شام کی خانہ جنگی اور تقسیم کی سازش
نومبر 2012 ء کے اختتام تک 60 ہزار کے لگ بھگ افراد بدامنی،شورش اور خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں
ISLAMABAD:
شام کی مخدوش صورتحال نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو متحرک کردیا ہے تاکہ قیام امن اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کو جلد سے جلد بارآور کیا جائے اور شام کو ممکنہ تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جائے ۔ ادھر لبنانی شیعہ تنظیم کے سربراہ حسن نصراﷲ نے جمعرات کو اپنے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ وہ شام کو ٹوٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم بنیادی اور نظریاتی طور پر کسی بھی عرب یا اسلامی ملک کو ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتے ۔ وہ اس بار پر زور دیتے ہیں کہ عالم اسلام اور مسلم اقوام اپنا اتحاد برقرار رکھیں۔
حسن نصر کا بیان شام کی خانہ جنگی اور باغیوں کی کارروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال کی سنگینی کا مظہر ہے ، وہاں حالات سخت کشیدہ ہیں ، انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلے کا کہنا ہے کہ ایک تجزیے کے مطابق جو ڈیٹا بنانے والے ماہرین نے مرتب کیا ہے نومبر 2012 ء کے اختتام تک 60 ہزار کے لگ بھگ افراد بدامنی،شورش اور خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں جب کہ جمعرات کو اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شام میں جاری لڑائی میںمزید 160 افراد ہلاک ہوگئے۔باغیوں نے تفتاز،حلب اور دائرالزور ائرپورٹ پر قبضہ کرنے کے لیے انھیں گھیرے میں لے لیا ہے اور گردونواح میں شدید لڑائی جاری ہے۔
تاہم اس سلسلے میں پاکستان کے اقوام متحدہ میں متعین سفیر مسعود خان نے خوش آیند پیش رفت کے حوالہ سے بعض اہم نکات بیان کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شام میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا اور روس کے اعلیٰ حکام سے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے بین الاقوامی ایلچی لخدر براہیمی کی جلد ملاقات کا امکان ہے،وہ اگلے چند روز میں ماسکو میں ملیں گے۔یوں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ براہیمی امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز سے تبادلہ خیال کریں گے ۔واضح رہے لخدر براہیمی اپنے امن اور جنگ بندی مشن کی تکمیل کے سلسلے میں جلد ایک سہ فریقی اجلاس کے انعقاد کی کوششوں میںمصروف ہیں۔ روسی نائب وزیر خارجہ میخائل بگدانوف سے لخدر براہیمی کی ایک ملاقات جنیوا میں ہوچکی ہے۔ براہیمی کا کہنا ہے کہ وہ شام میں خانہ جنگی کے خاتمہ کا پلان تیار کرچکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسر کا کہنا ہے کہ لخدر براہیمی کی کوشش ہے کہ شامی حکومت کے مسئلہ کا کوئی حل نکلے ۔حقیقت یہ ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمہ کے لیے عالمی دبائو امریکی ایما پر بڑھتا جارہا ہے تاہم روس اور چین کے ''پرو '' شام موقف اور بشارالاسدکو اقتدار سے محروم کرنے کی اقوام متحدہ کی تین قراردادوں کو ان کی طرف سے ویٹو کیے جانے کے بعد امریکا کے پاس چین اور روس سے بات چیت کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے۔ عالمی تناظر میں شام میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور دمشق میں جاری کشیدگی کے باعث اسلامی ملکوں اور عالم عرب میں تشویش فطری امر ہے ،چنانچہ پاکستان بھی برادر ملک شام میں امن کی عالمی کوششوں کو قدر کی نگا سے دیکھتا ہے جب کہ تاریخی حوالوں سے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے لیے مسلم دنیا اور اسلامی ممالک کو مذہب، مسلک، مشروط امداد اور بلاک کی اسٹرٹجیکل اور تزویراتی گرداب میں پھنسانے کی سازشیں سامراجی مقاصد اور اہداف کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہیں اور اس کے نمونے سوڈان،انڈونیشیا ، یمن،افغانستان، ایران ، پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں اس مقصد کے لیے علاقائی، صوبائی، سیاسی ،نسلی ، لسانی اورمذہبی تقسیم کے شوشے،پروپیگنڈے اور میڈیا کے اثرورسوخ کے ذریعے افواہوں کا جال پھیلایا گیا۔
ادھر جمی کارٹر کے سابق مشیربرزنسکی نے خبردار کیا ہے کہ امریکا ایران پر حملے سے پہلے اپنے قومی مفادات کا جائزہ لے کیونکہ اس حملے سے یورپ اور پڑوسی ایشیائی ملکوں میں ایرانی رد عمل سے زبردست اتھل پتھل کا خطرہ ہے اور مغربی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ وارننگ چشم کشا اور بروقت ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری شام کی ممکنہ تقسیم کی سازش کو روکے ۔
شام کی مخدوش صورتحال نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو متحرک کردیا ہے تاکہ قیام امن اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کو جلد سے جلد بارآور کیا جائے اور شام کو ممکنہ تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جائے ۔ ادھر لبنانی شیعہ تنظیم کے سربراہ حسن نصراﷲ نے جمعرات کو اپنے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ وہ شام کو ٹوٹتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم بنیادی اور نظریاتی طور پر کسی بھی عرب یا اسلامی ملک کو ٹوٹتا نہیں دیکھ سکتے ۔ وہ اس بار پر زور دیتے ہیں کہ عالم اسلام اور مسلم اقوام اپنا اتحاد برقرار رکھیں۔
حسن نصر کا بیان شام کی خانہ جنگی اور باغیوں کی کارروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال کی سنگینی کا مظہر ہے ، وہاں حالات سخت کشیدہ ہیں ، انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلے کا کہنا ہے کہ ایک تجزیے کے مطابق جو ڈیٹا بنانے والے ماہرین نے مرتب کیا ہے نومبر 2012 ء کے اختتام تک 60 ہزار کے لگ بھگ افراد بدامنی،شورش اور خانہ جنگی کی نذر ہوچکے ہیں جب کہ جمعرات کو اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شام میں جاری لڑائی میںمزید 160 افراد ہلاک ہوگئے۔باغیوں نے تفتاز،حلب اور دائرالزور ائرپورٹ پر قبضہ کرنے کے لیے انھیں گھیرے میں لے لیا ہے اور گردونواح میں شدید لڑائی جاری ہے۔
تاہم اس سلسلے میں پاکستان کے اقوام متحدہ میں متعین سفیر مسعود خان نے خوش آیند پیش رفت کے حوالہ سے بعض اہم نکات بیان کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شام میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا اور روس کے اعلیٰ حکام سے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے بین الاقوامی ایلچی لخدر براہیمی کی جلد ملاقات کا امکان ہے،وہ اگلے چند روز میں ماسکو میں ملیں گے۔یوں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ براہیمی امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز سے تبادلہ خیال کریں گے ۔واضح رہے لخدر براہیمی اپنے امن اور جنگ بندی مشن کی تکمیل کے سلسلے میں جلد ایک سہ فریقی اجلاس کے انعقاد کی کوششوں میںمصروف ہیں۔ روسی نائب وزیر خارجہ میخائل بگدانوف سے لخدر براہیمی کی ایک ملاقات جنیوا میں ہوچکی ہے۔ براہیمی کا کہنا ہے کہ وہ شام میں خانہ جنگی کے خاتمہ کا پلان تیار کرچکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسر کا کہنا ہے کہ لخدر براہیمی کی کوشش ہے کہ شامی حکومت کے مسئلہ کا کوئی حل نکلے ۔حقیقت یہ ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمہ کے لیے عالمی دبائو امریکی ایما پر بڑھتا جارہا ہے تاہم روس اور چین کے ''پرو '' شام موقف اور بشارالاسدکو اقتدار سے محروم کرنے کی اقوام متحدہ کی تین قراردادوں کو ان کی طرف سے ویٹو کیے جانے کے بعد امریکا کے پاس چین اور روس سے بات چیت کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے۔ عالمی تناظر میں شام میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور دمشق میں جاری کشیدگی کے باعث اسلامی ملکوں اور عالم عرب میں تشویش فطری امر ہے ،چنانچہ پاکستان بھی برادر ملک شام میں امن کی عالمی کوششوں کو قدر کی نگا سے دیکھتا ہے جب کہ تاریخی حوالوں سے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے لیے مسلم دنیا اور اسلامی ممالک کو مذہب، مسلک، مشروط امداد اور بلاک کی اسٹرٹجیکل اور تزویراتی گرداب میں پھنسانے کی سازشیں سامراجی مقاصد اور اہداف کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہیں اور اس کے نمونے سوڈان،انڈونیشیا ، یمن،افغانستان، ایران ، پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں اس مقصد کے لیے علاقائی، صوبائی، سیاسی ،نسلی ، لسانی اورمذہبی تقسیم کے شوشے،پروپیگنڈے اور میڈیا کے اثرورسوخ کے ذریعے افواہوں کا جال پھیلایا گیا۔
ادھر جمی کارٹر کے سابق مشیربرزنسکی نے خبردار کیا ہے کہ امریکا ایران پر حملے سے پہلے اپنے قومی مفادات کا جائزہ لے کیونکہ اس حملے سے یورپ اور پڑوسی ایشیائی ملکوں میں ایرانی رد عمل سے زبردست اتھل پتھل کا خطرہ ہے اور مغربی افغانستان میں امریکی فوجیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ وارننگ چشم کشا اور بروقت ہے ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری شام کی ممکنہ تقسیم کی سازش کو روکے ۔