شناختی کارڈ کا حق
نادرا کے ایک ڈائریکٹر جنرل کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور ملک بھر سے خاصے ملازمین برطرف ہوئے۔
شاہ نور تقسیمِ ہند سے پہلے یوپی کے شہرکان پور کے ایک گاؤں گونجے پور میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان کے ہمراہ 1954ء میں جب وہ اوکاڑہ آئے تو ان کی عمر 16سال تھی۔ شاہ نور نے اوکاڑہ ٹیکسٹائل ملز میں مزدورکی حیثیت سے عملی زندگی کا آغازکیا اور جلد ہی مزدور تحریک کا حصہ بن گئے۔ ان کی شادی 1962ء میں ہوئی اور وہ 1963ء میں کراچی آگئے۔ سائٹ میں مزدوروں کی کچی آبادی بنارس کالونی میں ایک جھگی میں زندگی شروع کی۔
شاہ نور نے پہلے لانڈھی کے گل احمد ٹیکسٹائل ملز میں ملازمت کی، پھر سائٹ کی مختلف ٹیکسٹائل ملوں میں ملازمتیں کرتے رہے۔ شاہ نور جلد ہی سائٹ میں بائیں بازوکی مزدور تحریک کا حصہ بن گئے۔ عثمان بلوچ، واحد بشیر اور یاورخان وغیرہ کے ساتھ مل کر متحدہ مزدور فیڈریشن قائم کی۔ متحدہ مزدور فیڈریشن نے 70ء کی دہائی میں مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کی۔ شاہ نورکو اپنی اس جدوجہد کے عوض قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ جب کے ڈی اے نے 1969ء میں بنارس کالونی کی کچی بستی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو انھیں اورنگی ٹاؤن سیکٹر ون ڈی میں 80 گز کا پلاٹ ملا۔
شاہ نور نے اس پلاٹ پر 3 کمروں کا مکان تعمیرکیا۔ بجلی کے میٹر لگوائے اور واٹر بورڈ نے پانی کا کنکشن دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں ان کا اور ان کی اہلیہ کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہوا تھا۔ اب تک جتنی دفعہ مردم شماری ہوئی ہے شاہ نور، ان کی اہلیہ اور تین بچوں کا اندراج ہوا ہے۔
جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے شناختی کارڈ کی اسکیم شروع کی تو قانون کی پاسداری کرنے والے شہری کی حیثیت سے شاہ نور نے اپنا اور اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ بنوایا اور اپنے بچوں کا ب فارم میں اندراج کرایا۔ پھر جب نادرا نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنانے شروع کیے تو شاہ نور ایک دفعہ پھر شناختی کارڈ کے دفتر میں لائن میں لگ گئے اور ان کا شناختی کارڈ بن گیا۔ پھر ان کے بیٹے کی شادی کے بعد میاں بیوی کے شناختی کارڈ بنے اور بچوں کے ب فارم بھی تیار ہوئے۔
شاہ نور کے شناختی کارڈ کی معیاد گزشتہ سال ختم ہوگئی۔ شاہ نور علی الصبح اورنگی میں شناختی کارڈ کے دفتر پہنچ گئے۔ دوپہر سے پہلے ان کا نمبر آیا مگر شناختی کارڈ آفس کے انچارج نے شاہ نور کو بتایا کہ اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے انھیں اپنے والد صاحب کا شناختی کارڈ جمع کرانا ہوگا۔ شاہ نور کے والد صاحب جب حیات تھے تو برطانوی ہند اور پھر نئے ملک پاکستان میں شناختی کارڈ کی اسکیم شروع نہیں ہوئی تھی اور ان کے والد شناختی کارڈ حاصل کرنے سے قبل انتقال کرگئے تھے۔ شاہ نور اپنے خاندان کے بزرگ ہیں مگر اپنے والد کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناء پر وہ نئے شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔ اگلے ماہ مردم شماری ہوگی۔
شاہ نور اپنا نیا شناختی کارڈ پیش نہیں کرسکیں گے، یوں ان کا اندراج نہیں ہوگا۔ مردم شماری کی فہرست میں نام نہ درج ہونے سے ان کا نام ووٹر لسٹ میں بھی شامل نہیں ہوگا۔ شاہ نور ووٹر نہیں ہونگے۔ پھر معاملہ صرف ووٹر کا نہیں ہے، شاہ کا ایک بینک اکاؤنٹ ہے۔ نیا شناختی کارڈ نہ ہونے پر یہ اکاؤنٹ منجمد ہوجائے گا۔ پھر وہ بیمار رہتے ہیں۔ اسپتال میں داخلے کے لیے بھی شناختی کارڈ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس بناء پر شاہ نور کے لیے اسپتال کے دروازے بند ہوچکے۔
اسی طرح وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید بھی نہیں کرپائیں گے اور وہ جائیداد جو ان کے نام ہے اسے بھی وہ فروخت نہیں کرسکیں گے۔ شاہ نور مزدوروں کے مقدمات کے لیے لیبر کورٹ جاتے ہیں۔ اب وہ مزدور کے حق میں بیان حلفی بھی داخل کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر اگر رات گئے پولیس والوں نے انھیں سڑک پر روک کیا تو شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناء پر انھیں رات تھانے میں گزارنی پڑسکتی ہے۔ یہ کہانی صرف شاہ نور کی نہیں ہے بلکہ کراچی کی غریب بستیوں کے لاکھوں افراد کی ہے جن کو مختلف وجوہات کی بناء پر شناختی کارڈ نہیں جاری کیے جارہے۔
کراچی ویسٹ میں بلوچوں کی قدیم بستی حسن اولیاء ولیج کے مکین بھی پریشان ہیں۔ اس ولیج کی آبادی سو برس سے یہاں آباد ہے۔ نادرا کے حکام ان بلوچوں سے ان کے والدین کے شناختی کارڈ مانگ رہے ہیں۔ اسی بناء پر پرانے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں کی جارہی۔ اورنگی اور دیگر بستیوں میں شناختی کارڈ کے دفاتر پر زبردست ہجوم لگا رہتا ہے۔ مرد اور عورتیں سردی کی راتوں میں نادرا کے دفتر پر قطاریں لگاتے ہیں۔ صبح 9:00 بجے اس دفتر میں کام شروع ہوتا ہے۔
رینجرز کے سپاہی صرف 50 افراد کو دفتر میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دفتر سے مایوسی کی حالات میں نکلتے ہیں۔لیاری میں اس بھی زیادہ صورتحال بدترین ہے، وہاں فجر کی نماز سے قبل لائن لگتی ہے، مگر لوگ پھر بھی نمبر نہ آنے پر فارم جمع نہیں کرا سکتے۔ سابق رکن سندھ اسمبلی سید امداد حسین شاہ کی بیٹی عارفہ بی بی کئی بار نادرا کے لیاری دفتر سے ناکام لوٹی ہیں، حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں ان کے پاکستان کے شہری ہونے کے دستاویزات پیش کرنا لازمی ہوا۔
اس فیصلے سے افغانی، بنگالی، برمی اور دیگر غیر ملکی باشندوں کو متاثر ہونا تھا مگر بعض پاکستانی شہری شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہوگئے ہیں۔شناختی کارڈ کی تیاری کا عمل 70 ء کی دہائی سے پیچیدہ رہا۔ شناختی کارڈ کے افسران گریڈ 17 اور اوپر کے افسر ،کونسلر، ناظم کی تصدیق اور یوٹیلٹی بلزکی جانچ پڑتال کے بعد شناختی کارڈ تیار کرتے تھے۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے نادرا کا خودمختار ادارہ وجود میں آیا۔ اب دفاتر کی تعداد بڑھ گئی اور امراء کے علاقوں میں ایگزیکٹو دفاتر قائم ہوئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حقیقی لوگوں کے ہی شناختی کارڈ بننے چاہیے تھے مگر نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ بدعنوانی کی سطح بلند ہوگئی۔ اب افغانی، برمی، بنگالی اوردیگر ممالک کے شہریوں کو آسانی سے کارڈ ملنے لگے۔ خاص طور پرافغانی اور بنگالی باشندوں کے لیے تو تمام حدود ختم ہوگئیں۔ یہ جعلی شناختی کارڈ نادرا میں بھی تیار ہوئے اور عملہ ان جعلی دستاویزات کے عوض لاکھوں کروڑوں روپے کماتا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو چوہدری نثار علی خان وزیر داخلہ کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان نے نادرا میں اصلاحات شروع کیں۔
نادرا کے ایک ڈائریکٹر جنرل کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور ملک بھر سے خاصے ملازمین برطرف ہوئے۔ نادرا نے ملک کے بہت سے علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کیے۔ اس طرح عام آدمی کو آسانی ہوگئی۔ پھر پوش علاقوں میں نادرا کے ایگزیکٹو دفاتر قائم ہوئے۔ نادرا نے ایم ایم ایس اور ہاٹ لائن کے ذریعے لوگوں کو ان کے شناختی کارڈ کے بارے میں اطلاعات فرہم کرنے شروع کیں۔ یوںشہریوںکے لیے آسانیاں پیدا ہوئیں مگر نادرا کی غیر ملکیوں کے خلاف مہم کا نشانہ پاکستانی شہری بھی بن رہے ہیں ۔آج کے دور میں شناختی کارڈ کا مطلب پاکستانی قومیت کی تصدیق ہے۔ پاکستانی قومیت کی تصدیق کے بعد شہری دیگر فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
وفاق پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری سے پہلے شہریوں کو شناختی کارڈ سے محروم کرنے کا مطلب کراچی کی آبادی کوکم ظاہرکرنا ہے۔ یوں یہ لوگ ووٹر نہیں بن سکیں گے اور کم آبادی پر سندھ کی نیشنل فنائنس کمیشن ایوارڈ میں گرانٹ میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ 30برسوں سے آباد بنگالی اور برمی نژاد افراد کے شناختی کارڈ منجمد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حکومت کے پاس نئی آبادی سے متعلق اعداد وشمار حاصل ہوتے ہیں۔ حکومت اس طرح نئے لوگوں کی بنیادی سہولتوں کے لیے منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔
جرمنی میں مقیم پاکستانی طالب علم محمد ریاض خان کا کہنا ہے کہ جرمنی کی حکومت ہرفرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اس کی رجسٹریشن لازمی کرتی ہے۔ اس طرح حکومت کے پاس مکمل اعدادوشمار حاصل ہوتے ہیں مگر پاکستانی حکومت شناختی کارڈ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ایک طرف تو شہریوں کو بنیادی ذمے داریوں سے محروم کرتی ہے تو دوسری طرف معاشرے میں نئے تضادات ابھرکر سامنے آتے ہیں۔ عام آدمی کا ریاستی اداروں پر اعتماد ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔
شاہ نور نے پہلے لانڈھی کے گل احمد ٹیکسٹائل ملز میں ملازمت کی، پھر سائٹ کی مختلف ٹیکسٹائل ملوں میں ملازمتیں کرتے رہے۔ شاہ نور جلد ہی سائٹ میں بائیں بازوکی مزدور تحریک کا حصہ بن گئے۔ عثمان بلوچ، واحد بشیر اور یاورخان وغیرہ کے ساتھ مل کر متحدہ مزدور فیڈریشن قائم کی۔ متحدہ مزدور فیڈریشن نے 70ء کی دہائی میں مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کی۔ شاہ نورکو اپنی اس جدوجہد کے عوض قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ جب کے ڈی اے نے 1969ء میں بنارس کالونی کی کچی بستی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو انھیں اورنگی ٹاؤن سیکٹر ون ڈی میں 80 گز کا پلاٹ ملا۔
شاہ نور نے اس پلاٹ پر 3 کمروں کا مکان تعمیرکیا۔ بجلی کے میٹر لگوائے اور واٹر بورڈ نے پانی کا کنکشن دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں ان کا اور ان کی اہلیہ کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہوا تھا۔ اب تک جتنی دفعہ مردم شماری ہوئی ہے شاہ نور، ان کی اہلیہ اور تین بچوں کا اندراج ہوا ہے۔
جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے شناختی کارڈ کی اسکیم شروع کی تو قانون کی پاسداری کرنے والے شہری کی حیثیت سے شاہ نور نے اپنا اور اپنی اہلیہ کا شناختی کارڈ بنوایا اور اپنے بچوں کا ب فارم میں اندراج کرایا۔ پھر جب نادرا نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنانے شروع کیے تو شاہ نور ایک دفعہ پھر شناختی کارڈ کے دفتر میں لائن میں لگ گئے اور ان کا شناختی کارڈ بن گیا۔ پھر ان کے بیٹے کی شادی کے بعد میاں بیوی کے شناختی کارڈ بنے اور بچوں کے ب فارم بھی تیار ہوئے۔
شاہ نور کے شناختی کارڈ کی معیاد گزشتہ سال ختم ہوگئی۔ شاہ نور علی الصبح اورنگی میں شناختی کارڈ کے دفتر پہنچ گئے۔ دوپہر سے پہلے ان کا نمبر آیا مگر شناختی کارڈ آفس کے انچارج نے شاہ نور کو بتایا کہ اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے انھیں اپنے والد صاحب کا شناختی کارڈ جمع کرانا ہوگا۔ شاہ نور کے والد صاحب جب حیات تھے تو برطانوی ہند اور پھر نئے ملک پاکستان میں شناختی کارڈ کی اسکیم شروع نہیں ہوئی تھی اور ان کے والد شناختی کارڈ حاصل کرنے سے قبل انتقال کرگئے تھے۔ شاہ نور اپنے خاندان کے بزرگ ہیں مگر اپنے والد کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناء پر وہ نئے شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔ اگلے ماہ مردم شماری ہوگی۔
شاہ نور اپنا نیا شناختی کارڈ پیش نہیں کرسکیں گے، یوں ان کا اندراج نہیں ہوگا۔ مردم شماری کی فہرست میں نام نہ درج ہونے سے ان کا نام ووٹر لسٹ میں بھی شامل نہیں ہوگا۔ شاہ نور ووٹر نہیں ہونگے۔ پھر معاملہ صرف ووٹر کا نہیں ہے، شاہ کا ایک بینک اکاؤنٹ ہے۔ نیا شناختی کارڈ نہ ہونے پر یہ اکاؤنٹ منجمد ہوجائے گا۔ پھر وہ بیمار رہتے ہیں۔ اسپتال میں داخلے کے لیے بھی شناختی کارڈ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس بناء پر شاہ نور کے لیے اسپتال کے دروازے بند ہوچکے۔
اسی طرح وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید بھی نہیں کرپائیں گے اور وہ جائیداد جو ان کے نام ہے اسے بھی وہ فروخت نہیں کرسکیں گے۔ شاہ نور مزدوروں کے مقدمات کے لیے لیبر کورٹ جاتے ہیں۔ اب وہ مزدور کے حق میں بیان حلفی بھی داخل کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر اگر رات گئے پولیس والوں نے انھیں سڑک پر روک کیا تو شناختی کارڈ نہ ہونے کی بناء پر انھیں رات تھانے میں گزارنی پڑسکتی ہے۔ یہ کہانی صرف شاہ نور کی نہیں ہے بلکہ کراچی کی غریب بستیوں کے لاکھوں افراد کی ہے جن کو مختلف وجوہات کی بناء پر شناختی کارڈ نہیں جاری کیے جارہے۔
کراچی ویسٹ میں بلوچوں کی قدیم بستی حسن اولیاء ولیج کے مکین بھی پریشان ہیں۔ اس ولیج کی آبادی سو برس سے یہاں آباد ہے۔ نادرا کے حکام ان بلوچوں سے ان کے والدین کے شناختی کارڈ مانگ رہے ہیں۔ اسی بناء پر پرانے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں کی جارہی۔ اورنگی اور دیگر بستیوں میں شناختی کارڈ کے دفاتر پر زبردست ہجوم لگا رہتا ہے۔ مرد اور عورتیں سردی کی راتوں میں نادرا کے دفتر پر قطاریں لگاتے ہیں۔ صبح 9:00 بجے اس دفتر میں کام شروع ہوتا ہے۔
رینجرز کے سپاہی صرف 50 افراد کو دفتر میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دفتر سے مایوسی کی حالات میں نکلتے ہیں۔لیاری میں اس بھی زیادہ صورتحال بدترین ہے، وہاں فجر کی نماز سے قبل لائن لگتی ہے، مگر لوگ پھر بھی نمبر نہ آنے پر فارم جمع نہیں کرا سکتے۔ سابق رکن سندھ اسمبلی سید امداد حسین شاہ کی بیٹی عارفہ بی بی کئی بار نادرا کے لیاری دفتر سے ناکام لوٹی ہیں، حکومت نے غیر ملکی باشندوں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں ان کے پاکستان کے شہری ہونے کے دستاویزات پیش کرنا لازمی ہوا۔
اس فیصلے سے افغانی، بنگالی، برمی اور دیگر غیر ملکی باشندوں کو متاثر ہونا تھا مگر بعض پاکستانی شہری شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہوگئے ہیں۔شناختی کارڈ کی تیاری کا عمل 70 ء کی دہائی سے پیچیدہ رہا۔ شناختی کارڈ کے افسران گریڈ 17 اور اوپر کے افسر ،کونسلر، ناظم کی تصدیق اور یوٹیلٹی بلزکی جانچ پڑتال کے بعد شناختی کارڈ تیار کرتے تھے۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے نادرا کا خودمختار ادارہ وجود میں آیا۔ اب دفاتر کی تعداد بڑھ گئی اور امراء کے علاقوں میں ایگزیکٹو دفاتر قائم ہوئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حقیقی لوگوں کے ہی شناختی کارڈ بننے چاہیے تھے مگر نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ بدعنوانی کی سطح بلند ہوگئی۔ اب افغانی، برمی، بنگالی اوردیگر ممالک کے شہریوں کو آسانی سے کارڈ ملنے لگے۔ خاص طور پرافغانی اور بنگالی باشندوں کے لیے تو تمام حدود ختم ہوگئیں۔ یہ جعلی شناختی کارڈ نادرا میں بھی تیار ہوئے اور عملہ ان جعلی دستاویزات کے عوض لاکھوں کروڑوں روپے کماتا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو چوہدری نثار علی خان وزیر داخلہ کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان نے نادرا میں اصلاحات شروع کیں۔
نادرا کے ایک ڈائریکٹر جنرل کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور ملک بھر سے خاصے ملازمین برطرف ہوئے۔ نادرا نے ملک کے بہت سے علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کیے۔ اس طرح عام آدمی کو آسانی ہوگئی۔ پھر پوش علاقوں میں نادرا کے ایگزیکٹو دفاتر قائم ہوئے۔ نادرا نے ایم ایم ایس اور ہاٹ لائن کے ذریعے لوگوں کو ان کے شناختی کارڈ کے بارے میں اطلاعات فرہم کرنے شروع کیں۔ یوںشہریوںکے لیے آسانیاں پیدا ہوئیں مگر نادرا کی غیر ملکیوں کے خلاف مہم کا نشانہ پاکستانی شہری بھی بن رہے ہیں ۔آج کے دور میں شناختی کارڈ کا مطلب پاکستانی قومیت کی تصدیق ہے۔ پاکستانی قومیت کی تصدیق کے بعد شہری دیگر فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
وفاق پر تحقیق کرنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری سے پہلے شہریوں کو شناختی کارڈ سے محروم کرنے کا مطلب کراچی کی آبادی کوکم ظاہرکرنا ہے۔ یوں یہ لوگ ووٹر نہیں بن سکیں گے اور کم آبادی پر سندھ کی نیشنل فنائنس کمیشن ایوارڈ میں گرانٹ میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا ہے کہ 30برسوں سے آباد بنگالی اور برمی نژاد افراد کے شناختی کارڈ منجمد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حکومت کے پاس نئی آبادی سے متعلق اعداد وشمار حاصل ہوتے ہیں۔ حکومت اس طرح نئے لوگوں کی بنیادی سہولتوں کے لیے منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔
جرمنی میں مقیم پاکستانی طالب علم محمد ریاض خان کا کہنا ہے کہ جرمنی کی حکومت ہرفرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اس کی رجسٹریشن لازمی کرتی ہے۔ اس طرح حکومت کے پاس مکمل اعدادوشمار حاصل ہوتے ہیں مگر پاکستانی حکومت شناختی کارڈ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ایک طرف تو شہریوں کو بنیادی ذمے داریوں سے محروم کرتی ہے تو دوسری طرف معاشرے میں نئے تضادات ابھرکر سامنے آتے ہیں۔ عام آدمی کا ریاستی اداروں پر اعتماد ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔