جاتے جاتے رنگ دِکھا گئے
خواتین کی لوڈشیڈنگ کےخلاف زور نعرے بازی، وہاں موجود تمام صارفین اور دکان داروں کو ’’تحفے‘‘کے طور پر چوڑیاں دیں
KARACHI:
گزشتہ چند ماہ میں مزدوروں، طلبا، نوجوانوں، خواتین، کسانوں، ڈاکٹروں اور استادوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بائیں بازو کے کچھ مخلص اور انقلابی کارکنان جن میں انور احسن صدیقی، ڈاکٹر منظور احمد، بیرسٹر قربان علی، پروفیسر ابوالکلام، آصفہ رضوی ایڈووکیٹ، الیاس رائو، قمراحمد، محمد یامین اور ظفر رضوی شامل ہیں، ہم سے جدا ہوگئے۔ انور احسن صدیقی مارکسی فلسفے کے ترجمان اور ممتاز کالم نگار تھے ۔ وہ 1960 میں کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کے سیکریٹری رہے۔
انھوں نے پٹھان مہاجر جھگڑے کے موقعے بروقت لیاقت آباد نمبر 10 پر پہنچ کر صلح کروائی اور تادمِ مرگ اپنے نظریے پر قائم رہے۔ ڈاکٹر منظور احمد نے طالب علمی کی زندگی سے جدوجہد شروع کی اور تادم مرگ اپنا مشن جاری رکھا۔ سیکیورٹی پریس کی 105 دن کی ہڑتال میں، ہڑتالی مزدوروں کا مفت علاج کرتے رہے۔ بیرسٹر قربان علی نے انقلابی رہنماؤں پر کئی کتابیں شایع کرکے محنت کشوں، طلبا، نوجوانوں اور عوام کی زبردست خدمت کی، انھیں انقلابی راہ دِکھائی۔
پروفیسر کلام نے بھی ساری زندگی اشتراکیت کے لیے جدوجہد کی اور ہم سے جدا ہوتے ہوتے کتاب بھی لکھ گئے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک انتھک جدوجہد کی۔ آصفہ رضوی نے نہ صرف زمانہ طالب علمی کے دوران جدوجہد کی بلکہ پٹ فیڈر کے کسانوں کے حقوق کے لیے مچھ جیل میں مقید رہیں۔ الیاس رائو نے اورنگی ٹائون کراچی میں محنت کشوں کو متحد کیا اور اورنگی ٹائون میں بائیں بازو کی بنیاد ڈالی، محمد یامین جنھوں نے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس میں 105 دن کی 1970 میں کامیاب ہڑتال کروائی۔
اس وقت عالمی ریکارڈ لندن کے کوئلے کے کان کنوں کی 2 ماہ کی ہڑتال تھی جب کہ سیکیورٹی پریس کے مزدوروں نے 105 دن کی ہڑتال کی۔ قمر احمد جو مشرقی یوپی ہندوستان کے 1951 میں ہر دل عزیز طالب علم رہنما تھے اور تادمِ مرگ کمیونسٹ نظریات پر قائم رہے۔ ظفر رضوی نے مزدوروں کے حقوق کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی اور انتقال سے قبل ایک کتاب بھی لکھی۔ اسی تسلسل میں جون 2012 میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبا اور خانیوال کی خواتین، نوجوان اور محنت کشوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف قابل ذکر اور بہادرانہ جدوجہد کرکے اپنے مطالبات منوائے۔
17 جون کو فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کے خلاف رات 8:30 بجے طلبا یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ہاسٹلوں سے باہر نکل آئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے جبر کے باوجود طلبا بڑی تعداد میں لوڈشیڈنگ کی مسلسل اذیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے۔ طلبا نے وائس چانسلر کے گھر کی طرف مارچ شروع کردیا۔ سیکڑوں طلبا یونیورسٹی گیٹ پر جمع ہوگئے اور جیل روڈ کو بلاک کردیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ طلبا کو مظاہرہ ختم کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ طلبا کا مطالبہ تھا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے تک وہ سڑک پر رہیں گے۔ پولیس لائن سے پولیس نے ہڑتال ختم کرنے کے لیے طلبا سے مذاکرات کیے۔ زرعی یونیورسٹی کے طلبا ماضی میں بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں زرعی یونیورسٹی میں انقلابی کونسل کے طالب علم رہنما عمر رشید اور دیگر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔
اس کے علاوہ انھیں یونیورسٹی سے نکالنے کی سزا بھی دی گئی۔ لیکن طلبا کے مسلسل احتجاج اور مظاہروں کے باعث انھیں نہ صرف جیل سے باہر نکالا گیا بلکہ واپس یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یہ جدوجہد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔
طلبا کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرنا یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے حیران کن تھا۔ اساتذہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تھا کہ طلبا کو یونیورسٹی واپس لے جایا جائے۔ طلبا نے مطالبات کی منظوری تک جدوجہد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ انقلابی کونسل کے کامریڈز نے اساتذہ کو حکومت کے بجائے طلبا کا ساتھ دینے پر زور دیا اور کہا کہ بجلی کا بحران مصنوعی ہے۔ اس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ HEC کی صوبائی سطح پر تقسیم کے بعد اساتذہ کو تنخواہوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
اساتذہ اور طلبا کے مسائل کے حل کے لیے انھیں مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبا نے انقلابی کونسل کے ان مطالبات کی حمایت کی، لیکن اساتذہ یہ ہڑتال ختم کروانا چاہتے تھے۔ ترقی پسند نظریات رکھنے والی انقلابی کونسل کی قیادت کے برعکس ایک چھوٹا سا طلبا دشمن ٹولہ ایسا بھی موجود ہے جو اساتذہ کے کہنے کے مطابق وائس چانسلر سے مذاکرات کرنے کے لیے چلا گیا۔
طلبا کو اس بات کا پتا چلا تو انھوں نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے وی سی صاحب سے خود بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ تمام طلبا وی سی ہائوس جمع ہوگئے جہاں پر ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئر نے وی سی کی جگہ پر وعدہ کیا کہ طلبا کے مسائل فوری حل کیے جائیں گے۔ اس وعدے پر یقین کرتے ہوئے طلبا نے ہڑتال موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔
17 جون 2012 اتوار کے دن خانیوال شہر میں سیکڑوں خواتین نے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جو تمام شہر سے ہوتی ہوئی جب مرکزی بازار پہنچی تو خواتین نے لوڈشیڈنگ کے خلاف بہ زور نعرے بازی کرتے ہوئے وہاں موجود تمام صارفین اور دکان داروں کو ''تحفے'' کے طور پر چوڑیاں دیں۔ جس کے نتیجے میں اگلے دن لگ بھگ 7 ہزار شہریوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی اور شہر کے تمام معمولاتِ زندگی رک گئے۔
بجلی کا مسئلہ دو دن میں حل ہوسکتا ہے۔ سارے توانائی کے اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔ محنت کشوں کا ایسا انقلاب برپا کیا جائے، جہاں سارے وسائل سارے عوام کے ہوں، ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو، نہ ریاست اور نہ کوئی طبقہ۔
نوٹ:۔ ایک ضرورت مند گھرانے کی بے کسی کا خلاصہ تحریر کررہا ہوں، مخیر حضرات سے مدد کی اپیل ہے۔ ''مودبانہ گزارش ہے کہ میرے خاوند ایک امام مسجد ہیں جو قلیل تنخواہ سے 2 چھوٹے بہن بھائی اور 4 بچوں سمیت 8 افراد کی کفالت کررہے ہیں۔ 5 برس پہلے میرے سسر شوگر اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے جس پر ہم نے 75 ہزار قرض لے کر ان کا علاج کرایا، ان کی وفات کے کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ مجھے ہیپاٹائٹس سی ہے، ڈاکٹروں نے علاج کے لیے PEGASYS انجکشن تجویز کیا ہے جو کہ بازار میں 10 ہزار روپے کا خصوصی رعایت کے ساتھ ملتا ہے۔
ہم 12 انجکشن لگوا چکے ہیں اور کم از کم 20 انجکشن مزید لگوانے ہیں جو کہ 2 لاکھ روپے کے بنتے ہیں۔ ہم لوگ پہلے ہی تقریباً 2 لاکھ 55 ہزار کے مقروض ہیں اور میں اپنے سارے زیورات بھی بیچ چکی ہوں۔ گزشتہ سال ایک شدید ترین ٹریفک ایکسیڈنٹ میں تین بچے اور قاری صاحب شدید زخمی ہوگئے، لاہور جنرل اسپتال میں 13-14 دن بے ہوشی کی حالت میں زیر علاج رہے، ان کے اور بچوں کے علاج معالجے پر 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب رقم خرچ ہوئی جو تمام قرض لے کر ادا کی گئی۔ برائے کرم اپنے کالم کے ذریعے قارئین سے ہماری مدد کی اپیل کریں۔''
خاتون نے اپنا اور شہر کا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ علاج معالجے سے متعلق تمام دستاویزی ریکارڈ بھی منسلک کیا ہے۔ جو لوگ مدد کرنا چاہیں وہ اکائونٹ نمبر 0110101712، آن لائن برانچ کوڈ نمبر 0052، الائیڈ بینک، اور موبائل نمبر 0331-7692001 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں مزدوروں، طلبا، نوجوانوں، خواتین، کسانوں، ڈاکٹروں اور استادوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بائیں بازو کے کچھ مخلص اور انقلابی کارکنان جن میں انور احسن صدیقی، ڈاکٹر منظور احمد، بیرسٹر قربان علی، پروفیسر ابوالکلام، آصفہ رضوی ایڈووکیٹ، الیاس رائو، قمراحمد، محمد یامین اور ظفر رضوی شامل ہیں، ہم سے جدا ہوگئے۔ انور احسن صدیقی مارکسی فلسفے کے ترجمان اور ممتاز کالم نگار تھے ۔ وہ 1960 میں کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کے سیکریٹری رہے۔
انھوں نے پٹھان مہاجر جھگڑے کے موقعے بروقت لیاقت آباد نمبر 10 پر پہنچ کر صلح کروائی اور تادمِ مرگ اپنے نظریے پر قائم رہے۔ ڈاکٹر منظور احمد نے طالب علمی کی زندگی سے جدوجہد شروع کی اور تادم مرگ اپنا مشن جاری رکھا۔ سیکیورٹی پریس کی 105 دن کی ہڑتال میں، ہڑتالی مزدوروں کا مفت علاج کرتے رہے۔ بیرسٹر قربان علی نے انقلابی رہنماؤں پر کئی کتابیں شایع کرکے محنت کشوں، طلبا، نوجوانوں اور عوام کی زبردست خدمت کی، انھیں انقلابی راہ دِکھائی۔
پروفیسر کلام نے بھی ساری زندگی اشتراکیت کے لیے جدوجہد کی اور ہم سے جدا ہوتے ہوتے کتاب بھی لکھ گئے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک انتھک جدوجہد کی۔ آصفہ رضوی نے نہ صرف زمانہ طالب علمی کے دوران جدوجہد کی بلکہ پٹ فیڈر کے کسانوں کے حقوق کے لیے مچھ جیل میں مقید رہیں۔ الیاس رائو نے اورنگی ٹائون کراچی میں محنت کشوں کو متحد کیا اور اورنگی ٹائون میں بائیں بازو کی بنیاد ڈالی، محمد یامین جنھوں نے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس میں 105 دن کی 1970 میں کامیاب ہڑتال کروائی۔
اس وقت عالمی ریکارڈ لندن کے کوئلے کے کان کنوں کی 2 ماہ کی ہڑتال تھی جب کہ سیکیورٹی پریس کے مزدوروں نے 105 دن کی ہڑتال کی۔ قمر احمد جو مشرقی یوپی ہندوستان کے 1951 میں ہر دل عزیز طالب علم رہنما تھے اور تادمِ مرگ کمیونسٹ نظریات پر قائم رہے۔ ظفر رضوی نے مزدوروں کے حقوق کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی اور انتقال سے قبل ایک کتاب بھی لکھی۔ اسی تسلسل میں جون 2012 میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبا اور خانیوال کی خواتین، نوجوان اور محنت کشوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف قابل ذکر اور بہادرانہ جدوجہد کرکے اپنے مطالبات منوائے۔
17 جون کو فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کے خلاف رات 8:30 بجے طلبا یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ہاسٹلوں سے باہر نکل آئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے جبر کے باوجود طلبا بڑی تعداد میں لوڈشیڈنگ کی مسلسل اذیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے۔ طلبا نے وائس چانسلر کے گھر کی طرف مارچ شروع کردیا۔ سیکڑوں طلبا یونیورسٹی گیٹ پر جمع ہوگئے اور جیل روڈ کو بلاک کردیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ طلبا کو مظاہرہ ختم کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ طلبا کا مطالبہ تھا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے تک وہ سڑک پر رہیں گے۔ پولیس لائن سے پولیس نے ہڑتال ختم کرنے کے لیے طلبا سے مذاکرات کیے۔ زرعی یونیورسٹی کے طلبا ماضی میں بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں زرعی یونیورسٹی میں انقلابی کونسل کے طالب علم رہنما عمر رشید اور دیگر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑا۔
اس کے علاوہ انھیں یونیورسٹی سے نکالنے کی سزا بھی دی گئی۔ لیکن طلبا کے مسلسل احتجاج اور مظاہروں کے باعث انھیں نہ صرف جیل سے باہر نکالا گیا بلکہ واپس یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یہ جدوجہد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔
طلبا کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرنا یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے حیران کن تھا۔ اساتذہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تھا کہ طلبا کو یونیورسٹی واپس لے جایا جائے۔ طلبا نے مطالبات کی منظوری تک جدوجہد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ انقلابی کونسل کے کامریڈز نے اساتذہ کو حکومت کے بجائے طلبا کا ساتھ دینے پر زور دیا اور کہا کہ بجلی کا بحران مصنوعی ہے۔ اس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ HEC کی صوبائی سطح پر تقسیم کے بعد اساتذہ کو تنخواہوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
اساتذہ اور طلبا کے مسائل کے حل کے لیے انھیں مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبا نے انقلابی کونسل کے ان مطالبات کی حمایت کی، لیکن اساتذہ یہ ہڑتال ختم کروانا چاہتے تھے۔ ترقی پسند نظریات رکھنے والی انقلابی کونسل کی قیادت کے برعکس ایک چھوٹا سا طلبا دشمن ٹولہ ایسا بھی موجود ہے جو اساتذہ کے کہنے کے مطابق وائس چانسلر سے مذاکرات کرنے کے لیے چلا گیا۔
طلبا کو اس بات کا پتا چلا تو انھوں نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے وی سی صاحب سے خود بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ تمام طلبا وی سی ہائوس جمع ہوگئے جہاں پر ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئر نے وی سی کی جگہ پر وعدہ کیا کہ طلبا کے مسائل فوری حل کیے جائیں گے۔ اس وعدے پر یقین کرتے ہوئے طلبا نے ہڑتال موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔
17 جون 2012 اتوار کے دن خانیوال شہر میں سیکڑوں خواتین نے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جو تمام شہر سے ہوتی ہوئی جب مرکزی بازار پہنچی تو خواتین نے لوڈشیڈنگ کے خلاف بہ زور نعرے بازی کرتے ہوئے وہاں موجود تمام صارفین اور دکان داروں کو ''تحفے'' کے طور پر چوڑیاں دیں۔ جس کے نتیجے میں اگلے دن لگ بھگ 7 ہزار شہریوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی اور شہر کے تمام معمولاتِ زندگی رک گئے۔
بجلی کا مسئلہ دو دن میں حل ہوسکتا ہے۔ سارے توانائی کے اداروں کو قومی ملکیت میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے۔ محنت کشوں کا ایسا انقلاب برپا کیا جائے، جہاں سارے وسائل سارے عوام کے ہوں، ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو، نہ ریاست اور نہ کوئی طبقہ۔
نوٹ:۔ ایک ضرورت مند گھرانے کی بے کسی کا خلاصہ تحریر کررہا ہوں، مخیر حضرات سے مدد کی اپیل ہے۔ ''مودبانہ گزارش ہے کہ میرے خاوند ایک امام مسجد ہیں جو قلیل تنخواہ سے 2 چھوٹے بہن بھائی اور 4 بچوں سمیت 8 افراد کی کفالت کررہے ہیں۔ 5 برس پہلے میرے سسر شوگر اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے جس پر ہم نے 75 ہزار قرض لے کر ان کا علاج کرایا، ان کی وفات کے کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ مجھے ہیپاٹائٹس سی ہے، ڈاکٹروں نے علاج کے لیے PEGASYS انجکشن تجویز کیا ہے جو کہ بازار میں 10 ہزار روپے کا خصوصی رعایت کے ساتھ ملتا ہے۔
ہم 12 انجکشن لگوا چکے ہیں اور کم از کم 20 انجکشن مزید لگوانے ہیں جو کہ 2 لاکھ روپے کے بنتے ہیں۔ ہم لوگ پہلے ہی تقریباً 2 لاکھ 55 ہزار کے مقروض ہیں اور میں اپنے سارے زیورات بھی بیچ چکی ہوں۔ گزشتہ سال ایک شدید ترین ٹریفک ایکسیڈنٹ میں تین بچے اور قاری صاحب شدید زخمی ہوگئے، لاہور جنرل اسپتال میں 13-14 دن بے ہوشی کی حالت میں زیر علاج رہے، ان کے اور بچوں کے علاج معالجے پر 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب رقم خرچ ہوئی جو تمام قرض لے کر ادا کی گئی۔ برائے کرم اپنے کالم کے ذریعے قارئین سے ہماری مدد کی اپیل کریں۔''
خاتون نے اپنا اور شہر کا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ علاج معالجے سے متعلق تمام دستاویزی ریکارڈ بھی منسلک کیا ہے۔ جو لوگ مدد کرنا چاہیں وہ اکائونٹ نمبر 0110101712، آن لائن برانچ کوڈ نمبر 0052، الائیڈ بینک، اور موبائل نمبر 0331-7692001 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔