نسل در نسل
لوگوں کو بی بی کی قیادت پر اعتماد تھا اسی طرح بی بی کے وارث ہونے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد اب بلاول کے ساتھ ہوگا۔
SAN DIEGO, CA, US:
جنرل ضیاء آمریت کا ایک سیاہ ترین دور تھا ۔اس عہد ستم میںجبر و تشدد اور مظالم ناصرف روا رکھے گئے بلکہ انسانی حقوق کو بڑی بے رحمی سے پامال کیا گیا۔جنرل ضیاء کی آمریت کی اس سیاہ رات میں ایک تاریخ ساز اعلان کیا گیا کہ'' ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے''۔ یہ آواز بہادر اور جرات مند خاتون بیگم نصرت بھٹو کی تھی۔ انھوں نے جنرل ضیا کے مارشل لا کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اپنے قول کو صحیح ثابت کیا اور پارٹی کے کارکنوں نے بیگم صاحبہ کی قیادت میں فوجی آمر کی وحشیانہ بربریت کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جس عزم و استقلال کے ساتھ جنرل ضیا کے جبروتشدد کا مقابلہ کیا اس سے بھی کارکنوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ بے نظیر بھٹو شہید نے بیگم صاحبہ کے قول کو سچ ثابت کیا۔ اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے بی بی کے پانچویں یوم شہادت پر بیگم نصرت بھٹو کے اسی اعلان کا ان الفاظ میں اعادہ کیا ہے کہ ''ہم جمہوریت لائے ہیں اور ہم ہی جمہوریت کی حفاظت کریں گے'' ان الفاظ میں بیگم صاحبہ کے اسی اعلان کی روح بولتی ہے کہ ''ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔'' آج اگر بی بی زندہ ہوتیں تو یقینا انھیں اپنے بیٹے پر فخر ہوتا۔
بلاول شروع ہی سے عالمی میڈیا کا مرکز نگاہ رہے۔1989میں بلاول بھٹو انتہائی کم سن تھے جب ان کی عظیم والدہ وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو شہید انھیں امریکا کے سرکاری دورے پر اپنے ساتھ لے کر گئیں۔ اس بات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں ایک خاکہ ضرور موجود تھا کہ بلاول کو ایک دن سیاست میں آنا ہے جس کے لیے وہ بلاول کو تیار کرنا چاہتی تھیں۔ بحیثیت وزیر اعظم بی بی کی گود میں ان کے کم سن بیٹے کو دیکھنے سے عالمی سطح پر ایک خوشگوار اور انسان دوست تاثر پیدا ہوا۔
دنیا نے دیکھا کہ وہ نہ صرف ایک وزیراعظم تھیں بلکہ ایک پیار کرنے والی ماں بھی ہیں۔بلاول جب ایک سال کا تھا تو وزیر ا عظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بلاول کے ساتھ اپنی تصویر پرراقم کے نام بلاول کی طرف سے آٹو گراف نوٹ میں لکھا تھا؛ Dear uncle Bashir , will you be my spokesman when i grew up اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بلاول کو ان لوگوں کا ساتھ تو میسر نہ آئے گا جو ان کی والدہ کے ساتھ تھے لیکن بلاول کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ اب لوگوں کی توقعات زیادہ تر بلاول ہی سے وابستہ ہیں۔جس طرح لوگوں کو بی بی کی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد تھا اسی طرح بی بی کے وارث ہونے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد اب بلاول کے ساتھ ہوگا۔
یہ وہی اعتماد ہے جو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا تھا۔ کچھ لوگ اسے سیاسی وراثت کہتے ہیں لیکن دراصل یہ اس سیاسی شعور اورعوام دوستی کا تسلسل ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام کو دیا۔ اب بلاول اسی سیاسی شعور اور عوامی قیادت کی ایک علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ درست ہے بلاول بھٹو زرداری حکومت میں شامل بعض لوگوں سے نا آشنا ہیں لیکن بلاول کو اس سلسلے میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ لوگ بی بی سے ملاقات کرنے آتے تب بلاول بھی ان سے ملتے تھے۔ اس طرح سیاسی طور پر نہیں تو ذہنی طور پر بلاول ان لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ لوگ بھی شہید بی بی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے بلاول سے بہت وابستگی رکھتے ہیں۔
لہٰذا چاہے مخدوم امین فہیم ہوں یا جہانگیر بدر، پرانے سیاسی کارکن ہوں یا نئے پارٹی ورکرز ، سب بلاول کا ساتھ دیںگے۔ یہ سب لوگ بھٹو صاحب اوربی بی کی نظریاتی اور سیاسی وراثت کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں جسے بلاول کی قیادت میں یہ مزید مضبوط بنائیں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ بلاول وہ شہید بی بی کے سیاسی جانشین ثابت ہوں گے۔ انھوں نے شہید بی بی کے افکار، نظریات اورحالات کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ یہ ایک عظیم ذمے داری ہے جو ان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔بی بی کی خواہش یہ تھی کہ بلاول پہلے اپنی تعلیم مکمل کر لیں یقینا انھیں سیاسی تربیت تو دی جا رہی تھی اور بی بی انھیں کہتی رہتی تھیں کہ پارٹی کے بارے میں جانو، پارٹی کے منشور کو پڑھو۔لہٰذا بلاول نے ہر چیز پڑھی۔
انھوں نے بی بی شہید کی تمام تحریریں پڑھی ہیں، ہر موضوع کے بارے میں علم حاصل کیا ہے اور اب وہ سیاسی لحاظ سے مکمل بالغ ہو چکے ہیں۔ وہ خود کو مستقبل کی بھاری ذمے داریوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ بلاول جانتے ہیں کہ شہید بی بی کی سیاسی Legacy کو انھیں جاری رکھنا ہے۔اس مشن میں جو خطرات بی بی کو درپیش رہے وہی بلاول کو بھی درپیش ہو سکتے ہیں کیونکہ سیاسی اورنظریاتی لحاظ سے بلاول بے نظیر بھٹو شہید اورذوالفقار علی بھٹو کا جانشین ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خطرات کا سامنا کرنے کی اہلیت اور جذبہ رکھتے ہیں۔ بلاول نے شہید بی بی کی برسی کے موقع پر اپنی تقریر میں عزم و استقلال کا اظہار کیا ہے ۔ ان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی ذہانت نظر آتی ہے اور بھٹو صاحب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
پانچ جنوری جناب ذوالفقار علی بھٹو کا یوم ولادت ہے، اس دن پارٹی کے ادنیٰ واعلیٰ کارکن ملک بھر میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور گڑھی خدابخش میں بھٹو صاحب کا مزار ان کی سیاسی عقیدت ومحبت کا مرکز ہے۔ آج ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری سیاست کے عملی میدان میں آچکے ہیں، اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور اپنی والدہ بی بی شہید کی سیاسی وراثت کے امین کے طور پر پاکستان کی نوجوان نسل کی قیادت سنبھال کر عوام کے حقوق کی اسی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کی راہ میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ، والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ماموں میرمرتضیٰ بھٹو وشاہنواز بھٹو نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔
جنرل ضیاء آمریت کا ایک سیاہ ترین دور تھا ۔اس عہد ستم میںجبر و تشدد اور مظالم ناصرف روا رکھے گئے بلکہ انسانی حقوق کو بڑی بے رحمی سے پامال کیا گیا۔جنرل ضیاء کی آمریت کی اس سیاہ رات میں ایک تاریخ ساز اعلان کیا گیا کہ'' ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے''۔ یہ آواز بہادر اور جرات مند خاتون بیگم نصرت بھٹو کی تھی۔ انھوں نے جنرل ضیا کے مارشل لا کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اپنے قول کو صحیح ثابت کیا اور پارٹی کے کارکنوں نے بیگم صاحبہ کی قیادت میں فوجی آمر کی وحشیانہ بربریت کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جس عزم و استقلال کے ساتھ جنرل ضیا کے جبروتشدد کا مقابلہ کیا اس سے بھی کارکنوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ بے نظیر بھٹو شہید نے بیگم صاحبہ کے قول کو سچ ثابت کیا۔ اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے بی بی کے پانچویں یوم شہادت پر بیگم نصرت بھٹو کے اسی اعلان کا ان الفاظ میں اعادہ کیا ہے کہ ''ہم جمہوریت لائے ہیں اور ہم ہی جمہوریت کی حفاظت کریں گے'' ان الفاظ میں بیگم صاحبہ کے اسی اعلان کی روح بولتی ہے کہ ''ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔'' آج اگر بی بی زندہ ہوتیں تو یقینا انھیں اپنے بیٹے پر فخر ہوتا۔
بلاول شروع ہی سے عالمی میڈیا کا مرکز نگاہ رہے۔1989میں بلاول بھٹو انتہائی کم سن تھے جب ان کی عظیم والدہ وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو شہید انھیں امریکا کے سرکاری دورے پر اپنے ساتھ لے کر گئیں۔ اس بات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں ایک خاکہ ضرور موجود تھا کہ بلاول کو ایک دن سیاست میں آنا ہے جس کے لیے وہ بلاول کو تیار کرنا چاہتی تھیں۔ بحیثیت وزیر اعظم بی بی کی گود میں ان کے کم سن بیٹے کو دیکھنے سے عالمی سطح پر ایک خوشگوار اور انسان دوست تاثر پیدا ہوا۔
دنیا نے دیکھا کہ وہ نہ صرف ایک وزیراعظم تھیں بلکہ ایک پیار کرنے والی ماں بھی ہیں۔بلاول جب ایک سال کا تھا تو وزیر ا عظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بلاول کے ساتھ اپنی تصویر پرراقم کے نام بلاول کی طرف سے آٹو گراف نوٹ میں لکھا تھا؛ Dear uncle Bashir , will you be my spokesman when i grew up اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بلاول کو ان لوگوں کا ساتھ تو میسر نہ آئے گا جو ان کی والدہ کے ساتھ تھے لیکن بلاول کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ اب لوگوں کی توقعات زیادہ تر بلاول ہی سے وابستہ ہیں۔جس طرح لوگوں کو بی بی کی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد تھا اسی طرح بی بی کے وارث ہونے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد اب بلاول کے ساتھ ہوگا۔
یہ وہی اعتماد ہے جو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا تھا۔ کچھ لوگ اسے سیاسی وراثت کہتے ہیں لیکن دراصل یہ اس سیاسی شعور اورعوام دوستی کا تسلسل ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام کو دیا۔ اب بلاول اسی سیاسی شعور اور عوامی قیادت کی ایک علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ درست ہے بلاول بھٹو زرداری حکومت میں شامل بعض لوگوں سے نا آشنا ہیں لیکن بلاول کو اس سلسلے میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ یہ لوگ بی بی سے ملاقات کرنے آتے تب بلاول بھی ان سے ملتے تھے۔ اس طرح سیاسی طور پر نہیں تو ذہنی طور پر بلاول ان لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ لوگ بھی شہید بی بی کا بیٹا ہونے کی وجہ سے بلاول سے بہت وابستگی رکھتے ہیں۔
لہٰذا چاہے مخدوم امین فہیم ہوں یا جہانگیر بدر، پرانے سیاسی کارکن ہوں یا نئے پارٹی ورکرز ، سب بلاول کا ساتھ دیںگے۔ یہ سب لوگ بھٹو صاحب اوربی بی کی نظریاتی اور سیاسی وراثت کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں جسے بلاول کی قیادت میں یہ مزید مضبوط بنائیں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ بلاول وہ شہید بی بی کے سیاسی جانشین ثابت ہوں گے۔ انھوں نے شہید بی بی کے افکار، نظریات اورحالات کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ یہ ایک عظیم ذمے داری ہے جو ان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔بی بی کی خواہش یہ تھی کہ بلاول پہلے اپنی تعلیم مکمل کر لیں یقینا انھیں سیاسی تربیت تو دی جا رہی تھی اور بی بی انھیں کہتی رہتی تھیں کہ پارٹی کے بارے میں جانو، پارٹی کے منشور کو پڑھو۔لہٰذا بلاول نے ہر چیز پڑھی۔
انھوں نے بی بی شہید کی تمام تحریریں پڑھی ہیں، ہر موضوع کے بارے میں علم حاصل کیا ہے اور اب وہ سیاسی لحاظ سے مکمل بالغ ہو چکے ہیں۔ وہ خود کو مستقبل کی بھاری ذمے داریوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ بلاول جانتے ہیں کہ شہید بی بی کی سیاسی Legacy کو انھیں جاری رکھنا ہے۔اس مشن میں جو خطرات بی بی کو درپیش رہے وہی بلاول کو بھی درپیش ہو سکتے ہیں کیونکہ سیاسی اورنظریاتی لحاظ سے بلاول بے نظیر بھٹو شہید اورذوالفقار علی بھٹو کا جانشین ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خطرات کا سامنا کرنے کی اہلیت اور جذبہ رکھتے ہیں۔ بلاول نے شہید بی بی کی برسی کے موقع پر اپنی تقریر میں عزم و استقلال کا اظہار کیا ہے ۔ ان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی ذہانت نظر آتی ہے اور بھٹو صاحب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
پانچ جنوری جناب ذوالفقار علی بھٹو کا یوم ولادت ہے، اس دن پارٹی کے ادنیٰ واعلیٰ کارکن ملک بھر میں انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور گڑھی خدابخش میں بھٹو صاحب کا مزار ان کی سیاسی عقیدت ومحبت کا مرکز ہے۔ آج ان کے نواسے بلاول بھٹو زرداری سیاست کے عملی میدان میں آچکے ہیں، اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور اپنی والدہ بی بی شہید کی سیاسی وراثت کے امین کے طور پر پاکستان کی نوجوان نسل کی قیادت سنبھال کر عوام کے حقوق کی اسی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کی راہ میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ، والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ماموں میرمرتضیٰ بھٹو وشاہنواز بھٹو نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔