پاکستانی ماہی گیروں کی یمن سے رہائی

یہ بات باعث حیرت تھی کہ اتنا طویل عرصہ آخر ہمارے سفارت خانے کیوں غافل رہے

اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا جائے یا تشویش کا کہ پاکستانی ماہی گیر دس سال کی طویل قید کے بعد برادر اسلامی ملک یمن سے رہا ہو کر بالٓاخر وطن واپس پہنچ گئے ہیں ان کی رہائی میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی تنظیم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ واپس آنے والوں میں تین کا تعلق کراچی جب کہ چار کا بلوچستان سے ہے۔

یہ بات باعث حیرت تھی کہ اتنا طویل عرصہ آخر ہمارے سفارت خانے کیوں غافل رہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یمن کے حالات بہت خراب ہونے کے باعث وہاں سفارت خانے بند کر دیے گئے تھے۔ بعدازاں سفارتخانے بحال ہوئے' اخباری خبروں کے مطابق ان پاکستانی ماہی گیروں کو صنعا کی سینٹرل جیل سے رہا کرایا گیا جہاں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے جیل کے معمول کے معائنے کے لیے یمنی جیل کا دورہ کیا تھا۔


ان پاکستانی ماہی گیروں کو بھی سمندری حدود کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔ان غریب ماہی گیروں کی اتنے طویل عرصے کی غیر حاضری کے بعد گھر پہنچنے پر ہماری حکومت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان ماہی گیروں عدم موجودگی میں ان کے گھرانوں کو پہنچنے والے نقصانات کی تھوڑی تلافی میں مدد کرے کیونکہ طوفانی سمندروں میں روزی کی تلاش میں جانے والے غریب ماہی گیروں پر پورے کنبے کی کفالت کی ذمے داری ہوتی ہے ایسی صورت میں نہ جانے دس سال تک ان کے اہل خانے کا کیا حال ہوتا رہا ہے اور ان کے گھرانے کن المیوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔

بین الاقوامی ریڈ کراس نے پاکستان کی وزارت خارجہ کی درخواست پر ان قیدیوں کو رہائی دلائی ہے جب کہ ان کی پاکستان واپسی میں یمنی دارالحکومت صنعا کے پاکستانی سفارتخانے بھی ممکنہ طور پر مدد کی ہے۔ واضح رہے یمن میں سیکیورٹی کی انتہائی مخدوش صورت حال کے باعث پاکستانی سفارتخانہ بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان بے کس پاکستانیوں کی رہائی اور واپسی میں اس قدر تاخیر ہوئی۔ ان کی بحفاظت وطن واپسی میں اسلام آباد میں قائم یمن کے سفارتخانے نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
Load Next Story