کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا
معروضی حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سابق آرمی چیف کا تجزیہ کچھ غلط نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے عام شہریوں پر مظالم بدستور جاری ہیں اور برہان وانی کی شہادت کے بعد 9 جولائی سے مقبوضہ کشمیر میں لگایا جانے والا کرفیو پچھلے 30 سالوں کا سب سے طویل اورسخت کرفیو ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو 27 سال ہوگئے ہیں۔ 1989ء سے شروع ہونے والی تحریک آزادی کے دوران 2016ء تک ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو شہیدکیا گیا، ایک لاکھ سات ہزارعمارتوں کو مکمل تباہ کیا گیا، ایک لاکھ 37 ہزارعام شہریوں کو گرفتارکیا گیا، 10 ہزار 717 خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کو غائب کردیا گیا جن کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
جولائی تا دسمبر 2016ء کے دوران بھارتی فوج نے 229 افراد کو شہید 18 ہزار 618 کو زخمی کیا، 65 ہزار سے زائد گھر، اسکول اورعمارتیں تباہ ہوئیں 50 اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تحریک آزادی کے ان 27 برسوں کے دوران 2 لاکھ سے زائد افرادکو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 14 فیصد آبادی نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ 99 فیصدکشمیری کریک ڈاؤن، 85 فیصد کراس فائرنگ اور 65 فیصد بم دھماکوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ 75 فیصد کشمیریوں کو دوران حراست تشددکا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ 6 ماہ کے دوران قابض بھارتی فوج نے 9 اضلاع میں 117 شہریوں کو شہید کیا، شہداء میں سے 77 کا تعلق ضلع شوپیاں سے ، 76 کا سرینگر اور36 کا اسلام آباد سے تھا۔ 9 جولائی کے بعد سے سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فوجیوں نے جلدکے ٹشوزکو نقصان پہنچانے اور بینائی ضایع کرنے والے 20 لاکھ سے زائد کارتوس فائرکیے جن سے مجموعی طور پر 7 ہزار 397 افراد زخمی ہوئے اوربینائی کھوبیٹھے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان نے بجا طور پرکہا کہ بھارت دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کا نسلی صفایا کررہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آر ایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں، اور مسلح دیہاتی دفاعی کمیٹیوں جیسی ہندو دہشتگرد تنظیمیں جموں کے علاقے میں کشمیری مسلمانوں کا نسلی صفایا کررہی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ 2014ء میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے، ہندو دہشتگرد منصوبے کے تحت سرکاری مشینری کی بھرپور اعانت و مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں ۔
جس کا نتیجہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے قتل وغارتگری، ریاستی دہشتگردی اورغیرکشمیریوں کو لا کرآباد کرنے جیسے حربے اختیارکیے جا رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجیوں اور دہشتگرد عناصرکی ان زیادتیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری کو مظلوم کشمیریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
جہاں تک بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ بیان کا تعلق ہے تو دنیا جانتی ہے کہ دہشتگردی کی لعنت کو شکست دینے کے لیے کسی بھی ملک نے پاکستان سے زیادہ کام نہیں کیا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابیوں کو دنیا بھر میں سراہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہماری معیشت پر اس جنگ کے اثرات بھی سب پر عیاں ہیں۔ مودی نے اپنے مذکورہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اگر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے دہشتگردوں کے ساتھ روابط ختم کرنے ہوںگے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور بد قسمتی سے اس دہشتگردی کو بھارت کی ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔
اس سلسلے میں بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس اہلکار کلبھوشن یادیوکا اعترافی بیان بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے جس نے تسلیم کیا ہے کہ بھارت کی ریاستی ایجنسیاں پاکستان میں تخریبی اور دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے بار بار بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ محاذ آرائی، تشدد اور دہشتگردی چھوڑ کر بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں حائل دیرینہ مسائل بشمول تنازعہ کشمیر حل کرنے کا راستہ اختیار کرے ، لیکن بدقسمتی سے بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے پہلو تہی کی ہے ۔
اس ضمن میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کے خیالات کو بجا طور پر '' سو سنارکی، اک لوہارکی'' سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جنہوں نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کی سائیڈ لائنس پر پاکستان بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا قرار دیا اورکہا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے اس ہمالیائی علاقے پر تنازعے کا تصفیہ کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہونا ازحد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کوامن کی ضرورت ہے مگر کشمیر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کا پہلے حل کیا جانا ضروری ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن اورمعاشی خوشحالی کا حصول ممکن ہے، جنرل راحیل شریف نے جواب دیا ہرگز نہیں، پہلے مسئلہ حل ہونا چاہیے اوروہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق۔ یہی وہ موقعہ تھا جب انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کشمیر تقسیم بر صغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اسے مکمل کیے بغیرجنوبی ایشیا کے علاقے میں حالات معمول پر نہیں آسکتے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اورعالمی امن میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے ۔ فوج کے سابق سربراہ نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے چنگل سے نکل آیا ہے، سب نے وہاں امن کی بحالی کو محسوس کیا ہے اوردیکھا ہے کہ لوگ خوشحالی چاہتے ہیں۔
معروضی حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سابق آرمی چیف کا تجزیہ کچھ غلط نہیں۔ آپریشن ضرب عضب سے ریاست کی رٹ بحال ہوچکی ہے ، سب سے بڑے صوبے بلوچستان کوعدم استحکام کا شکارکرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے اورکومبنگ آپریشن کی صورت میں دہشتگردوں کی تلاش جاری ہے ۔ بلاشک و شبہ پاکستان ایک ولولہ انگیز ملک ہے اور بد ترین حالات کا سامنا کر سکتا ہے ۔
اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی محض ایک مفروضہ ہے اور دہشتگردوں کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں جس کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب میں کوئی ڈرون حملے نہیں ہوئے ۔ پاکستان، افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے مگر دوسری طرف سے اس کا جواب نہیں مل رہا کیونکہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے اس میں رکاوٹ ہیں اور پاکستان کی جانب سے بارہا نشاندہی کیے جانے کے باوجود ان کی بیخ کنی نہیں کی جارہی۔
جولائی تا دسمبر 2016ء کے دوران بھارتی فوج نے 229 افراد کو شہید 18 ہزار 618 کو زخمی کیا، 65 ہزار سے زائد گھر، اسکول اورعمارتیں تباہ ہوئیں 50 اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تحریک آزادی کے ان 27 برسوں کے دوران 2 لاکھ سے زائد افرادکو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 14 فیصد آبادی نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ 99 فیصدکشمیری کریک ڈاؤن، 85 فیصد کراس فائرنگ اور 65 فیصد بم دھماکوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ 75 فیصد کشمیریوں کو دوران حراست تشددکا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ 6 ماہ کے دوران قابض بھارتی فوج نے 9 اضلاع میں 117 شہریوں کو شہید کیا، شہداء میں سے 77 کا تعلق ضلع شوپیاں سے ، 76 کا سرینگر اور36 کا اسلام آباد سے تھا۔ 9 جولائی کے بعد سے سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فوجیوں نے جلدکے ٹشوزکو نقصان پہنچانے اور بینائی ضایع کرنے والے 20 لاکھ سے زائد کارتوس فائرکیے جن سے مجموعی طور پر 7 ہزار 397 افراد زخمی ہوئے اوربینائی کھوبیٹھے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان نے بجا طور پرکہا کہ بھارت دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کا نسلی صفایا کررہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آر ایس ایس، اس کی ذیلی تنظیموں، اور مسلح دیہاتی دفاعی کمیٹیوں جیسی ہندو دہشتگرد تنظیمیں جموں کے علاقے میں کشمیری مسلمانوں کا نسلی صفایا کررہی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ 2014ء میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے، ہندو دہشتگرد منصوبے کے تحت سرکاری مشینری کی بھرپور اعانت و مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں ۔
جس کا نتیجہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے قتل وغارتگری، ریاستی دہشتگردی اورغیرکشمیریوں کو لا کرآباد کرنے جیسے حربے اختیارکیے جا رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجیوں اور دہشتگرد عناصرکی ان زیادتیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عالمی برادری کو مظلوم کشمیریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
جہاں تک بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ بیان کا تعلق ہے تو دنیا جانتی ہے کہ دہشتگردی کی لعنت کو شکست دینے کے لیے کسی بھی ملک نے پاکستان سے زیادہ کام نہیں کیا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابیوں کو دنیا بھر میں سراہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہماری معیشت پر اس جنگ کے اثرات بھی سب پر عیاں ہیں۔ مودی نے اپنے مذکورہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اگر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے دہشتگردوں کے ساتھ روابط ختم کرنے ہوںگے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور بد قسمتی سے اس دہشتگردی کو بھارت کی ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔
اس سلسلے میں بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس اہلکار کلبھوشن یادیوکا اعترافی بیان بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے جس نے تسلیم کیا ہے کہ بھارت کی ریاستی ایجنسیاں پاکستان میں تخریبی اور دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے بار بار بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ محاذ آرائی، تشدد اور دہشتگردی چھوڑ کر بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں حائل دیرینہ مسائل بشمول تنازعہ کشمیر حل کرنے کا راستہ اختیار کرے ، لیکن بدقسمتی سے بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے پہلو تہی کی ہے ۔
اس ضمن میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کے خیالات کو بجا طور پر '' سو سنارکی، اک لوہارکی'' سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جنہوں نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کی سائیڈ لائنس پر پاکستان بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا قرار دیا اورکہا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے اس ہمالیائی علاقے پر تنازعے کا تصفیہ کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہونا ازحد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کوامن کی ضرورت ہے مگر کشمیر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کا پہلے حل کیا جانا ضروری ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن اورمعاشی خوشحالی کا حصول ممکن ہے، جنرل راحیل شریف نے جواب دیا ہرگز نہیں، پہلے مسئلہ حل ہونا چاہیے اوروہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق۔ یہی وہ موقعہ تھا جب انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کشمیر تقسیم بر صغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اسے مکمل کیے بغیرجنوبی ایشیا کے علاقے میں حالات معمول پر نہیں آسکتے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اورعالمی امن میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے ۔ فوج کے سابق سربراہ نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے چنگل سے نکل آیا ہے، سب نے وہاں امن کی بحالی کو محسوس کیا ہے اوردیکھا ہے کہ لوگ خوشحالی چاہتے ہیں۔
معروضی حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سابق آرمی چیف کا تجزیہ کچھ غلط نہیں۔ آپریشن ضرب عضب سے ریاست کی رٹ بحال ہوچکی ہے ، سب سے بڑے صوبے بلوچستان کوعدم استحکام کا شکارکرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے اورکومبنگ آپریشن کی صورت میں دہشتگردوں کی تلاش جاری ہے ۔ بلاشک و شبہ پاکستان ایک ولولہ انگیز ملک ہے اور بد ترین حالات کا سامنا کر سکتا ہے ۔
اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی محض ایک مفروضہ ہے اور دہشتگردوں کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں جس کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب میں کوئی ڈرون حملے نہیں ہوئے ۔ پاکستان، افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے مگر دوسری طرف سے اس کا جواب نہیں مل رہا کیونکہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے اس میں رکاوٹ ہیں اور پاکستان کی جانب سے بارہا نشاندہی کیے جانے کے باوجود ان کی بیخ کنی نہیں کی جارہی۔