فرض بھی اور قرض بھی

حیثیت مجموعی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے مستقبل کو کس طرح محفوظ بناسکتے ہیں۔

mjgoher@yahoo.com

گزشتہ دوتین سالوں سے ملک کے طول وارض میں ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی بہیمانہ وارداتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور عام لوگوں کے علاوہ عسکری،مذہبی وسیاسی شخصیات اور اہم قومی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہ ارباب اقتدار کے لیے یقینا سخت تشویش اور فکرمندی کا باعث ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی سنگین ودلخراش واقعہ ہونا معمول بنتا جارہا ہے، جس میں معصوم و بے گناہ لوگ نشانہ بن جاتے ہیں، ملک کے 18 کروڑ عوام اپنی جان و مال ہر دو حوالوں سے شدید عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔کراچی،کوئٹہ، پشاور اور قبائلی علاقوں میں آگ و خون کا الاؤ روشن ہے۔

مذہبی، لسانی، سیاسی و دیگر وجوہ کی بنیاد پر قتل و غارت گری کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ قبائلی علاقوں میں ہمارے فوجی جوان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے مطابق دہشت گرد عناصر کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔ پانچ ہزارجوان شہید ہوچکے، اربوں ڈالر کے معاشی نقصانات نے قومی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، لیکن دہشت گردی پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

کیونکہ دہشت گرد عناصر زیادہ فعال، متحرک، منظم اور متحد نظر آتے ہیں جو اپنے مقصد اولیٰ کو پانے کے لیے ایسی جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ وقت مقررہ پر تمام تر سیکیورٹی حصارکو توڑ کر اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جب کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی بجائے دہشت گردوں کی گرفتاری اور انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے محض دہشت گردوں کی کسی امکانی کارروائی کی خبر دینے تک محدود نظر آتی ہے کہ فلاں فلاں جگہ اور فلاں تاریخوں میں دہشت گردی کا خطرہ ہے اور بس۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح دہشت گردی کے خوفناک عفریت پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ یہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی ہی کا نتیجہ تھا کہ اس ملک کی عظیم لیڈر محترمہ بے نظیربھٹو جیسی جرأت مند ولبرل آواز کو خاموش کردیا گیا کیونکہ وہ دہشت گردوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور اب گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے سینئر صوبائی وزیر اور اے این پی کے ممتاز رہنما جو دہشت گرد عناصر کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے تھے کو خودکش حملے میں شہید کردیا گیا۔

خاک وخون میں لتھڑی ہوئی بیشتر وارداتوں کی طرح بشیر بلور کو خودکش حملے میں شہید کرنے کی ذمے داری بھی تحریک طالبان پاکستان نے تسلیم کرتے ہوئے خبردار بھی کردیا ہے کہ وہ موجودہ سیکولر نظام کے ''بدکرداروں'' کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے مزید کارروائیاں بھی کریں گے گویا انھوں نے یہ طے کر لیا ہے ان کی ''شریعت '' اور ''طریقت'' کے مطابق جو بھی شخص سر تسلیم خم نہیں کرے گا وہ اسے ''واصل جہنم'' کرکے اپنا گھر ''جنت'' میں بنانے کا ''نیک فریضہ'' ادا کرتے رہیں گے۔ یہ صورت حال قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے یقینا ایک کھلا چیلنج ہے۔


ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کس کی جان محفوظ رہے گی ؟ کیونکہ اس ملک کے صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، وکلاء، ڈاکٹرز، تاجروں، دانشوروں، مزدوروں،کسانوں اور عام لوگوں کی غالب اکثریت ترقی پسند اور روشن خیالات کی حامل ہے اور علامہ اقبال وقائد اعظم کے فکر و فلسفے اور نظریے کی روشنی میں ترقی پسند اور خوشحال پاکستان کے خواہاں ہیں اور دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے سخت خلاف ہیں۔ بشیر احمد بلور بھی اسی روشن خیال قبیلے کے نقیب تھے۔ وہ پختون روایات کے مطابق جرأت، بہادری، بے خوفی اور دلیری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر رہے اور بالآخر شہادت کو گلے لگالیا۔

بشیر بلور کی اپنے لوگوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ صوبے میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقع رونما ہوتا تو وہ میاں افتخار حسین کے ہمراہ، سیکیورٹی خطرات کے باوجود وہاں پہنچ جاتے، اس حوالے سے میاں افتخارحسین کی جرأت و بہادری اور دہشت گردی کے خلاف ان کی قربانیوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ انھوں نے اپنا جواں سال اکلوتا بیٹا کھو دیا، لیکن بیٹے کی شہادت کے بعد دہشت گردی کے خلاف ان کا عزم اور جواں ہوگیا اور وہ بھی اپنے صوبے میں پامردی کے ساتھ شدت پسندوں کے سامنے کھڑے ہیں۔

بعینہ بشیر بلور کے صاحب زادوں نے بھی اپنے والد کی شہادت پر بڑی ہمت وحوصلے سے کام لیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دہشت گرد عناصر کے خلاف سینہ سپر رہیں گے۔ بشیر بلور کا ایمان تھا کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ گھر میں نہیں آسکتی۔ بشیر بلور پر اس سے قبل بھی تین مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوچکا تھا، لیکن وہ محفوظ رہے، تاہم اس دن دشمنوں کو اپنے مقصد میں کامیابی مل گئی اور وہ بلور صاحب کو خودکش حملے میں نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

شہید بشیر بلور نے سوات امن معاہدے میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا تھا ان کی خواہش تھی کہ کسی صورت ملک اور صوبے میں امن قائم ہوجائے، لیکن جب فریق دوئم نے امن معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سوات آپریشن کرنا پڑا، بشیر بلور کو دھمکیاں ملتی رہیں، لیکن انھوں نے بے خوفی سے دہشت گردی کے خلاف علم جہاد بلند کیے رکھا، وہ کہتے تھے کہ دہشت گرد رہیں گے یا ہم۔ ان کی ثابت قدمی نے انھیں شہادت کے مرتبے پر فائز کردیا جو صوبہ پختون کے لیے بلاشبہ بڑا نقصان ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا، کب تک لوگوں کا خون بہتا رہے گا، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ امریکا کی ہے یا اب یہ ہماری بقا و سلامتی کی جنگ ہے، اس بحث میں رہنمائے قوم کب تک تقسیم رہیں گے؟ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بشیر بلور کی فاتحہ خوانی کے موقعے پر کہا ہے کہ بشیر بلور نے جس جنگ میں جان کا نذرانہ پیش کیا اسے ہم جیتیں گے اور بلاشبہ ہمیں یہ جنگ جیتنا ہی ہوگی، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، وکلاء، تاجر، طلباء، دانشور، صحافی، ادیب اور تمام محب وطن اور اہل الرائے حلقوں کو اپنے اختلافات بھلاکر ملک وقوم کی خاطر متحد و منظم ہوکر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی۔

متفقہ لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، قومی مفاد کی خاطر سب کو لچکدار رویوں کو اپنانا ہوگا، ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ہمیں بحیثیت مجموعی یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے مستقبل کو کس طرح محفوظ بناسکتے ہیں، ہم انھیں کیسا پاکستان دینا چاہتے ہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم کا روشن خیال ترقی کرتا ہوا مستحکم پاکستان یا لہو میں ڈوبا ہوا، فرقہ واریت پسندی کا شکار، سوختہ و منتشر پاکستان؟ یاد رکھیے اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی حفاظت ہم پر فرض ہے اور قرض بھی۔
Load Next Story