ہمیں شرلوک ہومزکی ضرورت ہے
پھر وہی شخص ایک شرابی باپ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
پانامہ لیکس کیس بلاشبہ ہمارے سیاستدانوں بلکہ پوری قوم کے لیے ایک معمہ سا بن گیا ہے جس کے بارے میں من جملہ دوسری باتوں کے یہ مطالبہ بھی سننے میں آتا رہا ہے کہ اس کا کوئی ایک سرا پکڑنے اور گتھی سلجھانے کے لیے شرلوک ہومزکے پائے کے جاسوس کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کیونکہ کوئی ایسا جہاندیدہ اور تجربہ کار جاسوس ہی پانامہ لیکس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں کلبلانے والے سوالوں کا جواب دے سکتا ہے۔
ہم نے یہ تمہید اسی لیے باندھی کہ ہم اپنے آج کے کالم کو کھینچ تان کرکے شرلوک ہومز کی طرف لانا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں انگریزی زبان کے ''ڈیٹیکٹیو لٹریچر'' کے اسی لافانی کردار کا ذکر کرنا ہے، جن کے بارے میں حال ہی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں خود موصوف کے بارے میں اسی اندازکی گتھی سلجھائی گئی ہے۔
''آرتھر اینڈ شرلوک: کونن ڈوئیل اینڈ دی کری ایشن آف ہومز'' نامی 245 صفحات کی یہ کتاب مائیکل سمس نے لکھی ہے جس پر تبصرہ جو ہمارے ہاتھ لگا ہے گراہم مور نے کیا ہے جو خود دی لاسٹ ڈیز آف نائٹ اور شرلوکین کے مصنف اور دی امیٹیشن گیمزکے اسکرین رائٹر رہے ہیں۔ یہ تبصرہ بھی ہم حسب روایت من وعن پیش کررہے ہیں جو شرلوک کے شایان شان تفتیش کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔''میں نہیں سمجھتا کہ تمہیں شرلوک کے بارے میں کسی قسم کے خوف اور خدشات میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے'' یہ بات آرتھرکونن ڈوئیل نے 1903ء میں ماں کو لکھی تھی۔ تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہومزکبھی مرا نہیں تھا اور اب بھی ٹھیک ٹھاک زندہ ہے خود کونن ڈوئیل کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ان کی تخلیق ان کو مارکر بھی آخرکب تک زندہ رہے گی۔
اور ہوا کچھ یوں کہ کونن ڈوئیل کی اپنی موت کے بعد بھی شرلوک ہومز درجنوں فیچر فلموں، ٹی وی سیریز، اسٹیج ڈراموں،کومکس، ریڈیو پلیز اورویڈیو گیمزمیں نمودار ہوچکا ہے۔ وہ ناولز بھی بے شمار ہیں جن میں ہومزکی کہانی ان کے خالق نے نہیں لکھی تھی۔ ہومز بلاشبہ پچھلی دو صدیوں کا سب سے مشہورفکشن کا کردار ہیں صرف ڈریکولا اورجیمز بانڈ ہی ان کے آس پاس آتے ہیں اوراب آ کے بیٹ مین اور ہیری پوٹر اونچی ہیلز پہن کر ان کے قدکے برابر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تمام چیزیں خود شرلوک کو پراسراریت کا لبادہ پہناتی ہیں۔آخر ایک 26 سالہ میڈیکل ڈاکٹر جس کے کھیسے میں صرف دوغیر مطبوعہ ناول اور چند مختصر کہانیاں تھیں صرف چھ ہفتے میں اپنی پوری نسل کا سب سے زیادہ لازوال اور''ڈھیٹ'' ادبی کارنامہ کر ڈالنے میں آخر کس طرح کامیاب ہوگیا تھا۔یہی وہ معمہ ہے جسے مائیکل سمس اپنی کتاب آرتھر اینڈ شرلوک: کونن ڈوئیل اینڈ دی کری ایشن آف ہومز میں حل کرنے نکلے ہیں۔ یہ درحقیقت کونن ڈوئیل کی پیدائش سے موت تک کی سوانح عمری نہیں بلکہ خصوصیت سے 1886ء کے موسم سرما کے اواخر اور موسم بہارکے اوائل کے چند ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کی تفتیش ہے، جن کے کوکھ سے اس لافانی کردار نے جنم لیا تھا۔کتاب کے مصنف نے ان سوالات کا جواب دیا ہے کہ جب کونن ڈوئیل نے کونسی ذاتی مہم جوئی سے دنیا کے اولین ''کنسلٹنگ ڈیٹیکٹیو'' کا خاکہ تراشا تھا؟ اور یہ کہ اس کے لیے انسپریشن آخر انھیں کہاں سے ملی تھی۔
سمس نے سپرہیروکی ''اوریجن اسٹوری'' کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ وہ کونن ڈوئیل کا پیچھا ایڈنبرگ میں غربت سے عبارت ان کے بچپن سے شروع کرتے ہیں پھر میڈیکل ایجوکیشن کے بعد ایک سنکی مگرغضب کی تشخیص کا حامل طبیب سامنے آتا ہے وہ کچھ عرصہ وہیلنگ شپ پر میڈیکل افسر رہتا ہے پھر بڑی خراب مالی حالت کے ساتھ میڈیکل پریکٹس جیسے تیسے جاری رکھتا ہے پھر خیر سے وہ شادی کرتا ہے اس کا پہلا غیرمطبوعہ ناول واقعتاً ڈاک میں غائب ہوجاتا ہے۔
پھر وہی شخص ایک شرابی باپ کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو اپنی فیملی کے گنے چنے سکے صرف اس وقت پینے پلانے پر اڑانے سے بازآتا ہے جب اسے باقی ایام گزارنے سینی ٹوریم میں بھیج دیا جاتا ہے پھر سڑک پر اس کے جھگڑے ہوتے ہیں جن کے بعد جیتنے کا دعویٰ کرنے کے بجائے وہ اس بات پر زیادہ فخرکرتا ہے کہ اس نے اپنے مخالف کو زیادہ مارا پیٹا ہے اس طرح کونن ڈوئیل بے شک بیس سال کی عمر میں قتل اور پولیس کی سرگرمیوں سے ناواقف ہوں مگر تشدد اور مارپیٹ سے ضرور آشنا تھے۔
سمس نے جس طرح کی کہانی سنائی ہے اس میں کونن ڈوئیل کے ابتدائی ایام پر بھی شرلوک ہومز کا کردار چھایا ہوا ہے اس وقت بھی جب ہم ان کی ابتدائی ناکامیوں کا احوال پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں ان کی اس امارت اور شہرت کا علم ہے جو ایک دن ان کا خیرمقدم کرے گی اس وقت بھی جب ہم ان کے خدشات اور مایوسیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی کامیابی ان کی منتظر ہے جو ان کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھی۔ سمس اس صورتحال سے خاصی ڈرامائی ٹینشن حاصل کرتے ہیں مثال کے طور پر جب وہ ہومزکی پہلی کہانی ''اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ'' کے اشتہار کا ذکر کرتے ہیں جس میں کونن ڈوئیل کے نام کی غلط اسپیلنگ کی گئی تھی ابتدائی تبصرے بھی بڑے حوصلہ شکن تھے مگر پھر ان پر کامیابیوں کے دروازے کھلے ان کا نام بھی صحیح کرلیا گیا اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا گیا کہ ان کی کتابوں کو ایک دن بہت زیادہ قارئین مل جائیں گے۔
طویل عرصے تک جیسا کہ سمس نوٹ کرتے ہیں چند ہی ذہین رائٹرز ایسے گزرے ہیں جو کسی جرم کا سراغ لگانے میں ہومز جیسی خوبصورت زبان و بیان استعمال کرتے تھے یہی وجہ ہے ایک اور ایسے مصنف ایڈگرایلن پو کو سمس کی کتاب اور خود کونن ڈوئیل کی سرہانے کے نائٹ اسٹینڈ میں اہم جگہ دی گئی تھی۔
خود کونن ڈوئیل کو اس بات کا احساس اور شعور تھا کہ انھوں نے شرلوک ہومزکی اکثر کہانیاں ایلن پو کی کہانیوں کے جاسوس آگسٹے ڈیوپن کو ماڈل بناکر لکھی تھیں اور وہ شروع سے اس احسان کو اتارنے کی کوشش کر رہے تھے چنانچہ اے اسٹڈی ان اسکارٹ میں ہومز اور واٹسن ایلن پو کی کہانیوں پر بحث کرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ واٹسن اپنے ہومز کا موازنہ ڈیوپن سے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا آگے تک جاتا ہے کہ دس سال بعد اگاتھا کرسٹی شرلوک ہومزکو اپنا پسندیدہ جاسوس قرار دیتی ہیں۔
سمس ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ آرتھر کونن ڈوئیل نے ہومز کا یہ سب سے مشہور جملہ جب اپنے سامنے سے تمام ''ناممکنات'' کو ہٹا دیتے ہیں تو اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ خواہ کتنا ہی ''خلاف امکان'' کیوں نہ ہو۔ سچ ہوتا ہے۔ایک ایسی شروع کی کہانی میں لکھا تھا جس میں ہومز نہیں تھے اور انھوں نے یہ جملہ اپنے ایک کردار کے ذریعے ایلن پو سے منسوب کروایا تھا۔کیا کونن ڈوئیل کو امید تھی کہ وہ ہومز کے لیے بھی کوئی اتنی ہی اچھی لائن تخلیق کرلیں گے، مگر وہ پہلے ہی یہ کر چکے تھے کیونکہ ایڈگرایلن پو نے کبھی یہ یا اس سے ملتا جلتا جملہ نہیں لکھا مگرکونن ڈوئیل چاہے ایلن پو سے کوئی جملہ کوئی لفظ ادھار نہ لیتے ہوں مگر ظاہر یہی کرتے تھے۔
مگر جیسا کہ سمس دعویٰ کرتے ہیں کونن ڈوئیل نے ایک ایسا کردار تخلیق کر ڈالا جو ان کے ارادوں اور اندازوں سے زیادہ انقلابی تھا اسی طرح واٹسن بھی جس کا زیادہ چرچا نہیں ہوا ہومزکے کارناموں کا ریکارڈ رکھنے والا ایک ایسا کردار تھا جس کی نہ جاسوسی فکشن اور نہ اسٹوری ٹیلنگ میں اس سے پہلے کوئی نظیر موجود تھی۔ ہومزکی دوسری کہانی ''دی سائن آف فور'' میں پہلی کہانی کی طباعت پر واٹسن کی بحث کو ''فیچر''کیا گیا تھا۔ واٹسن اپنی کہانی پر فخر کرتے ہیں جب کہ ہومز کا خیال ہے کہ اسے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ ہومزکی کہانیاں اپنی دوسری آؤٹنگ میں ہی دیومالائی حیثیت اختیار کی گئی تھیں۔ ہومزکی ساری تفتیش اس مفروضے کے گرد گھومتی تھی کہ ہر قتل کی واردات کا کوئی نہ کوئی Motive ہوتا ہے اور اسے دریافت کرکے ہی آپ کسی قتل کا معمہ حل کرسکتے ہیں بغیر کسی مقصد کے کیا جانے والا قتل ان کے نزدیک ایک ایسی واردات ہوتی ہے جس کے پیچھے ان دیکھی قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے جن تک پہنچنا اکثر ناممکن ہوتا ہے لہٰذا شرلوک ہومز عام طور پر وہی کیسز لیا کرتے تھے جن کے Motives کا جلد یا بدیر انھیں پتہ چل جاتا تھا۔
ہم نے یہ تمہید اسی لیے باندھی کہ ہم اپنے آج کے کالم کو کھینچ تان کرکے شرلوک ہومز کی طرف لانا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں انگریزی زبان کے ''ڈیٹیکٹیو لٹریچر'' کے اسی لافانی کردار کا ذکر کرنا ہے، جن کے بارے میں حال ہی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں خود موصوف کے بارے میں اسی اندازکی گتھی سلجھائی گئی ہے۔
''آرتھر اینڈ شرلوک: کونن ڈوئیل اینڈ دی کری ایشن آف ہومز'' نامی 245 صفحات کی یہ کتاب مائیکل سمس نے لکھی ہے جس پر تبصرہ جو ہمارے ہاتھ لگا ہے گراہم مور نے کیا ہے جو خود دی لاسٹ ڈیز آف نائٹ اور شرلوکین کے مصنف اور دی امیٹیشن گیمزکے اسکرین رائٹر رہے ہیں۔ یہ تبصرہ بھی ہم حسب روایت من وعن پیش کررہے ہیں جو شرلوک کے شایان شان تفتیش کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔''میں نہیں سمجھتا کہ تمہیں شرلوک کے بارے میں کسی قسم کے خوف اور خدشات میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے'' یہ بات آرتھرکونن ڈوئیل نے 1903ء میں ماں کو لکھی تھی۔ تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہومزکبھی مرا نہیں تھا اور اب بھی ٹھیک ٹھاک زندہ ہے خود کونن ڈوئیل کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ان کی تخلیق ان کو مارکر بھی آخرکب تک زندہ رہے گی۔
اور ہوا کچھ یوں کہ کونن ڈوئیل کی اپنی موت کے بعد بھی شرلوک ہومز درجنوں فیچر فلموں، ٹی وی سیریز، اسٹیج ڈراموں،کومکس، ریڈیو پلیز اورویڈیو گیمزمیں نمودار ہوچکا ہے۔ وہ ناولز بھی بے شمار ہیں جن میں ہومزکی کہانی ان کے خالق نے نہیں لکھی تھی۔ ہومز بلاشبہ پچھلی دو صدیوں کا سب سے مشہورفکشن کا کردار ہیں صرف ڈریکولا اورجیمز بانڈ ہی ان کے آس پاس آتے ہیں اوراب آ کے بیٹ مین اور ہیری پوٹر اونچی ہیلز پہن کر ان کے قدکے برابر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تمام چیزیں خود شرلوک کو پراسراریت کا لبادہ پہناتی ہیں۔آخر ایک 26 سالہ میڈیکل ڈاکٹر جس کے کھیسے میں صرف دوغیر مطبوعہ ناول اور چند مختصر کہانیاں تھیں صرف چھ ہفتے میں اپنی پوری نسل کا سب سے زیادہ لازوال اور''ڈھیٹ'' ادبی کارنامہ کر ڈالنے میں آخر کس طرح کامیاب ہوگیا تھا۔یہی وہ معمہ ہے جسے مائیکل سمس اپنی کتاب آرتھر اینڈ شرلوک: کونن ڈوئیل اینڈ دی کری ایشن آف ہومز میں حل کرنے نکلے ہیں۔ یہ درحقیقت کونن ڈوئیل کی پیدائش سے موت تک کی سوانح عمری نہیں بلکہ خصوصیت سے 1886ء کے موسم سرما کے اواخر اور موسم بہارکے اوائل کے چند ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات کی تفتیش ہے، جن کے کوکھ سے اس لافانی کردار نے جنم لیا تھا۔کتاب کے مصنف نے ان سوالات کا جواب دیا ہے کہ جب کونن ڈوئیل نے کونسی ذاتی مہم جوئی سے دنیا کے اولین ''کنسلٹنگ ڈیٹیکٹیو'' کا خاکہ تراشا تھا؟ اور یہ کہ اس کے لیے انسپریشن آخر انھیں کہاں سے ملی تھی۔
سمس نے سپرہیروکی ''اوریجن اسٹوری'' کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ وہ کونن ڈوئیل کا پیچھا ایڈنبرگ میں غربت سے عبارت ان کے بچپن سے شروع کرتے ہیں پھر میڈیکل ایجوکیشن کے بعد ایک سنکی مگرغضب کی تشخیص کا حامل طبیب سامنے آتا ہے وہ کچھ عرصہ وہیلنگ شپ پر میڈیکل افسر رہتا ہے پھر بڑی خراب مالی حالت کے ساتھ میڈیکل پریکٹس جیسے تیسے جاری رکھتا ہے پھر خیر سے وہ شادی کرتا ہے اس کا پہلا غیرمطبوعہ ناول واقعتاً ڈاک میں غائب ہوجاتا ہے۔
پھر وہی شخص ایک شرابی باپ کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو اپنی فیملی کے گنے چنے سکے صرف اس وقت پینے پلانے پر اڑانے سے بازآتا ہے جب اسے باقی ایام گزارنے سینی ٹوریم میں بھیج دیا جاتا ہے پھر سڑک پر اس کے جھگڑے ہوتے ہیں جن کے بعد جیتنے کا دعویٰ کرنے کے بجائے وہ اس بات پر زیادہ فخرکرتا ہے کہ اس نے اپنے مخالف کو زیادہ مارا پیٹا ہے اس طرح کونن ڈوئیل بے شک بیس سال کی عمر میں قتل اور پولیس کی سرگرمیوں سے ناواقف ہوں مگر تشدد اور مارپیٹ سے ضرور آشنا تھے۔
سمس نے جس طرح کی کہانی سنائی ہے اس میں کونن ڈوئیل کے ابتدائی ایام پر بھی شرلوک ہومز کا کردار چھایا ہوا ہے اس وقت بھی جب ہم ان کی ابتدائی ناکامیوں کا احوال پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں ان کی اس امارت اور شہرت کا علم ہے جو ایک دن ان کا خیرمقدم کرے گی اس وقت بھی جب ہم ان کے خدشات اور مایوسیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی کامیابی ان کی منتظر ہے جو ان کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھی۔ سمس اس صورتحال سے خاصی ڈرامائی ٹینشن حاصل کرتے ہیں مثال کے طور پر جب وہ ہومزکی پہلی کہانی ''اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ'' کے اشتہار کا ذکر کرتے ہیں جس میں کونن ڈوئیل کے نام کی غلط اسپیلنگ کی گئی تھی ابتدائی تبصرے بھی بڑے حوصلہ شکن تھے مگر پھر ان پر کامیابیوں کے دروازے کھلے ان کا نام بھی صحیح کرلیا گیا اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا گیا کہ ان کی کتابوں کو ایک دن بہت زیادہ قارئین مل جائیں گے۔
طویل عرصے تک جیسا کہ سمس نوٹ کرتے ہیں چند ہی ذہین رائٹرز ایسے گزرے ہیں جو کسی جرم کا سراغ لگانے میں ہومز جیسی خوبصورت زبان و بیان استعمال کرتے تھے یہی وجہ ہے ایک اور ایسے مصنف ایڈگرایلن پو کو سمس کی کتاب اور خود کونن ڈوئیل کی سرہانے کے نائٹ اسٹینڈ میں اہم جگہ دی گئی تھی۔
خود کونن ڈوئیل کو اس بات کا احساس اور شعور تھا کہ انھوں نے شرلوک ہومزکی اکثر کہانیاں ایلن پو کی کہانیوں کے جاسوس آگسٹے ڈیوپن کو ماڈل بناکر لکھی تھیں اور وہ شروع سے اس احسان کو اتارنے کی کوشش کر رہے تھے چنانچہ اے اسٹڈی ان اسکارٹ میں ہومز اور واٹسن ایلن پو کی کہانیوں پر بحث کرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ واٹسن اپنے ہومز کا موازنہ ڈیوپن سے کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا آگے تک جاتا ہے کہ دس سال بعد اگاتھا کرسٹی شرلوک ہومزکو اپنا پسندیدہ جاسوس قرار دیتی ہیں۔
سمس ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ آرتھر کونن ڈوئیل نے ہومز کا یہ سب سے مشہور جملہ جب اپنے سامنے سے تمام ''ناممکنات'' کو ہٹا دیتے ہیں تو اس کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ خواہ کتنا ہی ''خلاف امکان'' کیوں نہ ہو۔ سچ ہوتا ہے۔ایک ایسی شروع کی کہانی میں لکھا تھا جس میں ہومز نہیں تھے اور انھوں نے یہ جملہ اپنے ایک کردار کے ذریعے ایلن پو سے منسوب کروایا تھا۔کیا کونن ڈوئیل کو امید تھی کہ وہ ہومز کے لیے بھی کوئی اتنی ہی اچھی لائن تخلیق کرلیں گے، مگر وہ پہلے ہی یہ کر چکے تھے کیونکہ ایڈگرایلن پو نے کبھی یہ یا اس سے ملتا جلتا جملہ نہیں لکھا مگرکونن ڈوئیل چاہے ایلن پو سے کوئی جملہ کوئی لفظ ادھار نہ لیتے ہوں مگر ظاہر یہی کرتے تھے۔
مگر جیسا کہ سمس دعویٰ کرتے ہیں کونن ڈوئیل نے ایک ایسا کردار تخلیق کر ڈالا جو ان کے ارادوں اور اندازوں سے زیادہ انقلابی تھا اسی طرح واٹسن بھی جس کا زیادہ چرچا نہیں ہوا ہومزکے کارناموں کا ریکارڈ رکھنے والا ایک ایسا کردار تھا جس کی نہ جاسوسی فکشن اور نہ اسٹوری ٹیلنگ میں اس سے پہلے کوئی نظیر موجود تھی۔ ہومزکی دوسری کہانی ''دی سائن آف فور'' میں پہلی کہانی کی طباعت پر واٹسن کی بحث کو ''فیچر''کیا گیا تھا۔ واٹسن اپنی کہانی پر فخر کرتے ہیں جب کہ ہومز کا خیال ہے کہ اسے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ ہومزکی کہانیاں اپنی دوسری آؤٹنگ میں ہی دیومالائی حیثیت اختیار کی گئی تھیں۔ ہومزکی ساری تفتیش اس مفروضے کے گرد گھومتی تھی کہ ہر قتل کی واردات کا کوئی نہ کوئی Motive ہوتا ہے اور اسے دریافت کرکے ہی آپ کسی قتل کا معمہ حل کرسکتے ہیں بغیر کسی مقصد کے کیا جانے والا قتل ان کے نزدیک ایک ایسی واردات ہوتی ہے جس کے پیچھے ان دیکھی قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے جن تک پہنچنا اکثر ناممکن ہوتا ہے لہٰذا شرلوک ہومز عام طور پر وہی کیسز لیا کرتے تھے جن کے Motives کا جلد یا بدیر انھیں پتہ چل جاتا تھا۔