کینو کی فصل کو 10 ارب کا نقصان برآمدی ہدف مشکل ہوگیا
فصلیں خراب ہونے سے کاشتکاروں خے ساتھ ایکسپورٹرزکو بھی نقصان اٹھانا پڑا
موسمیاتی تغیر(کلائمنٹ چینج) کے نتیجے میں رواں سیزن کینو کی فصل کو 10ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس سے کینو کی برآمد کا ہدف بھی مشکل میں پڑ گیا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹ کے چیئرمین اور پی ایف وی اے کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ کینو کی پیداوار والے علاقوں سرگودھا اور بھلوال میں حالیہ سیزن کے دوران ہونے والی ژالہ باری کے نتیجے میں کینو کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے کاشتکاروں کے ساتھ ایکسپورٹرز کو بھی نقصان کا سامنا ہے
وحید احمد نے بتایا کہ اس سال کینو کی پیداوار گزشتہ سال سے 15فیصد کم تھی تاہم ژالہ باری کی وجہ سے 50فیصد پیداوار ایکسپورٹ کے قابل نہیں رہی، ژالہ باری اور تیز ہواؤں کی وجہ سے کینو وقت سے پہلے درختوں سے نیچے گررہا ہے جس سے کینو کے معیارکے ساتھ بیرونی سطح پر داغ دھبوں اور گرنے کی وجہ سے چوٹ کے نشانات پڑگئے ہیں۔
سرپرست اعلیٰ نے بتایا کہ کینو کی متاثرہ فصل میں ضیاع(ویسٹیج) کا تناسب بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے جس سے مقامی مارکیٹ میں بھی کینو کی فروخت میں نقصان کا سامنا ہے۔ کینو کو موسمیاتی تغیر سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 10ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ برآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی مد میں بھی بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔
وحید احمد نے بتایا کہ رواں سیزن کینو کی ایکسپورٹ کے لیے تین لاکھ پچاس ہزار ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس سے 20 کروڑ ڈالر کی آمدن متوقع تھی جو اب مشکل نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں کلائمنٹ چینج سے زرعی شعبہ براہ راست متاثر ہورہا ہے کینو کے علاوہ دیگر فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے، پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن گزشتہ کئی سال سے ہارٹی کلچر سیکٹر پر کلائمنٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کررہی ہے تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت کی بہتری صوبوں کی ذمہ داری قرار پانے کی وجہ سے اس جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ کلائمنٹ چینج کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ پھل اور سبزیوں کی عالمی نمائش میں یورپی تحقیقی ادارے کی جانب سے ژالہ باری سے نمٹنے کے لیے ''اسکائی ڈیٹیکٹ'' ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جس کے ذریعے 30سے 35کروڑ روپے کی لاگت سے 200ایکڑ رقبے کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے نظام نصب کیا جاسکتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی ژالہ باری کو فضاء میں ہی پگھلا کر بخارات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے یہ ٹیکنالوجی دیگر فصلوں کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹ کے چیئرمین اور پی ایف وی اے کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ کینو کی پیداوار والے علاقوں سرگودھا اور بھلوال میں حالیہ سیزن کے دوران ہونے والی ژالہ باری کے نتیجے میں کینو کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے کاشتکاروں کے ساتھ ایکسپورٹرز کو بھی نقصان کا سامنا ہے
وحید احمد نے بتایا کہ اس سال کینو کی پیداوار گزشتہ سال سے 15فیصد کم تھی تاہم ژالہ باری کی وجہ سے 50فیصد پیداوار ایکسپورٹ کے قابل نہیں رہی، ژالہ باری اور تیز ہواؤں کی وجہ سے کینو وقت سے پہلے درختوں سے نیچے گررہا ہے جس سے کینو کے معیارکے ساتھ بیرونی سطح پر داغ دھبوں اور گرنے کی وجہ سے چوٹ کے نشانات پڑگئے ہیں۔
سرپرست اعلیٰ نے بتایا کہ کینو کی متاثرہ فصل میں ضیاع(ویسٹیج) کا تناسب بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے جس سے مقامی مارکیٹ میں بھی کینو کی فروخت میں نقصان کا سامنا ہے۔ کینو کو موسمیاتی تغیر سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 10ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ برآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی مد میں بھی بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔
وحید احمد نے بتایا کہ رواں سیزن کینو کی ایکسپورٹ کے لیے تین لاکھ پچاس ہزار ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس سے 20 کروڑ ڈالر کی آمدن متوقع تھی جو اب مشکل نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں کلائمنٹ چینج سے زرعی شعبہ براہ راست متاثر ہورہا ہے کینو کے علاوہ دیگر فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے، پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن گزشتہ کئی سال سے ہارٹی کلچر سیکٹر پر کلائمنٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کررہی ہے تاہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت کی بہتری صوبوں کی ذمہ داری قرار پانے کی وجہ سے اس جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ کلائمنٹ چینج کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ پھل اور سبزیوں کی عالمی نمائش میں یورپی تحقیقی ادارے کی جانب سے ژالہ باری سے نمٹنے کے لیے ''اسکائی ڈیٹیکٹ'' ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے جس کے ذریعے 30سے 35کروڑ روپے کی لاگت سے 200ایکڑ رقبے کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے نظام نصب کیا جاسکتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی ژالہ باری کو فضاء میں ہی پگھلا کر بخارات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے یہ ٹیکنالوجی دیگر فصلوں کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔