تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
پنجاب حکومت دیگر صوبائی حکومتوں اور وفاق کے مقابلے میں کارکردگی میں سب سے آگے ہے۔
فروری کے بعد مارچ کا موسم خوشگوار احساس دلاتا ہے، اس موسم کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ دنیا کے بیشترانقلاب،روسی انقلاب، جرمن انقلاب،فرانسی انقلاب، قرار داد پاکستان (23مارچ) اور بہت سے انقلاب اسی مہینے میں آئے۔ اسی لیے اس مہینے کو پاکستان کی تاریخ میں بھی ''کوئیک مارچ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ باقی مہینوں کی بات کی جائے تو جون جولائی میں اسلام آباد کا موسم گرم ہو جاتا ہے۔
ستمبر ستمگر قرار دیا جاتا ہے اوراکتوبر، نومبر، دسمبر کی راتیں سرد اور طویل ہونے کی وجہ سے خاصی ''خطرناک'' سمجھی جاتی ہیں۔ ماضی میں بوٹوں کی چاپ، ''فرشتوں''کی آمد اور جادو کی چھڑی گھومنے کی '' روایات'' انھی مہینوں کی راتوں کی یاد دلاتی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی مارچ کی تو ایسی صورت حال میں مقبولیت و نامقبولیت کے ''سچے جھوٹے سروے''بھی آنے لگے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف پاکستان میں مقبول ترین سیاسی شخصیت ہیں۔ 97ء فیصد پاکستانی پاک فوج پر اعتبار کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت دیگر صوبائی حکومتوں اور وفاق کے مقابلے میں کارکردگی میں سب سے آگے ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ 59 فیصد پاکستانیوں کو پانامہ پیپرز کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ سیاستدانوں کی پسندیدگی کے حوالے سے سروے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف 63 فیصد پسندیدگی کے ساتھ سر فہرست ہیں جب کہ عمران خان 39 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بانی متحدہ الطاف حسین کے لیے ناپسندیدگی کی شرح 85 فیصد، زرداری ناپسندیدگی میں 80 فیصد اور ڈاکٹر طاہر القادری 79 فیصد افراد ناپسند کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے 64 فیصد افراد نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی بہت اچھی قرار دی۔ 27 فیصد کے خیال میں کارکردگی خراب ہے۔ وزیراعظم کے کام کرنے کے انداز کو 16 فیصد نے بہت اچھا اور 51 فیصد نے اچھا قرار دیا۔
57 فیصد افراد نے ملک کی صورت حال کو مستحکم جانا۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے پنجاب حکومت 79 فیصد کے ساتھ پہلے، خیبر پی کے 72 فیصد کے ساتھ دوسرے، سندھ 54 فیصد کے ساتھ تیسرے اور بلوچستان 48 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جنرل راحیل جب آرمی چیف تھے تو ان کو 85 فیصد افراد نے مقبول ترین شخصیت قرار دیا۔ پانامہ پیپرز پر دلچسپی کے حوالے سے سوال پر 26 فیصد نے انتہائی دلچسپی، 38 فیصد نے کسی حد تک دلچسپی اور 28فیصد نے کہا کہ انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پنجاب میں 79 فیصد نے خود کو زیادہ محفوظ محسوس کیا۔ سندھ میں یہ تناسب 66 فیصد، بلوچستان میں 59 فیصد اور خیبر پی کے میں 73 فیصد رہا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایسے ہی سروے مشرف دور اور پھر پی پی پی کے آخری دور میں بھی ہوا کرتے تھے جن کے مطابق آصف زرداری ''مقبول ترین'' لیڈر ہوا کرتے تھے۔
گیلانی دوسرے نمبر پر اور رحمان ملک تیسرے نمبر پر، پھر کہیں جا کر دوسرے سیاستدانوں کی باریاں آتی تھیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ میڈیا میں ان سچے جھوٹے سروے کا خوب ''چرچا'' کرایا جاتاہے۔ اسے تدریسی کتب کی زبان میں ''پراپیگنڈہ سروے'' کانام دیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد ایسی مہم چلانا ہوتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے میں مدد دے۔ جو لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ واقعی جیسا وہ سوچ رہے تھے حقائق اُس کے برعکس ہیں۔ اس پر جب میں نے اپنے دیرینا دوست اور منجھے ہوئے سیاستدان پی پی پی پنجاب کے صدر صدر قمر زمان کائرہ سے مزاحاََ پوچھا کہ آپ لوگ تو بہت پیچھے رہ گئے اور زرداری صاحب سے عوام ایسی نفرت کرتے ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو انھوں نے کہا کہ کہ ن لیگ جعلی سروے کرا رہی ہے۔
اس موقع پر اربوں روپے خرچ کرکے جعلی سروے کرانے کا مقصد یا تو پانامہ کیس کے حوالے سے عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے یا آنے والے الیکشن کے حوالے سے عوام کے اذہان کو بدلنا ہے۔ مغربی ممالک میں سائنسی بنیادوں پر ریسرچ رپورٹیں اور سروے رپورٹیں مرتب کرنے کا رحجان عام ہے۔ یہ رپورٹیں اس حد تک ٹھوس نتائج کی حامل ہوتی ہیں کہ جو شخص کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے وہ بھی متعلقہ اداروںسے سروے رپورٹوں کے ذریعے مشاورت حاصل کرتا ہے لیکن میرے خیال میں جس ملک میں جعلی اسٹنٹ، جعلی دوائیاں اور جعلی آلات جراحی کی فروخت عروج پر ہو، مریض اسپتالوں کی راہداریوں میں مر رہے ہوں۔
80 فی صد آبادی صاف پانی سے محروم ہو، منتخب بلدیاتی نمایندے اختیارات سے محروم ہوں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء 27 ماہ سے انصاف کے لیے دربدر ہوں، حکمران کرپشن کے الزامات کی زد میں ہوں۔ تعلیم کا معیار پست ہو، نوجوان طبقہ ملک کی خدمت کرنے کے بجائے بیروزگاری کی چکی میں پس رہا ہو، پولیس بے لگام ہو، غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام ممکن نہ ہو، میرٹ کی دھجیاںبکھیری جا رہی ہوں، کرپشن روکنے والے خود اس میں ملوث ہوں، ٹیکس چوری عام ہو، عوام بجلی و گیس سے محروم ہوں، تو وہاں جھوٹے سروے کا سہارا لینا ماہرین کے نزدیک بدعنوانی کے سوا کچھ نہیں، بقول شاعر
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے ، وہی رہبر ہے خطرے میں
اور دنیا بھر کی حکومتوں کو آپ دیکھ لیں، کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ عوام اس سے مطمئن ہیں لیکن جس حکومت کے ناکام پراجیکٹس کی ایک لمبی فہرست موجود ہو، ایسی حکومت اپنے آپ کو بہترین کہہ دے، یہ سیاسی شعبدہ بازی سے کم نہیں ہے۔ حکومتی قائدین اتنے ہی مقبول ہیں تو مستعفی ہو کر دوبارہ شفاف انتخاب لڑیں اور جیت کر دکھائیں۔ حکومت عوام میں جائے تو اسے اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
میرے خیال میں سروے نہ تو حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں بلکہ سروے کرنے والے ادارے پر بھی شکوک و شبہات پیداہوجاتے ہیں،انتخابات کے دنوں میں بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے سروے کیے جاتے ہیں مگر نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ اصولاً تو سروے کرنے والوں کا بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ میری تحقیق کے مطابق ایسے سروے ہمیشہ ڈرائنگ روم میں یا یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے ذریعے کرائے جاتے ہیں جو عموماََ عوامی امنگوں اورخواہشوں کی ترجمانی نہیں کرتے کیونکہ چند سو افراد کی رائے کو ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹروں کی رائے پر حاوی نہیں کیا جا سکتا۔
عین اس وقت ایک سروے کے نتائج جاری کیے گئے جب حکومت و قت کو اس کی اشد ضرورت تھی۔ نفسیاتی جنگ کی زبان میں خواہ کچھ بھی کیوں کہا جائے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ میں جاری پانامہ کیس نے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ان حالات میں سروے نے وزیر اعظم نوازشریف کو ریلیف دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا عوام اس پر اعتبار کریں گے، بہرحال سروے کے بارے میں یہی کیا جا سکتا ہے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ستمبر ستمگر قرار دیا جاتا ہے اوراکتوبر، نومبر، دسمبر کی راتیں سرد اور طویل ہونے کی وجہ سے خاصی ''خطرناک'' سمجھی جاتی ہیں۔ ماضی میں بوٹوں کی چاپ، ''فرشتوں''کی آمد اور جادو کی چھڑی گھومنے کی '' روایات'' انھی مہینوں کی راتوں کی یاد دلاتی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی مارچ کی تو ایسی صورت حال میں مقبولیت و نامقبولیت کے ''سچے جھوٹے سروے''بھی آنے لگے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف پاکستان میں مقبول ترین سیاسی شخصیت ہیں۔ 97ء فیصد پاکستانی پاک فوج پر اعتبار کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت دیگر صوبائی حکومتوں اور وفاق کے مقابلے میں کارکردگی میں سب سے آگے ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ 59 فیصد پاکستانیوں کو پانامہ پیپرز کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ سیاستدانوں کی پسندیدگی کے حوالے سے سروے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف 63 فیصد پسندیدگی کے ساتھ سر فہرست ہیں جب کہ عمران خان 39 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بانی متحدہ الطاف حسین کے لیے ناپسندیدگی کی شرح 85 فیصد، زرداری ناپسندیدگی میں 80 فیصد اور ڈاکٹر طاہر القادری 79 فیصد افراد ناپسند کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے 64 فیصد افراد نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی بہت اچھی قرار دی۔ 27 فیصد کے خیال میں کارکردگی خراب ہے۔ وزیراعظم کے کام کرنے کے انداز کو 16 فیصد نے بہت اچھا اور 51 فیصد نے اچھا قرار دیا۔
57 فیصد افراد نے ملک کی صورت حال کو مستحکم جانا۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے پنجاب حکومت 79 فیصد کے ساتھ پہلے، خیبر پی کے 72 فیصد کے ساتھ دوسرے، سندھ 54 فیصد کے ساتھ تیسرے اور بلوچستان 48 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جنرل راحیل جب آرمی چیف تھے تو ان کو 85 فیصد افراد نے مقبول ترین شخصیت قرار دیا۔ پانامہ پیپرز پر دلچسپی کے حوالے سے سوال پر 26 فیصد نے انتہائی دلچسپی، 38 فیصد نے کسی حد تک دلچسپی اور 28فیصد نے کہا کہ انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پنجاب میں 79 فیصد نے خود کو زیادہ محفوظ محسوس کیا۔ سندھ میں یہ تناسب 66 فیصد، بلوچستان میں 59 فیصد اور خیبر پی کے میں 73 فیصد رہا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایسے ہی سروے مشرف دور اور پھر پی پی پی کے آخری دور میں بھی ہوا کرتے تھے جن کے مطابق آصف زرداری ''مقبول ترین'' لیڈر ہوا کرتے تھے۔
گیلانی دوسرے نمبر پر اور رحمان ملک تیسرے نمبر پر، پھر کہیں جا کر دوسرے سیاستدانوں کی باریاں آتی تھیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ میڈیا میں ان سچے جھوٹے سروے کا خوب ''چرچا'' کرایا جاتاہے۔ اسے تدریسی کتب کی زبان میں ''پراپیگنڈہ سروے'' کانام دیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد ایسی مہم چلانا ہوتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے میں مدد دے۔ جو لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ واقعی جیسا وہ سوچ رہے تھے حقائق اُس کے برعکس ہیں۔ اس پر جب میں نے اپنے دیرینا دوست اور منجھے ہوئے سیاستدان پی پی پی پنجاب کے صدر صدر قمر زمان کائرہ سے مزاحاََ پوچھا کہ آپ لوگ تو بہت پیچھے رہ گئے اور زرداری صاحب سے عوام ایسی نفرت کرتے ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو انھوں نے کہا کہ کہ ن لیگ جعلی سروے کرا رہی ہے۔
اس موقع پر اربوں روپے خرچ کرکے جعلی سروے کرانے کا مقصد یا تو پانامہ کیس کے حوالے سے عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے یا آنے والے الیکشن کے حوالے سے عوام کے اذہان کو بدلنا ہے۔ مغربی ممالک میں سائنسی بنیادوں پر ریسرچ رپورٹیں اور سروے رپورٹیں مرتب کرنے کا رحجان عام ہے۔ یہ رپورٹیں اس حد تک ٹھوس نتائج کی حامل ہوتی ہیں کہ جو شخص کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے وہ بھی متعلقہ اداروںسے سروے رپورٹوں کے ذریعے مشاورت حاصل کرتا ہے لیکن میرے خیال میں جس ملک میں جعلی اسٹنٹ، جعلی دوائیاں اور جعلی آلات جراحی کی فروخت عروج پر ہو، مریض اسپتالوں کی راہداریوں میں مر رہے ہوں۔
80 فی صد آبادی صاف پانی سے محروم ہو، منتخب بلدیاتی نمایندے اختیارات سے محروم ہوں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء 27 ماہ سے انصاف کے لیے دربدر ہوں، حکمران کرپشن کے الزامات کی زد میں ہوں۔ تعلیم کا معیار پست ہو، نوجوان طبقہ ملک کی خدمت کرنے کے بجائے بیروزگاری کی چکی میں پس رہا ہو، پولیس بے لگام ہو، غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام ممکن نہ ہو، میرٹ کی دھجیاںبکھیری جا رہی ہوں، کرپشن روکنے والے خود اس میں ملوث ہوں، ٹیکس چوری عام ہو، عوام بجلی و گیس سے محروم ہوں، تو وہاں جھوٹے سروے کا سہارا لینا ماہرین کے نزدیک بدعنوانی کے سوا کچھ نہیں، بقول شاعر
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے ، وہی رہبر ہے خطرے میں
اور دنیا بھر کی حکومتوں کو آپ دیکھ لیں، کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ عوام اس سے مطمئن ہیں لیکن جس حکومت کے ناکام پراجیکٹس کی ایک لمبی فہرست موجود ہو، ایسی حکومت اپنے آپ کو بہترین کہہ دے، یہ سیاسی شعبدہ بازی سے کم نہیں ہے۔ حکومتی قائدین اتنے ہی مقبول ہیں تو مستعفی ہو کر دوبارہ شفاف انتخاب لڑیں اور جیت کر دکھائیں۔ حکومت عوام میں جائے تو اسے اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
میرے خیال میں سروے نہ تو حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں بلکہ سروے کرنے والے ادارے پر بھی شکوک و شبہات پیداہوجاتے ہیں،انتخابات کے دنوں میں بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے سروے کیے جاتے ہیں مگر نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ اصولاً تو سروے کرنے والوں کا بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ میری تحقیق کے مطابق ایسے سروے ہمیشہ ڈرائنگ روم میں یا یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے ذریعے کرائے جاتے ہیں جو عموماََ عوامی امنگوں اورخواہشوں کی ترجمانی نہیں کرتے کیونکہ چند سو افراد کی رائے کو ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹروں کی رائے پر حاوی نہیں کیا جا سکتا۔
عین اس وقت ایک سروے کے نتائج جاری کیے گئے جب حکومت و قت کو اس کی اشد ضرورت تھی۔ نفسیاتی جنگ کی زبان میں خواہ کچھ بھی کیوں کہا جائے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ میں جاری پانامہ کیس نے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ان حالات میں سروے نے وزیر اعظم نوازشریف کو ریلیف دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا عوام اس پر اعتبار کریں گے، بہرحال سروے کے بارے میں یہی کیا جا سکتا ہے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو