ایران پر امریکا کی مزید پابندیاں عائد

اوباما ایران کے لیے مہربان تھے لیکن میں ایسا نہیں ہوں۔

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکا نے بیلسٹک میزائل تجربے کے ردعمل میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں اور کہا ہے کہ ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام امریکا خطے اور ہمارے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہے۔ واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اوباما ایران کے لیے مہربان تھے لیکن میں ایسا نہیں ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے سمیت تمام آپشن زیر غور ہیں۔ جس کے جواب میں ایرانی سفیر جواد ظریف نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کسی کی دھمکیوں میں آنے والا نہیں کیونکہ اس کا تحفظ اس کے اپنے لوگ کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی جنگ میں پہل نہیں کی۔ اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ سے اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے الزام لگایا ہے کہ ایران کا میزائل تجربہ اقوام متحدہ کی قرار داد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب کہ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان تمام دعوؤں کو بے بنیاد جھوٹا اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران نے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کے میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وہ اپنے دوست روسی صدر پوٹن کے دفاع میں فاکسن نیوز کے میزبان پر برس پڑے جب نے انھوں نے روسی صدر کے بارے میں کہا کہ میں اپنے ہم منصب کا احترام کرتا ہوں تو اس پر میزبان نے کہا کہ آپ کے جی جی کے سابق سربراہ پوٹن کا کیوں احترام کرتے ہیں جو ایک قاتل ہے اس پر ٹرمپ اپنے دوست روسی صدر کے دفاع کے لیے غصے میں آ گئے اور میزبان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔

امریکی صدر نے کہا کہ پوٹن قاتل ہے تو کیا ہوا دنیا میں اور دوسرے لوگ بھی قاتل ہیں۔ خود ہمارے ملک میں کئی قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور سب سے بڑا حقیقت بھرا انکشاف یہ کیا کہ امریکا کون سا معصوم ہے؟ ٹرمپ روسی صدر کی محبت میں اس حد تک چلے گئے کہ اپنے ملک ہی کو قاتل کہہ ڈالا یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ امریکا اپنے قیام سے امریکا کے قدیم ریڈ انڈین باشندوں سے لے کر اب تک کروڑوں افراد کو قتل کر چکا ہے لیکن اس سچائی کو قبول کرنے والے ٹرمپ دنیا کے واحد صدر ہیں۔

اس موقع پر امریکی صدر نے مزید کہا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں اپنے روسی ہم منصب پوٹن کا تعاون چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ میری رائے ہے کہ روس کو ساتھ لے کر چلنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر روس داعش اور دنیا بھر میں اسلامی دہشتگردوں کے خلاف لڑائی میں ہماری مدد کرتا ہے تو یہ مفیصد ہو گا۔

گزشتہ کالم میں جو 6 فروری کو چھپا میں نے ٹرمپ پوٹن دوستی کے پیچھے اس حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ کیونکہ دنیا میں نئے طاقت کے مراکز ابھر رہے ہیں اور امریکا دنیا پر اپنا کنٹرول کھو رہا ہے اس کے لیے امریکی صدر روس کا تعاون چاہتے ہیں چنانچہ اس حقیقت کی تصدیق امریکی صدر نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کی کہ روسی صدر سے دوستی ان کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔


دوسری طرف روسی ایوان صدر کا کہنا ہے کہ روس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس تجریے سے اتفاق نہیں کرتا کہ ایران ایک دہشتگرد ریاست ہے۔ روس کے ایران سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہم وسیع معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے تجارتی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے پرامید ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ ایران امریکا کشیدگی قابل تشویش ہے۔ اس طرح خطے کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔

روسی ترجمان نے واضع کیا کہ یہ بات کسی سے خفیہ نہیں کہ کئی عالمی ایشوز پر ماسکو اور واشنگٹن کی رائے ایک دوسرے سے متصادم ہے۔ ساتھ ہی ترجمان نے روسی صدر کے بارے میں امریکی چینل پر استعمال کیے جانے والے الفاظ پر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔سات مسلم ملکوں پر سفری پابندی کے خلاف ٹرمپ آرڈر کی معطلی کے امریکی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی عدالتیں سیاسی ہو گئی ہیں۔

انھوں نے عدالت کے فیصلے پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے اگر ملک میں کچھ ہوا تو ذمے داری اس جج پر ہو گی جس نے میرا حکم نامہ معطل کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ عدالتیں ہمارا کام مشکل بنا رہی ہیں جب کہ سابق امریکی وزرائے خارجہ جان کیری اور میڈلین البرائٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت ٹرمپ آرڈر کے خلاف اپنا فیصلہ برقرار رکھے۔

یاد رہے کہ میڈلین البرائٹ یہودی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف وہ کہہ چکی ہیں اگر ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ تبدیل نہیں ہوا تو وہ بطور احتجاج اپنا نام مسلمانوں والا رکھ لیں گی۔ امریکی عدالتوں کے بارے میں ٹرمپ کا جو رویہ ہے لگتا ہے کہ ٹرمپ امریکا کے نہیں کسی تیسری دنیا کے حکمران لگتے ہیں۔ جو اپنے اپنے ملکوں میں عدالتووں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان کی مثال کافی ہے جہاں ماضی میں آمروں نے طویل مدت تک عدلیہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے جیب کی گھڑی بنائے رکھا۔ کوشش تو ڈونلڈ ٹرمپ کی اب بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے امریکی آئین و قانون تمام اصول ضابطے معاہدات طاق پر رکھ دیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں پر سفری پابندیوں کے خلاف عدالت نے ٹرمپ مخالف فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

اس ضمن میں امریکی وفاقی عدالت نے بھی حکومتی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام ملکوں کے مسلمان حسب معمول امریکا جا سکتے ہیں۔ جب کہ صدر ٹرمپ نے عدالتی فیصلے کو شرمناک اور سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جائیں گے کیونکہ ہماری قومی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

مارچ اپریل ٹرمپ اور دنیا کے لیے احتیاط طلب وقت ہے۔

 
Load Next Story