اختیارات مگر ہیں کس کے پاس
سندھ کے بلدیاتی اداروں کے پاس ملک بھر میں سب سے کم اختیارات ہیں
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کئی ماہ سے حکومت سندھ سے اپنے کراچی کے میئرکے لیے اختیارات دینے کا مطالبہ کررہی ہے جب کہ وزیراعلیٰ کا ہر بار یہی جواب ہوتا ہے کہ میئرکے پاس قانون کے مطابق اختیارات ہیں، مگر لگتا ہے کہ وہ کام کرنا نہیں چاہتے۔ میئر اور متحدہ اختیارات دینے کی بات کرچکی ہے اور سندھ حکومت بھی متعدد بار واضح کرچکی ہے وہ اپنے ملے ہوئے اختیارات ہی میں کام کریں حکومت جہاں تک ممکن ہوگا، میئرکے ساتھ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کرے گی۔
اس سے قبل حکومت سندھ کے متعدد وزیر بھی کہہ چکے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے ضلع دور کو بھول جائیں اور بلدیاتی قوانین کے تحت کام کریں۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے میئر اورکے پی کے میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے میئر اور دیگر بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی اختیارات اور فنڈز نہ ملنے کی شکایتیں کر رہے ہیں جب کہ پنجاب میں (ن) لیگ کے زیادہ تر میئر اور چیئرمین ہیں اور اسلام آباد کے بلدیاتی سربراہ اپنے اختیارات سے مطمئن ہیں۔ اختیار نہ ہونے کی بات متحدہ قومی موومنٹ کے میئرز اور چیئرمین ہی کر رہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام بلدیاتی سربراہ خاموش ہیں اورجنرل پرویز کے دور میں پی پی سے تعلق رکھنے والی نوابشاہ کی ضلع ناظمہ فریال تالپور اورخیرپور کی ضلع ناظمہ نفیسہ شاہ جن کے دور میں ضلع خیرپور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے تھے اور ان دونوں کو پتہ ہے کہ فوجی دور کے مقابلے میں پی پی کے جمہوری دور میں ملنے والے بلدیاتی اختیارات کچھ بھی نہیں ہیں مگر وہ سیاسی مصلحت کے باعث خاموش ہیں اور اصولی بات نہیں کر رہیں۔ سندھ میں اگر بلدیاتی سربراہوں کو حقیقی اختیارت ملتے تو یہ دونوں خواتین اور دیگر ارکان اسمبلی ہونے کی بجائے ضلع چیئرمین ہوتے کیونکہ بااختیار ضلع نظام میں تو ارکان اسمبلی مستعفی ہوکر ناظم منتخب ہوئے تھے۔
سندھ کے بلدیاتی اداروں کے پاس ملک بھر میں سب سے کم اختیارات ہیں اور پی پی والوں کے لیے وہی بہت ہیں کیونکہ انھوں نے کام کرنا نہیں ہے جب کہ متحدہ کے ناظمین ضلع دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرکے دنیا کو دکھا چکے ہیں اور اب وہ ماضی کی طرح کام کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ بات بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ ضلع حکومتوں کے بعد سندھ حکومت نے جو بلدیاتی ایڈمنسٹریٹر مقررکیے تھے ان کے دور میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی۔ محکمہ بلدیات نے سات سالوں میں سندھ کے تمام بلدیاتی اداروں کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا خمیازہ اب منتخب بلدیاتی عہدیدار اورادارے بھگت رہے ہیں اور پولیس سے لے کر بلدیہ عظمیٰ تک مالی بحران کا شکار ہیں ہر جگہ فاضل بلدیاتی عملہ مقررکرکے بلدیاتی اداروں کو آج اس مقام پر پہنچادیا گیا کہ ملازمین کو تنخواہیں کئی کئی ماہ تک نہیں ملتیں۔ ترقیاتی کام محدود مگر اس لیے کرائے جاتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں مقررہ کمیشن کسی شورکے بغیر مل جاتا ہے اور تنخواہیں نہ ملنے کا شور کراچی سے زیادہ اندرون سندھ بلدیاتی ملازمین مچارہے ہیں، مگر حکومت سندھ کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔
سندھ بھر میں عملہ صفائی کی قلت ہے کیونکہ خاکروبوں اورمالیوں کی جگہ سیاسی کارکنوں کو بھرتی کرکے نوازا گیا اور ایسے بارہ ہزار ملازمین کی بھرتی کو سندھ حکومت قانونی قرار دے رہی ہے۔ خاکروبوں اور مالیوں کی جگہ جیالے رکھے گئے یا رشوت پرتقرریاں ہوئیں جو کام نہیں کرتے اور تنخواہیں مانگتے ہیں مگر فنڈ محدود ہے۔ ہر بلدیاتی ادارے میں بجٹ بناتے وقت ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈزکے نام سے رقم مختص کی جاتی ہیں۔ غیر ترقیاتی رقم تنخواہوں، مشینری، ڈیزل، پٹرول وغیرہ کے لیے ہوتی ہے، جس سے افسروں کو تنخواہیں ملتی ہیں کمیشن نہیں ملتا جب کہ ترقیاتی کاموں میں ہر افسر، اکاؤنٹس افسران اور بلدیاتی سربراہ کا کمیشن مقرر ہے جو انھیں بل ادائیگی کے وقت گھر بیٹھے آسانی سے کسی شکایت کے بغیر مل جاتا ہے جب کہ غیر ترقیاتی مختص رقم سے بھی تنخواہوں کے علاوہ ڈیزل، پٹرول، فرنیچر، گاڑیوں، بجلی کے سامان سمیت مختلف خریداروں میں بھی کمیشن مقرر ہوتا ہے اور من پسند پارٹیوں سے سامان مہنگے داموں ہی نہیں خریدا جاتا بلکہ کم تعداد میں خریداری کرکے زیادہ تعداد کا اضافی بل بنوائے جاتے ہیں اور اضافی رقم افسروں کی جیب میں جاتی ہے۔ ہر بلدیاتی ادارے میں ایک فنڈ مخصوص ہوتا ہے جس سے محکمہ بلدیات کے اعلیٰ افسروں اور بیورو کریٹس کے گھروں اور دفاتر کی بھی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور پٹرول کی پرچیاں الگ تقسیم ہوتی ہیں۔
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ ہر صوبے میں محکمہ بلدیات عوام کے منتخب نمایندوں اور بلدیاتی انتخابات کے خلاف ہے کیونکہ منتخب نمایندوں کی موجودگی میں کھل کر من مانیاں اور لوٹ کھسوٹ نہیں کرسکتا جو وہ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی موجودگی میں کرلیتا ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں، بلدیاتی افسروں اور انجینئروں کے تبادلوں اور تقرریوں کا جمعہ بازار سندھ میں لگا رہا اورلاکھوں روپے لے کر تقرریاں اور تبادلے کیے گئے اور بہتی گنگا میں محکمہ بلدیات کے وزیروں نے خوب ہاتھ دھوئے۔ بعض کو جلدی ہٹایا گیا مگر کسی ایک کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔
سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے جنھوں نے بااثر سیاسی سفارشوں اور لاکھوں روپے رشوت دے کر تقرریاں کرائی تھیں انھوں نے آٹھ سال تک بلدیاتی اداروں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو پکڑے گئے وہ مقدمات بھگت رہے ہیں جو بااثر تھے ان پر سندھ کا محکمہ اینٹی کرپشن ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرسکا۔ سندھ میں بے شمار بلدیاتی اداروں کے ریکارڈ قبضے میں لیا جانا اور متعدد بلدیاتی افسروں کی گرفتاریاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کسی دور میں بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ کا تعلق کراچی سے نہیں رہا اور نہ کراچی ان کا حلقہ انتخاب اور نہ یہ شہر پیپلز پارٹی کا کبھی گڑھ رہا اور نہ ہے مگر پی پی کی سابق چیئرمین بے نظیر بھٹو اور ان کی اولاد ضرورکراچی میں پیدا ہوئیں مگر پھر بھی پیپلز پارٹی کراچی کو اہمیت نہیں دے رہی ۔کراچی کے میئر کو سب سے بے اختیار کر رکھا ہے اور سارے اہم اختیار وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات کے پاس ہیں جو کراچی کی ترقی کے لیے میئرکراچی کو کام کے لیے کبھی بلدیاتی اختیارات نہیں دیں گے اور میئر کو اپنا محکوم رکھیں گے۔ سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کی بجائے خود کراچی میں تعمیری وترقیاتی کام کرا رہی ہے اور کراتی رہے گی کیونکہ اس طرح متحدہ کے میئر کی بجائے پی پی کی حکومت کوکریڈٹ ہی نہیں متعلقہ افراد کوکمیشن بھی ملے گا جو اصل تنازعہ ہے۔
متحدہ اور میئر کراچی کو اختیارات کے حصول کے لیے بیانات دینے کی بجائے عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑے گا جس نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور سپریم کورٹ ہی اختیارات دلاسکتی ہے۔
اس سے قبل حکومت سندھ کے متعدد وزیر بھی کہہ چکے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے ضلع دور کو بھول جائیں اور بلدیاتی قوانین کے تحت کام کریں۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے میئر اورکے پی کے میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے میئر اور دیگر بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی اختیارات اور فنڈز نہ ملنے کی شکایتیں کر رہے ہیں جب کہ پنجاب میں (ن) لیگ کے زیادہ تر میئر اور چیئرمین ہیں اور اسلام آباد کے بلدیاتی سربراہ اپنے اختیارات سے مطمئن ہیں۔ اختیار نہ ہونے کی بات متحدہ قومی موومنٹ کے میئرز اور چیئرمین ہی کر رہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام بلدیاتی سربراہ خاموش ہیں اورجنرل پرویز کے دور میں پی پی سے تعلق رکھنے والی نوابشاہ کی ضلع ناظمہ فریال تالپور اورخیرپور کی ضلع ناظمہ نفیسہ شاہ جن کے دور میں ضلع خیرپور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے تھے اور ان دونوں کو پتہ ہے کہ فوجی دور کے مقابلے میں پی پی کے جمہوری دور میں ملنے والے بلدیاتی اختیارات کچھ بھی نہیں ہیں مگر وہ سیاسی مصلحت کے باعث خاموش ہیں اور اصولی بات نہیں کر رہیں۔ سندھ میں اگر بلدیاتی سربراہوں کو حقیقی اختیارت ملتے تو یہ دونوں خواتین اور دیگر ارکان اسمبلی ہونے کی بجائے ضلع چیئرمین ہوتے کیونکہ بااختیار ضلع نظام میں تو ارکان اسمبلی مستعفی ہوکر ناظم منتخب ہوئے تھے۔
سندھ کے بلدیاتی اداروں کے پاس ملک بھر میں سب سے کم اختیارات ہیں اور پی پی والوں کے لیے وہی بہت ہیں کیونکہ انھوں نے کام کرنا نہیں ہے جب کہ متحدہ کے ناظمین ضلع دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرکے دنیا کو دکھا چکے ہیں اور اب وہ ماضی کی طرح کام کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
یہ بات بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ ضلع حکومتوں کے بعد سندھ حکومت نے جو بلدیاتی ایڈمنسٹریٹر مقررکیے تھے ان کے دور میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی۔ محکمہ بلدیات نے سات سالوں میں سندھ کے تمام بلدیاتی اداروں کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا خمیازہ اب منتخب بلدیاتی عہدیدار اورادارے بھگت رہے ہیں اور پولیس سے لے کر بلدیہ عظمیٰ تک مالی بحران کا شکار ہیں ہر جگہ فاضل بلدیاتی عملہ مقررکرکے بلدیاتی اداروں کو آج اس مقام پر پہنچادیا گیا کہ ملازمین کو تنخواہیں کئی کئی ماہ تک نہیں ملتیں۔ ترقیاتی کام محدود مگر اس لیے کرائے جاتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں مقررہ کمیشن کسی شورکے بغیر مل جاتا ہے اور تنخواہیں نہ ملنے کا شور کراچی سے زیادہ اندرون سندھ بلدیاتی ملازمین مچارہے ہیں، مگر حکومت سندھ کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔
سندھ بھر میں عملہ صفائی کی قلت ہے کیونکہ خاکروبوں اورمالیوں کی جگہ سیاسی کارکنوں کو بھرتی کرکے نوازا گیا اور ایسے بارہ ہزار ملازمین کی بھرتی کو سندھ حکومت قانونی قرار دے رہی ہے۔ خاکروبوں اور مالیوں کی جگہ جیالے رکھے گئے یا رشوت پرتقرریاں ہوئیں جو کام نہیں کرتے اور تنخواہیں مانگتے ہیں مگر فنڈ محدود ہے۔ ہر بلدیاتی ادارے میں بجٹ بناتے وقت ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈزکے نام سے رقم مختص کی جاتی ہیں۔ غیر ترقیاتی رقم تنخواہوں، مشینری، ڈیزل، پٹرول وغیرہ کے لیے ہوتی ہے، جس سے افسروں کو تنخواہیں ملتی ہیں کمیشن نہیں ملتا جب کہ ترقیاتی کاموں میں ہر افسر، اکاؤنٹس افسران اور بلدیاتی سربراہ کا کمیشن مقرر ہے جو انھیں بل ادائیگی کے وقت گھر بیٹھے آسانی سے کسی شکایت کے بغیر مل جاتا ہے جب کہ غیر ترقیاتی مختص رقم سے بھی تنخواہوں کے علاوہ ڈیزل، پٹرول، فرنیچر، گاڑیوں، بجلی کے سامان سمیت مختلف خریداروں میں بھی کمیشن مقرر ہوتا ہے اور من پسند پارٹیوں سے سامان مہنگے داموں ہی نہیں خریدا جاتا بلکہ کم تعداد میں خریداری کرکے زیادہ تعداد کا اضافی بل بنوائے جاتے ہیں اور اضافی رقم افسروں کی جیب میں جاتی ہے۔ ہر بلدیاتی ادارے میں ایک فنڈ مخصوص ہوتا ہے جس سے محکمہ بلدیات کے اعلیٰ افسروں اور بیورو کریٹس کے گھروں اور دفاتر کی بھی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور پٹرول کی پرچیاں الگ تقسیم ہوتی ہیں۔
یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ ہر صوبے میں محکمہ بلدیات عوام کے منتخب نمایندوں اور بلدیاتی انتخابات کے خلاف ہے کیونکہ منتخب نمایندوں کی موجودگی میں کھل کر من مانیاں اور لوٹ کھسوٹ نہیں کرسکتا جو وہ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کی موجودگی میں کرلیتا ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں، بلدیاتی افسروں اور انجینئروں کے تبادلوں اور تقرریوں کا جمعہ بازار سندھ میں لگا رہا اورلاکھوں روپے لے کر تقرریاں اور تبادلے کیے گئے اور بہتی گنگا میں محکمہ بلدیات کے وزیروں نے خوب ہاتھ دھوئے۔ بعض کو جلدی ہٹایا گیا مگر کسی ایک کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔
سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے جنھوں نے بااثر سیاسی سفارشوں اور لاکھوں روپے رشوت دے کر تقرریاں کرائی تھیں انھوں نے آٹھ سال تک بلدیاتی اداروں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو پکڑے گئے وہ مقدمات بھگت رہے ہیں جو بااثر تھے ان پر سندھ کا محکمہ اینٹی کرپشن ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرسکا۔ سندھ میں بے شمار بلدیاتی اداروں کے ریکارڈ قبضے میں لیا جانا اور متعدد بلدیاتی افسروں کی گرفتاریاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کسی دور میں بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ کا تعلق کراچی سے نہیں رہا اور نہ کراچی ان کا حلقہ انتخاب اور نہ یہ شہر پیپلز پارٹی کا کبھی گڑھ رہا اور نہ ہے مگر پی پی کی سابق چیئرمین بے نظیر بھٹو اور ان کی اولاد ضرورکراچی میں پیدا ہوئیں مگر پھر بھی پیپلز پارٹی کراچی کو اہمیت نہیں دے رہی ۔کراچی کے میئر کو سب سے بے اختیار کر رکھا ہے اور سارے اہم اختیار وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات کے پاس ہیں جو کراچی کی ترقی کے لیے میئرکراچی کو کام کے لیے کبھی بلدیاتی اختیارات نہیں دیں گے اور میئر کو اپنا محکوم رکھیں گے۔ سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کی بجائے خود کراچی میں تعمیری وترقیاتی کام کرا رہی ہے اور کراتی رہے گی کیونکہ اس طرح متحدہ کے میئر کی بجائے پی پی کی حکومت کوکریڈٹ ہی نہیں متعلقہ افراد کوکمیشن بھی ملے گا جو اصل تنازعہ ہے۔
متحدہ اور میئر کراچی کو اختیارات کے حصول کے لیے بیانات دینے کی بجائے عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑے گا جس نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اور سپریم کورٹ ہی اختیارات دلاسکتی ہے۔