اقتصادی استحکام ‘اصل منزل

وفاقی حکومت پاناما لیکس کیس کے گرداب سے نکلنے کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت ، روزگار، کی فراہمی پر توجہ دے

۔ فوٹو؛ فائل

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے، اقتصادی حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ یہ بات انھوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں 14 ملکوں کی نامور کمپنیوں کے 38 ایگزیکٹوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی جن میں برطانیہ، اٹلی، آسٹریلیا، سویڈن، چین، سنگاپور، جنوبی کوریا اور دیگر ملک شامل تھے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان ملکوں کے سرمایہ کاروں کے لیے خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم نوازشریف نے شیخوپورہ کے نواحی قصبے بھکھی میں پاور پلانٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محنت کا پھل ملنے پر فیتہ کاٹیں تو مخالفین برداشت کریں، خوشی ہے ہماری محنت رنگ لارہی ہے، دنیا پاکستان کی معیشت کے استحکام کی باتین کررہی ہے ، عالمی جریدوں میں پاکستان کی ترقی کا اعتراف کیا جارہا ہے، مخالفین ملک کے خلاف سازشیں چھوڑ دیں اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔

ملکی معیشت کی مضبوطی، شرح نمو اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ اور آیندہ سال لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے دعوے اور اعلانات کا عملی تناظر امید افزا ضرور ہے تاہم موجودہ سیاسی صورتحال ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد اور فیتے کاٹنے کی مسلسل تقریبات پر اپوزیشن حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی بھی قابل غور ہے، کیونکہ حقیقت سے کتنی ہی چسم پوشی کی جائے مگر حکومت اور اپوزیشن کے مابین پاناما کیس کے سیاق وسباق میں ایک ایسی کشمکش جاری ہے جو ملکی معیشت کے بارے میں غیرملکی مالیاتی اور ریٹنگ اداروں کی تصدیق اور توصیفی بیانات اور اشاریوں کی صداقت کو بھی معاشی بازیگری سے تعبیر کرتی ہے، مگر حزب اختلاف کی تنقید کے تعمیری پہلو اگر قومی مفاد میں ہے تو حکمرانوں کو ترقی کے دعووں کے جواب میں چشمک زنی اور کشیدگی کو بڑھاوا دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔صا ئب مشورہ یہی ہے کہ اقتصادی پیش رفت اگر ٹھوس منصوبہ بندی اور شفافیت کی آئینہ دار ہے تو اس کا کریدٹ حکومت کو ملنا چاہیے، اور ہر حکومتی اقدام یا فیصلہ کوہدف تنقید بنانے سے مسائل مزید پیچیدگی کا شکار ہوسکتے ہیں، ملک کو بلاشبہ توانائی بحران سے نمٹنا ہے ۔


وزیراعظم مسلسل قوم کو اس بات کا یقین دلارہے ہیں کہ 2018 ء میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، خدا کرے وزیراعظم کی بات کی لاج رکھی جائے اور توانائی سمیت سی پیک اور دیگر اقتصادی منصوبے جلد مکمل ہوں تاکہ اس مفروضہ کو حقیقت میں بدلا جاسکے کہ پاکستان آیندہ چند برسوں میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائیگی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی اقتصادی امور کی نزاکت کو سیاسی بیان بازیوں کی نذر نہ کیا جائے، ایک طرف عدالتی عمل جاری ہے ، ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں ممکنہ خدشات ہیں ، دوسری طرف پانی روکنے کی بھارتی سازش ہے، کنٹرول لائن پر کشیدگی ہے، اندریں حالات ملفوف انتخابی مہم جاری ہے، جلسے جلوس اور میڈیا پر ملسل گولہ باری بلا مقصد نہیں مگر اختلاف رائے کے دوطرفہ عمل میں توازن کی ضرورت کل سے زیادہ آج ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حکمرانوں اور اپوزیشن جماعتوں کا اپنی توپوں کا رخ خود اپنی داخلی صورتحال کی اصلاح کی طرف بھی کرنی چاہیے، بہتر یہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ملک کو درپیش چیلنجز پر بھی توجہ مبذول کریں جو طوفان بلا خیز کی صورت بڑھتے چلے آرہے ہے۔

وفاقی حکومت پاناما لیکس کیس کے گرداب سے نکلنے کے ساتھ ساتھ تعلیم ، صحت ، روزگار، کی فراہمی پر توجہ دے ۔ لوڈ شیدنگ آیندہ سال ختم ہوگی مگر اس وقت پورے ملک میں بجلی ، گیس اور سی این جی کی لوڈ شیڈنگ اور قلت نے عوام کو پریشانی میں مبتلا کیا، غربت میں کمی کی خبریں ہیں ، زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں، بظاہر پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور ادارہ جاتی استحکام اور مربوط جمہوری عمل اور قانون سازی کے نتیجہ خیز ہونے کا عمل ابھی تک ایڈ ہاک ازم کی گرفت میں ہے، کئی مسودہ بل مختلف عوامی و سیاسی حلقوں اور اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم نہیں کیے، فاٹا کے انضمام یا اسے صوبہ کا درجہ دینے کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے، بلوچستان ، تھر، گلگت بلتستان، کراچی ، پختونخوا اور پنجاب میں ترقی ، سیاسی استحکام اور جمہوری عمل کے ثمرات کا عوام انتظار کررہے ہیں ، کراچی میں امن وامان کو مستقل اور معاشی ترقی سے جوڑنے کے لیے بڑے سیاسی ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، دہشتگردی ایک چیلنج تھا جس سے نمٹنے میں پاک فوج نے بلا امتیاز کارروائی کی ،اب بھی ضرورت ہے کہ حکومت سماجی بریک تھرو کرے، اورنج ٹرین ، میٹرو بس اور موٹر ویز صوبوں کی ضرورت ہیں ، لیکن ان کے مابین خیر سگالی ناگزیر ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ فیتے کاٹنے سے پاناما سے بچ نہیں پائیں گے،ادھر وزیراعظم نے کہاکہ موٹروے کو لاہور سے کراچی تک لے جایا جا رہا ہے۔

گوادر کو کوئٹہ کے ذریعے خیبر پختونخوا سے ملا رہے ہیں۔ چترال میں 27ارب روپے سے لواری ٹنل بنا رہے ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ بنایا اب اس کو وسیع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ، اسلام آباد ایئرپورٹ بھی اس سال بن جائے گا۔ بلوچستان میں ترقی دیکھیں۔کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔ ہماری سوچ کچھ سالوں میں تیس ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنے کی ہے۔ 2013ء میں ہم نے سولہ سولہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ دیکھی ہے جو اب تین چار گھنٹوں پر آگئی ہے اور آیندہ سال یہ بھی ختم ہوجائیگی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ملک بھرمیں20 لاکھ سے زائد روزگار کے نئے مواقع پیداہوں گے ۔ وطن عزیز امیدوں کا گلستان سجائے ہوئے ہے۔اب یہ کام حکمرانوں کا ہے کہ وہ ملکی اقتصادی اور سیاسی استحکام کے باب میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا مکمل خاتمہ کریں۔
Load Next Story