ملکہ عالم کا شہر خوباں
زندگی کا بیشتر حصہ اگرچہ لاہور میں گزرا لیکن اس شہر نے شاید مجھے دل سے قبول نہیں کیا
یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ رات کہیں اور دن کہیں اور پھر بھی پتہ نہیں کہ آنے والی رات کہاں ہو گی اور وہ بھی نہ جانے کہاں اور کس طرح بسر ہو گی۔ یہ سب میری جہاں گردی یا پاکستان گردی کی وجہ سے ہے۔
زندگی کا بیشتر حصہ اگرچہ لاہور میں گزرا لیکن اس شہر نے شاید مجھے دل سے قبول نہیں کیا کہ مجھے چند مرلے کا گھر بھی نہیں دیا اور اگر کسی طرح اس شہر میں چھوٹا سا گھر مل بھی گیا تو اس میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ گھر بسانا اور آباد گھروں میں رہنا ایک مشکل ترین کام ہے۔
لاہور میں آبادی کی اکثریت نہ سہی لیکن اس ایک بڑی تعداد اس شہر کے آباد کاروں کی ہے جو اس خطے کے کسی حصے سے کسی طرح لاہور پہنچے اور پھر یہیں ٹک گئے۔ ان میں کچھ تو ہمارے جیسے لاہور کے پرستار تھے جو اس شہر میں کسی طرح پہنچ گئے اور پھر یہاں ہی بسیرا کر لیا۔ ان میں اللہ کے بندوں میں سے اولیاء کرام بھی تھے اور فاتح بادشاہ بھی۔ ہمیں لاہور کے ان آباد کاروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو بڑے لوگ اور نامور شخصیات اس شہر میں مقیم ہوئیں وہ پھر 'لاہوری' ہی ہو گئیں۔ ان میں اللہ کے بندوں کے ہر طبقے میں سے کون تھا جو نہیں تھا۔ اولیاء اللہ بھی تھے اور بادشاہ بھی۔
معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے زمانے میں لاہور شہر کچھ ایسا دلکش تھا کہ جس نے یہاں ڈیرا لگایا اور بستر بچھایا وہ پھر یہاں سے اٹھ کر نہیں گیا۔ ان میں فیض عالم مظہر نور خدا حضرت داتا گنج بخشؒ بھی تھے جو اس شہر میں تشریف لائے تو یہ شہر ایک کافر شہر تھا ان لوگوں نے ایک کفرستان میں قیام پسند کیا اور پھر اس کفرستان کو بدل کر اسے ایک نیا خدا پرست لاہور بنا دیا۔ عقیدتوں کا مرکز لاہور۔ حضرت داتا گنج بخشؒ یہاں پہنچے تو اس شہر میں انھیں نہ جانے کیا نظر آیا کہ یہیں قیام کر لیا اور اس شہر کو اپنی تجلیات کا مرکز بنا دیا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا اس شہر کا تعارف ٹھہرا اور ان کا دربار اس شہر کا فیض کا منبع قرار پایا۔ یہ اعزاز برسہا برس سے اب تک قائم ہے اور نہ جانے کب تک یہ شہر اس کا مرکز رہے گا۔ کسی مورخ نے لکھا کہ اس شہر میں بادشاہوں کے مقبرے بھی ہیں اور شاہی یادگاریں بھی لیکن عوام ان کو دیکھنے کے لیے خاص انتظام کر کے جاتے ہیں بلکہ اب تو ان کو دیکھنے کے لیے چند ٹکوں کے ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔
یہ ہے ماضی کے بادشاہوں کا حال لیکن اسی شہر میں کچھ بادشاہ ایسے بھی قیام پذیر ہوتے جن کے مزاروں تک کی رسائی ایک سعادت اور خوش قسمت سمجھی جاتی ہے لوگ یہاں سر جھکا کر عقیدت پیش کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ وہ قبول ہو گی پھر یہی وہ دربار ہیں جہاں دن رات بھوکی مخلوق کو کھانا ملتا ہے کہ یہ بلاشبہ بادشاہوں کے مزار ہیں جہاں خلق خدا کو سب کچھ ملتا ہے مرادیں بھی ملتی ہے اور دو وقت کی روٹی بھی۔ پھر اس شہر میں بادشاہوں کی یادگاریں بھی ہیں قلعوں اور محلوں کی صورت میں جن کو بنانے اور بسانے والے اب کہاں ہیں ان کا ذکر کسی تاریخ میں تو مل جاتا ہے کسی دل میں نہیں۔
اس شہر کو جن چند لوگوں نے دل میں بسایا ان میں کچھ بادشاہ اور ان کی ملکائیں بھی تھیں۔ تاریخ میں لاہور کے جن پرستاروں کا ذکر ملتا ہے ان میں جو بادشاہ تھے ان کے وزیروں اور کاتبوں نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس شہر کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان تذکروں میں ایک جگہ ملکہ عالم نور جہاں اور لاہور کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ایرانی ملکہ نور جہاں نے اس شہر کے ساتھ اپنی عاشقی کا ذکر ایک شعر میں کیا ہے جس کا میں پہلے بھی کسی کالم میں ذکر کر چکا ہوں شاید آپ نے نہ پڑھا ہو وہ شہر پھر نقل کر رہا ہوں۔ ہندوستان کی ملکہ عالم نے کسی لمحے لاہور میں قیام کے دوران اس شہر کو پیار کیا
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
کہ میں نے اس شہر لاہور کو جان تک کی قیمت ادا کر کے خریدا ہے
یوں جان دی ہے اور اس عوض ایک جنت خریدی ہے
ملکہ عالم جس کے سامنے کیا نہیں تھا پورا ہندوستان اس کی قلمرو میں تھا لیکن خطے کا ایک شہر اسے اس قدر پسند تھا کہ اس نے کہا کہ جان دے کر ایک جنت خریدی ہے۔ یہی شہر لاہور اپنے دروازوں اور منقش دیواروں کے ساتھ آج بھی سلامت ہے بلکہ اس کے حسن میں کچھ اضافہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن آج اس کے کسی محل میں کوئی ملکہ آباد نہیں ہے جو اپنے محل کے کسی دریچے سے راوی کے کناروں پر آباد شہر کو دیکھ کر اسے اپنے کسی شعر میں یاد کر سکے۔
آج کا لاہور ایک بھاگتی ہوئی پرشور ٹریفک کے نرغے میں ہے اور شور و غل اس کی پہچان ہے۔ کسی ملکہ عالم کے دربار میں اس شہر کا کون ذکر کے شرمندہ ہونا چاہے گا ایسے شہر کو تاریخ کے حوالے کر دیا جائے اور رحمدل یا بے رحم مورخ اس کا حال قلمبند کر کے جس حال میں اسے دیکھا ہے اسے تاریخ کے حوالے کر دیں۔ اب یہ تاریخ کی مرضی ہے کہ وہ داتا کے اس شہر اور ملکہ عالم نور جہاں کی اس جنت سے کیا سلوک کرتی ہے اور اس کے ساتھ کس عقیدت یا پسند کا اظہار کرتی ہے۔ لاہور تاریخ کا ایک زندہ شہر ہے اور اس کے بارے میں مورخوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ شہر اپنی کس مدح و ثناء کا محتاج نہیں۔ برصغیر کی تاریخ نے اس شہر کو اپنا رکھا ہے۔ ہم آپ کون ہیں۔
زندگی کا بیشتر حصہ اگرچہ لاہور میں گزرا لیکن اس شہر نے شاید مجھے دل سے قبول نہیں کیا کہ مجھے چند مرلے کا گھر بھی نہیں دیا اور اگر کسی طرح اس شہر میں چھوٹا سا گھر مل بھی گیا تو اس میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ گھر بسانا اور آباد گھروں میں رہنا ایک مشکل ترین کام ہے۔
لاہور میں آبادی کی اکثریت نہ سہی لیکن اس ایک بڑی تعداد اس شہر کے آباد کاروں کی ہے جو اس خطے کے کسی حصے سے کسی طرح لاہور پہنچے اور پھر یہیں ٹک گئے۔ ان میں کچھ تو ہمارے جیسے لاہور کے پرستار تھے جو اس شہر میں کسی طرح پہنچ گئے اور پھر یہاں ہی بسیرا کر لیا۔ ان میں اللہ کے بندوں میں سے اولیاء کرام بھی تھے اور فاتح بادشاہ بھی۔ ہمیں لاہور کے ان آباد کاروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو بڑے لوگ اور نامور شخصیات اس شہر میں مقیم ہوئیں وہ پھر 'لاہوری' ہی ہو گئیں۔ ان میں اللہ کے بندوں کے ہر طبقے میں سے کون تھا جو نہیں تھا۔ اولیاء اللہ بھی تھے اور بادشاہ بھی۔
معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے زمانے میں لاہور شہر کچھ ایسا دلکش تھا کہ جس نے یہاں ڈیرا لگایا اور بستر بچھایا وہ پھر یہاں سے اٹھ کر نہیں گیا۔ ان میں فیض عالم مظہر نور خدا حضرت داتا گنج بخشؒ بھی تھے جو اس شہر میں تشریف لائے تو یہ شہر ایک کافر شہر تھا ان لوگوں نے ایک کفرستان میں قیام پسند کیا اور پھر اس کفرستان کو بدل کر اسے ایک نیا خدا پرست لاہور بنا دیا۔ عقیدتوں کا مرکز لاہور۔ حضرت داتا گنج بخشؒ یہاں پہنچے تو اس شہر میں انھیں نہ جانے کیا نظر آیا کہ یہیں قیام کر لیا اور اس شہر کو اپنی تجلیات کا مرکز بنا دیا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا اس شہر کا تعارف ٹھہرا اور ان کا دربار اس شہر کا فیض کا منبع قرار پایا۔ یہ اعزاز برسہا برس سے اب تک قائم ہے اور نہ جانے کب تک یہ شہر اس کا مرکز رہے گا۔ کسی مورخ نے لکھا کہ اس شہر میں بادشاہوں کے مقبرے بھی ہیں اور شاہی یادگاریں بھی لیکن عوام ان کو دیکھنے کے لیے خاص انتظام کر کے جاتے ہیں بلکہ اب تو ان کو دیکھنے کے لیے چند ٹکوں کے ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔
یہ ہے ماضی کے بادشاہوں کا حال لیکن اسی شہر میں کچھ بادشاہ ایسے بھی قیام پذیر ہوتے جن کے مزاروں تک کی رسائی ایک سعادت اور خوش قسمت سمجھی جاتی ہے لوگ یہاں سر جھکا کر عقیدت پیش کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ وہ قبول ہو گی پھر یہی وہ دربار ہیں جہاں دن رات بھوکی مخلوق کو کھانا ملتا ہے کہ یہ بلاشبہ بادشاہوں کے مزار ہیں جہاں خلق خدا کو سب کچھ ملتا ہے مرادیں بھی ملتی ہے اور دو وقت کی روٹی بھی۔ پھر اس شہر میں بادشاہوں کی یادگاریں بھی ہیں قلعوں اور محلوں کی صورت میں جن کو بنانے اور بسانے والے اب کہاں ہیں ان کا ذکر کسی تاریخ میں تو مل جاتا ہے کسی دل میں نہیں۔
اس شہر کو جن چند لوگوں نے دل میں بسایا ان میں کچھ بادشاہ اور ان کی ملکائیں بھی تھیں۔ تاریخ میں لاہور کے جن پرستاروں کا ذکر ملتا ہے ان میں جو بادشاہ تھے ان کے وزیروں اور کاتبوں نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس شہر کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان تذکروں میں ایک جگہ ملکہ عالم نور جہاں اور لاہور کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ایرانی ملکہ نور جہاں نے اس شہر کے ساتھ اپنی عاشقی کا ذکر ایک شعر میں کیا ہے جس کا میں پہلے بھی کسی کالم میں ذکر کر چکا ہوں شاید آپ نے نہ پڑھا ہو وہ شہر پھر نقل کر رہا ہوں۔ ہندوستان کی ملکہ عالم نے کسی لمحے لاہور میں قیام کے دوران اس شہر کو پیار کیا
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
کہ میں نے اس شہر لاہور کو جان تک کی قیمت ادا کر کے خریدا ہے
یوں جان دی ہے اور اس عوض ایک جنت خریدی ہے
ملکہ عالم جس کے سامنے کیا نہیں تھا پورا ہندوستان اس کی قلمرو میں تھا لیکن خطے کا ایک شہر اسے اس قدر پسند تھا کہ اس نے کہا کہ جان دے کر ایک جنت خریدی ہے۔ یہی شہر لاہور اپنے دروازوں اور منقش دیواروں کے ساتھ آج بھی سلامت ہے بلکہ اس کے حسن میں کچھ اضافہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن آج اس کے کسی محل میں کوئی ملکہ آباد نہیں ہے جو اپنے محل کے کسی دریچے سے راوی کے کناروں پر آباد شہر کو دیکھ کر اسے اپنے کسی شعر میں یاد کر سکے۔
آج کا لاہور ایک بھاگتی ہوئی پرشور ٹریفک کے نرغے میں ہے اور شور و غل اس کی پہچان ہے۔ کسی ملکہ عالم کے دربار میں اس شہر کا کون ذکر کے شرمندہ ہونا چاہے گا ایسے شہر کو تاریخ کے حوالے کر دیا جائے اور رحمدل یا بے رحم مورخ اس کا حال قلمبند کر کے جس حال میں اسے دیکھا ہے اسے تاریخ کے حوالے کر دیں۔ اب یہ تاریخ کی مرضی ہے کہ وہ داتا کے اس شہر اور ملکہ عالم نور جہاں کی اس جنت سے کیا سلوک کرتی ہے اور اس کے ساتھ کس عقیدت یا پسند کا اظہار کرتی ہے۔ لاہور تاریخ کا ایک زندہ شہر ہے اور اس کے بارے میں مورخوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ شہر اپنی کس مدح و ثناء کا محتاج نہیں۔ برصغیر کی تاریخ نے اس شہر کو اپنا رکھا ہے۔ ہم آپ کون ہیں۔