بچے اور ویڈیو گیمز
رسمی اور غیر رسمی طور پر، قانونی اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ قتل کس طرح کیا جائے۔
بچے کی عمر دس سال بھی نہیں ہو گی، اس کے نزدیک لاشوں کے ڈھیر لگے تھے، لاشیں تڑپ رہیں تھیں، اپنے ہی لہو میں نہا رہی تھیں، ان سے تازہ تازہ خون ابل رہا تھا، بچے نے ہیرو کے ہاتھ میں مہلک ہتھیار تھمایا ہوا تھا اور وہ قتل و غارت گری میں مصروف تھا۔ بچے کا انہماک دیدنی تھا، وہ تھری ڈی گیمز کی اِس ورچوئل دنیا میں گم قتل پہ قتل کیے چلا جا رہا تھا۔ جتنے زیادہ افراد اور املاک کو وہ تباہ کرتا اتنا ہی اس کا اسکور بڑھتا جاتا۔ اچھا اسکور کرنے پر بچے کے پر جوش چہرے پر طمانیت بکھرتی جاتی۔ آج کا بچہ تشدد کی تربیت سماجی طور پر حاصل کر رہا ہے اور ثقافتی طور پر اس کو کمک پہنچتی ہے۔
رسمی اور غیر رسمی طور پر، قانونی اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ قتل کس طرح کیا جائے۔ آج ہمیں نئی نسل سے بہت ساری شکایات ہیں، خاص کر ان کے رویوں کے بارے میں۔ لیکن کبھی ہم نے اِس بات پر غور نہیں کیا کہ بچوں کے بہت سے منفی رویوں کی تشکیل میں خود ہمارا کتنا کردار ہے۔ آج کیفیت یہ ہے کہ والدین غمِ روزگار میں اِس درجہ مشغول و مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بچوں کے لیے تو کجا خود اپنے لیے وقت نہیں ہوتا۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے رات تک فکرِ معاش میں جتے رہتے ہیں۔ شہری زندگیوں نے خاندانی نظام تو ہڑپ ہی لیا ہے۔
گھروں میں دادی، نانی، چچا وغیرہ جنسِ نایاب ہو چکے ہیں۔ ایسے میں بچوں کی تربیت اسکول کے ماحول، ویڈیو گیمز یا میڈیا کی رہینِ منت رہ جاتی ہے۔ وہاں سے تشکیل پانے والے رویے کبھی بھی مثبت اور صحت مند نہیں ہو سکتے، کیوں کہ یہ ادارے پیسے کمانے کے لیے ہیں نہ کہ اخلاقی تربیت کے لیے۔
ویڈیو گیمز نے گزشتہ تیس برس میں ناقابلِ یقین ترقی کی ہے۔ واضح رہے کہ ہم ویڈیو گیمز کی اصطلاح وسیع تر معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں تمام تر آرکیڈ گیمز، کمپیوٹر گیمز اور کنسول مثلاً پی ایس ون، ٹو وغیرہ اور دیگر شامل سمجھے جائیں۔ آج ویڈیو گیمز ایک بہت بڑی صنعت کا روپ دھار چکے ہیں۔ بلا مبالغہ یہ صنعت، فلمی صنعت سے بھی حجم میں بڑی ہے۔ اس عرصے میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی بھی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ ابتدائی خلائی جہاز ''اپالو'' جو مبینہ طور پر چاند پر پہنچا تھا، اس سے زیادہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی آج کی ایک تیز رفتار لفٹ میں استعمال ہوتی ہے۔
آج سے برسوں قبل کمپیوٹر بنانے والی اور فروخت کرنے والی کمپنیوں نے ترقی یافتہ ممالک کے اسکولوں میں کمپیوٹرز متعارف کروائے تھے۔ کمپنیوں کی جانب سے کمپیوٹرز کے بے شمار فوائد گنوائے گئے تھے۔ اس دور میں کیے جانے والے دعووں کو آج پڑھیں تو کچھ پر تو ہنسی آتی ہے۔ مختصر یہ کہ اسکولوں میں متعارف کروائے گئے کمپیوٹرز ہی بچوں کے لیے ویڈیو گیمز کا بھی تعارف ثابت ہوئے۔ یہ نئی طرز کے کھیل تھے۔ بچوں کی ان کھیلوں میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ شوق نے آج جنون کا روپ دھار لیا ہے۔
ویڈیو گیمز سے بچوں کی دل چسپی قائم رکھنے کے لیے گیم بنانے والی کمپنیوں نے گیمز میں سنسنی کے عنصر کو بنیاد کے طور پر قبول کر لیا۔ زیادہ سے زیادہ سنسنی کے لیے تشدد اور غیر محسوس جنس گیمز میں از خود در آئے۔ افراد اور املاک کی تباہی اور ان تباہیوں سے حظ اٹھانا، اس طرز کی تفریح کی بنیاد بن گیا۔ کم و بیش تمام تر ویڈیو گیمز اپنے آخری تجزیے میں کسی نہ کسی درجے میں تشدد یا جنسی مواد کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ نشہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ بچے اب خود سے تشدد آمیز کھیلوں کی طلب کرتے ہیں۔
اس طرح کے کھیل بچوں کی نفسیات اور کردار پر کیا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، نتیجے کے طور پر معاشرے میں تشدد آمیز رویے کس کس طرح بار پاتے ہیں حکومتوں اور ویڈیو گیمز بنانے والی کمپنیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ تشدد آمیز ویڈیو گیمز بچوں کے ذہن اور نفسیات کو کس طرح بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں اس بارے میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی نے ایک اہم تحقیق کی۔ وہاں کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یِنگ وانگ (ایم ڈی) اس تحقیق کے روح رواں تھے۔ آپ کا تعلق ریڈیالوجی اور عکسی سائنس سے ہے۔
آئی یو میڈیکل اسکول کے دیگر سائنس دانوں میں انڈریو جے کیلنن، کرسٹین ایم موزیر، ڈیوڈ ڈبلیو ڈن شامل تھے، یہ سب افراد ایم ڈی یا پی ایچ ڈی سطح کے ہیں۔ کئی صحت مند افراد تجربے کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھیں اپنے ہی گھروں پر روزانہ ایک خاص وقت کے لیے ویڈیو گیمز کھیلنے تھے۔ اس دوران ان کے جسم سے مختلف آلات بھی منسلک کیے جاتے رہے، نیز ان کے دماغ کے مسلسل عکس (ایف ایم آر آئی) لیے جاتے رہے۔ اس سادہ سی تحقیق کے نتائج حیران کن اور دہلا دینے والے ہیں۔
دیکھا یہ گیا کہ تمام کے تمام زیر تجربہ افراد کے دماغ کے ان گوشوں میں جو جذبات سے متعلق ہیں مستقل نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو گئیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ پرتشدد ویڈیو گیمز انسانی رویوں میں دوامی منفی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مزید تفصیلات یونی ورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
انڈیانا پولِس میں ہونے والی یہ تحقیق حکومتوں، کمپیوٹر ساز اداروں اور ویڈیو گیمز کی صنعت کے کرتا دھرتا افراد کے لیے تو ایک بے معنی یا غیر متعلق سی بات ہے۔ لیکن کیا جو والدین اپنے بچوں کے اخلاق، کردار اور رویوں کی فکر کرتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک بے معنی تحقیق ہو سکتی ہے۔ کئی دہائی قبل جب ویڈیو گیمز کی ابتدا تھی تو کیا گیم بنانے والے ویڈیو گیمز کی تعریف میں رطب اللسان نہیں رہا کرتے تھے۔ کیا یہ نہیں کہا جاتا رہا کہ ویڈیو گیمز اچھے استاد ہوتے ہیں۔
یہ رجحان سازی کرتے ہیں وغیرہ۔ تو اب جب کہ رجحان سازی ہونے لگی بچوں کے رویے تشدد آمیز ہو گئے، اسکولوں میں بچے فائرنگ سے مرنے لگے ہیں، ستر فیصد سے زائد بچے اور اساتذہ اسکولوں میں ''بُلنگ'' کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق عالمی سطح پر بچوں کے رویوں میں منفی رجحانات، تشدد آمیز رویے اور صنف نازک کی تحقیر در آئی ہے۔ کیا یہ جنس زدہ پر تشدد ویڈیو گیمز کا براہ راست نتیجہ نہیں؟ آن لائن گیمز کی بھی بے شمار سائٹس ہیں۔ کسی پر بھی چلے جائیں، تشدد، ہلاکت اور جنسیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
98 فی صد بچوں کے ڈاکٹروں اور نفسیات دانوں کی رائے ہے کہ پرتشدد ویڈیو گیمز بچوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ ان کے خود کے بچے اس وبا سے محفوظ نہیں، اس طرز کے کھیل جہاں ایک جانب بچوں میں منفی اور جنسی رویے ابھارنے کا باعث ثابت ہوتے ہیں تو وہیں دوسری جانب وہ بچوں میں اقدار سے دوری، تنہائی، تضیع وقت، بے حسی اور قانون کے عدم احترام کو عام کرتے ہیں۔ نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ گیمز اور ٹی وی کی ''ورچوئل'' دنیا میں رہنے والوں کے لیے رشتے ناتے، قرابت دار، ہمجولی، ہمسائے یہ سب رشتے بے معنی ہوتے چلے جا تے ہیں۔
بچے زبان دراز تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کی زبان دانی کی صلاحیتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ زرخیز تصور، تخیل، نکتہ آفرینی، بذلہ سنجی، ذہانت و فطانت، فطری مناظر سے لطف اندوزی، حسِ لطیف بچہ ان سب سے عاری ہو جاتا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کارٹون، فلمیں اور ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے کبھی اچھے طالب علم نہیں ہوتے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا دلچسپیوں کے حامل بچوں کی ذہنی صحت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ وہ باقاعدہ ورزش تو دور کی بات ہے جسمانی مشقت سے بھی دور بھا گنے لگتے ہیں، نتیجتاً طرح طرح کے جسمانی عوارض اور مٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ ہیں آج کے کھیل اور آج کے دور کے بچوں اور مستقبل کے معماروں کے لیے دورِ جدید کا تحفہ۔ ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے کیسی دنیا چھوڑی تھی اور ہم اپنے بچوں کو کیسی دنیا دے کر جا رہے ہیں۔
رسمی اور غیر رسمی طور پر، قانونی اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ قتل کس طرح کیا جائے۔ آج ہمیں نئی نسل سے بہت ساری شکایات ہیں، خاص کر ان کے رویوں کے بارے میں۔ لیکن کبھی ہم نے اِس بات پر غور نہیں کیا کہ بچوں کے بہت سے منفی رویوں کی تشکیل میں خود ہمارا کتنا کردار ہے۔ آج کیفیت یہ ہے کہ والدین غمِ روزگار میں اِس درجہ مشغول و مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بچوں کے لیے تو کجا خود اپنے لیے وقت نہیں ہوتا۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے رات تک فکرِ معاش میں جتے رہتے ہیں۔ شہری زندگیوں نے خاندانی نظام تو ہڑپ ہی لیا ہے۔
گھروں میں دادی، نانی، چچا وغیرہ جنسِ نایاب ہو چکے ہیں۔ ایسے میں بچوں کی تربیت اسکول کے ماحول، ویڈیو گیمز یا میڈیا کی رہینِ منت رہ جاتی ہے۔ وہاں سے تشکیل پانے والے رویے کبھی بھی مثبت اور صحت مند نہیں ہو سکتے، کیوں کہ یہ ادارے پیسے کمانے کے لیے ہیں نہ کہ اخلاقی تربیت کے لیے۔
ویڈیو گیمز نے گزشتہ تیس برس میں ناقابلِ یقین ترقی کی ہے۔ واضح رہے کہ ہم ویڈیو گیمز کی اصطلاح وسیع تر معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں تمام تر آرکیڈ گیمز، کمپیوٹر گیمز اور کنسول مثلاً پی ایس ون، ٹو وغیرہ اور دیگر شامل سمجھے جائیں۔ آج ویڈیو گیمز ایک بہت بڑی صنعت کا روپ دھار چکے ہیں۔ بلا مبالغہ یہ صنعت، فلمی صنعت سے بھی حجم میں بڑی ہے۔ اس عرصے میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی بھی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ ابتدائی خلائی جہاز ''اپالو'' جو مبینہ طور پر چاند پر پہنچا تھا، اس سے زیادہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی آج کی ایک تیز رفتار لفٹ میں استعمال ہوتی ہے۔
آج سے برسوں قبل کمپیوٹر بنانے والی اور فروخت کرنے والی کمپنیوں نے ترقی یافتہ ممالک کے اسکولوں میں کمپیوٹرز متعارف کروائے تھے۔ کمپنیوں کی جانب سے کمپیوٹرز کے بے شمار فوائد گنوائے گئے تھے۔ اس دور میں کیے جانے والے دعووں کو آج پڑھیں تو کچھ پر تو ہنسی آتی ہے۔ مختصر یہ کہ اسکولوں میں متعارف کروائے گئے کمپیوٹرز ہی بچوں کے لیے ویڈیو گیمز کا بھی تعارف ثابت ہوئے۔ یہ نئی طرز کے کھیل تھے۔ بچوں کی ان کھیلوں میں دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ شوق نے آج جنون کا روپ دھار لیا ہے۔
ویڈیو گیمز سے بچوں کی دل چسپی قائم رکھنے کے لیے گیم بنانے والی کمپنیوں نے گیمز میں سنسنی کے عنصر کو بنیاد کے طور پر قبول کر لیا۔ زیادہ سے زیادہ سنسنی کے لیے تشدد اور غیر محسوس جنس گیمز میں از خود در آئے۔ افراد اور املاک کی تباہی اور ان تباہیوں سے حظ اٹھانا، اس طرز کی تفریح کی بنیاد بن گیا۔ کم و بیش تمام تر ویڈیو گیمز اپنے آخری تجزیے میں کسی نہ کسی درجے میں تشدد یا جنسی مواد کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ نشہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ بچے اب خود سے تشدد آمیز کھیلوں کی طلب کرتے ہیں۔
اس طرح کے کھیل بچوں کی نفسیات اور کردار پر کیا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، نتیجے کے طور پر معاشرے میں تشدد آمیز رویے کس کس طرح بار پاتے ہیں حکومتوں اور ویڈیو گیمز بنانے والی کمپنیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ تشدد آمیز ویڈیو گیمز بچوں کے ذہن اور نفسیات کو کس طرح بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں اس بارے میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی نے ایک اہم تحقیق کی۔ وہاں کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یِنگ وانگ (ایم ڈی) اس تحقیق کے روح رواں تھے۔ آپ کا تعلق ریڈیالوجی اور عکسی سائنس سے ہے۔
آئی یو میڈیکل اسکول کے دیگر سائنس دانوں میں انڈریو جے کیلنن، کرسٹین ایم موزیر، ڈیوڈ ڈبلیو ڈن شامل تھے، یہ سب افراد ایم ڈی یا پی ایچ ڈی سطح کے ہیں۔ کئی صحت مند افراد تجربے کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھیں اپنے ہی گھروں پر روزانہ ایک خاص وقت کے لیے ویڈیو گیمز کھیلنے تھے۔ اس دوران ان کے جسم سے مختلف آلات بھی منسلک کیے جاتے رہے، نیز ان کے دماغ کے مسلسل عکس (ایف ایم آر آئی) لیے جاتے رہے۔ اس سادہ سی تحقیق کے نتائج حیران کن اور دہلا دینے والے ہیں۔
دیکھا یہ گیا کہ تمام کے تمام زیر تجربہ افراد کے دماغ کے ان گوشوں میں جو جذبات سے متعلق ہیں مستقل نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہو گئیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ پرتشدد ویڈیو گیمز انسانی رویوں میں دوامی منفی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مزید تفصیلات یونی ورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
انڈیانا پولِس میں ہونے والی یہ تحقیق حکومتوں، کمپیوٹر ساز اداروں اور ویڈیو گیمز کی صنعت کے کرتا دھرتا افراد کے لیے تو ایک بے معنی یا غیر متعلق سی بات ہے۔ لیکن کیا جو والدین اپنے بچوں کے اخلاق، کردار اور رویوں کی فکر کرتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک بے معنی تحقیق ہو سکتی ہے۔ کئی دہائی قبل جب ویڈیو گیمز کی ابتدا تھی تو کیا گیم بنانے والے ویڈیو گیمز کی تعریف میں رطب اللسان نہیں رہا کرتے تھے۔ کیا یہ نہیں کہا جاتا رہا کہ ویڈیو گیمز اچھے استاد ہوتے ہیں۔
یہ رجحان سازی کرتے ہیں وغیرہ۔ تو اب جب کہ رجحان سازی ہونے لگی بچوں کے رویے تشدد آمیز ہو گئے، اسکولوں میں بچے فائرنگ سے مرنے لگے ہیں، ستر فیصد سے زائد بچے اور اساتذہ اسکولوں میں ''بُلنگ'' کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق عالمی سطح پر بچوں کے رویوں میں منفی رجحانات، تشدد آمیز رویے اور صنف نازک کی تحقیر در آئی ہے۔ کیا یہ جنس زدہ پر تشدد ویڈیو گیمز کا براہ راست نتیجہ نہیں؟ آن لائن گیمز کی بھی بے شمار سائٹس ہیں۔ کسی پر بھی چلے جائیں، تشدد، ہلاکت اور جنسیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
98 فی صد بچوں کے ڈاکٹروں اور نفسیات دانوں کی رائے ہے کہ پرتشدد ویڈیو گیمز بچوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ ان کے خود کے بچے اس وبا سے محفوظ نہیں، اس طرز کے کھیل جہاں ایک جانب بچوں میں منفی اور جنسی رویے ابھارنے کا باعث ثابت ہوتے ہیں تو وہیں دوسری جانب وہ بچوں میں اقدار سے دوری، تنہائی، تضیع وقت، بے حسی اور قانون کے عدم احترام کو عام کرتے ہیں۔ نفسیات دانوں کا کہنا ہے کہ گیمز اور ٹی وی کی ''ورچوئل'' دنیا میں رہنے والوں کے لیے رشتے ناتے، قرابت دار، ہمجولی، ہمسائے یہ سب رشتے بے معنی ہوتے چلے جا تے ہیں۔
بچے زبان دراز تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کی زبان دانی کی صلاحیتیں ختم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ زرخیز تصور، تخیل، نکتہ آفرینی، بذلہ سنجی، ذہانت و فطانت، فطری مناظر سے لطف اندوزی، حسِ لطیف بچہ ان سب سے عاری ہو جاتا ہے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کارٹون، فلمیں اور ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے کبھی اچھے طالب علم نہیں ہوتے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا دلچسپیوں کے حامل بچوں کی ذہنی صحت کے علاوہ جسمانی صحت بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ وہ باقاعدہ ورزش تو دور کی بات ہے جسمانی مشقت سے بھی دور بھا گنے لگتے ہیں، نتیجتاً طرح طرح کے جسمانی عوارض اور مٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ ہیں آج کے کھیل اور آج کے دور کے بچوں اور مستقبل کے معماروں کے لیے دورِ جدید کا تحفہ۔ ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے کیسی دنیا چھوڑی تھی اور ہم اپنے بچوں کو کیسی دنیا دے کر جا رہے ہیں۔