کیا ہوگا رب جانے
کراچی سے طورخم تک پاکستان ایک ملک ہے
کراچی سے طورخم تک پاکستان ایک ملک ہے یہ کتابوں میں تو بہت کچھ لکھا ہوتا ہے لیکن گزرتے وقت اور تجربوں کے تحت دنیا بھر میں (پاکستان کے علاوہ) موجودہ وقت کے مطابق تبدیلیاں کردی جاتی ہیں تاکہ عوام یا اس ملک کے باشندے تازہ ترین معاملات اور حالات سے واقف ہوسکیں۔
بات کرتے چلیں ساتھ ساتھ مشرقی تیمورکے قیام اور فوری قیام اقوام متحدہ کا کارنامہ لکھا جائے گا۔ مشرقی تیمورکی کتابوں میں، مگر جس سے یہ علاقہ چھینا گیا ہے وہاں کی کتابوں میں اس کے مطابق لکھا جائے گا۔ دوکتابیں ابھی تکمیل کے لیے اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ایک کشمیر اورایک فلسطین،میانمار، بنگلہ دیش کے ظلم، شام، عراق، افغانستان، یمن کے پمفلٹ بھی ابھی طباعت کی منزلوں میں ہیں۔ انصاف کے پریس میں جس کا نام اقوام متحدہ پریس ہے۔
یہ برسبیل تذکرہ بات ہے کہ ہر بات برسبیل تذکرہ ہی آغاز ہوتی ہے اور تذکرہ آخر پہ ختم ہوتی ہے، ہر سانحے کا آخر ایک اورکربلا ہی ہوتی ہے اور اقوام متحدہ ایسی بہت سی کربلاؤں کا ذمے دار ہے جس پر یزید نما قوتوں کا قبضہ ہے اورجس کے کارندوں کے طور پر دنیا بھر میں بہت سے حکمران کام کررہے ہیں۔
انسانی آزادی بشمول حق اظہار رائے اور ووٹ کے استعمال کا پرچار بہت کیا جاتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر وہ ابتدائی مسائل تھے قریب قریب 70 سے 90 سال تک کے کہ جب اس کے لیے اس ادارے کو واقعی طاقت استعمال کرنی چاہیے تھی سیاسی بھی اوردوسری طرح بھی۔
مگر وہ قوتیں جو اس کے سنگھاسن پر ستر برس سے زیادہ عرصے سے مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کررہی ہیں، براجمان ہیں اور بالواسطہ دنیا کے حکمران ہیں وہ انصاف کے لیے دو عینک استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ تمام بڑی قوتیں شامل ہیں جو غلام سے حکمران بنیں یا جنھیں جنگوں نے تباہ کیا اور یہ دوبارہ بحال ہوئیں تو انھوں نے بھی اس نظام کا حصہ بننا قبول کیا جسے صرف استحصالی نظام کہا جاسکتا ہے۔
اس سارے قصے میں نقصان کس کا ہوا، وہ کون سی قوم ہے جو سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے، مسلمان! ان کا استحصال کرنے والے کون ہیں؟ زیادہ تر مسلمان جن کو غیر مسلموں کی حمایت حاصل ہے۔ تاریخ کا المیہ ہے کہ آج اس ترقی یافتہ دور میں مسلمانوں کی تاریخ وہی ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کو تباہ کرنے کے لیے غیر مسلم حکمران یا ملک کی مدد مانگ رہا ہے اور اب یہ کام ظالموں کا ''کنسورشیم'' اقوام متحدہ انجام دے رہا ہے۔
ظالم کی مدد کرو ایک اورظالم طاقتورہوجائے گا، پاکستان کا خون چوس کر اوباما رخصت ہوگئے اب ان کی ''سفید کاپی'' آئی ہے جوان سے زیادہ ''سیاہ'' ہے اور اس نے کام پاؤں پرکلہاڑا مرنے سے کیا ہے کہ آخر تو یہ ہونا تھا جو خاتون امریکا کی صدر نہ بن سکیں وہ اوباماکی دلی خواہش تھیں۔ وائٹ ہاؤس سے جاتے جاتے'' آخری خواہش مگر اپنی پالیسیوں میں اوباما اس قدرکمزور ہوچکے تھے کہ ''نادیدہ'' ہاتھوں نے ان سے الیکشن چھین لیا بقول CIA اور دیگر اداروں کے۔ یہ وہی تو ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے آپ نے ''ایبٹ آباد''کا جعلی آپریشن فلمایا تھا۔
فرق یہ ہے کہ اسے اس بارآپ کی نادانی سے دشمن نے استعمال کرلیا اور بخوبی استعمال کیا کہ نشان بھی کوئی نہ چھوڑاکہ دل کو سمجھائیں۔ تیری تلاش میں جائیں تو ہم کدھر جائیں۔ اب اگلے الیکشن تک تو یہی ہنگامہ آرائی ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ کے بعدکہ جنھوں نے محبت کی خاطر تخت وتاج چھوڑا تھا، ٹرمپ کا وہ پہلا امریکی صدر ہوگا جس سے نفرت کی وجہ سے اقتدار واپس لے لیا جائے گا۔
''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر'' کا جو خواب علامہ اقبال کا تھا بہت دھندلا ہوچکا ہے اور اس کے راستے میں خون کی ندیاں اور بے وطنی کی دھول ہے۔ علامہ صاحب کو قدرت نے خواب دکھائے تعبیر قوم کو حاصل کرنی تھی اور قوموں کو ایک ہونا تھا ایک بھی کام درست نہ ہوسکا۔ پاکستان ہے اور رہے گا انشاء اﷲ مگر یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا علامہ صاحب نے خواب دیکھا تھا۔ دولخت پاکستان کے بندۂ مزدور کے اوقات ہی نہیں۔ اوقات بھی نہیں بدلی پہلے بد تھا اب بد تر ہے اور یہی حال رہا تو بد ترین کے دائرے میں جانے میں کم وقت رہ گیا ہے بلکہ شاید ہم مروت سے کام لے رہے ہیں دائرے میں آچکا ہے۔
ہوس نے پر پھیلا رکھے ہیں۔ زرخدا ہے بعض لوگوں کا اور یہی بعض لوگ تو ملک کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے ہیں اور عوام کے خون کا ایک ایک قطرہ ٹیکس اور مہنگائی کے اوزاروں سے نچوڑ رہے ہیں۔ بنا طریقہ یہ ہے کہ ''کچھ نہ دو سب لے لو''بجلی نہ دو، بجلی کا بل لے لو، گیس نہ دو گیس کا بل باقاعدہ لے لو۔ Minimm بل کے نام پر ایک طرف جن کوکچھ نہیں مل رہا ان سے ہی بل لے لو اور اس کے تحت ہی بے ایمانی کرکے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچادو۔
میں نے آغاز میں پاکستانی ایک جانب کتابی سرحدیں تحریرکی تھیں کہ پاکستان کراچی سے طورخم تک کتابوں میں پاکستان ہے مگر حقیقتاً ذہنوں میں ہوس کاروں کے پاکستان کی سرحدیں یہ نہیں ہیں سیاسی جماعتیں چیخ پڑی ہیں۔ وزیراعظم صاحب آپ صرف لاہور کے وزیراعظم نہیں ہیں سندھ کے کراچی کے بھی وزیراعظم ہیں۔ یہاں بھی کہنا ضروری ہے کہ مراد علی شاہ صاحب آپ بھی کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر کے بھی وزیراعلیٰ ہیں صرف لاڑکانہ، نوابشاہ، دادو کے وزیراعلیٰ نہیں ہیں خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ درمیان میں آگیا کہ درد ہوتا ہے تو چیخ بھی نکلتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا ہے۔ افغانستان اور بھارت نے دو جانب آگ لگا رکھی ہے۔ ہم ان کے قیدی واپس کررہے ہیں۔ بھارت کی ایک بڑی تعداد کو خوامخواہ مہمان بنا رکھا ہے جب کہ انھیں واپس کردینا چاہیے ہم مہمانداری کے تقاضے برطانیہ، جرمنی وغیرہ سے زیادہ نبھا چکے ہیں اب بہت ہوگیا ہمارا معاشرہ تباہ ہوگیا، ہمارے بچے اس قوم نے مار ڈالے کب تک مہمانداری ہوتی رہے گی قاتلوں کی۔
ایک اخباری رپورٹ دیکھیے پاکستان نے صرف تین سال میں 2067 ارب روپے غیر ملکی قرض لیا۔ اس رقم میں سے صوبوں کو صرف 217 ارب روپے ملے اور اس میں سے بھی 158 ارب پنجاب نے لیے۔ اب حساب کرلیجیے۔ 1850 ارب روپے وفاق نے رکھ لیے۔ تین صوبوں کے حصے میں کل 59 ارب روپے یعنی حکومت کے پاس 2008 ارب روپے ہوئے پنجاب کے ملاکر 158 ارب روپے اور وفاق ہے کس چیز کا نام اور اسے کرنا کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ مضمون ہے جس کی تفصیل کی جائے گی تو بہت کچھ نکل آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ بڑے بھائی پنجاب کو 158 ارب تاکہ وہ ''لاہور لاہور ہے''کرسکیں کیونکہ اور کہیں تو کچھ زیادہ نظر نہیں آرہا ۔59 ارب صرف اور سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور مقروض ہر پاکستانی برابرکا ہے۔ قرض ہر پاکستانی کو برابر کا نہیں ملا ہے، تینوں صوبوں میں سے پتا نہیں کہاں تک درست ہے یا عمران خان اینڈ پارٹی کا سیاسی بیان ہے کہ ان کی حالت یعنی ان کے صوبے کی حالت بہتر ہے۔
سندھ بد ترین حالات میں ہے جو کچھ ملا ہے وہ سندھ کے سیاست دان وڈیرے لوٹ کر کھاگئے۔ عوام کے حصے میں ٹوٹی سڑکیں، بہتے گٹر اور نالیاں، گندا پینے کا پانی، گیس کی عدم فراہمی، بجلی کی گمشدگی ہی آتے ہیں۔ پاکستان کو دیکھ کر مسلم قوم کا پورا نوحہ اور نقشہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ علامہ صاحب خواب تو آپ کا سچا اور اچھا تھا پر مسلم قوم نے ہر جگہ اس کی تعبیر بدل ڈالی! مگر ایک قوت دیکھ رہی ہے سب کچھ وہ جب قوم نہیں مانتی تو اس قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آتا ہے کیا ہوگا پتا نہیں؟ رب جانے۔
بات کرتے چلیں ساتھ ساتھ مشرقی تیمورکے قیام اور فوری قیام اقوام متحدہ کا کارنامہ لکھا جائے گا۔ مشرقی تیمورکی کتابوں میں، مگر جس سے یہ علاقہ چھینا گیا ہے وہاں کی کتابوں میں اس کے مطابق لکھا جائے گا۔ دوکتابیں ابھی تکمیل کے لیے اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ایک کشمیر اورایک فلسطین،میانمار، بنگلہ دیش کے ظلم، شام، عراق، افغانستان، یمن کے پمفلٹ بھی ابھی طباعت کی منزلوں میں ہیں۔ انصاف کے پریس میں جس کا نام اقوام متحدہ پریس ہے۔
یہ برسبیل تذکرہ بات ہے کہ ہر بات برسبیل تذکرہ ہی آغاز ہوتی ہے اور تذکرہ آخر پہ ختم ہوتی ہے، ہر سانحے کا آخر ایک اورکربلا ہی ہوتی ہے اور اقوام متحدہ ایسی بہت سی کربلاؤں کا ذمے دار ہے جس پر یزید نما قوتوں کا قبضہ ہے اورجس کے کارندوں کے طور پر دنیا بھر میں بہت سے حکمران کام کررہے ہیں۔
انسانی آزادی بشمول حق اظہار رائے اور ووٹ کے استعمال کا پرچار بہت کیا جاتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر وہ ابتدائی مسائل تھے قریب قریب 70 سے 90 سال تک کے کہ جب اس کے لیے اس ادارے کو واقعی طاقت استعمال کرنی چاہیے تھی سیاسی بھی اوردوسری طرح بھی۔
مگر وہ قوتیں جو اس کے سنگھاسن پر ستر برس سے زیادہ عرصے سے مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کررہی ہیں، براجمان ہیں اور بالواسطہ دنیا کے حکمران ہیں وہ انصاف کے لیے دو عینک استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ تمام بڑی قوتیں شامل ہیں جو غلام سے حکمران بنیں یا جنھیں جنگوں نے تباہ کیا اور یہ دوبارہ بحال ہوئیں تو انھوں نے بھی اس نظام کا حصہ بننا قبول کیا جسے صرف استحصالی نظام کہا جاسکتا ہے۔
اس سارے قصے میں نقصان کس کا ہوا، وہ کون سی قوم ہے جو سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے، مسلمان! ان کا استحصال کرنے والے کون ہیں؟ زیادہ تر مسلمان جن کو غیر مسلموں کی حمایت حاصل ہے۔ تاریخ کا المیہ ہے کہ آج اس ترقی یافتہ دور میں مسلمانوں کی تاریخ وہی ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کو تباہ کرنے کے لیے غیر مسلم حکمران یا ملک کی مدد مانگ رہا ہے اور اب یہ کام ظالموں کا ''کنسورشیم'' اقوام متحدہ انجام دے رہا ہے۔
ظالم کی مدد کرو ایک اورظالم طاقتورہوجائے گا، پاکستان کا خون چوس کر اوباما رخصت ہوگئے اب ان کی ''سفید کاپی'' آئی ہے جوان سے زیادہ ''سیاہ'' ہے اور اس نے کام پاؤں پرکلہاڑا مرنے سے کیا ہے کہ آخر تو یہ ہونا تھا جو خاتون امریکا کی صدر نہ بن سکیں وہ اوباماکی دلی خواہش تھیں۔ وائٹ ہاؤس سے جاتے جاتے'' آخری خواہش مگر اپنی پالیسیوں میں اوباما اس قدرکمزور ہوچکے تھے کہ ''نادیدہ'' ہاتھوں نے ان سے الیکشن چھین لیا بقول CIA اور دیگر اداروں کے۔ یہ وہی تو ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے آپ نے ''ایبٹ آباد''کا جعلی آپریشن فلمایا تھا۔
فرق یہ ہے کہ اسے اس بارآپ کی نادانی سے دشمن نے استعمال کرلیا اور بخوبی استعمال کیا کہ نشان بھی کوئی نہ چھوڑاکہ دل کو سمجھائیں۔ تیری تلاش میں جائیں تو ہم کدھر جائیں۔ اب اگلے الیکشن تک تو یہی ہنگامہ آرائی ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ کے بعدکہ جنھوں نے محبت کی خاطر تخت وتاج چھوڑا تھا، ٹرمپ کا وہ پہلا امریکی صدر ہوگا جس سے نفرت کی وجہ سے اقتدار واپس لے لیا جائے گا۔
''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر'' کا جو خواب علامہ اقبال کا تھا بہت دھندلا ہوچکا ہے اور اس کے راستے میں خون کی ندیاں اور بے وطنی کی دھول ہے۔ علامہ صاحب کو قدرت نے خواب دکھائے تعبیر قوم کو حاصل کرنی تھی اور قوموں کو ایک ہونا تھا ایک بھی کام درست نہ ہوسکا۔ پاکستان ہے اور رہے گا انشاء اﷲ مگر یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا علامہ صاحب نے خواب دیکھا تھا۔ دولخت پاکستان کے بندۂ مزدور کے اوقات ہی نہیں۔ اوقات بھی نہیں بدلی پہلے بد تھا اب بد تر ہے اور یہی حال رہا تو بد ترین کے دائرے میں جانے میں کم وقت رہ گیا ہے بلکہ شاید ہم مروت سے کام لے رہے ہیں دائرے میں آچکا ہے۔
ہوس نے پر پھیلا رکھے ہیں۔ زرخدا ہے بعض لوگوں کا اور یہی بعض لوگ تو ملک کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے ہیں اور عوام کے خون کا ایک ایک قطرہ ٹیکس اور مہنگائی کے اوزاروں سے نچوڑ رہے ہیں۔ بنا طریقہ یہ ہے کہ ''کچھ نہ دو سب لے لو''بجلی نہ دو، بجلی کا بل لے لو، گیس نہ دو گیس کا بل باقاعدہ لے لو۔ Minimm بل کے نام پر ایک طرف جن کوکچھ نہیں مل رہا ان سے ہی بل لے لو اور اس کے تحت ہی بے ایمانی کرکے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچادو۔
میں نے آغاز میں پاکستانی ایک جانب کتابی سرحدیں تحریرکی تھیں کہ پاکستان کراچی سے طورخم تک کتابوں میں پاکستان ہے مگر حقیقتاً ذہنوں میں ہوس کاروں کے پاکستان کی سرحدیں یہ نہیں ہیں سیاسی جماعتیں چیخ پڑی ہیں۔ وزیراعظم صاحب آپ صرف لاہور کے وزیراعظم نہیں ہیں سندھ کے کراچی کے بھی وزیراعظم ہیں۔ یہاں بھی کہنا ضروری ہے کہ مراد علی شاہ صاحب آپ بھی کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر کے بھی وزیراعلیٰ ہیں صرف لاڑکانہ، نوابشاہ، دادو کے وزیراعلیٰ نہیں ہیں خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ درمیان میں آگیا کہ درد ہوتا ہے تو چیخ بھی نکلتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا ہے۔ افغانستان اور بھارت نے دو جانب آگ لگا رکھی ہے۔ ہم ان کے قیدی واپس کررہے ہیں۔ بھارت کی ایک بڑی تعداد کو خوامخواہ مہمان بنا رکھا ہے جب کہ انھیں واپس کردینا چاہیے ہم مہمانداری کے تقاضے برطانیہ، جرمنی وغیرہ سے زیادہ نبھا چکے ہیں اب بہت ہوگیا ہمارا معاشرہ تباہ ہوگیا، ہمارے بچے اس قوم نے مار ڈالے کب تک مہمانداری ہوتی رہے گی قاتلوں کی۔
ایک اخباری رپورٹ دیکھیے پاکستان نے صرف تین سال میں 2067 ارب روپے غیر ملکی قرض لیا۔ اس رقم میں سے صوبوں کو صرف 217 ارب روپے ملے اور اس میں سے بھی 158 ارب پنجاب نے لیے۔ اب حساب کرلیجیے۔ 1850 ارب روپے وفاق نے رکھ لیے۔ تین صوبوں کے حصے میں کل 59 ارب روپے یعنی حکومت کے پاس 2008 ارب روپے ہوئے پنجاب کے ملاکر 158 ارب روپے اور وفاق ہے کس چیز کا نام اور اسے کرنا کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ مضمون ہے جس کی تفصیل کی جائے گی تو بہت کچھ نکل آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ بڑے بھائی پنجاب کو 158 ارب تاکہ وہ ''لاہور لاہور ہے''کرسکیں کیونکہ اور کہیں تو کچھ زیادہ نظر نہیں آرہا ۔59 ارب صرف اور سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اور مقروض ہر پاکستانی برابرکا ہے۔ قرض ہر پاکستانی کو برابر کا نہیں ملا ہے، تینوں صوبوں میں سے پتا نہیں کہاں تک درست ہے یا عمران خان اینڈ پارٹی کا سیاسی بیان ہے کہ ان کی حالت یعنی ان کے صوبے کی حالت بہتر ہے۔
سندھ بد ترین حالات میں ہے جو کچھ ملا ہے وہ سندھ کے سیاست دان وڈیرے لوٹ کر کھاگئے۔ عوام کے حصے میں ٹوٹی سڑکیں، بہتے گٹر اور نالیاں، گندا پینے کا پانی، گیس کی عدم فراہمی، بجلی کی گمشدگی ہی آتے ہیں۔ پاکستان کو دیکھ کر مسلم قوم کا پورا نوحہ اور نقشہ سمجھ میں آجاتا ہے۔ علامہ صاحب خواب تو آپ کا سچا اور اچھا تھا پر مسلم قوم نے ہر جگہ اس کی تعبیر بدل ڈالی! مگر ایک قوت دیکھ رہی ہے سب کچھ وہ جب قوم نہیں مانتی تو اس قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آتا ہے کیا ہوگا پتا نہیں؟ رب جانے۔