بانوقدسیہ کا فلسفہ حیات

داستان سرائے کے اصل مکین دنیا سے اٹھ گئے

داستان سرائے کے اصل مکین دنیا سے اٹھ گئے۔ چاندی جیسے بالوں والی، مجسم ذہانت ایک بڑی ادیبہ بانوآپا اس دنیا سے رخصت ہوگئیں،اگرکو ئی یہ کہے کہ موجودہ زمانے میں درویش صفت عورت کیسی ہوسکتی ہے تو یقینا بانو قدسیہ کا سراپا نظروں میں گھوم جاتا ہے، جنھیں خدا نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا، زرخیزذہن عطاکیا، معاشرے کوسمجھنے پرکھنے کی صلاحیت دی، انسانی صلاحیتوں کو بدرجہ اتم جان لیتی تھیں۔ ان کی تحریروں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام انسانی خوبیوں وکمزوریوں کو بیان کرنے کا سلیقہ رکھتی تھیں۔

ایک صوفیانہ ذہانت کے ساتھ جن معاملوں پرقاری خوش فہمی میںمبتلا رہتا ہے کہ ہم بڑے پارسااورمعصوم ہیں،ان پہلوؤں سے بھی جھو ٹ اورمنافقت کا پردہ چا ک کرکے رکھ دیتی تھیں کہ پڑھنے والااپنی تصویردیکھ کرآپ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ ایسی مہارت فن ہرایک کے نصیب میں کہاں! قدرت نے انھیں یہ مہارت ان کی محنت ،مطالعہ ومشاہدہ، سادگی وقناعت،انسان دوستی اورعاجزی کی بدولت عطا کی بلاشبہ وہ اس کی حق دار بھی تھیں اگرکبھی بیٹھ کر ان کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو ظاہری نام ونمود سے یکسر پرے سادہ سی نفیس خاتون نظرآتی ہیں ۔

بانو آپا کی اوائل زندگی پر نظرڈالی جائے توپدری شفقت سے محروم بیٹی تھیں، پڑھی لکھی ماں اور ناناکے سایہ محبت میں تربیت ہوئی ایک ایسے دورمیں جب لڑکیوںکا باہرنکلنا بھی معیوب سمجھا جاتا، صرف دینی تعلیم ہی لڑکیوں اثاثہ کل سمجھا جاتا تھا۔ بانوآپا نے اس زمانے میں کانونٹ سے یونیورسٹی تک زیور تعلیم سے آراستہ ہوئیں۔ اشفاق احمد جیسے پڑھے لکھے خوبرونوجوان کی محبت و توجہ میسرہوئی۔ اشفاق احمد کے باہرجانے کے بعد ان کا انتظار کیا دونوں نے اپنا وعدہ ایفاء کیا، شادی کی، جس کے لیے اشفاق احمد کوخاندان کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اس کے باوجود اک نئی زندگی کا آغازکیا، اسی مزاحمت کے پیش نظربانوآپا نے آیندہ کی زندگی میں کٹھن مراحل برداشت کیے سخت محنت کی، شوہرکا ہر منزل ہرمرحلے میں ساتھ دیا، ایک دوسرے کی بھرپورہمت بندھاتے رہے تمام گھریلو فرائض انجام دیے، بچوں کی بہترین تربیت کی یہاں ٹہرکر، اگر تھوڑی دیرکو سوچا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم تھے ،ایک دوسرے کا لباس تھے اورہر معاملے میں پردہ بھی۔ اشفا ق احمد نے بانو آپا کو لکھنے کے تسلسل کو جاری رکھنے میں بہت مدد کی۔

بانو آپا نے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو ٹھیک سے لکھ بھی نہ پاتی تھیں۔ان کے اندرچھپے ہوئے ایک بڑے لکھاری کی بازیافت کا سہرا اشفاق احمد ہی کوجاتا ہے یونیورسٹی کی زندگی سے سفرکا آغاز کرنے والے اس جوڑے نے آگے چل کرصوفی ازم ، توکل وتشکرکی چادر اوڑھ لی۔

یہ دونوں کی جینزمیں شامل تھا پھر وہ بانو قدسیہ سے سب کی بانوآپا بن گئیں۔ان کی تحریروں میں بھی صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے وہ ظاہری نام ونمود سے یکسر پر ے تھیں۔ان کے افسانوں، ناولزاور ڈراموں میں رشتوں کی نزاکت،حقیقت پسندی اورمعاشرتی مسا ئل کی بالکل صحیح ترجمانی ملتی ہے۔''راجہ گدھ'' بانو آپا کی وہ کلاسیکل تحریر ہے جو اردوادب میں ایک شہ پارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے جب بھی پڑھیں ہر بارآپ ایک نئے احساس نئے معنی سے آشنا ہوتے ہیں۔


بانو آپا نے یہ ناول حلال وحرام کے فلسفے کو لے کرلکھا، یہ پوری داستان انسان وجانورکے خوبصورت مکالمے کے ساتھ بہت کچھ سوچنے پرمجبورکرتی ہے۔ بقول بانو آپا کہ انسان کا گناہ اس کے ساتھ سفرکرتا ہے اگر وہ اپنی زندگی میں اس کی سزانہ پا سکے تواس کی نسلوں کو وہ گناہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بقول بانوآپا کے اس فلسفے کومغرب میں ابھی تک نہیں سمجھا گیا ہے لیکن آیندہ چند دھائیوں میں ان کی سمجھ میں یہ حقیقت ضرورآجائے گی۔

اپنی تحریروں میں قاری کواخلاقی سبق دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ جس کواپنا آپ یاد دلانا چاہتا ہے،اسے دکھ کا الیکٹرک شاک دے کراپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے، دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسان دوسروں کے لیے نرم پڑجاتا ہے پھراس سے نیک عمال خود بخود سرزد ہونے لگتے ہیں ۔دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے، اس پرصابرو شاکر ہی چڑھ سکتے ہیں۔

اس دنیا میں سکون سے جینے کی ایک تدبیر ہے کہ ہر انسان کے پاس ایک وسیع وعریض قبرستان ہو جس میں وہ لوگوں کی غلطیوں اور خا میوں کو دفنا آیا کرے'' ایک اورجگہ کہتی ہیں''میں سمجھ گیا ہوںہرآدمی کے لیے گرم سرد کٹھنائیوں سے گزرنا ضروری ہے۔ میں تم کوصرف راحت کا سبق دینا چاہتا تھا لیکن غم بھی تو انسان کا استاد مکرم ہے۔

ہماری روح دکھ کے بغیر بالیدہ نہیں ہوسکتی، اوپر نہیں اٹھ سکتی، تم تو ماڈرن آدمی ہوجانتے ہو، جبتک راکٹ کے نیچے دھکتی آگ نہیں جلتی اس وقت تک اس کا خلائی سفرشروع نہیں ہوتا، گھبراؤ نہیں واپس لوٹ جاؤ، نروان حاصل کرنے کے لیے کپل واستو چھوڑنا ،پڑتا ہے، شاکیا منی'' ہجرت بنیادی اصول ہے آگاہی حاصل کرنے کے لیے وہاں تمھیں اپنا راستہ مل جائے گا، جبتک تم مجھ سے فارغ نہ ہوئے قدآوردرخت نہیں بن سکوگے کامیابی کے لیے فراق ضروری ہے۔''

بانوآپا کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد تیرہ ہے جن میں چند قابل ذکرکتابیں راجہ گدھ ، مرد ابر ریشم ،کچھ اورنہیں، ایک دن، سامان وجودآتش، زیرپا، فٹ پاتھ کی گھاس، پروا اور حاصل گھاٹ شامل ہیں۔ ان کتابوں میں جابجا علم ودانائی کے موتی پروئے ہوئے ہیں۔بانوآپا، اشفاق احمد جیسی تخلیقی صلاحیتوں کی مالک تھیں، لیکن اپنی عاجزی وانکساری کے ساتھ سیکڑوں پردوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی تھیں نہ اشفاق صاحب کے جانے کے بعد انھوں نے کبھی ایسی کوئی خواہش رکھی۔

مستنصرحسین تارڑ لکھتے ہیں کہ اشفاق احمد کے گزرجا نے کے بعد بانوآپا کو میں نے گھر سے قریبی پارک میں علیٰ الصبح ایک بے چین روح کی ماننددرخت کے سوکھے پتوں کی چرچرانے کی آوازکے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے پایا وہ ان دنوں اکثر پارک میں نظرآتی تھیں، بعدکے دنوں میں ہمیں وہ اکثر اپنی وہیل چیئر پر بیٹھی اشفاق صاحب کی قبرکے پاس دکھائی دیتی رہیں، اپنے سا تھی، ہمدم، دوست،استاد اور نگہباں سے بچھڑکرانھوں نے کئی ماہ وسال گزارے ۔داستان سرائے کے اصل مکین اب ایک ساتھ ہوں گے، ہماری اس دنیا سے دور لیکن بہت ساری کتابوں میںاپنے افکارکے دیے چھوڑکر وہ یقینا وہاں آسودہ ہوں گے۔ ان کے جانے بعد اردو ادب کے ایک عہدکا اختتام ہوا۔
Load Next Story