گنج ہائے گراں مایہ
امریکی شہر ٹیکساس کی واحد مسجد میں آگ لگ جانے کے بعد وہاں کے یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ مسلمانوں کو پیش کردی
ISLAMABAD:
ہم نے اپنے گزشتہ ہفتے کے اظہاریے کے اختتام پر لکھا تھا کہ اس اظہاریے کی شان نزول دراصل ایک کتاب (شاعری کی) کی رسم اجرا میں شاعرہ کے بارے میں ہونی والی تقاریر اورگزشتہ کالم اصل بات کی تمہید ہی ہوکر رہ گیا۔ لہٰذا اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کو تھوڑی سی محنت کرنا پڑے گی کہ موجود اورگزشتہ اظہاریے کو (ہم کہاں سے کہاں آگئے) ملاکر پڑھیں تو شاید ہمارا معنی الضمیر سمجھنے میں آپ کو آسانی ہوجائے۔ جس تقریب کا حال ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بعد میں دو اہم خبروں نے بھی ہمارے موقف کو واضح کرنے میں مدد دی۔
ایک خبر یہ کہ امریکی شہر ٹیکساس کی واحد مسجد میں آگ لگ جانے کے بعد وہاں کے یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ مسلمانوں کو پیش کردی۔ دنیا بھرکے موجودہ انتہا پسندانہ خصوصاً وطن عزیز کی مسموم فضا کے تناظر میں اگر اس صورتحال پر چشم بینا سے مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہرمذہب میں آج بھی انسانیت دوست اورروشن خیال افراد کی کمی نہیں (امریکی صدرکے مسلم ممالک پر پابندی سے امریکی معاشرے نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا وہ بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتا ہے) اور یہ کہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ اپنے ماننے والوں کو قتل و غارت گری، حقوق انسانی کی پامالی اور نفرت کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ تمام مذاہب کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کی خاطر طبقاتی منافرت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پھر اچھے برے افراد تو ہرخاندان، ہر برادری میں ہرجگہ اور ہر مذہب میں مل جاتے ہیں۔
ذکر تھا ایک مرحومہ شاعرہ عابدہ کرامت کے آٹھویں شعری مجموعے ''دورکی آواز'' کی تقریب اجرا کا۔ اس تقریب کے زیادہ تر مقررین کا تعلق عابد کے دور طالب علمی اور شعری نشستوں کے ساتھیوں سے تھا۔ کچھ ان کے جونیئرز بھی تھے، مگر سب کی گفتگو میں ایک نقطہ مشترک تھا کہ گزشتہ صدی میں 60 کی دہائی اس سے پہلے اور بعد بھی کچھ عرصہ جامعہ کراچی علم وآگاہی، تہذیب و شائستگی، انسان دوست (بلاتفریق مسلک و عقیدہ) کا حسین مرکز رہی ہے۔ اس دور کے طلبا نہ صرف اپنی تعلیم بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ہر سطح پر منواتے تھے، خود کو منوانے کے لیے وہ بڑی جدوجہد، مطالعہ اور حصول ہنر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔
کرامت غوری پاکستان کے چند اچھی شہرت رکھنے والے لائق اور نامور سفیروں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں، وہ بہترین مقرر اور مصنف بھی ہیں اپنی حال میں شایع ہونے والی کتاب ''بار شناسائی'' میں وہ اقرار کرچکے ہیں کہ سفراء کی طویل فہرست میں اچھی اردو بولنے، لکھنے اور دوسری زبانوں کو اردو میں منتقل کرنے والے ایک زمانے میں وہ واحد سفیر تھے ورنہ انگریزی میں یدطولیٰ تو بہت سے تھے۔
کرامت غوری جامعہ کراچی میں شعبہ تعلقات عامہ کے طالب علم اور عابدہ زولوجی (شعبہ حیوانیات) کی۔ مگر جب مزاج و ذوق یکساں ہوں تو ایک دوسرے میں کشش خودبخود پیدا ہوجاتی ہے اور بقول کرامت غوری کے کہ ہم تو ''اسے'' دیکھنے شعبہ حیوانیات جاتے تھے جس کی گہری کالی آنکھوں کے سمندر میں ہم ڈوب چکے تھے ان کا مزید کہنا ہے کہ ہماری دوستی کی قدر مشترک شعر و شاعری سے ہم دونوں کا والہانہ لگاؤ تھا۔ کیمپس میں ہونے والے مشاعروں نے ہماری محبت کو پروان چڑھایا۔ میں اگرچہ اس وقت شعر نہیں کہتا تھا، مگر عابدہ کی سخنوری کی اس وقت بھی شہرت تھی، وہ برمحل برجستہ شعر کہنے میں خاصا ملکہ رکھتی تھی۔
کرامت غوری نے اگرچہ اپنی عملی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی میں بحیثیت استاد کیا ۔
عابدہ اورکرامت غوری کی دوستی نے محنت کا رنگ اختیار کیا تو رکاوٹ یہ پیش آئی کہ ان دونوں کے مسالک مختلف تھے اور دونوں ہی خاندانوں کو یہ رشتہ قبول نہ تھا، مگر محبت سچی اور جذبہ پاکیزہ ہو تو راستے کی تمام رکاوٹیں ازخود ہٹ جاتی ہیں۔ مختصراً آگے بتاتی ہوں (تفصیل آپ کتاب میں بھی پڑھ سکتے ہیں) کرامت صاحب نے اپنے والد کی دیرینہ خواہش کہ ان کا بیٹا (اکلوتا اور لاڈلا) CSP افسر بننے کو ایک تیر سے دو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ کیونکہ سسرال سے (عابدہ کی نانی نے) یہ طعنہ مل چکا تھا کہ کون سا وہ ڈپٹی کلکٹر ہے نہ اپنے مسلک کا نہ ذات کا لہٰذا والد سے کہا کہ ابا میں آپ کی خواہش پر امتحان دے دیتا ہوں مگر دو شرائط پر ایک تو میں فارن سروس اختیار کروں گا، دوسرے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی۔ والد صاحب نے دونوں شرائط مان لیں۔ جب کہ والدہ ابھی تک راضی نہ تھیں۔
کرامت غوری کے ماموں نے ایک دن اپنے لاڈلے بھانجے سے پوچھا کہ ''بیٹا سنا ہے تم ایک رافضی لڑکی سے شادی کر رہے ہو؟ تو بیٹا! یہ تم بتاؤ تمہارے بچوں کا دین کیا ہوگا؟'' کرامت صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ''وہ مسلمان ہوں گے'' اس جواب پر ماموں کھل اٹھے، کہنے لگے بیٹا! تم نے میرے دل کی بات کی ہے بس اب میں تیری ماں کو بھی سمجھا لوں گا۔ تو عرض یہ کرنا ہے کہ جب یہ ہاہاکار نہ تھی، دین خطرے میں نہ تھا (جو کبھی ہو بھی نہیں سکتا) تو ہم کتنے کشادہ دل تھے ہم کتنا ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے، ایک دوسرے کو تسلیم کرتے تھے۔ جوانی تو اندھی ہوتی ہے، مگر ہمارے بزرگ بھی حقیقت کو حقیقت کے طور پر مانتے تھے۔ وہ کتنے بڑے لوگ تھے اور ہم؟
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟
کرامت غوری کا کہنا ہے کہ انھوں نے ماموں کو مزید مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ ''میں اور عابدہ اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیں گے کہ ہر جگہ وہ نفرتوں کے آسیب کو مات دیں۔''
درحقیقت عابدہ اثنا عشری اور نجیب الطرفین سیدانی تھیں جب کہ غوری صاحب سنی العقیدہ اور غیر سید، مگر نہ صرف یہ شادی ہوئی بلکہ 49 سالہ کامیاب رفاقت کے بعد گزشتہ برس (چند ماہ قبل) عابدہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تو کرامت غوری ان کا ذکر میری عابدہ، میری سیدانی، میری زندگی اور میری کرامت جیسے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان کی وفا اور محبت کی مثال پیش کرتے ہیں۔
عابدہ ایک بہترین رفیقہ حیات ہی نہیں اچھی بہو اور مثالی ماں بھی ثابت ہوئیں۔ انھوں نے اپنے عقیدے سے مختلف عقیدے کی سسرال میں وہ مقام حاصل کیا کہ آٹھ نندوں کی اکلوتی بھاوج نے اپنے تمام سسرالی رشتے داروں کو اپنی تہذیب، اپنی اعلیٰ قدروں اور خاندانی شرافت و تربیت کے باعث اپنا یوں گرویدہ کرلیا کہ ساس یہ کہنے لگیں کہ دلہن نے خدمت واطاعت میں میری بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ عابدہ نندوں کے تمام بچوں کی ممانی ہی نہیں بہترین مشیر بھی تھیں ان کے بچے مشرقی روایات اور اسلام پر مکمل طور پر کاربند ہیں۔
آج میں سوچتی ہوں کہ شادی تو واقعی دو دلوں کے ملاپ کا ذہنی ہم آہنگی کا نام ہے۔ ایک دوسرے کی عزت و احترام ہی سے معاشرے کو اچھے افراد مہیا کیے جاسکتے ہیں۔ میاں بیوی کو قرآن نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ اگر شوہر (یا بیوی بھی) دوسروں کے سامنے بیوی کو حقیر وذلیل سمجھے گا تو اس گھر میں پروان چڑھنے والے بچے ماں کو تو ابتدا ہی سے ایک کمتر ہستی سمجھیں گے مگر بڑے ہوکر وہ والد کی بھی عزت نہیں کریں گے کیونکہ اس کا رویہ انھیں باپ سے بھی متنفر کردے گا۔
آج ہمارے عظیم الشان دین کے خود ساختہ ٹھیکیدار تمام مکاتب فکر میں دوریاں کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ اپنی متعصبانہ ذہنیت کے باعث بسے بسائے گھر اجاڑ رہے ہیں کہ مختلف مسلک کے درمیان نکاح جائز نہیں۔ بے شمار لڑکیاں صرف اپنے مسلک میں مناسب رشتہ نہ ہونے کے باعث والدین کے گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ علم مسائل حل کرنے کے لیے ہوتا ہے اگر نہیں تو پھر وہ علم نہیں جہل ہے۔ کیا ہم صرف اور صرف مسلمان بن کر اپنی زندگی آسان نہیں کرسکتے۔
ہم نے اپنے گزشتہ ہفتے کے اظہاریے کے اختتام پر لکھا تھا کہ اس اظہاریے کی شان نزول دراصل ایک کتاب (شاعری کی) کی رسم اجرا میں شاعرہ کے بارے میں ہونی والی تقاریر اورگزشتہ کالم اصل بات کی تمہید ہی ہوکر رہ گیا۔ لہٰذا اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کو تھوڑی سی محنت کرنا پڑے گی کہ موجود اورگزشتہ اظہاریے کو (ہم کہاں سے کہاں آگئے) ملاکر پڑھیں تو شاید ہمارا معنی الضمیر سمجھنے میں آپ کو آسانی ہوجائے۔ جس تقریب کا حال ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بعد میں دو اہم خبروں نے بھی ہمارے موقف کو واضح کرنے میں مدد دی۔
ایک خبر یہ کہ امریکی شہر ٹیکساس کی واحد مسجد میں آگ لگ جانے کے بعد وہاں کے یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ مسلمانوں کو پیش کردی۔ دنیا بھرکے موجودہ انتہا پسندانہ خصوصاً وطن عزیز کی مسموم فضا کے تناظر میں اگر اس صورتحال پر چشم بینا سے مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہرمذہب میں آج بھی انسانیت دوست اورروشن خیال افراد کی کمی نہیں (امریکی صدرکے مسلم ممالک پر پابندی سے امریکی معاشرے نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا وہ بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتا ہے) اور یہ کہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ اپنے ماننے والوں کو قتل و غارت گری، حقوق انسانی کی پامالی اور نفرت کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ تمام مذاہب کے ٹھیکیدار اپنے مفادات کی خاطر طبقاتی منافرت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پھر اچھے برے افراد تو ہرخاندان، ہر برادری میں ہرجگہ اور ہر مذہب میں مل جاتے ہیں۔
ذکر تھا ایک مرحومہ شاعرہ عابدہ کرامت کے آٹھویں شعری مجموعے ''دورکی آواز'' کی تقریب اجرا کا۔ اس تقریب کے زیادہ تر مقررین کا تعلق عابد کے دور طالب علمی اور شعری نشستوں کے ساتھیوں سے تھا۔ کچھ ان کے جونیئرز بھی تھے، مگر سب کی گفتگو میں ایک نقطہ مشترک تھا کہ گزشتہ صدی میں 60 کی دہائی اس سے پہلے اور بعد بھی کچھ عرصہ جامعہ کراچی علم وآگاہی، تہذیب و شائستگی، انسان دوست (بلاتفریق مسلک و عقیدہ) کا حسین مرکز رہی ہے۔ اس دور کے طلبا نہ صرف اپنی تعلیم بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ہر سطح پر منواتے تھے، خود کو منوانے کے لیے وہ بڑی جدوجہد، مطالعہ اور حصول ہنر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔
کرامت غوری پاکستان کے چند اچھی شہرت رکھنے والے لائق اور نامور سفیروں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں، وہ بہترین مقرر اور مصنف بھی ہیں اپنی حال میں شایع ہونے والی کتاب ''بار شناسائی'' میں وہ اقرار کرچکے ہیں کہ سفراء کی طویل فہرست میں اچھی اردو بولنے، لکھنے اور دوسری زبانوں کو اردو میں منتقل کرنے والے ایک زمانے میں وہ واحد سفیر تھے ورنہ انگریزی میں یدطولیٰ تو بہت سے تھے۔
کرامت غوری جامعہ کراچی میں شعبہ تعلقات عامہ کے طالب علم اور عابدہ زولوجی (شعبہ حیوانیات) کی۔ مگر جب مزاج و ذوق یکساں ہوں تو ایک دوسرے میں کشش خودبخود پیدا ہوجاتی ہے اور بقول کرامت غوری کے کہ ہم تو ''اسے'' دیکھنے شعبہ حیوانیات جاتے تھے جس کی گہری کالی آنکھوں کے سمندر میں ہم ڈوب چکے تھے ان کا مزید کہنا ہے کہ ہماری دوستی کی قدر مشترک شعر و شاعری سے ہم دونوں کا والہانہ لگاؤ تھا۔ کیمپس میں ہونے والے مشاعروں نے ہماری محبت کو پروان چڑھایا۔ میں اگرچہ اس وقت شعر نہیں کہتا تھا، مگر عابدہ کی سخنوری کی اس وقت بھی شہرت تھی، وہ برمحل برجستہ شعر کہنے میں خاصا ملکہ رکھتی تھی۔
کرامت غوری نے اگرچہ اپنی عملی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی میں بحیثیت استاد کیا ۔
عابدہ اورکرامت غوری کی دوستی نے محنت کا رنگ اختیار کیا تو رکاوٹ یہ پیش آئی کہ ان دونوں کے مسالک مختلف تھے اور دونوں ہی خاندانوں کو یہ رشتہ قبول نہ تھا، مگر محبت سچی اور جذبہ پاکیزہ ہو تو راستے کی تمام رکاوٹیں ازخود ہٹ جاتی ہیں۔ مختصراً آگے بتاتی ہوں (تفصیل آپ کتاب میں بھی پڑھ سکتے ہیں) کرامت صاحب نے اپنے والد کی دیرینہ خواہش کہ ان کا بیٹا (اکلوتا اور لاڈلا) CSP افسر بننے کو ایک تیر سے دو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ کیونکہ سسرال سے (عابدہ کی نانی نے) یہ طعنہ مل چکا تھا کہ کون سا وہ ڈپٹی کلکٹر ہے نہ اپنے مسلک کا نہ ذات کا لہٰذا والد سے کہا کہ ابا میں آپ کی خواہش پر امتحان دے دیتا ہوں مگر دو شرائط پر ایک تو میں فارن سروس اختیار کروں گا، دوسرے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی۔ والد صاحب نے دونوں شرائط مان لیں۔ جب کہ والدہ ابھی تک راضی نہ تھیں۔
کرامت غوری کے ماموں نے ایک دن اپنے لاڈلے بھانجے سے پوچھا کہ ''بیٹا سنا ہے تم ایک رافضی لڑکی سے شادی کر رہے ہو؟ تو بیٹا! یہ تم بتاؤ تمہارے بچوں کا دین کیا ہوگا؟'' کرامت صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ''وہ مسلمان ہوں گے'' اس جواب پر ماموں کھل اٹھے، کہنے لگے بیٹا! تم نے میرے دل کی بات کی ہے بس اب میں تیری ماں کو بھی سمجھا لوں گا۔ تو عرض یہ کرنا ہے کہ جب یہ ہاہاکار نہ تھی، دین خطرے میں نہ تھا (جو کبھی ہو بھی نہیں سکتا) تو ہم کتنے کشادہ دل تھے ہم کتنا ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے، ایک دوسرے کو تسلیم کرتے تھے۔ جوانی تو اندھی ہوتی ہے، مگر ہمارے بزرگ بھی حقیقت کو حقیقت کے طور پر مانتے تھے۔ وہ کتنے بڑے لوگ تھے اور ہم؟
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟
کرامت غوری کا کہنا ہے کہ انھوں نے ماموں کو مزید مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ ''میں اور عابدہ اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیں گے کہ ہر جگہ وہ نفرتوں کے آسیب کو مات دیں۔''
درحقیقت عابدہ اثنا عشری اور نجیب الطرفین سیدانی تھیں جب کہ غوری صاحب سنی العقیدہ اور غیر سید، مگر نہ صرف یہ شادی ہوئی بلکہ 49 سالہ کامیاب رفاقت کے بعد گزشتہ برس (چند ماہ قبل) عابدہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تو کرامت غوری ان کا ذکر میری عابدہ، میری سیدانی، میری زندگی اور میری کرامت جیسے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان کی وفا اور محبت کی مثال پیش کرتے ہیں۔
عابدہ ایک بہترین رفیقہ حیات ہی نہیں اچھی بہو اور مثالی ماں بھی ثابت ہوئیں۔ انھوں نے اپنے عقیدے سے مختلف عقیدے کی سسرال میں وہ مقام حاصل کیا کہ آٹھ نندوں کی اکلوتی بھاوج نے اپنے تمام سسرالی رشتے داروں کو اپنی تہذیب، اپنی اعلیٰ قدروں اور خاندانی شرافت و تربیت کے باعث اپنا یوں گرویدہ کرلیا کہ ساس یہ کہنے لگیں کہ دلہن نے خدمت واطاعت میں میری بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ عابدہ نندوں کے تمام بچوں کی ممانی ہی نہیں بہترین مشیر بھی تھیں ان کے بچے مشرقی روایات اور اسلام پر مکمل طور پر کاربند ہیں۔
آج میں سوچتی ہوں کہ شادی تو واقعی دو دلوں کے ملاپ کا ذہنی ہم آہنگی کا نام ہے۔ ایک دوسرے کی عزت و احترام ہی سے معاشرے کو اچھے افراد مہیا کیے جاسکتے ہیں۔ میاں بیوی کو قرآن نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ اگر شوہر (یا بیوی بھی) دوسروں کے سامنے بیوی کو حقیر وذلیل سمجھے گا تو اس گھر میں پروان چڑھنے والے بچے ماں کو تو ابتدا ہی سے ایک کمتر ہستی سمجھیں گے مگر بڑے ہوکر وہ والد کی بھی عزت نہیں کریں گے کیونکہ اس کا رویہ انھیں باپ سے بھی متنفر کردے گا۔
آج ہمارے عظیم الشان دین کے خود ساختہ ٹھیکیدار تمام مکاتب فکر میں دوریاں کم کرنے کے بجائے ان میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ اپنی متعصبانہ ذہنیت کے باعث بسے بسائے گھر اجاڑ رہے ہیں کہ مختلف مسلک کے درمیان نکاح جائز نہیں۔ بے شمار لڑکیاں صرف اپنے مسلک میں مناسب رشتہ نہ ہونے کے باعث والدین کے گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ علم مسائل حل کرنے کے لیے ہوتا ہے اگر نہیں تو پھر وہ علم نہیں جہل ہے۔ کیا ہم صرف اور صرف مسلمان بن کر اپنی زندگی آسان نہیں کرسکتے۔