سرخ جوڑے سے لے کر سرخ چہرے تک
فروری کا مہینہ آتے ہی نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بڑوں کے چہروں پر بھی رونقیں بڑھ جاتی ہیں
فروری کا مہینہ آتے ہی نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بڑوں کے چہروں پر بھی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ وہ اس لیے کہ 14 فروری کو ہم یورپ اور امریکا سے زیادہ گرمجوشی سے ویلنٹائن ڈے منانے کی کوشش کرتے ہیں اور پتا نہیں کتنے کامیاب ہوجاتے ہیں اورکتنے شرمسار۔
مزے کی بات یہ ہے کہ نہ یہ کوئی تہوار ہے نہ کوئی روایت، بس جناب سرخ رنگوں سے رنگ لیجیے۔ اپنے گھرکی دیواروں کو، دروازوں کو، دل کی شکل کے سرخ، سرخ Motifکہ تکیہ بھی سرخ اورکشن بھی سرخ اور منہ بھی سرخ سرخ۔
ہمارے معاشرے میں ایجادات اورترقی کے ساتھ ساتھ مت ایسی ماری جارہی ہے کہ بندہ نہ دین کا نہ دنیا کا۔ بے چارہ یا بے چاری کچھ نہ کچھ بن ہی جائیں گے، تمام بڑے بڑے ہوٹل، ویلنٹائن ڈنرزاناؤنس کرچکے ہیں۔شاپنگ مال میں کپ سے لے کرکمبل تک سرخ رنگ میں دستیاب ہے۔جوخاص طور پر ویلنٹائن ڈے کے لیے برائے فروخت ہیں،لال موزے، لال ٹائی، وغیرہ وغیرہ۔
Infants بچوں سے لے کر 80 سال تک کے بچوں کے لیے سرخ رنگ حاضر خدمت ہے، اگر غلطی سے آپ نے کوئی اعتراض کردیا تو آپ کنزرویٹیو اورجاہل بھی ہوسکتے ہیں۔ دوست واحباب اپنے آپ کو ٹرینڈی شوکرنے کے لیے 14 فروری کے حوالے سے آپ کا پروگرام پوچھیں گے اوراگر آپ نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ آپ ویلنٹائن کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تو ایسی عجیب نظروں سے آپ کو دیکھا جائے گا کہ بس!
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جب کوئی پہلی دفعہ ناچا ہوگا تو وہ کسی کو سمجھ نہیں آسکا ہوگا اوردیکھنے والے نے سوچا ہوگا کہ یہ کرنا کیا چاہ رہا ہے۔ آج اسی ڈانس اور ناچ کو سکھانے کے ادارے موجود ہیں۔ایک فن بن گیا، ایک آرٹ بن گیا، تاریخ بن گئی اورخوشی کے موقعے پر ناچنا روایت بن گئی۔
کہتے ہیں کہ پرایا، پرایا ہی ہوتا ہے اوراپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ تومیرے عزیز ہم وطنوں اپنی سگی سگی روایات کو جگاؤ انھیں رائج کرو،انھیں فروغ دو،ایسا نہ ہوکہ زیادہ ماڈرن بننے کے چکر میں وہ بھی نہ رہو جو ہو۔ اپنے آپ کو Update کرنا اچھائی ہے برائی نہیں۔خوش رہنا خوشیاں بانٹنا بے حد افضل، مگر جن چیزوں سے معاشرے میں بگاڑ آئے، آنے والی نسل صحیح پیغام نہ سمجھ پائے تو یہ خرابی ہے اچھائی نہیں۔ ویسے بھی ہم عجیب عجیب چیزوں کو اپنی اپنی زندگیوں میں شامل کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ہم unique ہوگئے اب پتا نہیں unique ہوجاتے ہیں یا کارٹون۔ بہرحال اپنے حال میں مست ہماری حکومت اور ان کے وزرا اگر عوام کی بھلائی کی طرف توجہ مرکوز کردیں گے تو مہربانی ہوگی کہ آپ سب کو اللہ کو بھی منہ دکھانا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی چیخ چیخ کرگلا خراب کر بیٹھے ہیں اورانصاف انصاف کی رٹ بھی لگائے ہوئے ہیں،کوئی انھیں سیاسی ناپختہ ذہن کہتا ہے کوئی انھیں ناسمجھ۔ لیکن کوئی بھی بددیانت اورکرپٹ نہیں کہتا، جو ان کی ذات کی منفی تصویریں ہیں وہ خود ہی ان کو مان بیٹھے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ میں انسان ہوں فرشتہ نہیں۔ ناقدین اس پر بھی ان کو بے وقوف ہی کہتے ہیں کہ بھلا اپنی غلطی ماننا بھی کوئی انسانیت ہے، بھلا وہ کیسا سیاستدان جو اپنی غلطی مان بیٹھے۔
اب دیکھیے گا پوری جوانی یورپ میں گزارنے والا کیسے ویلنٹائن منائے گا؟ اور بھی بہت سے ایسے لوگ جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ یورپ میں گزارچکے ہیں وہ اللہ جانے کیوں 14 فروری کو سرخ ہوتے نظر نہیں آتے؟
انسانیت کی خدمت بھی عمران خان سیاست کے ساتھ ساتھ کررہے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں کہ شوکت خانم اسپتال ایک بہترین مثال ہے، مگر ہماری حکومت کوئی بھی ایسا اسپتال نہ دے سکی عوام کو، بلکہ اسپتالوں کی حالت بہت زیادہ خراب جعلی دواؤں کا کاروبار پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔
اب کچھ دن پہلے ہی کراچی کے ایک اسپتال نے صحافیوں کے لیے زندگی بچانے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ایک ٹریننگ کا اہتمام کیا، جس میں ان کو بھرپور ٹریننگ دی گئی کہ کس طرح اپنی اور دوسروں کی مدد کی جائے۔ ہنگامی حالات میں، انجم رضوی نے اس ٹریننگ کا اہتمام کیا، حالانکہ اس طرح کی ٹریننگ ہماری حکومت کو ترتیب دینی چاہیے ، جہاں ویلنٹائن کو اتنی تشہیر ملتی ہے وہیں انسانوں کی خدمت اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے ایسے چھوٹے چھوٹے پروگرام ڈھیر سارے بنائے جائیں کیونکہ ہمارے پاس تربیت صفر رہ گئی ہے، اسی لیے بگاڑچاروں طرف پھیل رہا ہے۔
خوامخواہ ان روایات کو منڈیر چڑھایا جا رہا ہے جو بے سروپا اور لاحاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح نئے سال کو منانے کا رواج بڑھایا گیا اور ہر سال پتا نہیں کتنے زخمی ہوجاتے ہیں اور کچھ جہان فانی سے گزر جاتے ہیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوف کی فضا بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اس لیے چھوٹے اداروں سے لے کر بڑے اداروں تک کے ملازمین کو سہولتیں دینا اور ان کو ان کے کام کے لیے اور اپنی اور دوسروں کی مدد کے لیے مختلف ٹریننگ سیشن دینا ضروری ہونا چاہیے۔
ہر جگہ سیاست کو داخل کرکے ہم بہت ساری چیزوں کو تباہ بھی کررہے ہیں۔ پلوں اورسڑکوں کو بنانے میں ایسے مشغول ہوگئے ہیں کہ بھول گئے ہیں کہ انسانیت کا جال بچھانا پہلے ضروری ہے خواتین بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ بلکہ کہیں ان کے زیادہ بھی اپنی صلاحیتوں کو آزما رہی ہیں۔ بہتر ماحول اور بہتر سہولیات کے ساتھ ساتھ ٹریننگ کے سیشن بھی ڈیزائن ہوتے رہنا چاہیے صحت کے معاملات میں کوتاہی کا مطلب قوم کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
جس طرح اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہر طرف پھیلا ہوا ہے اگر اسی کو آگے چلایا جاتا رہا تو ممکن ہی نہیں کہ یہ آگے چل سکے گا آخر کب تک عوام قربانی کا بکرے بنتے رہیں گے۔ بہت زیادہ ضروری ہے کہ مختلف طرح کے جو دن ہم منانے لگے ہیں ان پہ اور ان کے اثرات کو ناپنے تولنے کے لیے کچھ ادیب، کچھ ڈاکٹرز اور اسی طرح کے پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں، جو کسی بھی پریشر سے آزاد ہوکر حال اور مستقبل پر ان کے اثرات کا اندازہ لگائیں ہماری نوجوان نسل پر ان تمام کے کیا اثرات ہوں گے اور ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اس طرح کے دن کاروبار بڑھا سکتے ہیں مگر ان کے اگر منفی اثرات ہیں تو یہ زہر سے کم نہیں۔ نوجوان نسل کے سامنے ہمارے اتنے زیادہ رول ماڈل ہیں، عمران خان بھی اپنی زندگی کے 62 برس گزارچکے ہیں، اللہ انھیں زندگی دے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی پسندیدگی بہت زیادہ ہے، یہ لوگ جس طرح behave کرتے ہیں جو پہنتے ہیں، کھاتے ہیں ان کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن celebrities کا بھی حق ہے کہ وہ بھی ان معاملات کو مدنظر رکھیں۔ خوش رہیے خوشیاں بانٹیے، مگر اس کے لیے بندر بننے کی،کارٹون بننے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ سرخ جوڑے سے لے کر سرخ چہرے تک ویلنٹائن ڈے یا 14 فروری کا ہونا لازمی نہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ نہ یہ کوئی تہوار ہے نہ کوئی روایت، بس جناب سرخ رنگوں سے رنگ لیجیے۔ اپنے گھرکی دیواروں کو، دروازوں کو، دل کی شکل کے سرخ، سرخ Motifکہ تکیہ بھی سرخ اورکشن بھی سرخ اور منہ بھی سرخ سرخ۔
ہمارے معاشرے میں ایجادات اورترقی کے ساتھ ساتھ مت ایسی ماری جارہی ہے کہ بندہ نہ دین کا نہ دنیا کا۔ بے چارہ یا بے چاری کچھ نہ کچھ بن ہی جائیں گے، تمام بڑے بڑے ہوٹل، ویلنٹائن ڈنرزاناؤنس کرچکے ہیں۔شاپنگ مال میں کپ سے لے کرکمبل تک سرخ رنگ میں دستیاب ہے۔جوخاص طور پر ویلنٹائن ڈے کے لیے برائے فروخت ہیں،لال موزے، لال ٹائی، وغیرہ وغیرہ۔
Infants بچوں سے لے کر 80 سال تک کے بچوں کے لیے سرخ رنگ حاضر خدمت ہے، اگر غلطی سے آپ نے کوئی اعتراض کردیا تو آپ کنزرویٹیو اورجاہل بھی ہوسکتے ہیں۔ دوست واحباب اپنے آپ کو ٹرینڈی شوکرنے کے لیے 14 فروری کے حوالے سے آپ کا پروگرام پوچھیں گے اوراگر آپ نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ آپ ویلنٹائن کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تو ایسی عجیب نظروں سے آپ کو دیکھا جائے گا کہ بس!
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جب کوئی پہلی دفعہ ناچا ہوگا تو وہ کسی کو سمجھ نہیں آسکا ہوگا اوردیکھنے والے نے سوچا ہوگا کہ یہ کرنا کیا چاہ رہا ہے۔ آج اسی ڈانس اور ناچ کو سکھانے کے ادارے موجود ہیں۔ایک فن بن گیا، ایک آرٹ بن گیا، تاریخ بن گئی اورخوشی کے موقعے پر ناچنا روایت بن گئی۔
کہتے ہیں کہ پرایا، پرایا ہی ہوتا ہے اوراپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ تومیرے عزیز ہم وطنوں اپنی سگی سگی روایات کو جگاؤ انھیں رائج کرو،انھیں فروغ دو،ایسا نہ ہوکہ زیادہ ماڈرن بننے کے چکر میں وہ بھی نہ رہو جو ہو۔ اپنے آپ کو Update کرنا اچھائی ہے برائی نہیں۔خوش رہنا خوشیاں بانٹنا بے حد افضل، مگر جن چیزوں سے معاشرے میں بگاڑ آئے، آنے والی نسل صحیح پیغام نہ سمجھ پائے تو یہ خرابی ہے اچھائی نہیں۔ ویسے بھی ہم عجیب عجیب چیزوں کو اپنی اپنی زندگیوں میں شامل کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ہم unique ہوگئے اب پتا نہیں unique ہوجاتے ہیں یا کارٹون۔ بہرحال اپنے حال میں مست ہماری حکومت اور ان کے وزرا اگر عوام کی بھلائی کی طرف توجہ مرکوز کردیں گے تو مہربانی ہوگی کہ آپ سب کو اللہ کو بھی منہ دکھانا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بھی چیخ چیخ کرگلا خراب کر بیٹھے ہیں اورانصاف انصاف کی رٹ بھی لگائے ہوئے ہیں،کوئی انھیں سیاسی ناپختہ ذہن کہتا ہے کوئی انھیں ناسمجھ۔ لیکن کوئی بھی بددیانت اورکرپٹ نہیں کہتا، جو ان کی ذات کی منفی تصویریں ہیں وہ خود ہی ان کو مان بیٹھے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ میں انسان ہوں فرشتہ نہیں۔ ناقدین اس پر بھی ان کو بے وقوف ہی کہتے ہیں کہ بھلا اپنی غلطی ماننا بھی کوئی انسانیت ہے، بھلا وہ کیسا سیاستدان جو اپنی غلطی مان بیٹھے۔
اب دیکھیے گا پوری جوانی یورپ میں گزارنے والا کیسے ویلنٹائن منائے گا؟ اور بھی بہت سے ایسے لوگ جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ یورپ میں گزارچکے ہیں وہ اللہ جانے کیوں 14 فروری کو سرخ ہوتے نظر نہیں آتے؟
انسانیت کی خدمت بھی عمران خان سیاست کے ساتھ ساتھ کررہے ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں کہ شوکت خانم اسپتال ایک بہترین مثال ہے، مگر ہماری حکومت کوئی بھی ایسا اسپتال نہ دے سکی عوام کو، بلکہ اسپتالوں کی حالت بہت زیادہ خراب جعلی دواؤں کا کاروبار پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔
اب کچھ دن پہلے ہی کراچی کے ایک اسپتال نے صحافیوں کے لیے زندگی بچانے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ایک ٹریننگ کا اہتمام کیا، جس میں ان کو بھرپور ٹریننگ دی گئی کہ کس طرح اپنی اور دوسروں کی مدد کی جائے۔ ہنگامی حالات میں، انجم رضوی نے اس ٹریننگ کا اہتمام کیا، حالانکہ اس طرح کی ٹریننگ ہماری حکومت کو ترتیب دینی چاہیے ، جہاں ویلنٹائن کو اتنی تشہیر ملتی ہے وہیں انسانوں کی خدمت اور انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے ایسے چھوٹے چھوٹے پروگرام ڈھیر سارے بنائے جائیں کیونکہ ہمارے پاس تربیت صفر رہ گئی ہے، اسی لیے بگاڑچاروں طرف پھیل رہا ہے۔
خوامخواہ ان روایات کو منڈیر چڑھایا جا رہا ہے جو بے سروپا اور لاحاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح نئے سال کو منانے کا رواج بڑھایا گیا اور ہر سال پتا نہیں کتنے زخمی ہوجاتے ہیں اور کچھ جہان فانی سے گزر جاتے ہیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوف کی فضا بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اس لیے چھوٹے اداروں سے لے کر بڑے اداروں تک کے ملازمین کو سہولتیں دینا اور ان کو ان کے کام کے لیے اور اپنی اور دوسروں کی مدد کے لیے مختلف ٹریننگ سیشن دینا ضروری ہونا چاہیے۔
ہر جگہ سیاست کو داخل کرکے ہم بہت ساری چیزوں کو تباہ بھی کررہے ہیں۔ پلوں اورسڑکوں کو بنانے میں ایسے مشغول ہوگئے ہیں کہ بھول گئے ہیں کہ انسانیت کا جال بچھانا پہلے ضروری ہے خواتین بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ بلکہ کہیں ان کے زیادہ بھی اپنی صلاحیتوں کو آزما رہی ہیں۔ بہتر ماحول اور بہتر سہولیات کے ساتھ ساتھ ٹریننگ کے سیشن بھی ڈیزائن ہوتے رہنا چاہیے صحت کے معاملات میں کوتاہی کا مطلب قوم کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
جس طرح اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہر طرف پھیلا ہوا ہے اگر اسی کو آگے چلایا جاتا رہا تو ممکن ہی نہیں کہ یہ آگے چل سکے گا آخر کب تک عوام قربانی کا بکرے بنتے رہیں گے۔ بہت زیادہ ضروری ہے کہ مختلف طرح کے جو دن ہم منانے لگے ہیں ان پہ اور ان کے اثرات کو ناپنے تولنے کے لیے کچھ ادیب، کچھ ڈاکٹرز اور اسی طرح کے پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں، جو کسی بھی پریشر سے آزاد ہوکر حال اور مستقبل پر ان کے اثرات کا اندازہ لگائیں ہماری نوجوان نسل پر ان تمام کے کیا اثرات ہوں گے اور ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اس طرح کے دن کاروبار بڑھا سکتے ہیں مگر ان کے اگر منفی اثرات ہیں تو یہ زہر سے کم نہیں۔ نوجوان نسل کے سامنے ہمارے اتنے زیادہ رول ماڈل ہیں، عمران خان بھی اپنی زندگی کے 62 برس گزارچکے ہیں، اللہ انھیں زندگی دے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی پسندیدگی بہت زیادہ ہے، یہ لوگ جس طرح behave کرتے ہیں جو پہنتے ہیں، کھاتے ہیں ان کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن celebrities کا بھی حق ہے کہ وہ بھی ان معاملات کو مدنظر رکھیں۔ خوش رہیے خوشیاں بانٹیے، مگر اس کے لیے بندر بننے کی،کارٹون بننے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ سرخ جوڑے سے لے کر سرخ چہرے تک ویلنٹائن ڈے یا 14 فروری کا ہونا لازمی نہیں۔