سانحہ لاہور اور ہمارے حکمران

پاکستان میں ہزاروں بے گناہ شہری خود کش حملوں‘ بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔

latifch910@yahoo.com

میں گزشتہ دنوں تھائی لینڈ اور ملائیشیا گیا تھا' سوچا تھا کہ اس سیر و سیاحت کی چند خوشگوار یادیں آپ سے شیئر کروں گا لیکن سانحہ لاہور نے سب کچھ تلپٹ کر دیا' اس سفر کے بارے میں پھر کبھی سہی' آج سانحہ لاہور پر بات کرتے ہیں۔

سچی بات ہے کہ اس سانحہ پر دل درد سے بھر گیا ہے لیکن مجھے دہشت گردوں' ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں پر غصہ نہیں آ رہا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ دشمن ہی کیا جو آنسو نہ رُلا سکے' دشمن نے وار کیا' اس سے یہی توقع تھی' غصہ تو اپنے حکمرانوں کی کوڑھ مغزی' بزدلی' عاقبت نااندیشی اور مفاد پرستی پر آتا ہے۔ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف کو یہ پتہ نہیں ہے کہ دشمن ہے اور کہاں چھپا ہوا ہے' حساس اداروں نے حقائق ضرور ان کے سامنے آشکار کیے ہوں گے۔ مسئلہ صرف جراتمندی کا ہے' جس کا مظاہرہ کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔

یہاں تو حالت یہ ہے کہ گرفتار دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے جن فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا' ان کی آئینی مدت ختم ہوئے' کم و بیش ایک ماہ ہو گیا ہے لیکن ہمارے جمہوری اسٹیک ہولڈرز اس بارے میں تاحال فیصلہ نہیں کر سکے' اندازہ لگائیں ہمارے جمہوریت پسندوں کے ویژن اور دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں سنجیدگی کا۔ کیا دہشت گرد خوش نہیں ہو رہے ہوں گے؟ فاٹا اصلاحات پر تدبر کا عالم یہ ہے کہ ایک دو سیاسی اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس قدر سنجیدہ معاملے کو بھی التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور ادارہ جاتی قیادت آج بھی ابہام اور مصلحت اندیشی کا شکار ہے' دہشت گردی اور انتہا پسندی ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کی ترجیحات میں آخری فہرست میں تو ہو سکتی ہے' پہلی فہرست میں نہیں ہے' کوئی سیاسی جماعت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بیانیے کے متبادل بیانیے کی وکالت نہیں کرتی اور نہ ہی ادارہ جاتی سطح پر ایسا کیا جا رہا ہے' تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور نہ ہی آئین کی بعض شقوں کو بدلنے کی جرات کی جا رہی ہے' محض بیان بازی ہے' اجلاس ہیں اور بڑھک بازی ہے۔اور جب کوئی سانحہ ہو جائے تو شام غریباں برپا کر لی جاتی ہے' اس کے سوا کچھ نہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے سانحہ کوئٹہ پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آئی تھی' اس رپورٹ میں جن مسائل' کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی' ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور انھیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی لیکن ایسا ہو انھیں بلکہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا۔


مجھے کوئٹہ انکوائری کمیشن کے مینڈیٹ کا علم ہے نہ اس کا پتہ کہ جناب چوہدری صاحب سے کمیشن نے کیا پوچھا اور انھوں نے کیا جواب دیا لیکن میرا سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں؟ کیا ہمارا انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے مائنڈ سیٹ تبدیل ہوا یا ابہام جوں کا توں ہے۔

پاکستان میں ہزاروں بے گناہ شہری خود کش حملوں' بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو چکے ہیں' ان میں فوجی جوان اور افسر ' اے پی ایس پشاور اسکول کے معصوم طلبہ اور ٹیچر ' چارسدہ یونیورسٹی کے طلبہ ' کوئٹہ کے وکلاء ، ہزارہ قومیت کے افراد ، لاہور' کراچی میں بیسیوں خود کش حملوں کی نذر ہونے والے سیکڑوں مرد بوڑھے' بچے اور جوان شامل ہیں۔ہزاروں معذور ہیں۔ اتنے دلفگارسانحے گزرنے کے باوجود اگر دہشت گردوں اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکی تو اس کا قصور وار کون ہے؟ اگر کوئی ڈھیلی ڈھالی پالیسی بنی بھی ہے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا' اس کا قصور وار کون ہے؟

اگر حکومت، اس کے وزراء یا ریاستی ادارے یہ جواز پیش کریں کہ فلاں واردات کو روکنا فلاں کی ذمے داری تھی' میری نہیں تھی' تو اس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے،'' آپ کی عظمت کو سلام''۔ ایک سانحہ کے بعد اگر اداروں کے درمیان رابطہ کاری کے حوالے سے کوئی ابہام سامنے آتا ہے یا ذمے داری کے تعین یا دائرہ کار کے حوالے سے کوئی قانونی' آئینی سقم یا خامی ہے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے' ہر سانحہ کے بعد ہوجاتا ہے تو پھر اعلیٰ سطح کے اجلاس شروع ہو جاتے ہیں' دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات جاری ہوتے ہیں' سرکاری سطح پر سوگ کے اعلانات ہوتے'یہاں تک کہ قاتلوں کے ہمدرد بھی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں' پھر چند روز کے بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے اور اگلے سانحے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔

ملک کے سرکاری اداروں کے افسروں اور ملازموں کی تنخواہیں اور الاؤنس پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیے جاتے ہیں' اب جو جمہوری حکومت قائم ہے' اس کے صدر' گورنرز، وزرائے اعلیٰ ، وزیراعظم سے لے کر وزراء، معاونیں و مشیران تک جو تنخواہیں' مراعات حاصل کر رہے ہیں' وہ بھی عوام ہی ادا کر رہے ہیں۔

سینٹ' قومی اسمبلی، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اسمبلیوں کے ارکان صاحبان کی تنخواہیں اور مراعات بھی اسی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا ہوتی ہیں۔ اب تو ہمارے منتخب نمایندوں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے' ان عوامی نمایندوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے لہٰذا تنخواہیں نہ بڑھائی جائیں لیکن مجال ہے کہ عوام کے نمایندے کو عوام کا خیال آیا ہو۔ اس بدلے میں عوام کو کیا ملا۔ لاشیں' غربت و بے روز گاری' جعلی دوائیاں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔

آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ دہشت گرد طاقتور ہیں نہ بلا کے ذہین' بس ہم ہی بے حوصلہ اور مفادات کے اسیر ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ رومن سلطنت کا زوال وحشی ہنوں کے حملوں کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ رومن حکمرانوں کی بزدلی' زر پرستی اور ایک دوسرے سے دغا بازی کے باعث ہوا۔ اس سے آگے کیا کہوں۔
Load Next Story