پروفیسر غفور احمد بھی یہی کہتے……
عوام اور فوج بیرونی خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن اندرونی طور پر۔
زیادہ پرانی بات نہیں، یہی کوئی صدی پون صدی کا قصہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست عبادت کا درجہ رکھتی تھی اور اس میں ہندوستان کے کسی علاقے کسی مذہب یا مسلک کے ماننے والے کی تخصیص نہیں تھی۔ہندو، مسلمان، سکھ، پارسی، حد تو یہ ہے کہ چند منصف مزاج انگریز اوروہ عیسائی جنہوںنے تاج برطانیہ کے سائے میں اپنا مذہب بدلا تھا، وہ بھی سیاست کے میدان میں آئے تو ان کی نظر کسی منصب، کسی عہدے پر نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے اپنے دائرے میں عام لوگوں کی زندگیاں بدلنا چاہتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ خلقِ خدا کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔ موہن داس گاندھی،محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبدالغفارخان، مولانا محمد علی، جی ایم سید، اشفاق اللہ خان، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان، مسز اینی بیسنٹ، لالہ لاجپت رائے، سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، سروجنی نائیڈو، دادا بھائی نوروجی،ارونا آصف علی، بھگت سنگھ اور ان کے علاوہ سیکڑوں، ہزاروں اہم نام ہیں۔
ہندوستان پر تاج برطانیہ کا راج تھا اور انگریز بہادر کے خیال میں ہندوستانیوں کا سیاست کے میدان میں اترنا خطرے کی گھنٹی تھی۔ انگریز مجسٹریٹ اور ڈی ایس پی سے لے کر وائسرائے تک سب ہی ان لوگوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے جو کوچۂ سیاست کا رخ کریں۔ ہندوستان تاج برطانیہ میں کوہ نور کی حیثیت رکھتا تھا اور اس میں کسی سیاسی خلفشار کے خیال سے برطانوی سرکار کو خوف آتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کامعرض وجود میں آنا ہو یا غدر پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی اور ایسی ہی دوسری متعدد تنظیمیں اورسیاسی گروہ، سب ہی پر گہری اور کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ کسی سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا تو مقدمے، جیل کی کوٹھریاں اور کھولیاں اس کی منتظر رہتیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں کیسے کیسے جوہر قابل جان سے گئے اور کتنوں نے اپنی زندگی کی تمام آسائشیں برصغیر کی آزادی اور جمہوریت کے لیے قربان کردیں۔
بیسویں صدی کے اس تاریخی اور سیاسی پس منظر میں 1927ء کی کسی تاریخ کو وہ یوپی کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ متوسط طبقے کا دیندار گھرانا۔ اکائونٹس کی ڈگریاں لیں، پاکستان آئے اور 1953ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ 1947ء کے بعد ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والوں کی اکثریت مرغِ باد نما ہوچکی تھی، وہاں انھوں نے کئی معاملات پراپنی قیادت سے اختلاف کیا اورکچھ دنوں کے لیے کنارہ کشی بھی اختیار کی لیکن کبھی حرف ِ احتجاج ان کے لبوں پر نہ آیا۔ وہ آخری سانس تک جماعت سے وابستہ رہے اور اسی کے لیے کام کرتے رہے۔
یہ تھے مرحوم پروفیسر غفور احمد۔ ایک مرنجاں مرنج، حلیم الطبع، منکسر المزاج، شریف النفس انسان۔ نظریاتی وفاداری ان کی زندگی کا خاصہ تھی اور انھوں نے کبھی اقتدار کا تعاقب نہیں کیا۔ غفور صاحب اگر اپنے لوگوں کے ہجوم میں نہ ہوتے اور کہیں آتے جاتے نظر آتے تو کسی کو گمان بھی نہ گزرتا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بادشاہ گر کی حیثیت اختیار کرجانے والی جماعت کا ایک نہایت اہم اور ذمے دار شخص برابر سے گزر گیا ہے۔
ان کی ذاتی خوبیاں بے شمار تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود ہر مکتبہ فکر کے ماننے والے ان کا احترام کرتے تھے۔ چند دنوں پہلے جب وہ اس جہان سے گزرے تو ان کا سوگ صرف جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ہی نہیں منایا۔ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اعتدال پسند افراد بھی ان کی رخصت پر دل گرفتہ ہوئے۔ ایسے لوگ اور وہ بھی سیاست کے خار زار میں اب خال خال پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کسی مناقشے اور معرکے کی صورت حال میں دیانتداری سے ثالثی کرتے ہیں اور دونوں فریق اگر ان کے فیصلے سے متفق نہ بھی ہوں تب بھی تلخ گفتگو اور آتش زیر پا ہونے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ملک جس سیاسی مدوجزر سے گزرا، اس میں جماعت اسلامی کا کردار بے حد اہم تھا۔ پروفیسر صاحب اپنی جماعت کے صف اول کے رہنمائوں میں تھے ۔1973ء کے آئین کی تشکیل اور ترتیب میں ان کا کردار رہا اور جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو معزول کرکے سیاسی انتشار کا آغاز کیا تو اس کے بعد کے معاملات اور واقعات میں وہ براہ راست شامل رہے۔ یہ وہ معاملات تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب مرتب کیے اور جن سے آج بھی ہم نجات حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے 1977ء سے جنرل پرویز مشرف کے دور تک کے واقعات اور معاملات کی وقایع نگاری سال بہ سال کی اور ہمارے لیے کئی کتابوں کی صورت میں اس ہنگامہ خیز دور کی تاریخ چھوڑ گئے۔یہ وہی تھے جنہوں نے کھل کر یہ بات کہی تھی کہ بھٹو صاحب اور حزب اختلاف کے درمیان نزاعی معاملات طے ہوچکے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔
5 جولائی 1977ء سے 15 اکتوبر 1979ء تک کے واقعات کو وہ پاکستان کی قومی زندگی کا اہم دور کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں پاکستان قومی اتحاد ٹوٹا، بکھرا اور منشتر ہوا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ چلا، سزائے موت سنائی گئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔ جس میں افواج پاکستان کے نام پرکیے جانے والے پختہ اور بار بار دہرائے ہوئے وعدے کسی احساس ندامت کے بغیر توڑے گئے۔ جس میں حتمی تاریخوں کے اعلان کے باوجود دو مرتبہ انتخابات ملتوی کیے گئے، جس میں اسلامی نظام کے نفاذ کے اعلان کے باوجود معاشرہ میں برائیوں کو فروغ حاصل ہوتا رہا، جس میں بدعنوان عناصر محاسبہ کے عمل سے صاف بچ نکلے اور ملک کے بنیادی ادارے مسلسل مضحمل اور کمزور ہوتے گئے۔
اپنی کتاب ''اور الیکشن نہ ہوسکے'' میں اس دور کی سازشوں کو انھوں نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ 1977ء میں سیاست دانوں کے درمیان مفاہمت پر جس طرح شب خون مارا گیا تھا اس سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے ان کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ملک میں نافذ ہونے والا تیسرا مارشل لاء سوا دو سال کے عرصے میں دو مرتبہ انتخابات ملتوی کرکے اپنی زندگی کے تیسرے دور میں داخل ہوگیا۔ اپنے ہاتھوں میں کلی اختیارات مرتکز ہونے اور معتدل عناصر کی حمایت رکھنے کے باوجود وہ اپنے کسی وعدے کو کو بھی پورا نہ کرسکا۔ برائیاں کم ہونے یا ختم ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوگئیں۔ قومی ادارے غیر مؤثر اور مفلوج ہوکر رہ گئے۔ تخریبی عناصر پلتے اور بڑھتے گئے۔ اس مرتبہ انتخابات دنوں،مہینوں یا برسوں کے لیے ملتوی نہیں کیے گئے بلکہ انھیں اس اعلان کے ساتھ عملاً منسوخ کردیا گیا کہ اب آیندہ اقدامات مغربی جمہوریت کے تسلسل کے لیے نہیں بلکہ اسلامی شورائی نظام کے لیے ہوں گے۔ جس کام کا بیڑا جنرل ضیاء 5 جولائی کو اسلام کے ایک سچے سپاہی کی حیثیت سے اٹھایا تھا اس کے حصول میں وہ صرف ناکام ہی ثابت نہیں ہوئے بلکہ اب صدر ضیاء نے اس سے ہٹ کر بالکل ایک نیا راستہ اختیار کرلیا جس کا انھیں سرے سے کوئی قانونی، آئینی یا اخلاقی جواز حاصل نہیں تھا۔ صدر ضیاء کے اقتدار کوتو طول حاصل ہوگیا لیکن پوری قوم ایک نئی آزمائش سے دوچار ہوگئی۔
نظریاتی اعتبار سے پروفیسر صاحب، جنرل ضیاء کے قریب تر تھے، لیکن انھوں نے جس طرح بار بار اپنے وعدوں سے انحراف کیا، وہ ان کے لیے صدمے کا سبب تھا جس کا انھوں نے کھل کر اظہار کیا۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار حکومت دیکھے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے جس طرح اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا، وہ انھوں نے دل گرفتگی سے دیکھا۔ اس دور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام خطرات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکتا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اگر انتخابات کے بعد بھی جمہوریت کے قیام میں رکاوٹیں درپیش ہوں اور اقتدار فوج کے ہاتھوں ہی میں رہے تو 1971ء جیسے حالات پھر پیدا ہوسکتے ہیں۔ چھوٹے صوبوں میں علیحدہ پسندی کے رجحانات کو تقویت مل سکتی ہے اور اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش فوج کی دفاعی صلاحیت کو متاثرکرسکتی ہے۔ فوج سیاست میں ملوث رہے تو اس میں بھی خود غرض اور مفاد پرست سیاستدانوں جیسی خرابیاں اورکوتاہیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔''سب سے پہلے پاکستان'' کے نعرہ کو ''سب سے پہلے اقتدار'' میں تبدیل نہ کیاجائے۔ فوج کا سیاسی کردار ملکی استحکام، بقاء اور سلامتی کے لیے نیک فعال نہیں، عوام اور فوج بیرونی خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن اندرونی طور پر۔
انھوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جنرل مشرف سے نجات کے بعد ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔ پروفیسر طویل بیماری کے دن گزار کر ابدی نیند سوگئے ہیں لیکن آج پاکستان کی سیاست میں غیر ممالک سے آنے والے چھاتہ بردار جمہوریت پرچھاپہ مارنے کی کوشش کررہے ہیں ان سے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر اگر ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے کہ ہوشیار...خبردار...
ہندوستان پر تاج برطانیہ کا راج تھا اور انگریز بہادر کے خیال میں ہندوستانیوں کا سیاست کے میدان میں اترنا خطرے کی گھنٹی تھی۔ انگریز مجسٹریٹ اور ڈی ایس پی سے لے کر وائسرائے تک سب ہی ان لوگوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے جو کوچۂ سیاست کا رخ کریں۔ ہندوستان تاج برطانیہ میں کوہ نور کی حیثیت رکھتا تھا اور اس میں کسی سیاسی خلفشار کے خیال سے برطانوی سرکار کو خوف آتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کامعرض وجود میں آنا ہو یا غدر پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی اور ایسی ہی دوسری متعدد تنظیمیں اورسیاسی گروہ، سب ہی پر گہری اور کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ کسی سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوتا تو مقدمے، جیل کی کوٹھریاں اور کھولیاں اس کی منتظر رہتیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں کیسے کیسے جوہر قابل جان سے گئے اور کتنوں نے اپنی زندگی کی تمام آسائشیں برصغیر کی آزادی اور جمہوریت کے لیے قربان کردیں۔
بیسویں صدی کے اس تاریخی اور سیاسی پس منظر میں 1927ء کی کسی تاریخ کو وہ یوپی کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ متوسط طبقے کا دیندار گھرانا۔ اکائونٹس کی ڈگریاں لیں، پاکستان آئے اور 1953ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ 1947ء کے بعد ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والوں کی اکثریت مرغِ باد نما ہوچکی تھی، وہاں انھوں نے کئی معاملات پراپنی قیادت سے اختلاف کیا اورکچھ دنوں کے لیے کنارہ کشی بھی اختیار کی لیکن کبھی حرف ِ احتجاج ان کے لبوں پر نہ آیا۔ وہ آخری سانس تک جماعت سے وابستہ رہے اور اسی کے لیے کام کرتے رہے۔
یہ تھے مرحوم پروفیسر غفور احمد۔ ایک مرنجاں مرنج، حلیم الطبع، منکسر المزاج، شریف النفس انسان۔ نظریاتی وفاداری ان کی زندگی کا خاصہ تھی اور انھوں نے کبھی اقتدار کا تعاقب نہیں کیا۔ غفور صاحب اگر اپنے لوگوں کے ہجوم میں نہ ہوتے اور کہیں آتے جاتے نظر آتے تو کسی کو گمان بھی نہ گزرتا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بادشاہ گر کی حیثیت اختیار کرجانے والی جماعت کا ایک نہایت اہم اور ذمے دار شخص برابر سے گزر گیا ہے۔
ان کی ذاتی خوبیاں بے شمار تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود ہر مکتبہ فکر کے ماننے والے ان کا احترام کرتے تھے۔ چند دنوں پہلے جب وہ اس جہان سے گزرے تو ان کا سوگ صرف جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ہی نہیں منایا۔ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اعتدال پسند افراد بھی ان کی رخصت پر دل گرفتہ ہوئے۔ ایسے لوگ اور وہ بھی سیاست کے خار زار میں اب خال خال پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کسی مناقشے اور معرکے کی صورت حال میں دیانتداری سے ثالثی کرتے ہیں اور دونوں فریق اگر ان کے فیصلے سے متفق نہ بھی ہوں تب بھی تلخ گفتگو اور آتش زیر پا ہونے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ملک جس سیاسی مدوجزر سے گزرا، اس میں جماعت اسلامی کا کردار بے حد اہم تھا۔ پروفیسر صاحب اپنی جماعت کے صف اول کے رہنمائوں میں تھے ۔1973ء کے آئین کی تشکیل اور ترتیب میں ان کا کردار رہا اور جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو معزول کرکے سیاسی انتشار کا آغاز کیا تو اس کے بعد کے معاملات اور واقعات میں وہ براہ راست شامل رہے۔ یہ وہ معاملات تھے جنہوں نے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب مرتب کیے اور جن سے آج بھی ہم نجات حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے 1977ء سے جنرل پرویز مشرف کے دور تک کے واقعات اور معاملات کی وقایع نگاری سال بہ سال کی اور ہمارے لیے کئی کتابوں کی صورت میں اس ہنگامہ خیز دور کی تاریخ چھوڑ گئے۔یہ وہی تھے جنہوں نے کھل کر یہ بات کہی تھی کہ بھٹو صاحب اور حزب اختلاف کے درمیان نزاعی معاملات طے ہوچکے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔
5 جولائی 1977ء سے 15 اکتوبر 1979ء تک کے واقعات کو وہ پاکستان کی قومی زندگی کا اہم دور کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں پاکستان قومی اتحاد ٹوٹا، بکھرا اور منشتر ہوا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ چلا، سزائے موت سنائی گئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔ جس میں افواج پاکستان کے نام پرکیے جانے والے پختہ اور بار بار دہرائے ہوئے وعدے کسی احساس ندامت کے بغیر توڑے گئے۔ جس میں حتمی تاریخوں کے اعلان کے باوجود دو مرتبہ انتخابات ملتوی کیے گئے، جس میں اسلامی نظام کے نفاذ کے اعلان کے باوجود معاشرہ میں برائیوں کو فروغ حاصل ہوتا رہا، جس میں بدعنوان عناصر محاسبہ کے عمل سے صاف بچ نکلے اور ملک کے بنیادی ادارے مسلسل مضحمل اور کمزور ہوتے گئے۔
اپنی کتاب ''اور الیکشن نہ ہوسکے'' میں اس دور کی سازشوں کو انھوں نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ 1977ء میں سیاست دانوں کے درمیان مفاہمت پر جس طرح شب خون مارا گیا تھا اس سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے ان کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ملک میں نافذ ہونے والا تیسرا مارشل لاء سوا دو سال کے عرصے میں دو مرتبہ انتخابات ملتوی کرکے اپنی زندگی کے تیسرے دور میں داخل ہوگیا۔ اپنے ہاتھوں میں کلی اختیارات مرتکز ہونے اور معتدل عناصر کی حمایت رکھنے کے باوجود وہ اپنے کسی وعدے کو کو بھی پورا نہ کرسکا۔ برائیاں کم ہونے یا ختم ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوگئیں۔ قومی ادارے غیر مؤثر اور مفلوج ہوکر رہ گئے۔ تخریبی عناصر پلتے اور بڑھتے گئے۔ اس مرتبہ انتخابات دنوں،مہینوں یا برسوں کے لیے ملتوی نہیں کیے گئے بلکہ انھیں اس اعلان کے ساتھ عملاً منسوخ کردیا گیا کہ اب آیندہ اقدامات مغربی جمہوریت کے تسلسل کے لیے نہیں بلکہ اسلامی شورائی نظام کے لیے ہوں گے۔ جس کام کا بیڑا جنرل ضیاء 5 جولائی کو اسلام کے ایک سچے سپاہی کی حیثیت سے اٹھایا تھا اس کے حصول میں وہ صرف ناکام ہی ثابت نہیں ہوئے بلکہ اب صدر ضیاء نے اس سے ہٹ کر بالکل ایک نیا راستہ اختیار کرلیا جس کا انھیں سرے سے کوئی قانونی، آئینی یا اخلاقی جواز حاصل نہیں تھا۔ صدر ضیاء کے اقتدار کوتو طول حاصل ہوگیا لیکن پوری قوم ایک نئی آزمائش سے دوچار ہوگئی۔
نظریاتی اعتبار سے پروفیسر صاحب، جنرل ضیاء کے قریب تر تھے، لیکن انھوں نے جس طرح بار بار اپنے وعدوں سے انحراف کیا، وہ ان کے لیے صدمے کا سبب تھا جس کا انھوں نے کھل کر اظہار کیا۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار حکومت دیکھے اور پھر جنرل پرویز مشرف نے جس طرح اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا، وہ انھوں نے دل گرفتگی سے دیکھا۔ اس دور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام خطرات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکتا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اگر انتخابات کے بعد بھی جمہوریت کے قیام میں رکاوٹیں درپیش ہوں اور اقتدار فوج کے ہاتھوں ہی میں رہے تو 1971ء جیسے حالات پھر پیدا ہوسکتے ہیں۔ چھوٹے صوبوں میں علیحدہ پسندی کے رجحانات کو تقویت مل سکتی ہے اور اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش فوج کی دفاعی صلاحیت کو متاثرکرسکتی ہے۔ فوج سیاست میں ملوث رہے تو اس میں بھی خود غرض اور مفاد پرست سیاستدانوں جیسی خرابیاں اورکوتاہیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔''سب سے پہلے پاکستان'' کے نعرہ کو ''سب سے پہلے اقتدار'' میں تبدیل نہ کیاجائے۔ فوج کا سیاسی کردار ملکی استحکام، بقاء اور سلامتی کے لیے نیک فعال نہیں، عوام اور فوج بیرونی خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن اندرونی طور پر۔
انھوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جنرل مشرف سے نجات کے بعد ایک منتخب جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے۔ پروفیسر طویل بیماری کے دن گزار کر ابدی نیند سوگئے ہیں لیکن آج پاکستان کی سیاست میں غیر ممالک سے آنے والے چھاتہ بردار جمہوریت پرچھاپہ مارنے کی کوشش کررہے ہیں ان سے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر اگر ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے کہ ہوشیار...خبردار...