپنے سماج کے مقرر کردہ دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تو وہ نہ صرف گردن زدنی ٹھہرائی جاتی ہیں بلکہ ہر طرف سے انگلیاں بھی اٹھتی ہیں۔
دراصل ہمارے ہاں آج بھی خواتین کے حوالے سے قبائلی رسوم و رواج ہی کی حکمرانی ہے۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ مردوں کی سائیکی بھی اپنے ماحول کی وجہ وہی رہتی ہے جو صدیوں پہلے ان کے اجداد کی تھی۔
اس سے میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ قدرت نے جب انھیں الگ الگ پیدا کیا تو ان کی ذمے داریاں بھی الگ الگ تھیں۔ جسمانی طور پر عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن عقل و فراست میں خدا نے بھی تفریق نہیں کی۔
میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتی کہ عورتوں کی آزادی کے نام پر جو خرافات سماج میں داخل ہوگئی ہیں وہ درست ہیں۔ مثلاً آزادی کے نام پر جب ایک مخصوص طبقے کی عورتیں بطور فیشن یا بطور احتجاج کھلے عام سگریٹ نوشی کرتی ہیں یا جام سے جام ٹکرا کر ماڈرن ہونے کا ثبوت دیتی ہیں تو وہ صحیح کرتی ہیں۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں
وہاں سول سوسائٹی میں بھی خواتین کا ایک الگ مقام ہے۔ یہ خیال رہے کہ میری مراد اس وقت قبائلی کلچر سے نہیں ہے جہاں عورتوں کو محض بھیڑ بکریاں یا خرید و فروخت کا سامان سمجھا جاتا ہے، بلکہ میرا موضوعِ سخن معاشرے کے وہ افراد ہیں جو بظاہر تو ڈگری یافتہ اور پڑھے لکھے نظر آتے ہیں، پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں، کلین شیو بھی رکھتے ہیں،
لیکن پڑھی لکھی اور قابل خواتین کے بارے میں ان کی سوچ نہایت سطحی اور طالبان ذہنیت کی عکاس ہوتی ہے۔ وہ آج کے دور میں بھی تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے شعبے میں نمایاں خواتین کے کردار پر صرف اس لیے انگلی اٹھاتے ہیں کہ وہ ان کی طرح قابل نہیں ہیں۔
فہم و ادراک اور بصیرت کے حامل نہیں ہیں۔ یوں اپنے احساسِ کمتری کے منفی جذبوں سے مغلوب ہو کر وہ جب اور جہاں چاہیں کوئی بھی گھٹیا ریمارکس پاس کر دیتے ہیں، جس سے ان کے ارد گرد بیٹھے لوگ بھی محظوظ ہو کر ایک قہقہہ بلند کر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح ہم نے ادب میں بھی زنانے اور مردانے کمپارٹمنٹ بنا دیے ہیں۔ مردوںکو ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھانے کی آزادی ہے، خواہ وہ ان کی گمشدہ راتوں کی بازیافت ہو یا زندگی کے وہ تجربے اور گوشے جنھیں پبلک میں نہیں لانا چاہیے، لیکن وہ ان سب کو مزے لے لے کر ڈھٹائی اور بے باکی سے بیان کرتے ہیں اور اسے ''حقیقت پسندی'' سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی خاتون لکھاری اپنے قوتِ مشاہدہ کی بِنا پر زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے تو معتوب ٹھہرتی ہے۔
''اوہو... خاتون ہو کر یہ کیا لکھ رہی ہیں؟ انھیں اپنے عورت ہونے کا بھی خیال نہیں۔'' ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ تخلیق کار کے اندر ایک تیسری آنکھ بھی ہوتی ہے جو ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتی ہے جو اوروں کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ اس بات کو آپ یوں سمجھیے کہ ''نرمان'' یا ''زنانہ'' انھیں دیکھ کر ایک عام آدمی حقارت کا اظہار کرتا ہے اور تمسخر بھی اڑاتا ہے، جب کہ ایک لکھنے والا یا لکھنے والی اس کے اندر ہونے والی ہلچل سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ وہ سماج کی ناانصافی کو اپنے قلم کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے لیکن اس موضوع پر اگر مرد قلم کار کچھ کہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ مرد ہے۔
لیکن اگر کوئی خاتون اس ''زنانے'' کے اندرونی کرب اور قدرت کی ستم ظریفی کو سامنے لائے تو ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو ہنس کر یہ ریمارک پاس کرتے ہیں۔ ''لو جی یہ کیا ہروقت ''زنانوں'' کے ساتھ رہتی ہیں۔'' عقل سے پیدل لوگ یہ نہیں جانتے کہ ''تخلیق کار'' صرف اور صرف تخلیق کار ہوتا ہے، عورت یا مرد نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آپریشن ٹیبل پہ پڑا جسم ایک ڈاکٹر کے لیے صرف ایک انسانی وجود ہوتا ہے عورت یا مرد نہیں۔
قرۃ العین حیدر جو جیتے جی ایک لیجنڈ بن گئی تھیں، انھیں بھی اپنے نام نہاد نقّادوں سے یہی شکایت تھی کہ جب انھوں نے ارباب نشاط سے متعلق کہانیاں لکھیں تو حاسدوں نے ٹکڑا لگایا کہ یہ تو اس طرح ناچنے گانے والیوں کے قصّے لکھتی ہیں گویا انھی کے ساتھ رہتی ہوں۔ اسی طرح ان پر بہت سے اعتراضات محض پرخاش کی بِنا پر لگائے گئے۔ تب ایک دفعہ جل کر انھوں نے کہا کہ ''کیا ضروری ہے کہ جب میں سرکس کے کسی کردار کی کہانی لکھوں تو پہلے سرکس میں نوکری کروں اور وہاں کے کرتب سیکھوں۔''
اسی طرح جب انھوں نے زمرد پری کی کہانی ''سنگھار دان'' لکھی، ''گردشِ رنگ چمن'' میں نواب بائی آف جے پور، دل نواز اور مہرو، ''اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو'' کی رشک قمر اور دلربا کی گلنار کے کردار تخلیق کیے، تب بھی کم ظرف لوگوں نے کہا کہ خانگیوں کی زبان تو ایسے لکھی ہے جیسا ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی طبقے میں ہو۔ اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ''تار پر چلنے والی'' میں سرکس گرل مس لارا کی کہانی جب لکھی گئی تو کسی احمق نے یہ بھی کہا کہ ''بلا سرکس والوں کے ساتھ وقت گزارے ایسا افسانہ کیسے لکھا جاسکتا ہے؟''
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج کے خود ساختہ ٹھیکے دار کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ خواتین کو کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ادب میں یہ رویہ بڑا غیر فطری اور انتہا پسندانہ ہے۔ نظر اور مشاہدہ مرد اور عورت دونوں کے پاس ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مرد حضرات کی مشاہداتی قوت زیادہ تر خارجی کیفیات اور مناظر پر رہتی ہے، جب کہ خواتین داخلی کیفیات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ویسے بھی جہاں تک چھٹی حس کا تعلق ہے تو وہ خواتین کی زیادہ تیز ہوتی ہے۔
مرد اور عورت سماج کے دو بنیادی ستون ہیں، جس پر سوسائٹی کی عمارت کھڑی ہے۔ اس عمارت میں زندگی کے ہزاروں شعبے ہیں، جہاں دونوں مل کر کام کرتے ہیں، انھی شعبوں میں سے ایک اعلیٰ ترین اور حساس شعبہ ادب کا بھی ہے۔ عورت ہو یا مرد دونوں اپنے اپنے زاویۂ نظر سے اشیاء، رویوں اور جذبوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے ان مسائل اور تلخ حقیقتوں کا اظہار اپنے قلم سے کرتے ہیں۔
دس بارہ سال پہلے میرے ایک افسانے پر بھی کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ یہ موضوع ایسا نہیں ہے کہ جس پر کوئی خاتون قلم اٹھائے۔ یہی صورتِ حال رہی تو مجھے یقین ہے کہ ایک دن اسمبلی میں یہ بل ضرور پاس ہوگا کہ خواتین کو جنس، طوائف مخنّث، بھکاری، فاحشہ عورتیں، پیشہ ور گداگر عورتیں، بدقماش اور بدکردار مردوں کی کہانیاں، کالم اور نظمیں لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
انھیں صرف ان عورتوں کی کہانیاں لکھنے کی اجازت ہے، جن کے شوہر کسی گیشا یا کال گرل کے پاس وقت بِتا کر گھر آئے تو وہ ''میرے سرتاج کہاں رہ گئے تھے'' کہہ کر ان کے جوتے اتارے اور کھانا گرم کر کے ان کے آگے رکھ دے۔ لیکن ان عورتوں کی کہانیاں لکھنے کی اجازت نہ ملے جو شوہر کی موجودگی میں تمام حدیں پار کر جائیں۔ جدید مادر پدر آزادی کی آڑ میں شوہر کو صرف ایک میرج سرٹیفکیٹ کے طور پر ماتھے پہ سجا کے وہ سب کچھ کریں جو ماڈرن کہلانے کے لیے ضروری ہے۔
لیکن اگر کوئی خاتون لکھاری کسی مرد کی جسمانی کمزوری کو موضوع بنائے یا غربت کو کرپشن کی وجہ بتائے تو فوراً شور مچ جائے کہ لو بھلا یہ موضوعات کہیں خواتین کے لکھنے کے ہیں۔ گویا سچ لکھنے کا ٹھیکہ صرف مردوں کے پاس ہے۔ٹھکرائی ہوئی جسم فروش عورتوں کی کہانیاں منٹو نے بھی لکھی ہیں، اگر کوئی عورت لکھتی تو کیا اسے زندہ رہنے دیا جاتا۔ اس کے اپنے اسے سنگسار کر دیتے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور ادب میں بھی مردوں کی ہی حکمرانی رہی ہے، لیکن اب یہ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔
ہمارے ہاں عام طور سے خواتین کے ساتھ ایک مخصوص معاندانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں ان کے لیے ایک الگ ایسا زنانہ ڈبّہ لگا ہوا ہے، جس کے اندر سے انھیں تو باہر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ مردانہ ڈبّے والے جب اور جہاں سے چاہیں اندر بیٹھی خواتین کو ہر طرح سے موضوع گفتگو بنا سکتے ہیں،
کیونکہ وہ مرد ہیں اور انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے جب کہ خواتین اگر اپنے سماج کے مقرر کردہ دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کریں تو وہ نہ صرف گردن زدنی ٹھہرائی جاتی ہیں بلکہ ہر طرف سے انگلیاں بھی اٹھتی ہیں۔
دراصل ہمارے ہاں آج بھی خواتین کے حوالے سے قبائلی رسوم و رواج ہی کی حکمرانی ہے۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ مردوں کی سائیکی بھی اپنے ماحول کی وجہ وہی رہتی ہے جو صدیوں پہلے ان کے اجداد کی تھی۔
اس سے میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ قدرت نے جب انھیں الگ الگ پیدا کیا تو ان کی ذمے داریاں بھی الگ الگ تھیں۔ جسمانی طور پر عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن عقل و فراست میں خدا نے بھی تفریق نہیں کی۔
میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتی کہ عورتوں کی آزادی کے نام پر جو خرافات سماج میں داخل ہوگئی ہیں وہ درست ہیں۔ مثلاً آزادی کے نام پر جب ایک مخصوص طبقے کی عورتیں بطور فیشن یا بطور احتجاج کھلے عام سگریٹ نوشی کرتی ہیں یا جام سے جام ٹکرا کر ماڈرن ہونے کا ثبوت دیتی ہیں تو وہ صحیح کرتی ہیں۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں
وہاں سول سوسائٹی میں بھی خواتین کا ایک الگ مقام ہے۔ یہ خیال رہے کہ میری مراد اس وقت قبائلی کلچر سے نہیں ہے جہاں عورتوں کو محض بھیڑ بکریاں یا خرید و فروخت کا سامان سمجھا جاتا ہے، بلکہ میرا موضوعِ سخن معاشرے کے وہ افراد ہیں جو بظاہر تو ڈگری یافتہ اور پڑھے لکھے نظر آتے ہیں، پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں، کلین شیو بھی رکھتے ہیں،
لیکن پڑھی لکھی اور قابل خواتین کے بارے میں ان کی سوچ نہایت سطحی اور طالبان ذہنیت کی عکاس ہوتی ہے۔ وہ آج کے دور میں بھی تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے شعبے میں نمایاں خواتین کے کردار پر صرف اس لیے انگلی اٹھاتے ہیں کہ وہ ان کی طرح قابل نہیں ہیں۔
فہم و ادراک اور بصیرت کے حامل نہیں ہیں۔ یوں اپنے احساسِ کمتری کے منفی جذبوں سے مغلوب ہو کر وہ جب اور جہاں چاہیں کوئی بھی گھٹیا ریمارکس پاس کر دیتے ہیں، جس سے ان کے ارد گرد بیٹھے لوگ بھی محظوظ ہو کر ایک قہقہہ بلند کر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح ہم نے ادب میں بھی زنانے اور مردانے کمپارٹمنٹ بنا دیے ہیں۔ مردوںکو ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھانے کی آزادی ہے، خواہ وہ ان کی گمشدہ راتوں کی بازیافت ہو یا زندگی کے وہ تجربے اور گوشے جنھیں پبلک میں نہیں لانا چاہیے، لیکن وہ ان سب کو مزے لے لے کر ڈھٹائی اور بے باکی سے بیان کرتے ہیں اور اسے ''حقیقت پسندی'' سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی خاتون لکھاری اپنے قوتِ مشاہدہ کی بِنا پر زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہے تو معتوب ٹھہرتی ہے۔
''اوہو... خاتون ہو کر یہ کیا لکھ رہی ہیں؟ انھیں اپنے عورت ہونے کا بھی خیال نہیں۔'' ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ تخلیق کار کے اندر ایک تیسری آنکھ بھی ہوتی ہے جو ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتی ہے جو اوروں کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ اس بات کو آپ یوں سمجھیے کہ ''نرمان'' یا ''زنانہ'' انھیں دیکھ کر ایک عام آدمی حقارت کا اظہار کرتا ہے اور تمسخر بھی اڑاتا ہے، جب کہ ایک لکھنے والا یا لکھنے والی اس کے اندر ہونے والی ہلچل سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ وہ سماج کی ناانصافی کو اپنے قلم کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے لیکن اس موضوع پر اگر مرد قلم کار کچھ کہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ مرد ہے۔
لیکن اگر کوئی خاتون اس ''زنانے'' کے اندرونی کرب اور قدرت کی ستم ظریفی کو سامنے لائے تو ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو ہنس کر یہ ریمارک پاس کرتے ہیں۔ ''لو جی یہ کیا ہروقت ''زنانوں'' کے ساتھ رہتی ہیں۔'' عقل سے پیدل لوگ یہ نہیں جانتے کہ ''تخلیق کار'' صرف اور صرف تخلیق کار ہوتا ہے، عورت یا مرد نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آپریشن ٹیبل پہ پڑا جسم ایک ڈاکٹر کے لیے صرف ایک انسانی وجود ہوتا ہے عورت یا مرد نہیں۔
قرۃ العین حیدر جو جیتے جی ایک لیجنڈ بن گئی تھیں، انھیں بھی اپنے نام نہاد نقّادوں سے یہی شکایت تھی کہ جب انھوں نے ارباب نشاط سے متعلق کہانیاں لکھیں تو حاسدوں نے ٹکڑا لگایا کہ یہ تو اس طرح ناچنے گانے والیوں کے قصّے لکھتی ہیں گویا انھی کے ساتھ رہتی ہوں۔ اسی طرح ان پر بہت سے اعتراضات محض پرخاش کی بِنا پر لگائے گئے۔ تب ایک دفعہ جل کر انھوں نے کہا کہ ''کیا ضروری ہے کہ جب میں سرکس کے کسی کردار کی کہانی لکھوں تو پہلے سرکس میں نوکری کروں اور وہاں کے کرتب سیکھوں۔''
اسی طرح جب انھوں نے زمرد پری کی کہانی ''سنگھار دان'' لکھی، ''گردشِ رنگ چمن'' میں نواب بائی آف جے پور، دل نواز اور مہرو، ''اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو'' کی رشک قمر اور دلربا کی گلنار کے کردار تخلیق کیے، تب بھی کم ظرف لوگوں نے کہا کہ خانگیوں کی زبان تو ایسے لکھی ہے جیسا ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی طبقے میں ہو۔ اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ ''تار پر چلنے والی'' میں سرکس گرل مس لارا کی کہانی جب لکھی گئی تو کسی احمق نے یہ بھی کہا کہ ''بلا سرکس والوں کے ساتھ وقت گزارے ایسا افسانہ کیسے لکھا جاسکتا ہے؟''
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سماج کے خود ساختہ ٹھیکے دار کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ خواتین کو کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ادب میں یہ رویہ بڑا غیر فطری اور انتہا پسندانہ ہے۔ نظر اور مشاہدہ مرد اور عورت دونوں کے پاس ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مرد حضرات کی مشاہداتی قوت زیادہ تر خارجی کیفیات اور مناظر پر رہتی ہے، جب کہ خواتین داخلی کیفیات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ویسے بھی جہاں تک چھٹی حس کا تعلق ہے تو وہ خواتین کی زیادہ تیز ہوتی ہے۔
مرد اور عورت سماج کے دو بنیادی ستون ہیں، جس پر سوسائٹی کی عمارت کھڑی ہے۔ اس عمارت میں زندگی کے ہزاروں شعبے ہیں، جہاں دونوں مل کر کام کرتے ہیں، انھی شعبوں میں سے ایک اعلیٰ ترین اور حساس شعبہ ادب کا بھی ہے۔ عورت ہو یا مرد دونوں اپنے اپنے زاویۂ نظر سے اشیاء، رویوں اور جذبوں کو دیکھتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے سے ان مسائل اور تلخ حقیقتوں کا اظہار اپنے قلم سے کرتے ہیں۔
دس بارہ سال پہلے میرے ایک افسانے پر بھی کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ یہ موضوع ایسا نہیں ہے کہ جس پر کوئی خاتون قلم اٹھائے۔ یہی صورتِ حال رہی تو مجھے یقین ہے کہ ایک دن اسمبلی میں یہ بل ضرور پاس ہوگا کہ خواتین کو جنس، طوائف مخنّث، بھکاری، فاحشہ عورتیں، پیشہ ور گداگر عورتیں، بدقماش اور بدکردار مردوں کی کہانیاں، کالم اور نظمیں لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
انھیں صرف ان عورتوں کی کہانیاں لکھنے کی اجازت ہے، جن کے شوہر کسی گیشا یا کال گرل کے پاس وقت بِتا کر گھر آئے تو وہ ''میرے سرتاج کہاں رہ گئے تھے'' کہہ کر ان کے جوتے اتارے اور کھانا گرم کر کے ان کے آگے رکھ دے۔ لیکن ان عورتوں کی کہانیاں لکھنے کی اجازت نہ ملے جو شوہر کی موجودگی میں تمام حدیں پار کر جائیں۔ جدید مادر پدر آزادی کی آڑ میں شوہر کو صرف ایک میرج سرٹیفکیٹ کے طور پر ماتھے پہ سجا کے وہ سب کچھ کریں جو ماڈرن کہلانے کے لیے ضروری ہے۔
لیکن اگر کوئی خاتون لکھاری کسی مرد کی جسمانی کمزوری کو موضوع بنائے یا غربت کو کرپشن کی وجہ بتائے تو فوراً شور مچ جائے کہ لو بھلا یہ موضوعات کہیں خواتین کے لکھنے کے ہیں۔ گویا سچ لکھنے کا ٹھیکہ صرف مردوں کے پاس ہے۔ٹھکرائی ہوئی جسم فروش عورتوں کی کہانیاں منٹو نے بھی لکھی ہیں، اگر کوئی عورت لکھتی تو کیا اسے زندہ رہنے دیا جاتا۔ اس کے اپنے اسے سنگسار کر دیتے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور ادب میں بھی مردوں کی ہی حکمرانی رہی ہے، لیکن اب یہ زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔