صحافت پر جبر مگر سچ کی تلاش
پرچی سسٹم کے تحت جو اصل صحافی ہیں وہ اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں صرف یوں کہ ان کے پاس سفارش نہیں ہے۔
ہم جس حبس زدہ معاشرے میں نہ چاہتے ہوئے بھی رہ رہے ہیں،جہاں زمینی خداؤں کے عقوبت خانوں میں زندگیاں بے آبرو ہوتی ہیں، وہ 21 ویں صدی کا معاشرہ ہے لیکن ہم بدقسمتی سے دنیا کی مجموعی فہم وفراست،جدت پسندی اورترقی یافتگی سے کوسوں دور ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں ہیں جہاں حق پرستی کو سلب کر لینا موجودہ ناخدائوں کا شیوہ ہے۔
ایک ایسے دور میں جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے باعزت لوگوں کو بے آبرو کیا جا رہا ہو، جن میں استاد ہوں کہ ڈاکٹرز، وکلا ہوں کہ صحافی نیز حق کہنے کی اتنی بڑی سزا کہ موت چھوٹی لگنے لگے، ایسے ہی لوگوں میں، میں اور میرے صحافی دوست جس اذیت اورکربناک زندگی میں جی رہے ہیں وہاں آکسیجن سے زیادہ سلفیورک ایسڈ کی جان لیوا ہوائیں ہیں۔
صحافیوں کا کام حکمرانوں سے عوام الناس کے لیے حق چھیننا ہوتا ہے، ایسے میں ان کے حواری یا تو صحافیوں کو اغواء کروالیتے ہیں (اگر وہ خوش قسمت ہیں) ورنہ موت ان کا مقدر بن جاتی ہے، پھر ہوتا کیا ہے (حکومت وقت نے 5 لاکھ کی مدد کا انعام طے کیا ہے) یہ باتیں کاغذی باتیں ہیں اور اب کون نہیں جانتا کہ یہ سیاست صرف منہ ہلانے تک کی سیاست رہ گئی ہے۔سیاست کی منڈی میں کہا جاتا ہے کہ بعض صحافی ہوس زر میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ان کی باقاعدہ قیمتیں ہیں ۔ ضیاء الحق کے دور سے اسٹیبلشمنٹ بعض صحافیوں کو استعمال کر رہی ہے۔
صحافی خبروں کے پیچھے بھاگتے ہیں تو موت ان کے پیچھے بھاگتی ہے، فرق صرف اتنا سا ہے بریکنگ نیوز تو سب سے پہلے چاہیے لیکن جس کو جائے وقوع پر جانا ہے اس کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر نہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افراد ''وارزون'' War Zone میں کام کرنے والے صحافی سے ناصحانہ انداز گفتگو میں بریکنگ نیوز ہر چینل سے 5 سیکنڈ پہلے مانگتے ہیں، خدارا! رحم کریں، اس روش کو بدلیں، تاہم پچھلے دس سالوں میں جو رول میڈیا نے ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہے جس نے ہر خبر عوام کو پہنچائی ہے بقول جگر:
عبث ' دل بے کس پہ اپنی توں ہر وقت روتا ہے
نہ کر غم اے دوا نے عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے
صحافیوں کو مروجہ مراعات جو دنیا بھر میں دستیاب ہیں اس کا عشرہ عشیر بھی اگر پاکستانی صحافیوں کو ملنے لگے تو یہاں وہ کام ہوگا کہ پاکستانی افواج کی طرح پاکستانی صحافی بھی دنیا بھر میں نمبر ون "No 1" بن جائیں گے، لیکن بے چارے تہی دامن ہیں، میں ان کو بے چارہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ خود کو بھی بے چارہ سمجھ رہا ہوں، میرے لندن میں قیام کے دوران "The Sun" نامی اخبار کے کالم نویس سے ملاقات ہوئی اس نے ایک بات بتائی، آپ یقین کیجیے میں کالم نویس بننے کے شوق میں لگ گیا۔
اس کو وہاں میڈیکل الاؤنس، ہوم الاؤنس، ٹرپول الاؤنس، یوٹیلیٹی الاؤنس ہر قسم کی مراعات حاصل تھیں، اس نے مجھ سے پوچھا اور تم کو کیا ملتا ہے؟ تو میں نے کہا اس سے بھی زیادہ، کیونکہ اس وقت پاکستان کی عزت کا سوال تھا، میں اس سے یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا جو پولیس کے ڈنڈے کھائے وہ صحافی، جو مار دیا جائے وہ صحافی، جس کو بم سے اڑا دیا جائے وہ صحافی، جو بھوکا مرجائے وہ صحافی...صحافیوں نے آواز حق کے لیے صعوبتوں کو جھیلا ہے اور پیلی صحافت کا بت مسمار کیا ہے اور استحصالی قوتوں، منافقانہ طرز عمل کو کون بے نقاب کرتا ہے، صرف صحافی و کالم نگار ہی، لیکن اس کے بدلے داد و تحسین تو کیا شاباش بھی نہیں ملتی، خلعت و مراعات تو کیا ملیں گی۔
حق کو حق لکھنا بہت مشکل کام ہے، یہ بچوں کا کھیل نہیں، لہٰذا اعصاب شکن حالات ہیں،پورے جذبہ سے میدان عمل میں آئیں۔ ورنہ یقین جانیے کوئی بھی حق نہیں لکھے گا۔ ہمارے بعض صحافیوں کی شہادتیں حق لکھنے کی وجہ سے ہوئیں ۔ کیا اس سیم زدہ معاشرے میں حق لکھنا اتنا گھناؤنا طرز عمل بن چکا ہے جس کی پاداش میں انسانی جان کا زیاں لازمی جزو بن گیا۔ اب تو گھن آنے لگی ہے سچ سے، حق سے۔ تحریک طالبان کے سربراہ احسان اللہ نے سیاستدانوں اور صحافی حضرات کی تیسری کیٹیگری کو جان سے مارنے کو اپنا اہم فرض سمجھ لیا ہے، کیونکہ وہ میڈیا پر امریکی پیسے کے مخالف ہیں۔
یہ روش عام نہیں ہونی چاہیے ورنہ ان عناصر کو تقویت ملے گی جنہوں نے صحافی ولی بابر کے گواہوں کو بھی مار دیا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں، دنیا ہم کو کن نظروں سے دیکھ رہی ہے، اور ہم خود کیا ہیں، میں سلام کرتا ہوں تمام بے خوف صحافی برادری کو جس نے ہمیشہ نامساعد حالت اور خطرے میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے ایسے ایسے دل سوز اور دلخراش مناظر کیمرے میں بند کیے اور خبرون کے حقائق جمع کیے جب ان کے آس پاس گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی تھی اور وہ نہتے بغیر ہیلمٹ، بلٹ پروف جیکٹس کے اپنے فریضے میں پیش پیش رہے۔
ہاں ہر بات پر حکومت وقت کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کچھ کام خود بھی کرنے پڑتے ہیں، ساری پولیس تو سیاستدانوں کے پاس ہوتی ہے تمام لوگ و شہری اپنی اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز رکھ لیں جن کی تنخواہیں حکومت دے، ان پر اور کاموں کا بوجھ بہت ہے، کس سے لینا ہے، کتنا لینا ہے، ان کو اپنا کام کرنے دیں۔ اپنا کام کریں۔ قارئین کرام! آج تک ہم مرکب کی صورت جی رہے ہیں اور یہ دنیا ایک سانچہ ہے، جس میں پہنچ کر نہ ہم مشرقی رہے، نہ ہی مسلمان، نہ ہی پاکستانی اور نہ ہی انسان۔ ہم کو تو ایک مثالی سانچہ ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے اوصاف اتنے مضبوط و قوی ہوتے کہ ہمارے کردار و اخلاق کو دنیا اپناتی، سانچے کو اپنی ہیئت تبدیل کرنا نہیں ہوتی لیکن جب اس کے اندر مرکب ڈالا جاتا ہے تو وہ سانچے کی بناوٹ کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ پاکستان ایک فلاحی، اسلامی، جمہوری ریاست ہے پاکستان قطعاً سیکولر اسٹیٹ نہیں ہے۔ میرے ناقص مطالعے کے مطابق 112 بار قائد اعظم نے پاکستان کو ایک فلاحی، جمہوری اور اسلامی ریاست کہا ہے، ہمارے یہاں بعض حضرات 11 اگست 1947 پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو قائد اعظم نے فرمایا تھا اس میں سیکولرازم تلاش کرکے سارے ہی فرمودات کو جھٹلا رہے ہیں۔قائد اعظم نے وہ تقریر مدینہ کو سامنے رکھ کر کی تھی نا کہ ایک سیکولر آدمی کی حیثیت سے۔
میڈیا نے پچھلے دس سالہ دور آمریت میں بہت سی اذیتیں سہی ہیں ، اس پر پابندیاں بھی لگی ہیں، اس کا بائیکاٹ بھی ہوا ہے لیکن صحافی حضرات پر جنہوں نے حق کو حق لکھا، چاہے ان کو پابند سلال ہی کیوں نہیں ہونا پڑا۔بلاشبہ صحافت ایک شعبہ ہے جس کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے M.A. Journalism ، M.M.C نجانے کیا کیا، لیکن پرچی سسٹم کے تحت جو اصل صحافی ہیں وہ اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں صرف یوں کہ ان کے پاس سفارش نہیں ہے۔
ایک ایسے دور میں جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے باعزت لوگوں کو بے آبرو کیا جا رہا ہو، جن میں استاد ہوں کہ ڈاکٹرز، وکلا ہوں کہ صحافی نیز حق کہنے کی اتنی بڑی سزا کہ موت چھوٹی لگنے لگے، ایسے ہی لوگوں میں، میں اور میرے صحافی دوست جس اذیت اورکربناک زندگی میں جی رہے ہیں وہاں آکسیجن سے زیادہ سلفیورک ایسڈ کی جان لیوا ہوائیں ہیں۔
صحافیوں کا کام حکمرانوں سے عوام الناس کے لیے حق چھیننا ہوتا ہے، ایسے میں ان کے حواری یا تو صحافیوں کو اغواء کروالیتے ہیں (اگر وہ خوش قسمت ہیں) ورنہ موت ان کا مقدر بن جاتی ہے، پھر ہوتا کیا ہے (حکومت وقت نے 5 لاکھ کی مدد کا انعام طے کیا ہے) یہ باتیں کاغذی باتیں ہیں اور اب کون نہیں جانتا کہ یہ سیاست صرف منہ ہلانے تک کی سیاست رہ گئی ہے۔سیاست کی منڈی میں کہا جاتا ہے کہ بعض صحافی ہوس زر میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ان کی باقاعدہ قیمتیں ہیں ۔ ضیاء الحق کے دور سے اسٹیبلشمنٹ بعض صحافیوں کو استعمال کر رہی ہے۔
صحافی خبروں کے پیچھے بھاگتے ہیں تو موت ان کے پیچھے بھاگتی ہے، فرق صرف اتنا سا ہے بریکنگ نیوز تو سب سے پہلے چاہیے لیکن جس کو جائے وقوع پر جانا ہے اس کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر نہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افراد ''وارزون'' War Zone میں کام کرنے والے صحافی سے ناصحانہ انداز گفتگو میں بریکنگ نیوز ہر چینل سے 5 سیکنڈ پہلے مانگتے ہیں، خدارا! رحم کریں، اس روش کو بدلیں، تاہم پچھلے دس سالوں میں جو رول میڈیا نے ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہے جس نے ہر خبر عوام کو پہنچائی ہے بقول جگر:
عبث ' دل بے کس پہ اپنی توں ہر وقت روتا ہے
نہ کر غم اے دوا نے عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے
صحافیوں کو مروجہ مراعات جو دنیا بھر میں دستیاب ہیں اس کا عشرہ عشیر بھی اگر پاکستانی صحافیوں کو ملنے لگے تو یہاں وہ کام ہوگا کہ پاکستانی افواج کی طرح پاکستانی صحافی بھی دنیا بھر میں نمبر ون "No 1" بن جائیں گے، لیکن بے چارے تہی دامن ہیں، میں ان کو بے چارہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ خود کو بھی بے چارہ سمجھ رہا ہوں، میرے لندن میں قیام کے دوران "The Sun" نامی اخبار کے کالم نویس سے ملاقات ہوئی اس نے ایک بات بتائی، آپ یقین کیجیے میں کالم نویس بننے کے شوق میں لگ گیا۔
اس کو وہاں میڈیکل الاؤنس، ہوم الاؤنس، ٹرپول الاؤنس، یوٹیلیٹی الاؤنس ہر قسم کی مراعات حاصل تھیں، اس نے مجھ سے پوچھا اور تم کو کیا ملتا ہے؟ تو میں نے کہا اس سے بھی زیادہ، کیونکہ اس وقت پاکستان کی عزت کا سوال تھا، میں اس سے یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا جو پولیس کے ڈنڈے کھائے وہ صحافی، جو مار دیا جائے وہ صحافی، جس کو بم سے اڑا دیا جائے وہ صحافی، جو بھوکا مرجائے وہ صحافی...صحافیوں نے آواز حق کے لیے صعوبتوں کو جھیلا ہے اور پیلی صحافت کا بت مسمار کیا ہے اور استحصالی قوتوں، منافقانہ طرز عمل کو کون بے نقاب کرتا ہے، صرف صحافی و کالم نگار ہی، لیکن اس کے بدلے داد و تحسین تو کیا شاباش بھی نہیں ملتی، خلعت و مراعات تو کیا ملیں گی۔
حق کو حق لکھنا بہت مشکل کام ہے، یہ بچوں کا کھیل نہیں، لہٰذا اعصاب شکن حالات ہیں،پورے جذبہ سے میدان عمل میں آئیں۔ ورنہ یقین جانیے کوئی بھی حق نہیں لکھے گا۔ ہمارے بعض صحافیوں کی شہادتیں حق لکھنے کی وجہ سے ہوئیں ۔ کیا اس سیم زدہ معاشرے میں حق لکھنا اتنا گھناؤنا طرز عمل بن چکا ہے جس کی پاداش میں انسانی جان کا زیاں لازمی جزو بن گیا۔ اب تو گھن آنے لگی ہے سچ سے، حق سے۔ تحریک طالبان کے سربراہ احسان اللہ نے سیاستدانوں اور صحافی حضرات کی تیسری کیٹیگری کو جان سے مارنے کو اپنا اہم فرض سمجھ لیا ہے، کیونکہ وہ میڈیا پر امریکی پیسے کے مخالف ہیں۔
یہ روش عام نہیں ہونی چاہیے ورنہ ان عناصر کو تقویت ملے گی جنہوں نے صحافی ولی بابر کے گواہوں کو بھی مار دیا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں، دنیا ہم کو کن نظروں سے دیکھ رہی ہے، اور ہم خود کیا ہیں، میں سلام کرتا ہوں تمام بے خوف صحافی برادری کو جس نے ہمیشہ نامساعد حالت اور خطرے میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے ایسے ایسے دل سوز اور دلخراش مناظر کیمرے میں بند کیے اور خبرون کے حقائق جمع کیے جب ان کے آس پاس گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی تھی اور وہ نہتے بغیر ہیلمٹ، بلٹ پروف جیکٹس کے اپنے فریضے میں پیش پیش رہے۔
ہاں ہر بات پر حکومت وقت کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے کچھ کام خود بھی کرنے پڑتے ہیں، ساری پولیس تو سیاستدانوں کے پاس ہوتی ہے تمام لوگ و شہری اپنی اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈز رکھ لیں جن کی تنخواہیں حکومت دے، ان پر اور کاموں کا بوجھ بہت ہے، کس سے لینا ہے، کتنا لینا ہے، ان کو اپنا کام کرنے دیں۔ اپنا کام کریں۔ قارئین کرام! آج تک ہم مرکب کی صورت جی رہے ہیں اور یہ دنیا ایک سانچہ ہے، جس میں پہنچ کر نہ ہم مشرقی رہے، نہ ہی مسلمان، نہ ہی پاکستانی اور نہ ہی انسان۔ ہم کو تو ایک مثالی سانچہ ہونا چاہیے تھا۔
ہمارے اوصاف اتنے مضبوط و قوی ہوتے کہ ہمارے کردار و اخلاق کو دنیا اپناتی، سانچے کو اپنی ہیئت تبدیل کرنا نہیں ہوتی لیکن جب اس کے اندر مرکب ڈالا جاتا ہے تو وہ سانچے کی بناوٹ کے حساب سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ پاکستان ایک فلاحی، اسلامی، جمہوری ریاست ہے پاکستان قطعاً سیکولر اسٹیٹ نہیں ہے۔ میرے ناقص مطالعے کے مطابق 112 بار قائد اعظم نے پاکستان کو ایک فلاحی، جمہوری اور اسلامی ریاست کہا ہے، ہمارے یہاں بعض حضرات 11 اگست 1947 پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو قائد اعظم نے فرمایا تھا اس میں سیکولرازم تلاش کرکے سارے ہی فرمودات کو جھٹلا رہے ہیں۔قائد اعظم نے وہ تقریر مدینہ کو سامنے رکھ کر کی تھی نا کہ ایک سیکولر آدمی کی حیثیت سے۔
میڈیا نے پچھلے دس سالہ دور آمریت میں بہت سی اذیتیں سہی ہیں ، اس پر پابندیاں بھی لگی ہیں، اس کا بائیکاٹ بھی ہوا ہے لیکن صحافی حضرات پر جنہوں نے حق کو حق لکھا، چاہے ان کو پابند سلال ہی کیوں نہیں ہونا پڑا۔بلاشبہ صحافت ایک شعبہ ہے جس کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے M.A. Journalism ، M.M.C نجانے کیا کیا، لیکن پرچی سسٹم کے تحت جو اصل صحافی ہیں وہ اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں صرف یوں کہ ان کے پاس سفارش نہیں ہے۔