حکومت کی ترجیحات اور اپوزیشن
موجودہ حکمرانوں کواقتدار میں آئے ہوئے ابھی ساڑھے تین سال ہی گزرے ہیں۔
ہماری اپوزیشن میں خاص کر پاکستان تحریکِ انصاف کی لیڈرشپ اور اُس کے ورکرز موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔اُنہیں اِس حکومت کا کوئی کام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ حکومت اگر ہائی ویز اورموٹرویز بنائے تو اُنہیں اعتراض، فلائی اوورز اور انڈر پاسز بھی ان کی طبع نازک پہ گراں۔ غریب عوام کے لیے میٹروبس کی اُنہیں تکلیف۔ سی پیک منصوبے میں بھی بد نیتی کے پہلو تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بجلی اورتوانائی کے بڑے بڑے پروجیکٹس میں اُنہیں کرپشن اورکک بیکس دکھائی دینے لگتا ہے۔
اُن کی توجیح یہ ہے کہ قوم و ملک کی ترقی سڑکیں اور شاہراہیں بنانے سے ممکن نہیں ہوتی۔ تعلیم اورصحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ ہمارے یہاںتعلیم اور صحت کی سہولتوں کافقدان ہے اورحکومت اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ایسے بڑے بڑے منصوبے شروع کررہی ہے۔گویا وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ عوام ایسی چیزوں سے متاثر ہوکر اُس پارٹی کو ووٹ دیا کرتے ہیں۔ ورنہ اگر اِن سارے ترقیاتی کاموں سے عام آدمی کا بھلا نہ ہوتا تو وہ پھر اُسے کیونکر ووٹ دیا کرتے۔یہ خدشہ اُنہیں بری طرح گھیرے ہوئے ہے۔ وہ خوداپنے صوبے میں کوئی ایسا کارنامہ یاکرشمہ تو نہیں دکھا پائے ہیں لیکن کسی دوسرے کو بھی ترقی اورخوشحالی کے منصوبوں پر عمل کرتا نہیں دیکھ سکتے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی میں وہاں کے انفرا اسٹرکچر کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔آج ہم ''سی پیک'' کوکیوں ایک گیم چینجر کا نام دے کر اُسے اِس ملک کے بہتر اورروشن مستقبل کاضامن قرار دے رہے ہیں۔سی پیک ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو سڑکوں اورشاہراہوں کے ذریعے گوادرکو چین کے شہرکاشغر سے ملائے گا۔اِس طویل روٹ پر بجلی اورتوانائی کے پروجیکٹس لگائے جارہے ہیں۔ وہاں ابھی کسی اسپتال یا اسکول کی تعمیر زیرِغور نہیں ہے، مگر یہ پھر بھی سارے صوبوں کی توجہ کا اہم مرکز بنا ہوا ہے۔ ہر صوبہ اُس سے مستفید ہونا چاہ رہا ہے۔
خود خان صاحب تمام اختلافات کے باوجود اِس منصوبے کے روشن اور مفید پہلوؤں سے انکار نہیں کر پارہے ہیں۔یہی حال دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ پیپلز پارٹی تو خود کو اِس منصوبے کا اصل محرک اورخالق قرار دے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہوکہ یہ منصوبہ اُن کے سابقہ دور میں تجویزکیا گیا ہو، لیکن اِس پر تیزی سے عملدرآمدکا سہرا یقینا موجودہ حکمرانوں کے سرہی جائے گا۔
کسی قوم کی ترقی وخوشحالی کے لیے تعلیم اورصحت کی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینا ایک ضروری امر ہے۔ ہمیں اِس کی اہمیت وافادیت سے انکار ہرگز نہیں ہے، لیکن یہ کام حکومت کے علاوہ نجی شعبہ اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی کیے جاسکتے ہیں اورکیے بھی جا رہے ہیں، مگر انفراسٹرکچرکی ساری ذمے داری اُس ملک کے حکمرانوں پر ہوتی ہے۔ یہ کام نجی شعبے کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔ وہ اسکول،یونیورسٹیاں اوراسپتال تو تعمیرکرسکتے ہیں لیکن موٹرویزاورہائی ویز نہیں بناسکتے۔
ہمارے سامنے جاپان کی بہت اچھی مثال موجود ہے، جہاں سب سے پہلے انفراسٹرکچر پر توجہ دی گئی اورسارے ملک کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو ہائی ویز،موٹرویز اور ریلوے کے ذریعے جوڑدیا گیا۔پھرکیا تھاسرمایہ دار خود بخود اپنا سرمایہ لے کر دورراز کے علاقوں تک پہنچ گیا۔کارخانے، ملیں اورصنعتیں لگائی گئیں۔ لوگوں کو روزگارکے مواقعے فراہم کیے گئے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ اسپتال بنائے گئے۔ رفتہ رفتہ سارا ملک خوشحال ہوگیا۔
گویا ثابت ہوا کہ کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے وہاں کے انفرااسٹرکچر یعنی ذرایع آمدو رفت، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ہماری اپوزیشن بھی اِس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہے لیکن وہ اگر تنقید نہ کرے تو پھر یہ کام کون کرے گا۔یہ اُس کی فطرت بھی ہے اور سیاسی مجبوری بھی۔
موجودہ حکمرانوں کواقتدار میں آئے ہوئے ابھی ساڑھے تین سال ہی گزرے ہیں۔ اِس مختصر عرصے میں اُس نے بہت سے اہم کام کرڈالے ہیں۔ 2013ء سے قبل ہمارے ملک دہشتگردی کے چنگل میں بری طرح پھنساہوا تھا۔ روزانہ بم دھماکے اور خودکش حملے ہواکرتے تھے۔ شہرکراچی بھی بدامنی کی آگ میں جھلس رہا تھااورکوئی پرسان حال نہ تھا۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا کا امن وامان کی درستگی اوردہشتگردی کے خاتمے کا کیا۔خدا کے فضل وکرم سے وہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب وسرخرو ہوئی۔ آج حالات یکسر مختلف ہیں ۔دہشتگردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہمارا ملک مایوسیوں اور نااُمیدیوںکے بھنور سے نکل کر روشن مستقبل کے جانب رواں دواں ہے۔
حکمرانوں کی دوسری ترجیح انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ ترقی وخوشحالی کے سفر پرگامزن ہونا تھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی اُس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وہ 2018ء تک اِس پر قابو پانے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل اور سرگرداںہے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے بعد وہ صحتِ عامہ اور تعلیم وتربیت کے منصوبے بھی بنا رہی ہے۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے سارے ملک میں 44اسپتالوں کی تعمیرکی منظوری بھی دے دی ہے۔ جس کے بعد ہمارے عوام کاصحت سے متعلق یہ دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔
ہر سیاسی پارٹی اور اُس کی قیادت کی ترجیحات میں فرق ہوا کرتا ہے۔ میاں صاحب کی نظر میں ترقی و خوشحالی کے لیے سڑکوں ،شاہراہوں اورموٹرویز کی تعمیر بہت ضروری ہیں ۔وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں اپنایہ مشن نئے عزم وحوصلے کے ساتھ پھر سے شروع کردیتے ہیں۔ ہوسکتا شاید دوسرے سیاستدانوں کی نظر میں یہ ثانوی حیثیت کے حامل ہوں۔ وہ پہلے ایجوکیشن اورصحت عامہ کو ترجیح دینا چاہتے ہوں، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ تعلیم اورصحت کی سہولتوں کے دعویداروں نے اپنے دورِاقتدار میں اِس جانب کتنی توجہ دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اِس حکومت سے پہلے پورے پانچ سال ملے تھے اُس نے تعلیم اورصحت عامہ کے شعبے میں کون سے کارنامے سر انجام دیے۔ نہ اِس ملک کا انفرا اسٹرکچر تبدیل ہوا اور نہ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بدلی۔ترقیاتی کاموں کے لیے رکھا جانے والا سارا فنڈزکہاں خرد برد ہوگیا کسی کو پتا نہیں۔اب کم از کم عوام کا پیسہ عوام پرخرچ ہوتا تو دکھائی دے رہا ہے۔ میٹرو بس میں سفرکرنے والے امیر لوگ نہیں ہیں۔ یہ اِس ملک کے محنت کش غریب لوگ ہیں جو صرف بیس روپے ادا کرکے باعزت اور آرامدہ سفرکے حقدار بنادیے گئے ہیں، اگر اِس منصوبے کو کامیابی سے چلانے اوراِسے مستقل بنیادوں پر جاری وساری رکھنے کے لیے سبسڈی کے مد میں کچھ رقم قومی خزانے سے خرچ ہورہی ہے تو ہمارے خیال میں اِس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
یہ ہمارے عوام کاا ستحقاق ہے کہ اُس کے ادا کیے گئے ٹیکسوں اور پیسوں سے اُسے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ہماری اپوزیشن ہمیشہ یہ گلا کرتی رہتی ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا فائدہ ہمیشہ امیر اورمراعات یافتہ لوگوں کو ہواکرتا ہے۔ آج اگر میٹرو بس سروس سے اِس ملک کاغریب مستفید ہورہا ہے تو اِس پر اعتراض کیسا۔میاں نواز شریف کی حکومت کی ترجیحات پر اگرکسی کوکچھ اعتراضات اور تحفظات ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ غلط اورروپے پیسے کازیاں ہے تو پھر ڈرکس بات کا، عوام خود ہی اُسے اگلے الیکشن میں باہر کردیں گے۔
پھر اگر آپ کوموقعہ ملے تو جو چاہے کیجیے گا۔اسکول، یونیورسٹیاں بنائیں یا اسپتال اور دواخانے۔ یہ آپ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ابھی اِس حکومت کواُس کی ترجیحات اور منشورکے مطابق کام کرنے دیں۔ ہاں اگر اِن منصوبوں میں کرپشن کا کوئی پہلو نظر آجائے اور مستند شواہد وثبوت مل جائیں تو بے شک اُسے عدالت میں لے جاکر قرار واقعی سزا دیں۔جس طرح سابقہ زرداری دور میں رینٹل پاور، حج کرپشن،این آئی سی ایل اورای او بی آئی جیسے معاملات عدالتوں کی ذریعے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
اُن کی توجیح یہ ہے کہ قوم و ملک کی ترقی سڑکیں اور شاہراہیں بنانے سے ممکن نہیں ہوتی۔ تعلیم اورصحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ ہمارے یہاںتعلیم اور صحت کی سہولتوں کافقدان ہے اورحکومت اگلا الیکشن جیتنے کے لیے ایسے بڑے بڑے منصوبے شروع کررہی ہے۔گویا وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ عوام ایسی چیزوں سے متاثر ہوکر اُس پارٹی کو ووٹ دیا کرتے ہیں۔ ورنہ اگر اِن سارے ترقیاتی کاموں سے عام آدمی کا بھلا نہ ہوتا تو وہ پھر اُسے کیونکر ووٹ دیا کرتے۔یہ خدشہ اُنہیں بری طرح گھیرے ہوئے ہے۔ وہ خوداپنے صوبے میں کوئی ایسا کارنامہ یاکرشمہ تو نہیں دکھا پائے ہیں لیکن کسی دوسرے کو بھی ترقی اورخوشحالی کے منصوبوں پر عمل کرتا نہیں دیکھ سکتے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی میں وہاں کے انفرا اسٹرکچر کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔آج ہم ''سی پیک'' کوکیوں ایک گیم چینجر کا نام دے کر اُسے اِس ملک کے بہتر اورروشن مستقبل کاضامن قرار دے رہے ہیں۔سی پیک ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جو سڑکوں اورشاہراہوں کے ذریعے گوادرکو چین کے شہرکاشغر سے ملائے گا۔اِس طویل روٹ پر بجلی اورتوانائی کے پروجیکٹس لگائے جارہے ہیں۔ وہاں ابھی کسی اسپتال یا اسکول کی تعمیر زیرِغور نہیں ہے، مگر یہ پھر بھی سارے صوبوں کی توجہ کا اہم مرکز بنا ہوا ہے۔ ہر صوبہ اُس سے مستفید ہونا چاہ رہا ہے۔
خود خان صاحب تمام اختلافات کے باوجود اِس منصوبے کے روشن اور مفید پہلوؤں سے انکار نہیں کر پارہے ہیں۔یہی حال دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ پیپلز پارٹی تو خود کو اِس منصوبے کا اصل محرک اورخالق قرار دے رہی ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہوکہ یہ منصوبہ اُن کے سابقہ دور میں تجویزکیا گیا ہو، لیکن اِس پر تیزی سے عملدرآمدکا سہرا یقینا موجودہ حکمرانوں کے سرہی جائے گا۔
کسی قوم کی ترقی وخوشحالی کے لیے تعلیم اورصحت کی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینا ایک ضروری امر ہے۔ ہمیں اِس کی اہمیت وافادیت سے انکار ہرگز نہیں ہے، لیکن یہ کام حکومت کے علاوہ نجی شعبہ اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی کیے جاسکتے ہیں اورکیے بھی جا رہے ہیں، مگر انفراسٹرکچرکی ساری ذمے داری اُس ملک کے حکمرانوں پر ہوتی ہے۔ یہ کام نجی شعبے کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔ وہ اسکول،یونیورسٹیاں اوراسپتال تو تعمیرکرسکتے ہیں لیکن موٹرویزاورہائی ویز نہیں بناسکتے۔
ہمارے سامنے جاپان کی بہت اچھی مثال موجود ہے، جہاں سب سے پہلے انفراسٹرکچر پر توجہ دی گئی اورسارے ملک کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو ہائی ویز،موٹرویز اور ریلوے کے ذریعے جوڑدیا گیا۔پھرکیا تھاسرمایہ دار خود بخود اپنا سرمایہ لے کر دورراز کے علاقوں تک پہنچ گیا۔کارخانے، ملیں اورصنعتیں لگائی گئیں۔ لوگوں کو روزگارکے مواقعے فراہم کیے گئے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ اسپتال بنائے گئے۔ رفتہ رفتہ سارا ملک خوشحال ہوگیا۔
گویا ثابت ہوا کہ کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کے لیے وہاں کے انفرااسٹرکچر یعنی ذرایع آمدو رفت، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ہماری اپوزیشن بھی اِس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہے لیکن وہ اگر تنقید نہ کرے تو پھر یہ کام کون کرے گا۔یہ اُس کی فطرت بھی ہے اور سیاسی مجبوری بھی۔
موجودہ حکمرانوں کواقتدار میں آئے ہوئے ابھی ساڑھے تین سال ہی گزرے ہیں۔ اِس مختصر عرصے میں اُس نے بہت سے اہم کام کرڈالے ہیں۔ 2013ء سے قبل ہمارے ملک دہشتگردی کے چنگل میں بری طرح پھنساہوا تھا۔ روزانہ بم دھماکے اور خودکش حملے ہواکرتے تھے۔ شہرکراچی بھی بدامنی کی آگ میں جھلس رہا تھااورکوئی پرسان حال نہ تھا۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا کا امن وامان کی درستگی اوردہشتگردی کے خاتمے کا کیا۔خدا کے فضل وکرم سے وہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب وسرخرو ہوئی۔ آج حالات یکسر مختلف ہیں ۔دہشتگردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہمارا ملک مایوسیوں اور نااُمیدیوںکے بھنور سے نکل کر روشن مستقبل کے جانب رواں دواں ہے۔
حکمرانوں کی دوسری ترجیح انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ ترقی وخوشحالی کے سفر پرگامزن ہونا تھا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی اُس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وہ 2018ء تک اِس پر قابو پانے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل اور سرگرداںہے۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے بعد وہ صحتِ عامہ اور تعلیم وتربیت کے منصوبے بھی بنا رہی ہے۔ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے سارے ملک میں 44اسپتالوں کی تعمیرکی منظوری بھی دے دی ہے۔ جس کے بعد ہمارے عوام کاصحت سے متعلق یہ دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔
ہر سیاسی پارٹی اور اُس کی قیادت کی ترجیحات میں فرق ہوا کرتا ہے۔ میاں صاحب کی نظر میں ترقی و خوشحالی کے لیے سڑکوں ،شاہراہوں اورموٹرویز کی تعمیر بہت ضروری ہیں ۔وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں اپنایہ مشن نئے عزم وحوصلے کے ساتھ پھر سے شروع کردیتے ہیں۔ ہوسکتا شاید دوسرے سیاستدانوں کی نظر میں یہ ثانوی حیثیت کے حامل ہوں۔ وہ پہلے ایجوکیشن اورصحت عامہ کو ترجیح دینا چاہتے ہوں، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ تعلیم اورصحت کی سہولتوں کے دعویداروں نے اپنے دورِاقتدار میں اِس جانب کتنی توجہ دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اِس حکومت سے پہلے پورے پانچ سال ملے تھے اُس نے تعلیم اورصحت عامہ کے شعبے میں کون سے کارنامے سر انجام دیے۔ نہ اِس ملک کا انفرا اسٹرکچر تبدیل ہوا اور نہ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بدلی۔ترقیاتی کاموں کے لیے رکھا جانے والا سارا فنڈزکہاں خرد برد ہوگیا کسی کو پتا نہیں۔اب کم از کم عوام کا پیسہ عوام پرخرچ ہوتا تو دکھائی دے رہا ہے۔ میٹرو بس میں سفرکرنے والے امیر لوگ نہیں ہیں۔ یہ اِس ملک کے محنت کش غریب لوگ ہیں جو صرف بیس روپے ادا کرکے باعزت اور آرامدہ سفرکے حقدار بنادیے گئے ہیں، اگر اِس منصوبے کو کامیابی سے چلانے اوراِسے مستقل بنیادوں پر جاری وساری رکھنے کے لیے سبسڈی کے مد میں کچھ رقم قومی خزانے سے خرچ ہورہی ہے تو ہمارے خیال میں اِس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
یہ ہمارے عوام کاا ستحقاق ہے کہ اُس کے ادا کیے گئے ٹیکسوں اور پیسوں سے اُسے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ہماری اپوزیشن ہمیشہ یہ گلا کرتی رہتی ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا فائدہ ہمیشہ امیر اورمراعات یافتہ لوگوں کو ہواکرتا ہے۔ آج اگر میٹرو بس سروس سے اِس ملک کاغریب مستفید ہورہا ہے تو اِس پر اعتراض کیسا۔میاں نواز شریف کی حکومت کی ترجیحات پر اگرکسی کوکچھ اعتراضات اور تحفظات ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ غلط اورروپے پیسے کازیاں ہے تو پھر ڈرکس بات کا، عوام خود ہی اُسے اگلے الیکشن میں باہر کردیں گے۔
پھر اگر آپ کوموقعہ ملے تو جو چاہے کیجیے گا۔اسکول، یونیورسٹیاں بنائیں یا اسپتال اور دواخانے۔ یہ آپ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ابھی اِس حکومت کواُس کی ترجیحات اور منشورکے مطابق کام کرنے دیں۔ ہاں اگر اِن منصوبوں میں کرپشن کا کوئی پہلو نظر آجائے اور مستند شواہد وثبوت مل جائیں تو بے شک اُسے عدالت میں لے جاکر قرار واقعی سزا دیں۔جس طرح سابقہ زرداری دور میں رینٹل پاور، حج کرپشن،این آئی سی ایل اورای او بی آئی جیسے معاملات عدالتوں کی ذریعے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔