الطاف حسین کی حاضری سے استثنیٰ کیلیے درخواست دائر
انتہاپسندوںکی جانب سے دھمکیاںملی ہیں،بے نظیر،بشیربلورقتل کردیے گئے،درخواست گزار
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو سپریم کورٹ میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دینے کیلیے درخواست دائر کردی گئی۔
الطاف حسین نے ڈاکٹر فاروق سمیت اپنے 6 اٹارنیز نامزد کیے ہیں، درخواست الطاف حسین کے اٹارنی ڈاکٹر فاروق نے قاضی خالد علی اور بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے سیکشن 17(2) کے تحت جمعے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دائر کی گئی۔ درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنما ہیں، وہ تمام عدالتوںکا احترام کرتے ہیں اور آئین کی بالا دستی و عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
درخواست گزار کوکالعدم اور انتہا پسند گروہوں کی جانب سے براہ راست دھمکیاں دی گئی ہیں، درخواست کے ساتھ نومبر و دسمبر کے ایکسپریس ٹریبیون سمیت متعدد انگریزی اخبارات میں 2 نومبر 2012، 3 نومبر 2012، 10 دسمبر 2012 اور 15 دسمبر 2012 کو شائع ہونیوالی خبروں کے تراشے بھی منسلک کیے گئے ہیں جن میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت ملک کی سیکولر جماعتوں کو خطرات کی نشاندھی کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسے ہی خطرات انھیں ماضی میں بھی لاحق رہے ہیں، ایم کیوایم نے 1987 سے اب تک سندھ کے شہری علاقوں میں بھرپور انتخابی کامیابی حاصل کی ہے اور ایم کیو ایم کے ووٹرز اور چاہنے والے الطاف حسین سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں اور ان کے تحفظ کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔ آئین کا آرٹیکل 9 بھی شہریوں کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی برطانیہ اور پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور کارکنوں نے بھی الطاف حسین کو جان کے خطرے اور دھمکیوں کے باعث پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے سیاسی شخصیات کومشکلات کا سامنا ہے، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کیا گیا اور حال ہی میں خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو بھی قتل کردیا گیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الطاف حسین کو سپریم کورٹ میں حاضری سے استثنیٰ قرار دیا جائے۔ الطاف حسین کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار، انیس قائم خانی، محمد رضا ہارون، محمد واسع جلیل، ڈاکٹر صغیر احمد اور کنور جمیل احمد کو اٹارنیزمقرر کرکے انھیں وکیل کرنے اور عدالت میں جواب داخل کرنے کا بھی اختیار دیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 جنوری 2013 کو طلب کیا ہے۔
الطاف حسین نے ڈاکٹر فاروق سمیت اپنے 6 اٹارنیز نامزد کیے ہیں، درخواست الطاف حسین کے اٹارنی ڈاکٹر فاروق نے قاضی خالد علی اور بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے سیکشن 17(2) کے تحت جمعے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دائر کی گئی۔ درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ الطاف حسین متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنما ہیں، وہ تمام عدالتوںکا احترام کرتے ہیں اور آئین کی بالا دستی و عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
درخواست گزار کوکالعدم اور انتہا پسند گروہوں کی جانب سے براہ راست دھمکیاں دی گئی ہیں، درخواست کے ساتھ نومبر و دسمبر کے ایکسپریس ٹریبیون سمیت متعدد انگریزی اخبارات میں 2 نومبر 2012، 3 نومبر 2012، 10 دسمبر 2012 اور 15 دسمبر 2012 کو شائع ہونیوالی خبروں کے تراشے بھی منسلک کیے گئے ہیں جن میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت ملک کی سیکولر جماعتوں کو خطرات کی نشاندھی کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسے ہی خطرات انھیں ماضی میں بھی لاحق رہے ہیں، ایم کیوایم نے 1987 سے اب تک سندھ کے شہری علاقوں میں بھرپور انتخابی کامیابی حاصل کی ہے اور ایم کیو ایم کے ووٹرز اور چاہنے والے الطاف حسین سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں اور ان کے تحفظ کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔ آئین کا آرٹیکل 9 بھی شہریوں کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی برطانیہ اور پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور کارکنوں نے بھی الطاف حسین کو جان کے خطرے اور دھمکیوں کے باعث پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے سیاسی شخصیات کومشکلات کا سامنا ہے، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی قتل کیا گیا اور حال ہی میں خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو بھی قتل کردیا گیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الطاف حسین کو سپریم کورٹ میں حاضری سے استثنیٰ قرار دیا جائے۔ الطاف حسین کی جانب سے ڈاکٹر فاروق ستار، انیس قائم خانی، محمد رضا ہارون، محمد واسع جلیل، ڈاکٹر صغیر احمد اور کنور جمیل احمد کو اٹارنیزمقرر کرکے انھیں وکیل کرنے اور عدالت میں جواب داخل کرنے کا بھی اختیار دیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 جنوری 2013 کو طلب کیا ہے۔