ہم کہاں سے کہاں آگئے

عصری علوم کی درسگاہوں کے معیار کو بلند کرنے اور ضرورت وقت سے ہم آہنگ رکھنے کے بجائے بے حد پست کردیا گیا

najmalam.jafri@gmail.com

ترقی کے معنی و مفاہیم کیا ہیں؟ اس کا جواب ہر کسی کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک حلال روزی چھوڑ کر کالے دھندوں سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرکے کسی پسماندہ بستی سے پوش علاقے کی کوٹھی میں منتقل ہونا ہی ترقی ہے۔ کچھ بوڑھے والدین کو ''فالتو شے'' سمجھ کر اولڈ ہاؤسز یا ایدھی سینٹر کے حوالے کردینے کو ہی ترقی جانتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک اپنی تہذیب، اقدار، ثقافت اور زبان کے بجائے غیروں کی اقدار و ثقافت بطور خاص زبان اختیار کرنا بھی ترقی کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ آج کل بچے اسکول جانے سے قبل ہی والدین سے انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تو والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور فخریہ سب کو بتاتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اردو (کوئی بھی مادری زبان) نہیں آتی۔

یہ صورتحال تو معاشرے میں شخصی یا ذاتی سطح کی ہے۔ قومی اور حکومتی سطح پر بڑے بڑے منصوبوں پر اربوں خرچ کرکے کسی بھی منصوبے کو مقررہ مدت اور بجٹ میں مکمل نہ کرنے کے باوجود اسی کو ترقی کہا جا رہا ہے۔ جب کہ عوام کی کس مپرسی دور کرنے کے لیے اقدام دور دور نظر نہیں آتے۔ کسی بھی ملک کی ترقی تو دراصل یہ ہے کہ اس کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول آسان، بروقت اور حسب حال ہو۔ سب سے بڑھ کر انصاف کا بروقت ملنا، مگر شہریوں کو نقل و حمل کے لیے مناسب ذرایع ہی مہیا نہ ہوں، وہ ٹوٹی پھوٹی ویگنوں، کھڑکھڑ کرتی بسوں کی چھت پر اور کھڑکیوں دروازوں میں لٹک کر گویا جان پر کھیل کر منزل مقصود پر پہنچتے ہوں اور حکومت اورنج لائن، میٹرو اور موٹرویز جیسے منصوبوں پر (وہ بھی صرف مخصوص شہروں میں) قوم کو بے وقوف بناکر ترقی کا چہرہ دکھا رہی ہے۔

تعلیم و صحت اور تحفظ جان و مال جیسے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہ دی جا رہی ہو، اس صورتحال پر ردعمل کا اظہار کرنے والوں کو ''ترقی سے جلنے والے'' بھی قرار دیا جا رہا ہو تو سنجیدہ و محب وطن شہری سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر ہم کس طرز حکمرانی میں جی رہے ہیں۔ مختلف اہم ریاستی اداروں کی کارکردگی اور بعض اوقات ریاست کے اندر مزید ریاستوں کی موجودگی کا بھی گمان بلکہ یقین ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو بھی کیونکہ برادرم مقتدا منصور پیر 6 فروری کو اپنے اظہاریے بعنوان ''کبھی اتنا خوفزدہ نہیں ہوا'' میں واضح کرچکے ہیں اس لیے اس پر مزید اظہار خیال سے گریز کرتی ہوں۔

ہر قلمکار اس صورتحال کی عکاسی اپنی تحریروں میں اس طرح کر رہا ہے کہ تعصب، جہالت، انتہا پسندی (سیاسی و مذہبی) آج ہماری پہچان بن چکی ہے، یہ پہچان ایک دن میں نہیں بنی بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے برسوں پہلے سے آہستہ آہستہ افراد قوم کے ذہنوں کو مسموم کیا گیا۔ جتنے ممکنہ تعصبات تھے (علاقائی، لسانی، سیاسی، مذہبی، معاشی و معاشرتی) سب کو بروئے کار لایا گیا۔ تقسیم سے قبل کیونکہ معاملہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان تھا تو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ہندوؤں کے مقامات میں خود کو بطور مسلم پیش کرتے تھے (ہندوستان میں آج بھی ہندو مسلم جھگڑے ہوتے ہیں۔ فقہی اختلاف اتنے شدید نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ مگر غلامی کی لعنت سے آزادی کی نعمت کے حصول کے بعد ہم اب مسلمان کے بجائے مختلف فقہوں اور مکاتب فکر میں بٹ گئے۔


آج ہم پاکستانی نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، پختون و بلوچ ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ شاید ہندو تعصب اور انگریزی جانبداری سے طویل عرصے نبرد آزما رہتے ہوئے ہم کچھ اس کے عادی ہوچکے تھے۔ اب وہ دونوں تو مدمقابل نہیں، تو ہم نے اپنے جذبہ مخالفت کی تسکین کے لیے آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت پر کمر کس لی۔ اس سلسلے کو مختصر کرتے ہوئے آپ کو ایک بار پھر مقتدا منصور کے کالم 6 فروری کا حوالہ دوں گی کہ آزادی کے صرف ڈیڑھ سال بعد ہی دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد ہی مذہبیت کے آثار گہرے ہونا شروع ہوگئے تھے، مگر بھٹو صاحب کے اقدامات نے اس صورتحال کو مہمیز کیا، مذہب کو بطور سیاست فروغ ملا۔ اسی اظہاریے کے مطابق تقسیم کے وقت دینی مدارس کی تعداد تین سو سے بھی کم تھی جب کہ آج کل ان مدارس کی تعداد 30 ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے، جن کے کثیر تعداد طلبا کو تقریباً ساڑھے تین سو برس پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب عصری علوم کی درسگاہوں کے معیار کو بلند کرنے اور ضرورت وقت سے ہم آہنگ رکھنے کے بجائے بے حد پست کردیا گیا ہے۔ کاش سرکاری درسگاہوں کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال کر قوم کو سستی اور معیاری تعلیمی سہولیات مہیا کی جاتیں، ہر محلے ہر گلی میں تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے، خواندگی میں اضافے کو پہلی ترجیح دی جاتی تو آج ہم پستی کے بجائے ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتے۔ مگر اس صورتحال کی وجہ ہمارے ملک کے وہ عناصر ہیں جو اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو ان کے طبقے کے لیے سودمند ہو، ملک و قوم کا چاہے کتنا بھی نقصان ہوجائے۔

قلمکار تواتر سے اس طبقے کے مذموم مقاصد کی نشاندہی کرتے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جب زمام حکومت ہی ان ہاتھوں میں ہو، قانون ساز ادارے مکمل طور پر ان کی دسترس میں ہوں تو چاہے وہ ملکی آبادی کا دو فیصد ہوں، 98 فیصد عوام کے حقوق کو سلب کرنے، ان کی مرضی، ضروریات اور مفاد کے خلاف ملکی آئین کا استعمال ہوتا رہے گا بلکہ عوام دشمن قوانین بنتے بھی رہیں گے، جیساکہ جرگہ کو قانونی حیثیت دی جانے کی اطلاعات ہیں۔ بہرحال ترقی کے مثبت راستے تلاش کرنے کے بجائے ہم نے ہر طرح کی انتہا پسندی کو فروغ دیا حتیٰ کہ ان مذہبی مدارس میں اسلامی تعلیمات کے بجائے فقہی و مسلکی تعلیم کو ترجیح دی گئی، جس کے سبب فرقہ واریت میں اضافہ ہوا، کلمہ گو کو مسلمان ماننے کے بجائے تمام مکاتب فکر کو کلمہ طیبہ و شریعت محمدیؐ کی بنیاد پر برابر کا درجہ دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ جس کے نتیجے میں دہشتگردی فقہی اختلافات کے باعث قتل و غارت گری میں اضافہ ہوا۔

میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک اور کالم کا تذکرہ کروں گی تاکہ اپنے اظہاریے کی طوالت سے بچ سکوں وہ ہے 28 جنوری کا کالم ''جینے دو'' جاوید قاضی کا دل کو چھونے والا اور ہماری آیندہ منصوبہ سازی پر نظر ڈالنے کے لیے (اگر ہم واقعی اپنے حالات درست کرنے میں سنجیدہ ہیں تو) بہتر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہم جیسے حساس اور متوحش قلمکار تو ہر وقت ملکی صورتحال سے فکرمند رہتے ہیں، گاہے بگاہے اپنی اس فکر کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس اظہاریے کا سبب دراصل 6 فروری کو آرٹس کونسل میں منعقدہ ادبی تقریبات جو منفرد بلکہ بے حد منفرد لہجے کی گوشہ نشین شاعرہ عابدہ کرامت مرحومہ کے آٹھویں مجموعہ ''دور کی آواز'' کے سلسلے میں ہوئی، شاعرہ کے دور سے متعلق جامعہ کراچی کے ماحول، تعلیمی معیار اصول و ضوابط پر کاربند رہتے ہوئے شخصی و فکری آزادی طلبا کا شعور و آگاہی، حصول علم کی مثبت روش سے متعلق تقاریر سے متاثر ہونا ہے۔ اس دور کے تعلیمی ماحول کو سن کر ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کاش ہم بھی اسی زمانے میں جامعہ کراچی کی طالبہ ہوتے۔ جب کہ ہمارے زمانے میں بھی وہاں خاصی کشادگی تھی۔ اس تقریب کی تفصیل آیندہ کیونکہ موجودہ گھٹن کے ماحول میں اس کی کافی اہمیت ہے۔
Load Next Story