پانڈے قَلعی کرالو

’’گھر میں صرف عید قربان پر ہی گوشت پکتا ہے‘‘

زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما قَلعی گر محمد طفیل عرف بگو کی داستان۔ فوٹو : فائل

گئے وقتوں کی بات ہے۔۔۔۔۔۔گلی، گلی، محلے، محلے اکثر ایک صدا گونجتی تھی ''پانڈے قَلعی کرالو، برتن نئے کرالو''۔

جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ برتن جو چولہے کی کالک کے باعث کالے ہو گئے ہوں، ان کو قلعی کروا کے ان میں چمک پیدا کی جائے اور ان کی زندگی بڑھوا لی جائے۔ قَلعی کرنے والے کاریگر سائیکلوں پر گلی، محلوں میں گھومتے تھے۔ لوگوں کو اپنی ضرورت کے تحت ان پھیری والوں کا بے صبری سے انتظار ہوتا تھا۔ لیکن پرانے برتن کو نئے بنانے کی یہ ترکیب آج ختم ہوتی جا رہی ہے کہ اب نہ وہ چولہے ہیں اور نہ ہی وہ برتن۔ آج کا دور انسٹنٹ (فوری) ہے، ڈسپوزیبل کا دور ہے۔

قلعی، پیتل اور تانبے کے گندے برتنوں میں نئی روح پھونک کر انھیں پھر سے نیا بنا دیتی ہے۔ قلعی کے بعد برتن میں پیدا ہونے والی چمک اسے نئے سے بھی زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی ہے۔ لیکن اس قَلعی کو کرنے والے ہاتھ بعض اوقات اُس قَلعی گر کے ہوتے ہیں، جو لوگوں کے گندے برتنوں کو تو ضرور صاف کرتا ہے۔

لیکن اپنی زندگی پر لگنے والے غربت اور مجبوریوں کے داغ اور دھبوں کو وہ کبھی صاف نہیں کر پاتا۔ دور جدید میں جہاں ''خریدو، استعمال کرو اور پھینک دو'' کا رجحان بہت زیادہ فروغ پا چکا ہے، وہاں ایک قَلعی گر کی زندگی کس طرح کی اذیت کا شکار ہے، اس کو جاننے کے لئے ہم نے ایک قَلعی گر سے بات چیت کی۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کا رہائشی قَلعی گر محمد طفیل عرف بگو زندگی کی 60 ''خزائیں'' دیکھ چکا ہے۔ طفیل کی 2بیٹیاں اور 3بیٹے ہیں، جن میں سے بڑا بیٹا ثاقب علی کم عمری میں ہی والد کا ہاتھ بٹانے کے لئے مزدوری کرتا ہے۔ اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے قَلعی گر محمد طفیل نے بتایا کہ ''میں بہت چھوٹا تھا جب میرے والد صاحب انتقال کر گئے۔

والد فوت ہوتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے دنیا سے ہمارا دانہ پانی بھی اٹھ چکا ہے، اپنے اور پرائے سب آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے۔ گھریلو حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ بے حد شوق کے باوجود میں ایک بھی جماعت نہیں پڑھ سکا، ''چٹا'' ان پڑھ ہوں۔ ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ایک بار اسکول جانے کی ٹھانی تو تیسرے روز ہی استاد نے مار کر بھگا دیا، جس کے بعد پھر کبھی اسکول کا رخ نہیں کیا۔ بہت چھوٹی عمر میں، میں گھر کا سربراہ بن چکا تھا۔

10سال کی عمر میں قالین بنانے کا کام کرکے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے لگا۔ قالین بنانے کا کام میں نے 14سال تک کیا۔ اس دوران میرے بھائی نے برتن قلعی کرنے کا کام سیکھ لیا۔ اس کام میں کچھ آسودگی ملنے کے امکانات کی وجہ سے میں بھی قالین بنانے کا کام چھوڑ کر برتن قلعی کرنے کی جانب راغب ہوگیا۔ اور آج یہ کام کرتے ہوئے مجھے تقریباً 30سال بیت چکے ہیں۔

برتنوں کو قَلعی کیسے کیا جاتا ہے کے سوال پر محمد طفیل کا کہنا تھا کہ جیسے دھوبی کپڑے دھوتا ہے اسی طرح ہم برتن کو دھو کر نیا بنا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم برتن کو نمک، گندھگ اور کاسٹک جیسے مختلف تیزابوں کی مدد سے مانچتے ہیں، کالک اور زنگ کو صاف کرنے کے بعد نوشادر کے ساتھ برتن پر قلعی لگائی جاتی ہے، جو برتن کو چمکا کر بالکل نیا بنا دیتی ہے۔



اس عمل کے لئے ایک چھوٹی سے بھٹی بھی لگائی جاتی ہے، جس سے دھاتوں اور پانی کو گرم کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ کام کے دوران مختلف تیزابوں کے استعمال کی وجہ سے اس شعبہ سے وابستہ افراد میں سانس کی بیماری عام پائی جاتی ہے۔ ہم تو کجا، برتن قلعی کرتے وقت اس سے نکلنے والی بو سے ارد گرد کے لوگ بھی بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن کیا کریں ہماری روزی روٹی کا یہی بہانہ ہے۔ میں خود عرصہ دراز سے سانس کی بیماری میں مبتلا ہوں اور ادویات ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔


ایک ماہر ڈاکٹر کی طرح انسانی صحت پر بات کرتے ہوئے بگو کا کہنا تھا کہ لوگوں کے گھروں میں پیتل اور تانبے کے برتن ختم ہو گئے، اب صرف سلور کے برتن کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس روش سے جہاں ہمارا کام دھندہ ختم ہو گیا، وہاں لوگوں نے اپنی صحت کا بھی نقصان کیا۔ قلعی کا کام کرنے سے بلاشبہ ہماری صحت تو ضرور متاثر ہوتی ہے، کیونکہ ہم نے ہر وقت مختلف تیزابوں کی زد میں رہنا ہوتا ہے۔

لیکن قلعی انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہے۔ میرے خیال میں جسمانی کمزوری کی ایک بڑی وجہ قلعی کے استعمال میں کمی بھی ہے۔ قلعی شدہ برتنوںمیں کھانا کھانے والے لوگوں کی صحت اچھی ہوتی ہے۔ قلعی کے فوائد مجھ سے بہتر حکماء جانتے ہیں لیکن جو میں جانتا ہوں اس کے مطابق قلعی جنسی، جسمانی کمزوری، ہر وقت تھکن، کمر کے درد جیسے امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے نہایت مفید ہے۔

گھریلو حالات کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے قَلعی گر محمدطفیل نے بتایا کہ تانبے اور پیتل کے برتنوں کے دور میں ایک ہزار روپے تک دیہاڑی لگا لیتا تھا، لیکن آج یہ آمدنی کم ہوتے ہوئے ڈیڑھ سو روپے روزانہ تک بھی بمشکل پہنچ پاتی ہے۔ جس سے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ 4 بچے پڑھ رہے ہیں جبکہ ایک کام کررہا ہے۔ مگر روز بروز آمدن میں کمی اور مہنگائی میں زیادتی کے سبب اب میں باقی بچوں کو بھی کام پر لگانے کا سوچنے پر مجبور ہو چکا ہوں۔ لیکن میں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اپنے بچوں کو کبھی قَلعی گری کا کام نہیں کرنے دوں گا۔ میرے گھر میں گوشت صرف بڑی عید پر پکتا ہے۔

7سال قبل اپنے لئے کپڑوں کے 2 جوڑے بنوائے تھے۔ آج جو شلوار، قمیض پہنے بیٹھا ہوں یہ 20 سال پرانی ہے، جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ دکان کرایہ پر نہیں لے سکتا، اسی لئے سڑک کنارے بیٹھا ہوں۔ شام کو جو بھی تھوڑا بہت میرے کام کاج کا سامان ہوتا ہے وہ میں کسی بھی دکان میں رکھ دیتا ہوں، جسے صبح اٹھا کر پھر اپنا ٹھیلا تیار کر لیتا ہوں۔ پہلے پھیری کا کام بھی کرتا تھا لیکن اب کام اس قدر کم ہو چکا ہے کہ ایک ہی جگہ پر بیٹھ گیا ہوں۔ ہوٹل والے کھانا اور چائے دے دیتے ہیں جس کے لئے انھوں نے کبھی پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا۔

گفتگو کے دوران زندگی کی تلخیوں کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار اس کے ہاتھ قمیص کا پلو تھامے آنکھوں تک گئے۔ ناک صاف کرکے تھوڑا سا کھانستے ہوئے طفیل نے ایسا تاثر دیا جیسے وہ آنسو صاف نہیں کر رہا بلکہ اس کی آنکھ میں کچھ گر گیا ہے۔ اس دوران متعدد باراس کا سانس بھی پھولا، جو کچھ دیر آرام سے بحال ہو جاتا۔

مہنگائی کو کوستے ہوئے قَلعی گر نے کہا کہ صرف 3سال قبل قلعی 4 سو روپے کلو تھی جو آج بڑھ کر35سو روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ کوئلہ بھی 50سے60روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔ اس کے باوجود ایک گلاس قلعی کرکے گاہگ سے 30روپے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اس پر بھی ناگواری کا اظہار کرتا ہے۔ ہم کیا کریں جب قلعی اور کوئلہ سستا تھا ہم ایک گلاس کو قلعی کرنے کے10روپے لیتے تھے۔ لوگوں کی طرف سے پرانے برتنوں کو قلعی نہ کروانے اور پیتل کے برتنوں کے استعمال میں کمی کی ایک بہت بڑی وجہ مہنگائی ہی ہے۔ اول تو گاہگ بہت کم آتے ہیں اگر آتے بھی ہیں تو ان میں سے بھی بیشتر معاوضہ سن کر بھاگ جاتے ہیں۔ ہر انسان کی طرح میں نے بھی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے، جن کی تعبیر کے لئے میں نے بہت دھکے کھائے لیکن وہ کبھی پورے نہ ہو سکے۔

اب صرف یہی ایک خواہش ہے کہ میں خود نہیں پڑھ سکا تو میرے بچے پڑھ لکھ جائیں، جس سے ایک تو وہ اچھے انسان بنیں گے، دوسرا انھیں اپنی ضروریات کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے گا۔ میرے بچے پڑھ لکھ گئے تو میں سکون سے مر جائوں گا، وگرنہ میرے مرنے کے بعد میری روح کو چین نہیں ملے گا۔ ملکی حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد طفیل نے کہا کہ سیاستدانوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ عوام پس گئے ہیں۔ غریبوں کے لئے اس ملک میں آج روٹی، کپڑا ہے نہ مکان۔

الیکشن میں ووٹ مانگنے آنے والے سیاستدان ہمارے گندے ہاتھ بھی چوم لیتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کے بعد وہ ہمارے پاس آنا گوارا ہی نہیں کرتے۔ حکومت سے مالی امداد یا زکوۃ نہیں لینا چاہتا، مگر اتنی ضرور اپیل ہے کہ خدارا! ملک میں روزگار کے مواقع ضرور پیدا کئے جائیں۔ تاکہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے ترسنے والے غریب کی زندگی کا دیا جلتا رہے۔

دور جدید میں قلعی کروانے کا عمل ختم ہو گیا، لیکن اس کا استعمال ختم نہیں ہوا۔ آج ہم برتن تو قلعی نہیں کرواتے لیکن اپنے ناکارہ اور فرسودہ خیالات کو قلعی کر کے نت نئے انداز میں پیش ضرور کرتے ہیں۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کے جعلی کاموں کی قلعی کھلنے میں دیر بھی نہیں لگتی۔ ہمارے اذہان کو زنگ لگتا جارہا ہے لیکن پھر بھی ہم عملی طریقے پر تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنے خیالات کو قلعی کروانے سے کترا رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک تحقیق و جستجو میں اپنے دن رات ایک کر رہے ہیں، لیکن ہمارے نظام میں یہ عمل ناپید ہے۔ یہ تحقیق و جستجو کی لگن ہی ہے جس کے باعث انسانی زندگی ارتقاء کے مراحل طے کرتی چاند پر پہنچی اور اس سے آگے بڑھنے میں مصروف ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے ملک میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے، بس انھیں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ ان کے روشن اذہان قلعی کروانے کے عمل سے گزرتے رہیں اور اپنی قابلیت کا سکہ جماتے رہیں۔
Load Next Story