پاناما کیس میں کوئی فریق مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا سپریم کورٹ
پہلے دن سے جواب کے منتظر ہیں لیکن آپ ادھر ادھر چھلانگیں لگا رہے ہیں، جسٹس آصف سعید کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ
KARACHI:
پاناما کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ ہم سوالات زیادہ کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی فریق مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں شریف فیملی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس کے باعث شریف فیملی کا ریکارڈ غائب ہو گیا، جو ریکارڈ موجود ہے اس پر عدالت میں جواب دوں گا کیونکہ 45 سال پرانا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شاہی خاندان شریف فیملی کو تحائف بھی دیتے رہتے ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہیں یا شریف فیملی بھی تحائف دیتی ہے، اس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کا علم نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ1999 میں شریف خاندان کا ایک بچہ لندن میں تھا، بچے کی رہائش کے لیے 4 فلیٹس کیوں لیے گئے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شریف خاندان 1993 سے لندن میں مقیم ہے، ممکن ہے شریف خاندان کا کوئی اور بچہ بھی لندن میں ہو، اس حوالے سے تفصیلات لے کر عدالت کو بتاؤں گا۔ صرف رہائش رکھنا ملکیت ظاہر نہیں کرتا، حسن نواز کو عزیزیہ مل کی فروخت سے بھی رقم ملی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہیں، میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی فراہم کرتا تھا تو قطری سرمایہ کاری اور معاملات طے ہونے کا کوئی تو ریکارڈ ہو گا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو بزنس کے لیے قطری فنڈ دئیے تھے، جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست میاں شریف نے خود کیا تھا جو 2005 میں 63 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔ اتفاقی طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام اتفاق تھا، شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقات نہیں تھے لیکن بعض وجوہات کی بناء پر دیگر شاہی خاندانوں کے نام عدالت کو فراہم نہیں کئے جا سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ موڈ گیج کی دستاویزات پر دستخط کس نے اور کس کے کہنے پر کیے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میرے خیال میں حسین نواز یا مریم نے ہدایات دی ہوں گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں، نئے سے نئے مفروضے سامنے آتے جا رہے ہیں، بدقسمتی سے ہم سوال زیادہ پوچھ رہے ہیں لیکن کوئی فریق بھی مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ملزم ہوں نہ ہی گواہ جبکہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عدالت میں سب کچھ چھپایا گیا، میاں شریف اور شیخ جاسم کے تعلقات کو نکالیں تو صرف 2 دستاویزات عدالت کے سامنے نہیں، صرف منروا اور ٹرسٹی سروسز کے ساتھ معاہدے عدالت کے سامنے نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قطری خاندان اور شریف خاندان کے درمیان معاملات طے ہونے کے دستاویزات بھی نہیں ملیں، یہ نہ تو فوجداری مقدمہ ہے اور نہ کرمنل ٹرائل کر سکتے ہیں، اگر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پیاز کی طرح ایک کے بعد ایک پرت سامنے آتی جائے گی، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم سوالات کا سلسلہ کہاں جا کر روکیں گے اور یہ معاملہ کیسے نمٹے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ارینا کمپنی کو منروا سے رابطے کی ہدایت کس نے کی؟ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ حسین نواز نے ارینا کمپنی کو رابطے کی ہدایت کی ہو گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا کہ مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی نے 2005 کے دستاویز سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس کو 2008 میں بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا تھا، گروی رکھوانے کے دستاویزات پر کس کے دستخط تھے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا تھا کہ موڈ گیج کی رقم آج تک ادا کر رہے ہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے زور دیا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے اور آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ہم اس معاملے سے کیسے نمٹیں؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ کہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا کے لائے، تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں، جو ریکارڈ دستیاب ہے عدالت کو فراہم کر دیا ہے، مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ایک نہ ایک دن تو ریکارڈ سامنے آنا ہی ہے، حسین نواز کے کہنے پر منروا کمپنی ریکارڈ فراہم کر سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز سے کہوں گا کہ منروا سے 2006 کا ریکارڈ حاصل کریں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کو ریکارڈ فراہم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کے نمائندے نے منروا کمپنی کے نمائندے کو بھی خط لکھا، خط مریم نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز سے متعلق تھا لیکن ای میل کے جواب میں منروا کمپنی نے دستاویز کی تردید کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حسین نواز نے منروا کمپنی کو خود خط کیوں نہیں لکھا جب کہ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالک کس سے رابطہ کرے گا؟ رابطہ کرنے پرشیئر ہولڈر ہونے کا ثبوت بھی دینا ہو گا، کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں یادداشت پر چلتا ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے، آخر منروا سے متعلق ریکارڈ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جنوری 2006 کے بعد منروا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جولائی 2006 میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے، 2014 میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی اور شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے، اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں، کوشش کروں گا کہ زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں، شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی اور سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی، ناصر حمید زندہ ہے عدالت اسے طلب کر سکتی ہے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کان وہاں سے پکڑیں یا یہاں سے، بات وہی ہے، سب باتیں مان لیں بتائیں حسین نواز کی ملکیتی دستاویزات کہاں ہیں، سوال ایک ہی ہے جس کا جواب مچھلی کی طرح پلٹا نہیں جارہا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت دستیاب نہیں ہے، 1999 میں شریف فیملی کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس سے ریکارڈ ضائع ہو گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے کہا کہ دادا نے فلیٹس ان کی تعلیم کے لیے خریدے، 2 طالب علموں کے لیے لندن میں 4 فلیٹس کا بندوبست کیا گیا، حسین نواز کو ساری باتیں بتانے والا کون ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تیسرا طالب علم حمزہ شہباز بھی تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آج آپ ایک اور طالب علم سامنے لے آئے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے حمزہ شہباز بھی لندن میں طالبعلم تھے۔ حمد بن جاسم کے نمائندے ناصر خمیس نے حسین نواز کو معلومات فراہم کی تھیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری خاندان سے معاہدے کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے جس پر جسٹس آصف سعید نے پوچھا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے؟ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ معاہدہ محمد بن جاسم کے ساتھ ہوا، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991 اور والد جاسم 1999 میں وفات پا گئے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے؟ دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیور کیے گئے، قطری خط میں نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے گئے، اب تو ہمیں قطری خطوط زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کئے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ درست ہے یا غلط ریکارڈ میں سرٹیفکیٹ حوالگی کا بتایا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الثانی خاندان کے پاس پڑے رہے؟26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ شیزی نقوی کا لندن میں دیا گیا بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا، یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیر اعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں، لندن فلیٹس سن93 سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ کی بیریئر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالے کئے، جولائی 2006 میں یہ بیریئر سرٹیفیکیٹ کر کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔
جسٹس عظت سعید شیخ نے کہا کہ الزام ہے کہ مریم صفدر نے منروا سے رابطہ کیا، آپ پہلے سن سے ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو دکھائیں۔ اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کرینگے راجہ صاحب؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹس خریدے گئے، رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی، انہوں نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی، ذاتی تشہیر کے لئے رحمان ملک نے وہ رپورٹ صدر مملکت کو بھجوائی اور میڈیا میں جاری کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ رحمان ملک نے رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا ہے کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے رحمان ملک کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، لاہور ہائی کورٹ بھی رپورٹ کو مسترد کر کے ملزمان کو بری کر چکی ہے۔ دونوں طرف کے حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے جیسے این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں۔
حسن و حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے خریدے لیکن ایسی کوئی بدعنوانی ریکارڈ پر نہیں آئی۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے، ملکیت پر کوئی تنازع نہیں لیکن کیا یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ یہ فلیٹس کیسے خریدے گئے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ موقف ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس دادا کے کاروبار سے خریدے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ فلیٹس وزیر اعظم کہ ہیں اور درخواست گزار فلیٹس کے لئے 1999 کے لندن عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے۔ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے، معاملہ تحقیقات کے لئے اداروں کو بھجوایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی۔ میرا جواب قانونی نکات پر مبنی ہے، اگر وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بار ثبوت میرے موکل کے سر نہیں، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لئے اگر حسن اور حسین ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
واضح رہے کہ پاناما کیس کی سماعت 31 جنوری کو جسٹس عظمت سعید شیخ کے دل میں تکلیف کے باعث ملتوی ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں دل کی سرجری کے لئے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں کچھ روز آرام کا مشورہ دیا تھا۔
پاناما کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ ہم سوالات زیادہ کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی فریق مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں شریف فیملی کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس کے باعث شریف فیملی کا ریکارڈ غائب ہو گیا، جو ریکارڈ موجود ہے اس پر عدالت میں جواب دوں گا کیونکہ 45 سال پرانا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شاہی خاندان شریف فیملی کو تحائف بھی دیتے رہتے ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہیں یا شریف فیملی بھی تحائف دیتی ہے، اس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کا علم نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ1999 میں شریف خاندان کا ایک بچہ لندن میں تھا، بچے کی رہائش کے لیے 4 فلیٹس کیوں لیے گئے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شریف خاندان 1993 سے لندن میں مقیم ہے، ممکن ہے شریف خاندان کا کوئی اور بچہ بھی لندن میں ہو، اس حوالے سے تفصیلات لے کر عدالت کو بتاؤں گا۔ صرف رہائش رکھنا ملکیت ظاہر نہیں کرتا، حسن نواز کو عزیزیہ مل کی فروخت سے بھی رقم ملی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہیں، میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی فراہم کرتا تھا تو قطری سرمایہ کاری اور معاملات طے ہونے کا کوئی تو ریکارڈ ہو گا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو بزنس کے لیے قطری فنڈ دئیے تھے، جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست میاں شریف نے خود کیا تھا جو 2005 میں 63 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔ اتفاقی طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام اتفاق تھا، شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقات نہیں تھے لیکن بعض وجوہات کی بناء پر دیگر شاہی خاندانوں کے نام عدالت کو فراہم نہیں کئے جا سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ موڈ گیج کی دستاویزات پر دستخط کس نے اور کس کے کہنے پر کیے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میرے خیال میں حسین نواز یا مریم نے ہدایات دی ہوں گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس دلدل میں مزید دھنستے جا رہے ہیں، نئے سے نئے مفروضے سامنے آتے جا رہے ہیں، بدقسمتی سے ہم سوال زیادہ پوچھ رہے ہیں لیکن کوئی فریق بھی مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ملزم ہوں نہ ہی گواہ جبکہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عدالت میں سب کچھ چھپایا گیا، میاں شریف اور شیخ جاسم کے تعلقات کو نکالیں تو صرف 2 دستاویزات عدالت کے سامنے نہیں، صرف منروا اور ٹرسٹی سروسز کے ساتھ معاہدے عدالت کے سامنے نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قطری خاندان اور شریف خاندان کے درمیان معاملات طے ہونے کے دستاویزات بھی نہیں ملیں، یہ نہ تو فوجداری مقدمہ ہے اور نہ کرمنل ٹرائل کر سکتے ہیں، اگر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پیاز کی طرح ایک کے بعد ایک پرت سامنے آتی جائے گی، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم سوالات کا سلسلہ کہاں جا کر روکیں گے اور یہ معاملہ کیسے نمٹے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ارینا کمپنی کو منروا سے رابطے کی ہدایت کس نے کی؟ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ حسین نواز نے ارینا کمپنی کو رابطے کی ہدایت کی ہو گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا کہ مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا کمپنی نے 2005 کے دستاویز سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس کو 2008 میں بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا تھا، گروی رکھوانے کے دستاویزات پر کس کے دستخط تھے؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا تھا کہ موڈ گیج کی رقم آج تک ادا کر رہے ہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے زور دیا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے اور آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ہم اس معاملے سے کیسے نمٹیں؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ کہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا کے لائے، تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں، جو ریکارڈ دستیاب ہے عدالت کو فراہم کر دیا ہے، مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ایک نہ ایک دن تو ریکارڈ سامنے آنا ہی ہے، حسین نواز کے کہنے پر منروا کمپنی ریکارڈ فراہم کر سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز سے کہوں گا کہ منروا سے 2006 کا ریکارڈ حاصل کریں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کو ریکارڈ فراہم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کے نمائندے نے منروا کمپنی کے نمائندے کو بھی خط لکھا، خط مریم نواز کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز سے متعلق تھا لیکن ای میل کے جواب میں منروا کمپنی نے دستاویز کی تردید کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حسین نواز نے منروا کمپنی کو خود خط کیوں نہیں لکھا جب کہ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالک کس سے رابطہ کرے گا؟ رابطہ کرنے پرشیئر ہولڈر ہونے کا ثبوت بھی دینا ہو گا، کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں یادداشت پر چلتا ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے، آخر منروا سے متعلق ریکارڈ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جنوری 2006 کے بعد منروا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جولائی 2006 میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے، 2014 میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی اور شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے، اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں، کوشش کروں گا کہ زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں، شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی اور سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی، ناصر حمید زندہ ہے عدالت اسے طلب کر سکتی ہے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کان وہاں سے پکڑیں یا یہاں سے، بات وہی ہے، سب باتیں مان لیں بتائیں حسین نواز کی ملکیتی دستاویزات کہاں ہیں، سوال ایک ہی ہے جس کا جواب مچھلی کی طرح پلٹا نہیں جارہا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت دستیاب نہیں ہے، 1999 میں شریف فیملی کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا جس سے ریکارڈ ضائع ہو گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے کہا کہ دادا نے فلیٹس ان کی تعلیم کے لیے خریدے، 2 طالب علموں کے لیے لندن میں 4 فلیٹس کا بندوبست کیا گیا، حسین نواز کو ساری باتیں بتانے والا کون ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تیسرا طالب علم حمزہ شہباز بھی تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آج آپ ایک اور طالب علم سامنے لے آئے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے حمزہ شہباز بھی لندن میں طالبعلم تھے۔ حمد بن جاسم کے نمائندے ناصر خمیس نے حسین نواز کو معلومات فراہم کی تھیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری خاندان سے معاہدے کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے جس پر جسٹس آصف سعید نے پوچھا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے؟ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ معاہدہ محمد بن جاسم کے ساتھ ہوا، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991 اور والد جاسم 1999 میں وفات پا گئے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے؟ دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیور کیے گئے، قطری خط میں نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے گئے، اب تو ہمیں قطری خطوط زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کئے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ درست ہے یا غلط ریکارڈ میں سرٹیفکیٹ حوالگی کا بتایا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الثانی خاندان کے پاس پڑے رہے؟26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ شیزی نقوی کا لندن میں دیا گیا بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا، یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیر اعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں، لندن فلیٹس سن93 سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ کی بیریئر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالے کئے، جولائی 2006 میں یہ بیریئر سرٹیفیکیٹ کر کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔
جسٹس عظت سعید شیخ نے کہا کہ الزام ہے کہ مریم صفدر نے منروا سے رابطہ کیا، آپ پہلے سن سے ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو دکھائیں۔ اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کرینگے راجہ صاحب؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹس خریدے گئے، رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی، انہوں نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی، ذاتی تشہیر کے لئے رحمان ملک نے وہ رپورٹ صدر مملکت کو بھجوائی اور میڈیا میں جاری کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ رحمان ملک نے رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا ہے کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے رحمان ملک کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، لاہور ہائی کورٹ بھی رپورٹ کو مسترد کر کے ملزمان کو بری کر چکی ہے۔ دونوں طرف کے حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے جیسے این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں۔
حسن و حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے خریدے لیکن ایسی کوئی بدعنوانی ریکارڈ پر نہیں آئی۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے، ملکیت پر کوئی تنازع نہیں لیکن کیا یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ یہ فلیٹس کیسے خریدے گئے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ موقف ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس دادا کے کاروبار سے خریدے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ فلیٹس وزیر اعظم کہ ہیں اور درخواست گزار فلیٹس کے لئے 1999 کے لندن عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے۔ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے، معاملہ تحقیقات کے لئے اداروں کو بھجوایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی۔ میرا جواب قانونی نکات پر مبنی ہے، اگر وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بار ثبوت میرے موکل کے سر نہیں، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لئے اگر حسن اور حسین ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
واضح رہے کہ پاناما کیس کی سماعت 31 جنوری کو جسٹس عظمت سعید شیخ کے دل میں تکلیف کے باعث ملتوی ہو گئی تھی جس کے بعد انہیں دل کی سرجری کے لئے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں کچھ روز آرام کا مشورہ دیا تھا۔