ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہونیوالی بیماریوں کی تفصیلات جاری
دنیا میں30فیصد اموات منتقل ہونیوالی بیماریوں سے ہوتی ہیں، روک تھام کیلیے اقدامات کرنا ہونگے، عالمی ادارہ صحت۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں منتقل ہونے والی بیماریوں کی تفصیلات جاری کردی گئی ہیں۔
ایک سے دوسرے کومنتقل ہونے والی بیماریوں کو طبی زبان میں (Communicable Disease) کہا جاتا ہے جس سے مراد وہ بیماریاں جو ایک انسان سے دوسرے کو لگ سکتی ہیں، ان بیماریوں میں انفلوائنزاH1N1، سوائن فلو ، ایچ آئی وی ؍ ایڈز ، خسرہ، کالی کھانسی، موسمی فلو،جنسی طور پر منتقل شدہ بیماریاں، روبیلا (جرمن خسرہ)، ہیپاٹائس بی، سی، خارش،تپ دق ، چکن پاکس (چیچک) شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں30فیصد اموات منتقل ہونے والی بیماریوں سے ہوتی ہیں اگر ان کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں تو مستقبل میںان بیماریوں سے ہونے والی اموات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، واضح رہے کہ منتقل ہونے والی بیماریاں ایسے علاقوں میں تیزی سے پھیلتی ہیں جہاں گنجان آبادی ، آلودگی ، صحت و صفائی کا ناقص انتظام وغیرہ ہو، نیشنل پروگرام آف ایمونائزیشن نے منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں ایکسپریس کو بتایاخناق ، انفلوائنزا انفیکشن گروپ بی، خسرہ ، ممس،کالی کھانسی، روبیلا، ڈنگی بخار، چکن چیچک،H1N1 سوائن فلو شامل ہیں جبکہ خون اورجنسی رطوبت سے منتقل ہونے والی مختلف بیماریاں آلودہ سوئیوں، استعمال شدہ سرنجوں کے ذریعے خون میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔
ان میں ایچ آئی وی ؍ ایڈز، ہیپاٹائٹس ، ٹی بی وغیرہ شامل ہیں، ان بیماریوں سے انسان کی آنکھیں، دماغ اور مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے، سانس کی بیماری ،پھیپھڑوں، اندرونی نظام کو متاثرکرکے ٹی بی، نمونیا،کھانسی جیسی بیماریوں میں مبتلاکردیتی ہے، جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں میںکلیمائیڈیا انفیکشن، گونوکوکل انفیکشن، ایچ آئی وی انفیکشن جبکہ وائرل ہیپاٹائٹس بھی ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچوںکو خسرہ کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے، خسرہ سے جسم پر چھوٹے چھوٹے سرخ دانے نکل آتے ہیں اور مریض کو بخار بھی ہو جاتا ہے جو کہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
اگربچہ ہلاکت سے بچ بھی جائے تو اس بیماری کی وجہ سے وہ معذور بھی ہو سکتا ہے یا بعض اوقات نابینا،دماغ کا سوجھ جانا اورکانوں کے امراض میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے،ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز 450بچے خسرے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 3 کروڑ 40 لاکھ ہے، ہیپاٹائٹس یعنی یرقان کی پانچ اقسام ہیں جن میں ہیپاٹائٹس A، B، C، D اور E شامل ہیں ، ہیپاٹائٹس Aاور Eآلودہ غذا اور گندے پانی کے استعمال سے پھیلتا ہے جبکہ ہیپاٹائٹس B، C، D جسم میں خون کے انتقال کے ذریعے پھیلتا ہے یا جنسی روابط اور آلودہ آلات یعنی استعمال شدہ بلیڈ، سرینچ اور سرجری آلات کے ذریعے ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈنگی وائرس پھیلانے والے مچھر کی 38 اقسام ہیں اور پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم پائی جاتی ہے۔دنیا کی 40فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے اور دنیا بھر میں سالانہ پانچ کروڑ کیسز اس بیماری کے سامنے آتے ہیں جبکہ پوری دنیا میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتیں سالانہ 15ہزار سے زائد ہیں، پاکستان میں ڈیگی وائرس کا پہلا کیس1995 میں ریکارڈ کیا گیا، ملیریا ایک ایسی انفیکشن ہے جوکہ اْڑنے والے کیڑوں کی وجہ سے پھیلتا ہے، یہ انفیکشن مچھروں کے ذریعے ایک سے دوسرے تک پہنچتی ہے، یہ انفیکشن بعد میں سردی، بخار اور زکام کے جیسی علامات کا سبب بنتی ہے۔
اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا ہو سکتا ہے،دنیا بھر میں ٹی بی(تپ دق )سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے،وفاقی وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال تپ دق کے چار لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، ٹی بی کے باعث ہر سال ایک لاکھ کی آبادی میں 24 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں،سوائن فلو یعنی H1N1کے پھیلائو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری اسی طرح پھیلتی ہے جیسے موسمی زکام، نزلہ وغیرہ پھیلتے ہیں، سوائن فلو کی علامات بخار، کھانسی، گلے میں خراش، اعصاب میں درد، آنکھوں میں انفیکشن، نمونیہ، سانس لینے میں شدید تکلیف شامل ہیں۔
ایک سے دوسرے کومنتقل ہونے والی بیماریوں کو طبی زبان میں (Communicable Disease) کہا جاتا ہے جس سے مراد وہ بیماریاں جو ایک انسان سے دوسرے کو لگ سکتی ہیں، ان بیماریوں میں انفلوائنزاH1N1، سوائن فلو ، ایچ آئی وی ؍ ایڈز ، خسرہ، کالی کھانسی، موسمی فلو،جنسی طور پر منتقل شدہ بیماریاں، روبیلا (جرمن خسرہ)، ہیپاٹائس بی، سی، خارش،تپ دق ، چکن پاکس (چیچک) شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں30فیصد اموات منتقل ہونے والی بیماریوں سے ہوتی ہیں اگر ان کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں تو مستقبل میںان بیماریوں سے ہونے والی اموات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، واضح رہے کہ منتقل ہونے والی بیماریاں ایسے علاقوں میں تیزی سے پھیلتی ہیں جہاں گنجان آبادی ، آلودگی ، صحت و صفائی کا ناقص انتظام وغیرہ ہو، نیشنل پروگرام آف ایمونائزیشن نے منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں ایکسپریس کو بتایاخناق ، انفلوائنزا انفیکشن گروپ بی، خسرہ ، ممس،کالی کھانسی، روبیلا، ڈنگی بخار، چکن چیچک،H1N1 سوائن فلو شامل ہیں جبکہ خون اورجنسی رطوبت سے منتقل ہونے والی مختلف بیماریاں آلودہ سوئیوں، استعمال شدہ سرنجوں کے ذریعے خون میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔
ان میں ایچ آئی وی ؍ ایڈز، ہیپاٹائٹس ، ٹی بی وغیرہ شامل ہیں، ان بیماریوں سے انسان کی آنکھیں، دماغ اور مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے، سانس کی بیماری ،پھیپھڑوں، اندرونی نظام کو متاثرکرکے ٹی بی، نمونیا،کھانسی جیسی بیماریوں میں مبتلاکردیتی ہے، جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں میںکلیمائیڈیا انفیکشن، گونوکوکل انفیکشن، ایچ آئی وی انفیکشن جبکہ وائرل ہیپاٹائٹس بھی ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچوںکو خسرہ کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے، خسرہ سے جسم پر چھوٹے چھوٹے سرخ دانے نکل آتے ہیں اور مریض کو بخار بھی ہو جاتا ہے جو کہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
اگربچہ ہلاکت سے بچ بھی جائے تو اس بیماری کی وجہ سے وہ معذور بھی ہو سکتا ہے یا بعض اوقات نابینا،دماغ کا سوجھ جانا اورکانوں کے امراض میں بھی مبتلا ہوسکتا ہے،ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز 450بچے خسرے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 3 کروڑ 40 لاکھ ہے، ہیپاٹائٹس یعنی یرقان کی پانچ اقسام ہیں جن میں ہیپاٹائٹس A، B، C، D اور E شامل ہیں ، ہیپاٹائٹس Aاور Eآلودہ غذا اور گندے پانی کے استعمال سے پھیلتا ہے جبکہ ہیپاٹائٹس B، C، D جسم میں خون کے انتقال کے ذریعے پھیلتا ہے یا جنسی روابط اور آلودہ آلات یعنی استعمال شدہ بلیڈ، سرینچ اور سرجری آلات کے ذریعے ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈنگی وائرس پھیلانے والے مچھر کی 38 اقسام ہیں اور پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم پائی جاتی ہے۔دنیا کی 40فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے اور دنیا بھر میں سالانہ پانچ کروڑ کیسز اس بیماری کے سامنے آتے ہیں جبکہ پوری دنیا میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتیں سالانہ 15ہزار سے زائد ہیں، پاکستان میں ڈیگی وائرس کا پہلا کیس1995 میں ریکارڈ کیا گیا، ملیریا ایک ایسی انفیکشن ہے جوکہ اْڑنے والے کیڑوں کی وجہ سے پھیلتا ہے، یہ انفیکشن مچھروں کے ذریعے ایک سے دوسرے تک پہنچتی ہے، یہ انفیکشن بعد میں سردی، بخار اور زکام کے جیسی علامات کا سبب بنتی ہے۔
اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا ہو سکتا ہے،دنیا بھر میں ٹی بی(تپ دق )سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے،وفاقی وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال تپ دق کے چار لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، ٹی بی کے باعث ہر سال ایک لاکھ کی آبادی میں 24 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں،سوائن فلو یعنی H1N1کے پھیلائو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری اسی طرح پھیلتی ہے جیسے موسمی زکام، نزلہ وغیرہ پھیلتے ہیں، سوائن فلو کی علامات بخار، کھانسی، گلے میں خراش، اعصاب میں درد، آنکھوں میں انفیکشن، نمونیہ، سانس لینے میں شدید تکلیف شامل ہیں۔