حکومت نوٹ چھاپنا بند کرے طارق سعید

نوٹوںکی چھپائی سے افراط زر کی شرح میںاضافہ ہوا،یہ مالی مسائل کاحل نہیں

نوٹوں کی چھپائی سے افراط زر کی شرح میںاضافہ ہوا،یہ مالی مسائل کاحل نہیں فائل فوٹو

QUETTA:
کنفیڈریشن آف ایشیا پیسیفک چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (کاسی) کے نائب صدر طارق سعید نے کہا ہے کہ نوٹوں کی چھپائی مالیاتی مسائل کا حل نہیں، ایک طرف کرنسی نوٹوں کی حد سے زیادہ چھپائی اور دوسری طرف قرضوں میں مسلسل اضافہ افراط زر کی شرح اور قیمتوں کی عمومی سطح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جو پوری ملک کی بدحالی کا سبب ہے۔

گزشتہ روز جاری ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ حکومت اخراجات پورے کرنے کیلیے مسلسل نوٹ چھاپ رہی ہے جس سے میکرواکنامک استحکام پر دبائو بڑھ رہا ہے اور اسی کانتیجہ تھا کہ جون2012 میں کورانفلیشن 11.4 فیصد پر جاپہنچا، یہ مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضوں کی وجہ سے ہوا، ملک کے بیرونی قرضوں کی صورتحال بھی چیلنجنگ ہے، 4.6 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگیاں رواں مالی سال کرنی ہیں۔

انھوں نے کہاکہ گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلات زر کی مالیت ریکارڈ 13.5 ارب ڈالر رہی جو مالی سال 2010-11 میں آمد11.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر سے 18فیصد زیادہ ہیں، اس سے معاشی گروتھ پر مثبت اثر ہوا اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ورنہ صورتحال اس سے بھی بدترین ہوتی۔


طارق سعید نے زور دیا کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کیلیے اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں سے قرضے لینا کا عمل بند کرے اور معاشی استحکام کے لیے مصنوعات وخدمات کی برآمدات میں اضافے اور بیرونی قرضوں میں کمی کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ وترسیلات زر میں اضافے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ کرنسی چھاپنے والی پرنٹنگ پریس والا برتائو کیا جا رہا ہے اور ہررزو اربوں روپے کے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں جبکہ اسے ملک کو زری استحکام فراہم کرنیوالے ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے،

یہ مناسب اقتصادی منصوبہ بندی کے فقدان کی عکاسی ہے۔ انھوں نے کہاکہ حکومت کو نوٹوں کی چھپائی سے گریز، بجٹ خسارے میں کمی اور پیداواری شعبوں کو توسیع دینے کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کیلیے ملک میں سازگار ماحول فراہم کرنا چاہیے، معاشی استحکام کیلیے قابل ٹیکس آمدن کے حامل ہرشخص سے ٹیکس لیاجانا چاہیے کیونکہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری کی وجہ سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے، اس کے علاوہ تمام شعبوں بشمول زراعت پر ٹیکس لگانا چاہیے۔
Load Next Story