اُمتِ مسلمہ کا اتحاد
میانمارکے ظالم حکمران روہنگیا کے بے آسرا اقلیتی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں
اقوام متحدہ کی تیارکی ہوئی ایک حالیہ رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ میانمارکے ظالم حکمران روہنگیا کے بے آسرا اقلیتی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ یہ رپورٹ کسی بھی سنگ دل انسان کا کلیجہ شق کردینے کے لیے کافی ہے۔ یہ رپورٹ میانمار کے حکمرانوں کی درندگی کی انتہائی خوفناک تصویر پیش کرتی ہے۔
عینی شاہدین کے تاثرات پر مبنی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوج اورپولیس کی ملی بھگت سے ''کلیئرنس آپریشن'' کے نام پر روہنگیا مسلمانوں پر بد ترین انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں اورانھیں انتہائی بے دردی اورسفاکی کے ساتھ ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ان مظالم میں اجتماعی عصمت دری، قتل وغارت گری اورمعصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور بدسلوکی بھی شامل ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب ان دکھیاروں کی امداد لے کر ملائیشیا کا ایک بحری جہاز لنگر انداز ہوا تو اس کے خلاف بدھ بھکشوؤں اور ان کے حواریوں نے مظاہرے شروع کردیے اور''ظالم مارے اور مارکے رونے بھی نہ دے'' والی کہاوت کو سچ ثابت کردیا۔
بے چارے روہنگیاؤں کے ساتھ بھیڑیے اور میمنے والی کہانی دہرائی جارہی ہے، اگرچہ یہ لوگ میانمار (سابق برما) کے جدی پُشتی باشندے ہیں اوران کی کئی نسلیں اس ملک میں مدت دراز سے آباد ہیں لیکن مذہبی منافرت اور تعصب کی بنیاد پر انھیں نہ صرف انسانیت سوزظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے بلکہ نہایت بے رحمی کے ساتھ تباہ وبرباد اور ملک بدرکیا جارہا ہے۔ ان کے خلاف غیر انسانی سلوک کا جواز یہ جھوٹا الزام ہے کہ یہ لوگ فرزندان سرزمین نہیں ہیں بلکہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں جوکہ موجودہ بنگلہ دیش سے برسوں قبل وہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس جھوٹ کو سچ بھی فرض کرلیا جائے تب بھی محض انسانی حقوق کے حوالے سے ان گھناؤنے اور مکروہ ترین مظالم کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ انسانی حقوق کی خود ساختہ چیمپئن آؤنگ سان شوکئی نے بھی اس ظلم وستم اور بربریت پر چپ سادھ رکھی ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا حقوق انسانی کی علم برداری کا دعویٰ صرف دنیا دکھاوا اور محض ایک ڈھکوسلا ہے جس کا واحد مقصد جھوٹی ہمدردیاں اور شہرت حاصل کرنے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔
اگر انسانی حقوق کی یہ علم بردار اپنے دل میں رتی بھر غیرت اور انسانی ہمدردی رکھتی ہے تو اسے چاہیے کہ اس ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار عالمی ضمیر کو بری طرح جھنجھوڑ رہی ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری اس کا فوری نوٹس لے اور مظلوموں کی بھرپور انداز میں داد رسی کرے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا جائے اور انسان ہونے کے ناتے ان کا احترام کیا جائے۔
روہنگیا کے مظلوموں کی مایوس کن صورت حال میں وہ خط امیدکی ایک روشن کرن ہے جو درجن بھر نوبیل انعام یافتگان، سیاسی متحرکین، انسانی حقوق کے مہم جوؤں پر مشتمل ایک گروپ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ اس میں مشرقی تیمور کے سابق صدر جوزداموز ہورٹا، اٹلی کے سابق وزیراعظم رومانو پروڈی، برٹش بزنس لیڈر سررچرڈبرینسن، آرچ بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو اور ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے اس مشترکہ مکتوب میں میانمارکی حقیقی رہنما آؤنگ سان سائیوکی پر شدید نکتہ چینی کی ہے کہ وہ روہنگیاؤں کے تحفظ میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام لکھے گئے اپنے اس کھلے خط میں تمام دستخط کنندگان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی ملٹری کی ظالمانہ کارروائیوں کو پوری طرح بے نقاب کیا گیا ہے اور پوری دنیا کو روہنگیا خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ سیکڑوں روہنگیاؤں کے سفاکانہ قتل عام اور ان پر ہیلی کاپٹر گن شپس سے کیے جانے والے انسانیت سوز حملوں کی تفصیلات بھی اس خط میں بیان کی گئی ہیں۔
مذکورہ خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ 9 اکتوبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والے میانمار کے پولیس افسران کی ہلاکت کو روہنگیاؤں پر ڈھائے جانے والے بے تحاشا مظالم کا بہانہ نہ بنایا جائے۔ خط میں سلامتی کونسل کو متوجہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جنگی جرائم کے مترادف ہے جس کا فوری نوٹس لیا جانا چاہیے اور ان سنگین جرائم میں ملوث تمام فریقوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
عالم اسلام اس وقت ہر طرف سے سنگین چیلنجوں اور خطرات میں گھرا ہوا ہے ایک طرف میانمار کے مظلوم مسلمان ہیں جن کا جینا دو بھر ہوگیا ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان جرأت و استطاعت کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں اور اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ:
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک ہو ستم کی سیاہ رات چلے
دوسری جانب فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے نت نئے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور نئے امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کی حمایت میں اپنے نئے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی گھناؤنی منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔ انھوں نے ''اسلامی دہشت گردی'' کی ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے جس مقصد کا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرکے عالم اسلام کو شدید سے شدید تر نقصان پہنچانا ہے۔ دشمنان اسلام اپنے مکروہ منصوبے کے تحت اسلامی ممالک میں سازشوں کے نئے نئے جال بچھارہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بہانہ بناکر اپنی کٹھ پتلیوں کی مدد سے مسلم ممالک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کررہے ہیں۔
تیونس، لیبیا، عراق، شام اور افغانستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کسی نہ کسی صورت میں انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کاوشوں اور تعاون سے 42 مسلم ممالک پر مشتمل ایک اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کو درپیش حالات کا تقاضا ہے کہ فقہی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر مسلم امہ اور عالم اسلام کے مجموعی مفاد میں اس اتحاد کو وسیع تر اور مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے تاکہ باطل قوتوں کا متحد ہوکر مقابلہ کیا جاسکے۔ حالات اور وقت کا تقاضا بس یہی ہے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
عینی شاہدین کے تاثرات پر مبنی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوج اورپولیس کی ملی بھگت سے ''کلیئرنس آپریشن'' کے نام پر روہنگیا مسلمانوں پر بد ترین انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں اورانھیں انتہائی بے دردی اورسفاکی کے ساتھ ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ان مظالم میں اجتماعی عصمت دری، قتل وغارت گری اورمعصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور بدسلوکی بھی شامل ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جب ان دکھیاروں کی امداد لے کر ملائیشیا کا ایک بحری جہاز لنگر انداز ہوا تو اس کے خلاف بدھ بھکشوؤں اور ان کے حواریوں نے مظاہرے شروع کردیے اور''ظالم مارے اور مارکے رونے بھی نہ دے'' والی کہاوت کو سچ ثابت کردیا۔
بے چارے روہنگیاؤں کے ساتھ بھیڑیے اور میمنے والی کہانی دہرائی جارہی ہے، اگرچہ یہ لوگ میانمار (سابق برما) کے جدی پُشتی باشندے ہیں اوران کی کئی نسلیں اس ملک میں مدت دراز سے آباد ہیں لیکن مذہبی منافرت اور تعصب کی بنیاد پر انھیں نہ صرف انسانیت سوزظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے بلکہ نہایت بے رحمی کے ساتھ تباہ وبرباد اور ملک بدرکیا جارہا ہے۔ ان کے خلاف غیر انسانی سلوک کا جواز یہ جھوٹا الزام ہے کہ یہ لوگ فرزندان سرزمین نہیں ہیں بلکہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں جوکہ موجودہ بنگلہ دیش سے برسوں قبل وہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس جھوٹ کو سچ بھی فرض کرلیا جائے تب بھی محض انسانی حقوق کے حوالے سے ان گھناؤنے اور مکروہ ترین مظالم کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ انسانی حقوق کی خود ساختہ چیمپئن آؤنگ سان شوکئی نے بھی اس ظلم وستم اور بربریت پر چپ سادھ رکھی ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا حقوق انسانی کی علم برداری کا دعویٰ صرف دنیا دکھاوا اور محض ایک ڈھکوسلا ہے جس کا واحد مقصد جھوٹی ہمدردیاں اور شہرت حاصل کرنے کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے۔
اگر انسانی حقوق کی یہ علم بردار اپنے دل میں رتی بھر غیرت اور انسانی ہمدردی رکھتی ہے تو اسے چاہیے کہ اس ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار عالمی ضمیر کو بری طرح جھنجھوڑ رہی ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری اس کا فوری نوٹس لے اور مظلوموں کی بھرپور انداز میں داد رسی کرے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا جائے اور انسان ہونے کے ناتے ان کا احترام کیا جائے۔
روہنگیا کے مظلوموں کی مایوس کن صورت حال میں وہ خط امیدکی ایک روشن کرن ہے جو درجن بھر نوبیل انعام یافتگان، سیاسی متحرکین، انسانی حقوق کے مہم جوؤں پر مشتمل ایک گروپ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ اس میں مشرقی تیمور کے سابق صدر جوزداموز ہورٹا، اٹلی کے سابق وزیراعظم رومانو پروڈی، برٹش بزنس لیڈر سررچرڈبرینسن، آرچ بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو اور ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے اس مشترکہ مکتوب میں میانمارکی حقیقی رہنما آؤنگ سان سائیوکی پر شدید نکتہ چینی کی ہے کہ وہ روہنگیاؤں کے تحفظ میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام لکھے گئے اپنے اس کھلے خط میں تمام دستخط کنندگان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی ملٹری کی ظالمانہ کارروائیوں کو پوری طرح بے نقاب کیا گیا ہے اور پوری دنیا کو روہنگیا خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ سیکڑوں روہنگیاؤں کے سفاکانہ قتل عام اور ان پر ہیلی کاپٹر گن شپس سے کیے جانے والے انسانیت سوز حملوں کی تفصیلات بھی اس خط میں بیان کی گئی ہیں۔
مذکورہ خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ 9 اکتوبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والے میانمار کے پولیس افسران کی ہلاکت کو روہنگیاؤں پر ڈھائے جانے والے بے تحاشا مظالم کا بہانہ نہ بنایا جائے۔ خط میں سلامتی کونسل کو متوجہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جنگی جرائم کے مترادف ہے جس کا فوری نوٹس لیا جانا چاہیے اور ان سنگین جرائم میں ملوث تمام فریقوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
عالم اسلام اس وقت ہر طرف سے سنگین چیلنجوں اور خطرات میں گھرا ہوا ہے ایک طرف میانمار کے مظلوم مسلمان ہیں جن کا جینا دو بھر ہوگیا ہے تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان جرأت و استطاعت کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں اور اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ:
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک ہو ستم کی سیاہ رات چلے
دوسری جانب فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے نت نئے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور نئے امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کی حمایت میں اپنے نئے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی گھناؤنی منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔ انھوں نے ''اسلامی دہشت گردی'' کی ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے جس مقصد کا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرکے عالم اسلام کو شدید سے شدید تر نقصان پہنچانا ہے۔ دشمنان اسلام اپنے مکروہ منصوبے کے تحت اسلامی ممالک میں سازشوں کے نئے نئے جال بچھارہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بہانہ بناکر اپنی کٹھ پتلیوں کی مدد سے مسلم ممالک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کررہے ہیں۔
تیونس، لیبیا، عراق، شام اور افغانستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کسی نہ کسی صورت میں انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کاوشوں اور تعاون سے 42 مسلم ممالک پر مشتمل ایک اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کو درپیش حالات کا تقاضا ہے کہ فقہی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر مسلم امہ اور عالم اسلام کے مجموعی مفاد میں اس اتحاد کو وسیع تر اور مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے تاکہ باطل قوتوں کا متحد ہوکر مقابلہ کیا جاسکے۔ حالات اور وقت کا تقاضا بس یہی ہے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر